انتقامی سیاست اور مذہب


ایک دفعہ ہمارے محلے میں ایک منشیات فروش کے گھر پر پولیس کا چھاپہ پڑا منشیات فروش کا دوسرا بھائی ایک گورنمنٹ سکول میں درجہ چہارم کا ملازم تھا۔ بھائی کے سلسلہ میں وہ بھی تھانے گیا۔ یقین جانیے جب وہ واپس آیا تو اس کے آنسو رکنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔ میں نے اسے حوصلہ اور تسلی دی کوئی بات نہیں تھانے بھی انسانوں کے لئے بنے ہیں تو اس نے کہا آپ کو اندازہ نہیں کس حد تک بدنامی ہوئی ہے، منشیات کے مقدمے کے علاوہ لڑائی جھگڑے کے سلسلے میں پولیس آجاتی تو اتنی بدنامی نہ ہوتی۔

جیسے اچھائی کے درجے ہوتے ہیں ایسے ہی برائی کے بھی درجے ہیں اور معاشرے میں منشیات فروشی کو سب سے نچلے درجے کا گھٹیا کام تصور کیا جاتا ہے۔ جان اللہ کو دینی ہے! نے جب رانا ثناءاللہ پر منشیات فروشی کا الزام لگایا تھا میرے نزدیک یہ گھٹیا اور پست ترین انتقام تھا۔ صحیح معنوں میں رانا ثنا اللہ کی عزت اچھالنے کے انتظامات کیے گئے تھے۔

انتقامی سیاست کا نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں رواج ہے۔ لیکن پاکستان میں انتقامی سیاست کا معیار اس حد تک گر چکا ہے کہ ہر سیاستدان مذہب کو اپنے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کر رہا ہے۔ عمران خان صاحب اپنے ہر جلسے کا آغاز ایاک نعبدو ایاک نستعین سے کرتے ہیں۔ جیسے وہ یہ پیغام دینے کی کوشش کر رہے ہوں کہ سچائی اور سیدھے راستے پر صرف میں ہوں باقی تمام جماعتیں، سیاستدان اور لیڈران عوام کو گمراہی کے راستے پر لے کے جا رہے ہیں۔ خان صاحب نے کرسی بچانے کے لیے سیاست میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا تصور دیا جبکہ حقیقت میں ان کی کارکردگی صفر تھی۔ سیاست اصول، منشور اور کارکردگی پر ہونی چاہیے نہ کہ آپ مذہبی چورن بیچ کر ووٹ حاصل کریں۔

جب مسجد نبوی کے واقعے پر ایف آئی آر کا اندراج ہوا۔ سوچنے کی بات یہ ہے کیا کسی عام شہری کی درخواست پر مذہبی ایف آئی آر درج کی جا سکتی ہے؟ مذہبی و سنگین قسم کے جرائم کی ایف آئی آر عموماً ڈی پی او کی اجازت کے بغیر درج نہیں ہوتیں۔ اور یہ ایف آئی آر تو پھر پاکستان کی اعلیٰ قیادت عمران خان، شاہ محمود قریشی اور فواد چوہدری کے خلاف تھی۔ تو کیا یہ حکومتی سرپرستی کے بغیر درج ہو سکتی تھی؟ لیکن شام کو رانا ثناء اللہ اور اعظم نذیر تارڑ کے موقف نے واضح کر دیا کہ یہ ایف آئی آر بھی انتقامی سیاسی بنیادوں پر مذہبی رنگ دے کر درج کی گئی ہے۔ رانا ثناءاللہ نے نہایت سخت بیان دیا کہ اس ایف آئی آر کی بنیاد پر عمران خان صاحب کو گرفتار کیا جا سکتا ہے۔ یہ ایف آئی آر بھی قابل مذمت ہے اور اس پر ایسے بیانات انتہائی قابل مذمت ہے۔ اس کی ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے پرزور مخالفت کی ہے۔

مسجد نبوی والا واقعہ سعودی عرب میں پیش آیا۔ سعودی حکومت اس پر اپنا موقف بھی دے گی، ایکشن بھی لے گئی اور انہوں نے ایکشن لیا بھی ہے۔ پاکستان میں اس قسم کی کارروائی کا کوئی جواز نہیں تھا۔ اگرچہ پی ٹی آئی کے کارکنان پہلے اس کو سپورٹ کرتے رہے لیکن جب عوامی ردعمل نے شدت اختیار کی تو عمران خان صاحب نے بیان دیا میں ایسا سوچ بھی نہیں سکتا میرے خیال میں یہ بیان کافی تھا۔ عوام کے ردعمل کے بعد نون لیگ کے اس قسم کے اقدامات نے ان کی ساکھ کو بری طرح متاثر کیا ہے۔

آگ دونوں طرف برابر لگی ہے۔ مفتاح اسماعیل کے بیانات کو جس طرح سیاسی بنیادوں پر استعمال کیا گیا اور سوشل میڈیا پر سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا یہ شر پسندی کو ہوا دینے کے مترادف نہیں ہے۔ مسئلہ یہ بھی ہے کہ پاکستان میں شرح خواندگی انتہائی کم ہے آپ کسی بھی ایسے بیان کے نیچے اردو ترجمہ اپنی مرضی سے ایڈٹ کر کے ڈال دیں پاکستانی سوشل میڈیا میں مخالف گروپ اس کا پھر پور خیرمقدم کرتا ہے اور نیچے لوگ ٹیک کر کے پوچھتے ہیں کہ اب آپ کی اس بارے کیا رائے ہے۔ بندہ سر پیٹ لیتا ہے کہ یہ تو وہ بات ہی نہیں ہو رہی جس کی طرف آپ کی پارٹی کی سوشل میڈیا ٹیم آپ کی ذہن سازی کر رہی ہے۔ کیا دنیا میں کسی بھی ریاست نے مذہبی بنیادوں پر ترقی کی ہے؟ مذہبی انتہا پسندی کے ساتھ ترقی کی ہے؟

اقتدار کے لئے مادر ملت فاطمہ جناح کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا تو ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی چڑھا دیا گیا۔ لیکن میں اس کو سیاسی انتقام نہیں مانتا۔ اقتدار کے حصول لئے لیے وہ تاریخ میں پاکستان کے چہرے پہ بدنما داغ ہیں۔ جن کو کبھی بھی دھویا نہیں جا سکتا۔ پاکستان میں انتقامی سیاست کا رواج 90 کی دہائی میں بہت شدت کے ساتھ شروع ہوا اگرچہ اس وقت میڈیا بھی اس سطح کا نہیں تھا صرف ایک بی ٹی وی چینل ہوتا تھا۔ صبح سے گیارہ بجے تک، شام کو آٹھ بجے والا ڈرامہ اور 9 بجے والا خبرنامہ توجہ کا مرکز تھا۔

اگر بزرگ کسی خبر کو مستند گردانتے تھے تو وہ ریڈیو پاکستان پر رات بی بی سی کا نیوز بلیٹن تھا جو ان کے لئے نہایت اہمیت کا حامل ہوتا۔ لیکن پھر بھی تاریخ کے صفحات میں بے نظیر بھٹو کی کردار کشی، آصف علی زرداری کے مقدمات، جیل میں تشدد آج بھی زبان زد عام ہے۔ اس وقت سیاسی جماعتیں یا ان کے رہنما اس حد تک مذہبی شدت پسند نہیں تھے جو پاکستان کی آج حالت ہے۔ اس وقت سیاسی جماعتوں کے عسکری و مذہبی ونگ موجود تھے اور ان مذہبی ونگز کے ذریعے جو ہوا فرقہ وارانہ دہشت گردی کو دی گئی اس کی تاریخ میں نظیر نہیں ملتی۔

سپاہ محمد اور سپاہ صحابہ جیسی تنظیموں نے ایک دوسرے کے علماء اور عام پڑھے لکھے افراد ( مرنے والوں میں زیادہ تعداد اہل تشیع کی تھی) کا قتل عام کیا اور 80 ء کی دہائی کے بعد سن دو ہزار تک حرکت الجہاد، حرکت المجاہدین، حرکت الانصار اور جیش محمد جیسی بے شمار تنظیمیں سرعام چندہ بھی اکٹھا کرتی تھیں لوگوں کو بھرتی کر کے جہاد کے نام پر پاکستانی ماؤں کے بچوں کو پیک کروا کر واپس بھی لے آتیں تھیں۔ اس پر فخر بھی کیا جاتا تھا اور ان مرنے والوں میں زیادہ تر تعداد پاکستان کے غریب عوام کے بچوں کی ہوتی تھیں۔

80 ء اور 90 ء کی دہائی کی نسل پاکستان میں جوان ہو چکی ہے۔ ذہنی آبیاری اس دور میں کی جا چکی تھی اسی وجہ سے جب خادم حسین رضوی پاکستان کے افق پر نمودار ہوا تو اس کو ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ خادم رضوی سے پہلے، بریلوی مکاتب فکر کے مذہبی لوگوں کا شمار پاکستان کے سب سے زیادہ معتدل مزاج لوگوں میں ہوتا تھا۔ مزارات اور عرس کی تقریبات انہی کے مرہون منت تھیں۔ مذہبی لڑائی جھگڑے میں ان کا کبھی بھی کوئی کردار نہیں رہا تھا۔ لیکن خادم حسین رضوی نے اس طبقہ کو بھی شدت پسندی کی طرف دھکیل دیا۔ رضوی صاحب کے جان نثاروں کو ہزار ہزار روپیہ دیا گیا اس نے اپنی سیاسی جماعت بھی رجسٹرڈ کروائی، الیکشن لڑا لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں تھا۔

جنرل پرویز مشرف نے مذہبی شدت پسندی کو کچلنے کی بھرپور کوشش کی۔ ایک روشن لبرل اور سیکولر پاکستان کا خواب لوگوں کو دکھایا لیکن مشرف کے جانے کے فوراً بعد ہی ہمارے سیاستدانوں نے مذہب کو سیاست کے لئے دوبارہ استعمال کرنا شروع کر دیا۔

پاکستان مذہبی بنیادوں پر حاصل ضرور کیا گیا تھا لیکن قائد اعظم محمد علی جناح پاکستان کو ایک سیکولر اور لبرل ریاست بنانے کے خواہش مند تھے۔ آپ پاکستان کی آزادی کے بعد کے ادوار کو دو حصوں میں تقسیم کر لیں ایک حصے کو سنہ 1980 سے پہلے تصور کریں اور دوسرا دور سنہ 1980 سے لے کر آج تک کر لیں۔ آپ کو ان دونوں ادوار میں ترقی کی شرح میں واضح فرق نظر آئے گا۔ سنہ 1980 سے پہلے پاکستان ایشیا میں ترقی کر رہا تھا عام آدمی کو ریلیف مل رہا تھا آپ کے اداروں کی حالت آج کی نسبت بہت بہتر تھی۔

ادارے ترقی کر رہے تھے۔ گورنمنٹ کو منافع دے رہے تھے۔ گورنمنٹ عام آدمی کو ٹیکس پر چھوٹ اور مختلف چیزوں پر سبسڈی بھی دے رہی تھی تھی۔ لیکن سنہ 1980 کے بعد اس میں بتدریج تبدیلی آنا شروع ہوئی۔ 1980 کے بعد جنرل ضیاء الحق نے ایک ایسی ریاست بنانے کی ٹھانی جو کتابوں کی حد تک تو درست تھی پر عملی طور پر اس کا نقصان وہ ہونا تھا جو آج صاف نظر آ رہا ہے۔ آپ کا تعلیمی نصاب تبدیل کیا گیا بچوں کی ذہنی آبیاری کرنی شروع کی گئی۔

خود کو امیرالمومنین کہلانے کی بھرپور کوشش کی۔ ایک پرائی جنگ میں کود کر ملک کو انتہا پسندی کی طرف دھکیل دیا۔ جس کا خمیازہ پاکستان آج بھی بھگت رہا ہے۔ اور پاکستانی سیاستدانوں کو یہ ادراک ہو چکا ہے کہ آپ مذہبی سیاست کریں گے تو کامیاب ہوں گے لہذا وہ اس کو تبدیل کرنے کا سوچ بھی نہیں رہے۔ اس سوچ کو تبدیل کرنا سیاستدانوں کا کام ہے اداروں کا کام ہے۔ سیاسی جماعتیں سیاسی جنگ اپنے اصولوں، منشور اور کارکردگی پر لڑے نہ کہ ملک کو مذہبی بھٹی کا ایندھن بنا کر اپنے مقاصد اور مفادات حاصل کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments