چین میں سکول کے طلبا کو ہنر سکھانا لازم


اگر آپ اس تحریر کو کوئی سیاسی تحریر سمجھتے ہوئے پڑھنے لگے ہیں تو یہیں چھوڑ دیں، اگر آپ کو اس تحریر میں سلب ہوتے ہوئے بنیادی انسانی حقوق کے حوالے سے کچھ دلچسپی نظر آئی ہے تو بھی رک جائیں۔ یہ تحریر کسی بھی طرح آپ کے معیار پر پورا نہیں اترتی۔ یہ تحریر ان والدین کے لئے ہے جو اپنے بچوں کو بے جا لاڈ پیار میں رکھتے ہیں انہیں کچھ کرنے نہیں دیتے اور محض کتابی کیڑا بنا دیتے ہیں۔ اپنی اس محبت میں وہ کہیں نہ کہیں ان سے خود مختار بننے کا موقع چھین رہے ہوتے ہیں۔ یہ مسئلہ صرف ہمارے ہاں ہی نہیں ہے بلکہ دنیا کے بیشتر ممالک میں ایسی ہی صورت حال ہے۔

چینی حکومت نے اس صورت حال کی سنجیدگی کا احساس کرتے ہوئے ایک نئی پالیسی متعارف کروائی ہے۔ جس کے مطابق چین میں آنے والے موسم خزاں کے سمیسٹر میں پرائمری اور مڈل اسکولوں کے طلباء کو ہر ہفتے کم از کم ایک بار بنیادی گھریلو مہارتوں کے کورس میں شریک ہونا ہو گا۔ بنیادی مہارتوں میں گھر کی صفائی ستھرائی، کھانا پکانا وغیرہ سیکھنا اور جدید ٹیکنالوجیز کا استعمال جاننا شامل ہو گا۔ اس منصوبے کے مطابق بچوں کو تھری ڈی پرنٹنگ اور لیزر کٹنگ بھی سکھائی جائے گی۔

چین کی وزارت تعلیم نے حال ہی میں لازمی تعلیم میں لیبر ایجوکیشن کے لیے ایک نیا نصابی معیار جاری کیا ہے۔ اس نصاب میں تین قسم کے کام شامل کیے گئے ہیں : روزمرہ کے کام، بنیادی مہارتیں اور جدید ٹیکنالوجیز کا استعمال۔ روزمرہ کے کاموں میں گھر کی صفائی، گھر میں اشیا کی ترتیب، کھانا پکانا، اور گھریلو آلات کا استعمال اور دیکھ بھال شامل ہے۔ بنیادی مہارتوں یا پیداواری محنت میں باغبانی، زراعت سے آگاہی اور روایتی دستکاریاں بنانا شامل ہے۔ نئی ٹیکنالوجیز میں عہد حاضر میں متعارف ہونے والی نئی ٹیکنالوجیز کا تجربہ استعمال اور عام زندگی میں اطلاق، مختلف قسم کی سروسز کا طریقہ کار اور رضا کارانہ کام شامل ہیں۔

اس نئی پالیسی کے مطابق پرائمری اسکول کے پہلی اور دوسری جماعت طلبہ کے لئے لازمی ہو گا کہ وہ بنیادی صفائی کرنے، سبزیوں کو دھونے اور پھلوں کو چھیلنے، اور ایک یا دو قسم کے پودوں یا چھوٹے جانوروں کی پرورش کرنا سیکھیں۔

تیسری اور چوتھی جماعت کے طالب علموں کو اپنے کلاس رومز کو صاف کرنا، اپنے زیر جامہ، موزوں اور جوتوں کو دھونا سکھایا جائے گا، اس کے علاوہ انہیں اس قابل بنایا جائے گا کہ وہ ٹھنڈے کھانے بنانے ( جوس، سلاد، فروزن فوڈ) اور گھریلو آلات استعمال کرنے کا طریقہ جان سکیں۔

پانچویں اور چھٹی جماعت کے طالب علموں کو دو یا تین عام پکوان، جیسے تلے ہوئے انڈے، یا انڈا ٹماٹر مکس کر کے پکانے کی مہارت سکھائی جائے گی۔ مڈل اسکول کے طلباء کو اس قابل بنایا جائے گا کہ وہ آزادانہ طور پر تین یا چار ڈشیں پکانا سیکھ سکیں، انہیں ایک یا دو روایتی دستکاریاں بنانا آتا ہو، اور وہ اس قابل ہوں کہ ایک یا دو قسم کی صنعتی مزدوری، نئی ٹیکنالوجی، جدید سروس یا رضاکارانہ کام کا تجربہ رکھتے ہوں۔

نئے نصاب میں لیبر ویک کے قیام کی شرط بھی رکھی گئی ہے، جس سے مراد غیر نصابی، کیمپس سے باہر، ایسی محنت طلب سرگرمیاں ہیں جو ہر تعلیمی سال میں ضرور منعقد ہوں گی۔ والدین سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ ان سرگرمیوں میں بچوں کی شرکت کی حوصلہ افزائی کریں۔ نئے نصاب میں سکولوں سے کہا گیا ہے کہ وہ والدین کو لیبر ایجوکیشن کی اہمیت کا احساس دلانے میں مدد کرنے کے لیے مختلف ذرائع استعمال کریں اور طلبا کی آزادی کو بہتر بنانے کے لیے گھریلو امور کی فہرستیں بنانے میں والدین کی مدد کرنی چاہیے۔

اس نصاب پر سوشل میڈیا پر بڑے پیمانے پر بحث کی گئی ہے اور یہ چین میں ٹاپ ٹرینڈنگ موضوع بن گیا ہے۔ انٹرنیٹ صارفین نے اس طرح کے کورسز کو نصاب میں شامل کرنے کا خیرمقدم کیا ہے اور کہا کہ نوجوان طلباء کو بنیادی ہنر سکھانا ضروری ہے۔ کچھ نے اپنے اسکول کے دنوں میں ایسی مہارتیں نہ سیکھنے پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔

ہماری ساتھی مسرت صاحبہ نے کہا کہ وہ بطور ماں طلباء کو ایسے کورسز سکھانے کی بھرپور حمایت کرتی ہیں تاکہ وہ زندگی میں ضروری تکنیکی اور بنیادی مہارتیں سیکھ سکیں۔ ایک اور دوست نے بتایا کہ ان کے بیٹے کی ہیڈ ٹیچر طلباء سے کلاس رومز کو صاف کرنے اور ڈیسک، کرسیوں اور کلاس روم کے فرش کو صاف کرنے کے لیے جراثیم کش وائپس کا استعمال کرنے کو کہتی رہتی ہیں لیکن اب یہ باضابطہ نصاب کا حصہ بن گیا ہے۔ چین میں طلبہ پہلے سے ہی باغبانی وغیرہ کا شوق رکھتے ہیں۔ ہماری ساتھی نسیم صاحبہ اکثر اپنی بیٹی کے ساتھ باغات میں نظر آتی ہیں اور سال کے مختلف دنوں میں وہ باغبانی کرتے ہوئے تصاویر بھی شیئر کرتی ہیں۔

ماہرین تعلیم کا یہ ماننا ہے کہ اس طرح کے انقلابی اقدامات بچوں کو فعال شہری بنانے میں بہت مدد گار ثابت ہوں گے۔ اس پالیسی کی کامیابی میں والدین اور اساتذہ کا کلیدی کردار ہے۔ انہیں طالبہ و طالبات کو یہ باور کروانا ہو گا کہ وہ جو مہارتیں سیکھ رہے ہیں وہ بوجھ نہیں ہیں بلکہ ان کے لئے فائدے کا باعث ہیں۔

ہمارے ہاں صرف اور صرف نصابی تعلیم کو بنیادی اہمیت دی جاتی ہے اور باقی امور کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے جو زندگی گزارنے کے لئے ضروری ہیں۔ ہم گاڑی تو چلاس سکتے ہیں لیکن گاڑی خراب ہونے پر اس کا معمولی سا نقص تلاش نہیں کر سکتے، ٹائر کو پنکچر نہیں لگا سکتے، سارا سارا دن کمپیوٹر پر استعمال کر سکتے ہیں لیکن اس کی ونڈوز انسٹال نہیں کر سکتے، موبائل فون کے بغیر ایک منٹ نہیں رہتے لیکن اس کا بیک اپ اور حفاظت کیسی کرنی ہیں نہیں جانتے! ہماری زندگی تو جیسے تیسے گزر گئی ہے یا گز ر رہی ہے لیکن ہمیں اپنے بچوں کو معاشرے کا فعال رکن بنانے کے لئے اور انہیں خود انحصاری کی راہ پر گامزن کرنے کے لئے بنیادی مہارتوں کو سکھانا ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments