سکول میں ایک بچی سے جنسی ہراسانی کا معاملہ اور ماؤں کی ذمہ داری


بات ہے یہ 1968 کی جب استاد کے طور پر میری تقرری پی اے ایف لاہور بیس کے اسکول میں ہوئی۔ اس وقت یہ مڈل لیول پر تھا۔ اس بیس کے منتظم اعلیٰ ایر مارشل اصغر خان کے بہنوئی ونگ کمانڈر ایاز خان تھے جو بعد ازاں ایر مارشل کے عہدے سے ریٹائرمنٹ کے بعد بطور سفیر شام میں متعین ہوئے۔ جہاں انہوں نے اپنی بیٹی کے ساتھ مل کر رضاکارانہ طور پر پاکستانیوں کے لیے ایک شاندار اسکول کھولا جس میں بہت سے یورپی سفارت خانوں کے علاوہ شامیوں کی بھی ایک کثیر تعداد اپنے بچے پڑھاتی تھی۔

خیر آمدم برسر مطلب سکول کی پرنسپل جو صوفی غلام مصطفی تبسمؔ کی بیٹی تھیں کو اپنی زچگی کے لیے چھٹی پر جانا پڑا تو مجھے وقتی طور پر یہ ذمہ داری سونپی گئی۔ مجھے احساس ہو گیا تھا کہ بیس کمانڈر اسکول کے معاملات میں بھی بہت دلچسپی رکھتے ہیں کہ کبھی کبھی تو چپڑاسی سے ہی معلوم ہوتا کہ بیس کمانڈر سرپرائز وزٹ کر گئے ہیں۔

بہرحال ایک دن اچانک بیس کا انتظامی ٹولا بمعہ بیس کمانڈر آفس میں وارد ہوا۔ نشستیں سنبھالیں۔ کینٹین کے بوڑھے ملازم کو حاضر لائن کرنے کا حکم ملا جو کانپتا ہانپتا سینے پر ہاتھ باندھے کھڑا ہو گیا۔ سنجیدہ مسئلے کا احساس ہوا۔ چوبیس ( 24 ) سال کی ایک غیر شادی شدہ لڑکی اکڑی ہوئی وردیوں والوں کے ساتھ بیٹھی ٹک ٹک دیدم و دم نہ کشیدم والی صورت کا سامنا کر رہی تھی۔ زمانہ آج کا تھوڑی تھا کہ جب جنس سے متعلق مسائل سرعام زیر بحث اور زیر تحریر لائے جاتے ہیں۔ آج کی نوجوان نسل ماشاء اللہ سے اس علم کی باریکیوں سے شعوری آگہی رکھتی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آج کی لڑکی کو اگر میری اس وقت جیسی صورت کا سامنا کرنا پڑ تا تو وہ یقیناً بت بننے کی بجائے اس پر بات چیت سے اپنی اہمیت واضح کرتی چار افسروں کی آپس میں گفتگو انگریزی اور بوڑھے کے ساتھ اردو میں تھی۔

ان کی آپس میں بات چیت کا فوکس اور پس منظر کی بھی ذرا وضاحت کرتی جاؤں کہ بیس کے کسی سارجنٹ کی جانب سے درخواست دی گئی تھی کہ اس کی دس سالہ بیٹی کے ساتھ سکول کینٹین کے بوڑھے ملازم نے بدفعلی کی کوشش کی ہے۔

انگریزی میں گفتگو کا لب لباب کچھ یہ جاننے کی کوشش بھی تھی کہ بوڑھا جسمانی طور پر لاغر نظر آ رہا ہے۔ محرک کہیں بچی تو نہیں۔ چھ بچوں دادا دادی ماں باپ پر مشتمل گھرانا جو دو کمروں میں رہتا ہے۔ والدین کی لاپرواہی اس سانحے کا سبب بن سکتی ہے۔

اب یہ بھی نہیں تھا کہ میں کوئی بڑی معصوم سی لڑکی تھی۔ لیکن یہ بھی حقیقت تھی کہ میرا جنس سے متعلق علم بڑا سطحی سا تھا۔ بوڑھے آدمی کو اس زاویے سے کیوں سوچا جا رہا تھا کہ میرے کتابی علم کے حسابوں مرد تو سراسر ہوس کا مارا ہوا ہے۔ عمر کی تکنیکی وجوہات بھی کچھ ہیں اور اس منزل پر پہنچ کر دانے بکنے والی بات ہوجاتی ہے۔ اس اہم حقیقت کا تو کہیں دور دور تک پتہ نہ تھا۔

وضع داری تھی یا افسروں کا بڑا پن کہ میری خاموشی کو جتلایا نہیں گیا۔ وگرنہ عام پروفیشنل معاملات میں خاموشی نالائقی میں شمار ہوتی تھی۔ مسئلے کو سمجھداری سے سلجھایا گیا۔ بچی بہت تیز تھی۔ کسی خوف کے بغیر بیس کمانڈر کی بیوی کے سامنے سب کچھ اگل گئی۔ بچی کچھ تجربے کرنے کی بھی شوقین دکھتی تھی۔ والدین کی لاپرواہی کے باعث چند بار کے دیکھے گئے منظروں کو اسی طرح کرنا چاہتی تھی۔ رشتہ داروں کے گھر بھی جانا آنا رہتا تھا۔ وہاں کچھ الٹی سیدھی فلموں نے بھی پٹی پڑھائی تھی۔

مجھے یاد ہے کہ ایک ذمہ دار افسر نے اس مسئلے کو کس خوبی سے ہینڈل کیا کہ شوہر کی ہدایت پر بیوی نے پہلی میٹنگ پفوا (پاکستان ایر فورس ویمن ایسوسی ایشن) کے زیر اہتمام ایر مینوں کی بیگمات سے کی کہ ماؤں کی حیثیت میں ان کی ذمہ داریاں کیا ہیں؟ بلوغت میں داخل ہوتے بچوں کے والدین کو کسی طرح کی لاپرواہی کرنی مناسب نہیں۔ اپنے ازدواجی معاملات کے ضمن میں احتیاط اور رازداری بہت ضروری ہے۔ بہت زیادہ سختی اور ڈانٹ ڈپٹ سے گریز کرنا ماں اور باپ دونوں کا فرض ہے۔ کھل کر بچیوں کو پیریڈز، اس کے بعد غسل اور بدنی صفائی کے بارے پہلی تربیت کرنا والدین کا ہی فرض ہے۔

گھروں میں آنے والے رشتہ داروں، ان کے نوجوان لڑکوں اور ان کی الٹی پلٹی حرکات سب کے بارے بچیوں کو بتایا اور سمجھایا جائے۔ ڈنڈے کو ہی پیر نہ مانا جائے۔ بچوں کے ساتھ ماں باپ کا تعلق ایک اچھے دوست کا سا ہو کہ وہ اپنی ہر بات والدین سے کرسکیں۔

دوسری میٹنگ انہوں نے سکول سٹاف سے کی اور کہا کہ اگر والدین ذمہ دار ہیں تو سکول اور اساتذہ کا کردار بھی بہت اہم ہے۔ انہوں نے ہمیں پابند کیا کہ ہم اس نہج پر بچے بچیوں کی تربیت کرنا اپنے نصاب کا حصہ جانیں اور جب تک میں اس سکول کی انتظامیہ کا حصہ رہی ہم نے یہ باتیں بچوں کو نصاب کی طرح سکھائیں۔

آج کے بچے کو موبائل نے بہت کچھ بتا دیا ہے مگر تربیت نہیں ہوئی کہ حال کچھ پوچھے جٹ جیسا ہو گیا ہے کہ جسے پانی کا پیالہ کیا ملا کہ وہ تو پانی پی پی کر ہی ابھر گیا ہے۔ جو کچھ وہ دیکھ اور جان رہا ہے وہ اس کی شخصیت میں منفی رنگ بھر رہا ہے۔ گھروں میں مائیں اپنا کردار ادا نہیں کر رہی ہیں۔ بھولے بیٹھی ہیں کون انہیں یاد دلائے کہ ماں کا مقام اور اس کی ذمہ داریاں کیا ہیں؟ وقت نے بے شمار سہولتیں خاتون خانہ کو دی ہے مگر وہ سست اور کاہل ہو گئی ہیں۔ بچہ ناشتے کے بغیر سکول آتا ہے۔ کنٹین سے چپس اور برگر کھاتا ہے۔ پڑھی لکھی ماں بھی بچے کو خود پڑھانے سے جان بچاتی ہے۔ اسے ٹیوشن پر بھیج کر فارغ ہوجاتی ہے۔ میں سو فی صد کی بات نہیں کر رہی ہوں۔ تاہم اسی فی صد کی یہ عکاسی ہے۔

ایک ادارے کی سربراہ کے طور پر آج کی ماؤں سے، آج کے اساتذہ سے میں بہت شاکی ہوں۔ غیر ذمہ داری، لاپرواہی اور کاہلی کے عناصر کسی زہر کی طرح ہم میں سرایت کرتے جا رہے ہیں۔ رہے ارباب اختیار تو تعلیم تو کبھی بھی ان کی ترجیحات میں شامل نہیں رہی۔ نصاب اور تدریسی طریقوں میں انقلابی اقدام کیا اٹھنے ہیں؟

٭٭٭


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments