کیا عورتوں کی لاشوں کو چتا میں جلانا پڑے گا؟


گجرات شہر کے ایک گاؤں کے قبرستان کا منظر تھا۔ لاش قبر میں نہیں تھی۔ قبر کی ایک سلیب ہٹا کر لاش کو نکال لیا گیا تھا۔ کچھ فاصلے پر لاش بغیر کفن کے پڑی تھی، بغیر قبر کے۔ وہ لاش ایک ذہنی و جسمانی معذور لڑکی کی تھی۔ نہیں۔ وہ لاش انسانیت کی تھی۔ وہ لاش سابقہ وزیراعظم جناب عمران خان صاحب کی اس سوچ کی تھی جس کے مطابق عورت کا لباس مرد پراثر انداز ہوتا ہے کیوں کہ مرد اور روبوٹ میں فرق ہوتا ہے۔ وہ لاش اس تعفن زدہ پدر سری معاشرے کی تھی جو عورت کے وجود اور عورت کی جداگانہ حیثیت کو تسلیم نہیں کر پایا۔

یہ لاش تھی اس بدبودار معاشرے کی جس میں مرد ایک دوسرے کو گالی بھی دیتا ہے تو عورت کے نام پر ۔ وہ لاش تھی اس بے حس معاشرے کی جہاں خاندانی نظام عورت کی حفاظت کے نام پر حراستی کیمپ بنا ہوا ہے۔ یہ لاش تھی ان بد بخت ہوس پرستوں کی جو وراثت اور زمین کی تقسیم سے بچنے کے لئے بیٹی کو زندہ درگور کر دیتے ہیں۔ اس استحصالی معاشرے کی جہاں ونی اور کاروکاری کا ایندھن عورت ہو۔ جہاں غیرت کے نام پر ہمیشہ عورت کو ہی قتل کیا جاتا ہے۔

صدیوں سے یہی ہوتا آ رہا اور جانے کب تک ہوتا رہے گا۔ اس دھرتی پر اس طرح کے واقعات کوئی انہونے نہیں۔ اور نہ اس طرح کے واقعات ہمارے اخلاقیات کے علمبرداروں اور ہمارے اجتماعی شعور کو جھنجھوڑتے ہیں بلکہ ایک عام خبر کی طرح یہ بھی دو چار دن میں ذہنوں سے محو ہو جائے گی یا پھر دو چار دن سے بھی پہلے۔ کسی نئے واقعہ کسی نئے ظلم کے وقوع پذیر ہونے تک۔

منٹو کی سکینہ متحدہ ہندوستان میں شاید زیادہ محفوظ تھی۔ یہاں اسے نوچنے والے بھی پاکستانی تھے۔ پاک دھرتی کے سپوت تھے اور اب بھی اسی پاک دھرتی کے سپوت ہیں جن کی ہوس سے آج لاشیں بھی محفوظ نہیں ہیں۔ منٹو کا ایشر سنگھ قاتل تھا، ریپسٹ تھا۔ لیکن۔ اس میں شاید کچھ انسانیت زندہ تھی۔

”میں اسے کندھے پر ڈال کر چل دیا۔ راستے میں۔ کیا کہہ رہا تھا میں؟ ہاں راستے میں۔ نہر کی پٹری کے پاس، تھوہڑ کی جھاڑیوں تلے میں نے اسے لٹا دیا۔ پہلے سوچا کہ پھینٹوں، لیکن پھر خیال آیا کہ نہیں۔ یہ کہتے کہتے ایشر سنگھ کی زبان سوکھ گئی

کلونت کور نے تھوک نگل کر اپنا حلق تر کیا اور پوچھا، ”پھر کیا ہوا؟“
ایشر سنگھ کے حلق سے بمشکل یہ الفاظ نکلے، ”میں نے۔ میں نے پتا پھینکا۔ لیکن۔ ۔ ۔ لیکن۔ ۔ ۔“
اس کی آواز ڈوب گئی۔
کلونت کور نے اسے جھنجھوڑا: ”پھر کیا ہوا؟“

ایشر سنگھ نے اپنی بند ہوتی ہوئی آنکھیں کھولیں اور کلونت کور کے جسم کی طرف دیکھا، جس کی بوٹی بوٹی تھرک رہی تھی۔ ”وہ۔ وہ مری ہوئی تھی۔ لاش تھی۔ بالکل ٹھنڈا گوشت۔ جانی مجھے اپنا ہاتھ دے۔“

کلونت کور نے اپنا ہاتھ ایشر سنگھ کے ہاتھ پر رکھا، جو برف سے بھی زیادہ ٹھنڈا تھا۔ ”

منٹو کو کیا پتہ تھا کہ ارض پاکستان کیسے کیسے ذلیل سپوتوں کو جنم دے گی جو لاشوں کو قبروں سے نکال کر پامال کریں گے۔ منٹو کے افسانوی کردار ان حقیقی کرداروں کے مقابل کہاں ٹھہر سکتے ہیں۔ چاہے ہے بھارت کے ہوں یا پاکستان کے۔

اعداد و شمار کے مطابق پچھلے چار سالوں میں پاکستان میں چودہ ہزار سے زائد خواتین کے ساتھ ریپ کیا گیا۔ یہ تعداد ان کیسز کی ہے جو رپورٹ ہوئے۔ جو رپورٹ نہیں ہوئے وہ تعداد ان سے کہیں زیادہ ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے اس پدر سری معاشرے میں اس ظلم کا شکار ہونے والی خواتین کو ہی اس کی مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے جس کے نتیجے میں یہ خواتین مظلوم ہونے کے باوجود کٹہرے میں کھڑی ملتی ہیں۔

جب بھی عورت کے حقوق پر بات کی جاتی ہے تو ہمارے دانشور فوراً تلواریں لے کر میدان عمل میں آ جاتے ہیں کہ پاکستانی عورت دنیا کی خوش قسمت ترین عورت ہے اور جو عورت خواتین کے حقوق، خواتین کی خود مختاری کی بات کرتی ہیں اور خدا کی ناشکری کر رہی ہیں۔ ان کو شکر گزار ہونا چاہیے کہ خوش قسمتی سے یہ پاکستان میں پیدا ہو گئی ہیں۔ ایسے ملک میں جو ورلڈ اکنامک فورم کے 2021 کے جنسی تفریق یا تفاوت کے اعشاریوں میں دنیا کے 156 ممالک میں سے 153

نمبر پر ہے۔ جنوبی ایشیا کی بات کی جائے تو آٹھ ملکوں میں پاکستان کا درجہ ساتواں ہے۔ صرف افغانستان ہم سے پیچھے ہے جہاں چار دہائیوں سے مسلسل جنگ اور تباہی کا راج ہے۔ لیکن افغانستان میں بھی کبھی ایسی بربریت ہم نے دیکھی نہ سنی ہے۔

کیا کرنا ہو گا؟ کیا عورتوں کی لاشوں کو چتا میں جلانا ہو گا؟ راکھ بنانا ہو گا؟ کیوں راکھ کی کوئی شناخت نہیں ہوتی۔ راکھ عورت نہیں ہوتی۔ یا پھر وقت آ گیا ہے کہ نسل آدم کو کسی بہتر مخلوق سے تبدیل کر دیا جائے۔ زمیں کو راکھ کر دیا جائے اور انسان کو فنا کر دیا جائے۔ یہ سیارہ اب رہنے کے قابل نہیں چھوڑا ابن آدم نے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments