تعلیمی اداروں میں شدت پسند اساتذہ کی تعیناتی کا ذمہ دار کون ؟


’شاری بلوچ‘ یہ وہ نام ہے جو جامعہ کراچی میں چینیوں پر ہونے والے خود کش حملہ آور کے طور پر سامنے آیا۔ حملے کے فوراً بعد راقمہ سمیت بیشتر لوگوں نے یہ سوچ کر کف افسوس ملا کہ ضرور خاتون نے اپنے کسی باپ یا بھائی کی گمشدگی اور لاپتہ افراد کا بدلہ لینے کے لیے یہ انتہائی قدم اٹھایا ہو گا۔ لیکن معلومات اس کے بالکل برعکس ہیں۔ شاری کے خاندان میں کبھی کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ وہ ایک خوشحال زندگی گزار رہی تھیں۔

آٹھ سالہ بیٹی اور چار برس کی ماں شاری نہ صرف خود پڑھی لکھی تھیں بلکہ ان کے خاوند، والد اور بھائی سمیت سب ہی اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں۔ پھر ایسا کیا ہوا؟ کہ انہوں نے اپنی زندگی کا اتنا خوفناک انجام کیا اور بے گناہوں کی جان لے کر قوم کے غم و غصے کا نشانہ بنیں۔ اس نے اپنی زندگی تباہ کی ہی ہے ساتھ ہی اپنے اہل خانہ کو بھی ایک مستقل اذیت کا شکار کر گئی ہے۔

کوئی لاپتہ افراد کے تعلق سے شاری سے ہمدردی جتا رہا ہے کوئی لعنت ملامت میں مصروف ہے۔ لاپتہ افراد کے سنگین مسئلے سے قطع نظر جس پہلو کو نظر انداز کیا جا رہا ہے وہ یہ کہ ایک استاد کی حیثیت سے شاری بلوچ نے کتنے طالب علموں میں شدت پسندی کا وہ زہر بھرا ہو گا جس کو بھڑکانے کے لیے محض ہلکی سی تپش ہی کافی ہوگی۔ شاری 2019 سے تربت کے ایک گرلز اسکول میں بحیثیت استاد تعینات تھی۔ کیا محکمہ تعلیم سے کسی نے یہ پوچھا کہ شدت پسند عورت ایک اہم عہدے پر کیسے تعینات ہوئی؟

ٹیسٹ کلیئر کرنے کے بعد کیا اس کا انٹرویو لیا گیا تھا؟ سرکاری ملازمت میں سیکیورٹی کلیئرنس حاصل کرنا بھی لازمی ہے۔ کیا یہ تحقیقات کرائی گئیں تھیں؟ ان تحقیقات میں یہ بات سامنے کیوں نہیں آ سکی کہ شاری کالج کے زمانے سے بی ایل اے کے ساتھ جڑی ہوئی تھی۔ بلوچستان جیسے صوبے میں جہاں سیکیورٹی مسائل سنگین ہیں کیا وہاں انتظامیہ نے شاری کے حوالے سے سرے سے کوئی تحقیق ہی نہیں کی؟ یہ تصور ہی ہولناک ہے کہ شاری جیسی انتہا پسند ٹیچر، اپنے طالب عملوں کی ذہن سازی اور شخصیت کس حد تک مسخ کرچکی ہوگی۔ شاری کے بہن بھائی اور سسرال کے کئی افراد جامعات میں درس و تدریس کے فرائض بھی انجام دے رہے ہیں۔

تعلیمی اداروں میں انتہا پسند اساتذہ کی تعیناتی کوئی پہلا واقعہ نہیں۔ اس سے قبل بھی ایسے درجنوں واقعات پیش آئے جہاں طالب علموں کو باقاعدہ ایجنڈے کے تحت شدت پسندی پر اکسایا جاتا رہا۔ مردان یونیورسٹی میں مشعال خان قتل کا واقعہ اس کی ایک جیتی جاگتی مثال ہے۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے حوالے سے بتایا گیا تھا کہ ایک جامعہ کا استاد نیپا چورنگی کے قریب گھریلو ساختہ بم بناتا تھا اور اس نے یہ تربیت اپنے بیٹے اور بھتیجے کو بھی دی تھی۔

اسی طرح ایک استاد یونیورسٹی کی پارکنگ میں القاعدہ کو فنڈ دیتا تھا جس کو گرفتار کیا گیا۔ سابق ایس پی مظہر مشوانی نے کلفٹن سے ایک یونیورسٹی کے استاد کو گرفتار کیا تھا جو کمپیوٹر سائنس پڑھاتا تھا۔ اس کا تعلق حزب التحریر سے تھا اور لیکچر کے ساتھ ساتھ وہ دس منٹ اپنی تبلیغ کرتا۔ اس کے علاوہ نماز جمعہ کے بعد مساجد کے باہر پمفلٹ تقسیم کیا کرتا تھا لیکن یونیورسٹی انتظامیہ نے کبھی اس کا نوٹس نہیں لیا۔

یہی وہ اساتذہ بھی ہیں جنہوں نے پڑھے لکھے شدت پسند نوجوانوں کی پوری ایک کھیپ تیار کی۔ پانچ سال قبل ایم کیو ایم لیڈر خواجہ اظہار پر عین عید کے روز حملہ کیا تھا۔ حملہ آور این ای ڈی یونیورسٹی سے انجینئرنگ کرنے والا حسان نامی نوجوان تھا۔ جو داؤد یونیورسٹی میں فرائض کی انجام دہی کے ساتھ ساتھ الیکٹرانک انجینئرنگ میں پی ایچ ڈی جیسی اعلیٰ ڈگری کے حصول کے لیے بھی کوشاں تھا۔ اس کی والدہ ڈاکٹر اور والد پروفیسر تھے۔

حسان کی یہ ساری قابلیت شدت پسندی کی نذر ہو گئی۔ بیٹے کے سر پر سہرا سجانے کے خواب دیکھنے والی آنکھوں کو عین عید کے روز اکلوتے جوان بیٹے کا لاشہ اٹھانا پڑا۔ اسی واقعے سے انصار الشریعہ نامی دہشتگرد تنظیم کا نام سامنے آیا تھا جس سے وابستہ سرکردہ افراد کی تعداد درجن بھر سے زائد نہیں تھی لیکن قانون نافذ کرنے والے یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ تمام ہی افراد نہ صرف ممتاز تعلیمی اداروں سے اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں بلکہ جامعات میں درس و تدریس کے فرائض بھی انجام دیتے رہے ہیں۔ انصار الشریعہ سے تعلق رکھنے والے پروفیسر مشتاق بلوچستان یونیورسٹی آف انفارمیشن ٹیکنالوجی انجینئرنگ اینڈ مینجمنٹ سائنسز، کوئٹہ کے شعبہ مائیکرو بائیولوجی کے چیئرمین نکلے۔ جبکہ سروش صدیقی نامی دہشتگرد بھی جامعہ کراچی سے اپلائیڈ فزکس کا ڈگری یافتہ تھا۔ اس کے والد بھی پروفیسر تھے

معصوم بھولی بھالی صورت والی حیدرآباد میں میڈیکل کی طالبہ نورین لغاری بھی کچھ زیادہ دور کی مثال نہیں جو شدت پسندوں کے ہاتھوں کھلونا بنی رہی۔ یا بات کی جائے آئی بی اے سے فارغ التحصیل سعد عزیز کی جس نے سبین محمود کا قتل کیا اور سانحہ صفورہ میں مرکزی کردار ادا کیا۔

یہ تمام اساتذہ اور طلبا ایسے گھرانوں سے تعلق رکھتے تھے جو نہ صرف خوش حال بلکہ پڑھے لکھے اور روشن خیال بھی تھے۔ بظاہر کھاتے پیتے پڑھے لکھے گھرانوں سے تعلق رکھنے والے اساتذہ اور طلبا کے والدین کی تربیت پر داغ لگے گا تو یہ سوال بھی اٹھتا ہے اسکول سے لے کر جامعات تک شدت پسند اساتذہ کیسے تعینات ہو گئے؟ شدت پسند اساتذہ کو تحویل میں لیے جانے کے پے درپے واقعات کے بعد افسوس کی بات یہ ہے کہ اساتذہ کی تعیناتی کے لیے کوئی حکمت عملی بنانے کی کوئی زحمت تک نہیں کی گئی۔

اسی حوالے سے گزشتہ تین سال سے سرکاری جامعہ میں لیکچرر کے فرائض انجام دینے والی اسما (فرضی نام) نے اپنی تعیناتی کے حوالے سے تجربات بیان کیے۔ کہتی ہیں ٹیسٹ پاس کرنے کے بعد جب امیدواروں کے انٹرویو کی باری آئی تو ان کا انٹرویو بہت اچھا ہوا۔ مضمون کے حوالے سے سوالات پوچھے گئے۔ درست جوابات ملنے پر پینل کے رویے سے مجھے اچھی خاصی امید ہو چلی تھی۔ اسی دوران میں نے ملک کے نامی گرامی اخبارات و جرائد میں شائع ہونے والی اپنی تحریروں پر مشتمل فائل پروفیسرز کے آگے رکھی کہ تعلیمی اسناد کے ساتھ یہ تحریریں بھی میرا اثاثہ ہیں۔

حیرت انگیز طور پر پینل نے فائل پرے کھسکا دی۔ کہا صرف تعلیمی اسناد دکھائیں۔ یا کوئی ریسرچ پیپر ہے تو وہ دیکھیں گے۔ جب میں نے کہا سر یہ تمام سرٹیفیکیٹس تحریریں میری شخصیت کا عکس ہیں۔ آپ کو دیکھ کر خوشی ہوگی۔ انہوں نے پوچھا کیا اس میں کوئی ریسرچ پیپر ہے؟ انکار میں سر ہلاتے ہوئے میں نے انہیں بتایا سماجی اور سیاسی موضوعات پر تحریریں ہیں۔ انہوں نے کہا ان سے ہمارا کوئی تعلق نہیں۔ میں گزشتہ تین سال سے جامعہ میں پڑھا رہی ہوں لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ وہ ایک پوری نسل جو والدین کے بعد ہمارے ہاتھوں پروان چڑھنا ہے اسے ایسے ہی کسی بھی شدت پسند کے حوالے کر دیا جائے گا؟

انٹرویو پینل جو بڑے بڑے پروفیسر اور سماجی شخصیات پر مشتمل تھا کیا انہیں اس بات کی کوئی آگاہی نہیں تھی کہ تعلیمی اداروں میں مذہبی یا لبرل شدت پسند کس طرح طلبا و طالبات کو شدت پسندی کی طرف مائل کرنے کے کتنے واقعات سامنے آچکے ہیں؟ وہاں کوئی پچیس کے لگ بھگ امیدوار موجود تھے۔ ان میں سے بیشتر کو دو منٹ سے زیادہ کا وقت نہیں دیا گیا۔ میرے علاوہ صرف تین چار امیدوار ایسے تھے جو غالباً پینل کی نظروں میں آئے۔ جنہیں آٹھ نو منٹ کا وقت دیا گیا۔ کیا ان چار امیدواروں کو ٹھونک بجا کر، ان کی شخصیت کے اہم پہلوؤں پر نگاہ ڈالنی ضروری نہیں تھی؟ آپ اگلے پچیس برس کے لیے پوری نسل ہمارے حوالے کر رہے ہیں کیا ہماری شخصیت کے خاص پہلوؤں اور رجحانات کو پرکھنا ضروری نہیں تھا؟

اسما کی جانب سے اٹھائے گئے سوالات سے نظریں نہیں چرائی جا سکتیں۔ تعلیمی اداروں میں شدت پسندی کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔ بلوچ علیحدگی پسندوں کے نظریات کی بحث سے قطع نظر۔ تعلیمی اداروں میں شدت پسند اساتذہ کی تعیناتی کسی طور قابل قبول نہیں ہے۔ کیونکہ یہ اساتذہ دو چار نہیں بلکہ ملک کا اثاثہ اس کی آنے والی نسلوں کی ذہن سازی کر کے انہیں اس مقام تک پہنچا دیتے ہیں جہاں سے ان کی واپسی ممکن نہیں ہوتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments