شاعری


میں کہ ٹھہرا ایک چھوٹا موٹا شاعر (بقول احباب کے چھوٹا کم اور موٹا زیادہ) مگر جب اشعار پہ داد کم ملے یا نہ ملے تو تھوڑا بہت نثر پہ بھی ہاتھ صاف کر لیتا ہوں۔ شاعری ایک ایسا ہنر ہے کہ اس کی پذیرائی کی امید بہت ہی مخصوص طبقے سے کی جا سکتی ہے۔ اسی وجہ سے جو صحیح شاعر ہیں وہ ہر جگہ شعر پڑھنے سے اجتناب برتتے ہیں۔ کبھی یہ خوف ہوتا ہے کہ سامعین کو شعر سمجھ نہیں آئے گا اور کبھی یہ خوف کہ سامعین کو شعر سمجھ آ جائے گا۔ جہاں تک شاعری کی بات ہے اس کے متعلق کہتے ہیں کہ

ایں سعادت بزور بازو نیست
تا نہ بخشد خدائے بخشندہ

مگر پھر بھی ہم جیسے لوگ شاعری سیکھنے اور کرنے کی کوششیں کرتے رہتے ہیں۔ مگر اللہ معاف کرے یہ علم عروض۔ ہم نے بارہویں جماعت میں آرگینک کیمسٹری پڑھی پاس بھی کی، انٹیگریشن پڑھی وہ بھی جیسے تیسے سمجھ بھی لی پاس بھی کرلی، انجینیئرنگ کرلی مگر یہ عروض سانپ کے منہ میں چھچھوندر ہو گئی نہ اگلے بنے نہ نگلے بنے۔ شاید ارسطو نے بھی جب ریاستی ڈھانچے کا تذکر کیا تو اس میں سے شاعر اور شاعری کو گول کر گیا کہ کہیں عروض پر بات نہ کرنی پڑ جائے۔ ہمارے ایک دوست جو کسی گورنمنٹ کے محکمے میں کلرک تھے بہت عرصے تک یہ سمجھتے رہے کہ یہ علم عروض کوئی ایسا علم ہے جو کلرکوں کے لیے یا کلیریکل ذہنیت کے لیے مخصوص ہے۔

فاعلاتن فاعلاتن فاعلات

ان کو معلوم نہیں تھا کہ اس علم کے ماہر کو کوئی کلرک بھی بھرتی نہیں کرتا بلکہ کبھی کبھی تو خود شاعر حضرات بھی کسی عروضیے کو آتے دیکھ کر کھسک لیتے ہیں۔

یوسفی صاحب نے کیا خوب کہا تھا کہ ”شاعر حضرات جو کچھ اشعار میں لکھ جاتے ہیں اگر ہم اس کو نثر میں لکھ دیں تو لوگ ہم کو جان سے مار دیں“ ۔ قتیل شفائی نے ایک دفعہ کہا تھا

ہاتھ دیا اس نے مرے ہاتھ میں
میں تو ولی بن گیا اک رات میں

اب آپ اگر اس بات کو نثر میں کھول کر بیان کریں گے تو سب سے پہلے آپ کو ”وہ“ جس نے آپ کے ہاتھ میں ہاتھ دیا تھا اپنے باپ بھائیوں کے ساتھ مل کر آپ کی پٹائی کردے گا۔ ہو سکتا ہے کہ کوئی ولی بھی آ کے آپ کا سر پھاڑ دے کہ تو کیا سمجھتا ہے ہم ولی اس طرح بنے ہیں؟ یہاں تو دن میں بھی کسی نے ہاتھ میں ہاتھ نہیں دیا تو رات کی بات کر رہا ہے۔ خیال رہے یہ اس ولی کی بات ہو رہی ہے جو قتیل صاحب بنے تھے کسی ولی اللہ کا ذکر نہیں ہے کہ وہ تو خدا کی دین ہوتی ہے۔ یہ تصحیح ضروری ہے کہ اگر بات کسی شدت پسند تک پہنچ گئی تو وہ ہو سکتا ہے گلے مل کر پھٹ جائے پھر نہ ہاتھ رہے گا اور نہ ہاتھ میں ہاتھ لینے والا، صرف اندھیری رات رہ جائے گی۔

شعر اور شاعر کا بہت گہرا اور حساس تعلق ہوتا ہے اور اس کو اکثر اولاد سے تشبیہ دی جاتی ہے میں نے ایک دفعہ کہا تھا

اس کو اچھا نہ کہو تم تو برا بھی نہ کہو
شعر شاعر کا میاں لخت جگر ہوتا ہے

یہ صحیح ہے کہ اپنا ہر شعر شاعر کو اپنی اولاد کی طرح عزیز ہوتا ہے مگر ستم ظریفی یہ ہے کہ اس اولاد کو سمجھنے کا فریضہ اکثر دوسرے انجام دیتے ہیں اور بعض اوقات شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار ثابت ہوتے ہیں۔

ایک دفعہ کسی مدرسے میں ایک مدرس کسی شعر کی تشریح فرما رہے تھے اتفاقاً اس شعر کا خالق وہاں سے گزر رہا تھا اس نے سنا تو دروازے کی آڑ میں کھڑا ہو کر سننے لگا جب مدرس خاموش ہوئے تو وہ دروازے کی اوٹ سے نکلا اور مدرس کے ہاتھ چوم لیے کہ حضور جتنے مطالب آپ نے اس شعر کے نکالے ہیں اتنے تو میں نے خواب میں بھی نہیں سوچے تھے۔ ہمارے دور کی ایک بہت خوبصورت شاعرہ پروین شاکر تھیں وہ شاعری بھی بہت خوبصورت کرتی تھیں۔

جب انہوں نے سی ایس ایس کے مقابلے کا امتحان دیا تو اردو کے پرچے میں جن اشعار کی تشریح کرنی تھی وہ خود محترمہ کے تھے مجھے یقین ہے کہ اس سوال میں ان کو سو فیصد نمبر نہ ملے ہوں گے ممتحن نے کچھ نہ کچھ نمبر کاٹ لیے ہوں گے کہ آپ نے شاعر کا مدعا پوری طرح واضح نہیں کیا کچھ کسر رہ گئی۔ سیانے کہتے ہیں شعر کہنا اور بات ہے سمجھنا اور بات۔ غالب نے کہا تھا

بک رہا ں جنوں میں کیا کیا کچھ
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی

غالب کو یہ ڈر ہو گا کہ کوئی سمجھ کے ڈومنی کو نہ بتادے کہ بیوی کو کوئی اگر بتا بھی دے تو ہمارے مردانہ معاشرے میں وہ بے چاری صبر کے علاوہ کر بھی کیا سکتی ہے۔ ڈومنی ہو سکتا انتقام پہ اتر آتی اور پھر ایک ڈومنی کے انتقام سے بھیانک شے صرف اور صرف پاکستان کی سیاست ہی ہو سکتی ہے جو کہ غالب کے دور میں عنقا تھی۔

بات شاعری پہ ہو رہی تھی سیاست بیچ میں آ گئی۔ ہمارے اکثر شعرا ء سیاسی شاعری بھی کرتے رہے ہیں جن میں، فیض صاحب، احمد فراز، کبھی کبھی جون ایلیا بھی، کے نام قابل ذکر ہیں۔ لیکن جالب صاحب وہ عظیم شاعر تھے انہوں نے اپنی شاعری میں وہ سیاست بیان کی کہ اگر ہمارے سیاستدان اس کا کچھ فیصد بھی اپنی سیاست میں استعمال کر لیں تو شاید ہمارے ملک کی تقدیر بدل جائے۔ جالب صاحب کی نظمیں ہماری سیاسی تاریخ کا پرتو ہیں۔ دستور۔ مشیر، نہتی لڑکی، مولانا، ماں، ریفرینڈم، لاڑکانے چلو، رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے۔ جالب صاحب پر لکھنے کے لیے تو شاید کئی کتابیں بھی کم ہوں۔ صرف چند اشعار:

تم سے پہلے وہ جو اک شخص یہاں تخت نشیں تھا
اس کو بھی اپنے خدا ہونے پہ اتنا ہی یقیں تھا
———–
ظلمت کو ضیا صرصر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا
پتھر کو گہر دیوار کو در کرگس کو ہما کیا لکھنا
———–
وہ کہہ رہے ہیں محبت نہیں وطن سے مجھے
سکھا رہے ہیں محبت مشین گن سے مجھے
۔
لاکھ کہتے رہیں ظلمت کو نہ ظلمت لکھنا
ہم نے سیکھا نہیں پیارے بہ اجازت لکھنا
۔
‏محبت گولیوں سے بو رہے ہو
وطن کا چہرہ خون سے دھو رہے ہو
گماں تم کو کہ راستہ کٹ رہا ہے
یقیں مجھ کو کہ منزل کھو رہے ہو

جب بات سیاسی شاعری کی ہو ہی رہی ہے تو ہم اردو مزاحیہ شاعری کے باوا آدم کو کیسے بھول جائیں جی بالکل آپ صحیح سمجھے یعنی۔ اکبر الہٰ آبادی۔ اکبر الہٰ آبادی نے نا صرف اردو کی مزاحیہ اور طنزیہ شاعری کو ایک نیا رنگ دیا جو کہ آج تک ماند نہ پڑ سکا بلکہ انہوں نے بھی اپنے دور کے سیاسی مسائل کو اپنے فہم او ادراک کے مطابق جس طرح موضوع سخن بنایا ہے وہ انہی کا حصہ ہے۔ اکبر الہٰ آبادی کمال کے حاضر جواب اور بذلہ سنج شخصیت تھے۔

ان کے صاحبزادے جو کہ سول جج تھے وہ بھی انگریزوں کے زمانے میں، اپنے احباب بشمول کچھ گورے اصحاب کے درمیان بیٹھے تھے کہ اکبر بھی وہاں آ گئے کچھ گھریلو سے حلیے میں، احباب نے صاحبزادے سے پوچھا کہ یہ کون ہیں تو انہوں نے کچھ شرمندہ ہوتے ہوئے دھیرے سے کہا میرے والد کے آشنا ہیں۔ اکبر نے سن لیا فوراً بولے نہیں میں اس کے باپ کا نہیں اس کی ماں کا آشنا ہوں۔ دیکھیے جو شخص نثر میں یہ کچھ کہہ سکتا ہو وہ اشعار میں کہاں تک پہنچا ہو گا۔ تو میرے خیال میں ان کے اشعار رہنے ہی دیے جائیں۔

جنید اختر
Latest posts by جنید اختر (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments