کس کا اعتبار کروں؟


صغیر کی پیدائش ایک غریب خاندان میں ہوئی۔ صغیر کا خاندان آزادی کے بعد بھارت سے ہجرت کر کے لاہور آ بسا تھا۔ بھارت میں اس کے دادا کی کباڑ کی دکان تھی۔ صغیر کے دادا ایک شریف النفس انسان تھے۔ یہی وجہ تھی کہ انہوں نے پاکستان میں آ کر کوئی جائیداد کا تقاضا نہ کیا بلکہ لاہور کے جنرل بس سٹینڈ پر ہاکر بننے کو ترجیح دی۔ بس سٹینڈ کا اپنا ماحول تھا۔ لڑائی جھگڑا روز کا معمول تھا۔ لیکن حمید صاحب نے اپنے آپ کو ہمیشہ سٹینڈ کے برے عناصر سے دور رکھا اور سیاست سے بھی دور رہے۔

حمید صاحب کا ایک دن بس سٹینڈ پر آتے ہوئے گاڑی سے حادثہ ہو گیا۔ گھر میں اک کہرام مچ گیا۔ جوان بیوی اور آٹھ بچوں کا سنگ، زندگی شاہدہ بیگم کے لیے تنگ پڑنے لگی۔ جبار صغیر کا والد اس وقت بارہ سال کا تھا۔ اس نے اپنے باپ کی جگہ سٹینڈ پر جانا شروع کیا۔ جبار ایک باہمت لڑکا تھا مگر اچانک پورے خاندان کا بوجھ اس کے کمزور کندھوں پر آ پڑا۔ جبار کے لیے سٹینڈ کا ماحول یکسر مختلف تھا۔ حمید صاحب نے کبھی بھی اپنے کام اور بس سٹینڈ کے ماحول کے بارے میں گھر میں کوئی گفتگو نہ کی تھی۔

جبار جلد ہی سٹینڈ پر با اثر لوگوں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے لگا۔ یہ وہی لوگ تھے جن سے حمید صاحب ہمیشہ دور رہتے تھے۔ جبار نے ان کا ساتھ دینا شروع کیا۔ اب وہ سٹینڈ کی لڑائیوں میں آگے آگے ہوتا تھا۔ جبار کی کمائی میں بھی اضافہ ہو چکا تھا لیکن اس کے دماغ میں اچھے اور برے گناہ اور ثواب کے تمام حوالے آہستہ آہستہ معدوم ہوتے گئے۔ اب وہ جنرل بس سٹینڈ کے بڑے بدمعاش کے طور پر جانا جاتا تھا۔ جبار کی زندگی کا مقصد جلد سے جلد امیر ہونا تھا تاکہ وہ غربت سے جان چھڑا سکے۔

شاہدہ بیگم اپنے خاوند کی وفات کے بعد اپنے بچوں میں گم ہو گئی تھی، لیکن خاوند کی جوانی میں موت نے ان کے اندر غم کی ایک نئی دنیا آباد کردی تھی۔ وہ زیادہ وقت بیمار رہنے لگی۔ ایک دن وہ باورچی خانے میں کھانا بنا رہی تھی کہ ان کو چکر آ گیا۔ جب ان کی آنکھ کھلی تو جبار کا افسردہ چہرہ ان کے سامنے تھا۔ شاہدہ بیگم نے پوچھا مجھے کیا ہوا؟ ، جبار نے جواب دیا اماں آپ کو کمزوری ہے۔ جبار کو ڈاکٹر نے بتایا کہ شاہدہ بیگم کو دماغ کا کینسر ہے اور وہ بھی آخری سٹیج پر۔

گھر کو نجانے کس کی نظر لگی تھی۔ پہلے جوان باپ کی موت، اوپر سے ماں کو ایک خطرناک مرض نے آ لیا تھا۔ شاہدہ بیگم کا اب زیادہ وقت گھر میں بستر پر یا ہسپتال میں گزرتا۔ ایک دن انہوں نے جبار کو بلا کر کہا کہ وہ شادی کر لے۔ چھوٹے بچوں کو ان کے بعد کون پالے گا؟ اکیس سال کی عمر میں جبار ناہید کو بیاہ کر لے آیا۔ آخری ایام شاہدہ بیگم کے بڑے کٹھن اور درد میں گزرے۔ ناہید ایک سمجھدار عورت تھی۔ اس نے آ کر گھر کو خوب سنبھالا اور گھر میں خوشی کے کچھ لمحے واپس لے آئی۔ جبار کا زیادہ وقت سٹینڈ پر گزرتا اور وہ 99 کو 100 کرنے کے چکر میں لگا رہتا جبکہ ناہید گھر میں جبار کے بہن بھائیوں کے ساتھ وقت گزارتی اس نے جبار کے بہن بھائیوں کو اپنی اولاد سمجھ لیا۔

جبار نے محنت کر کے اپنی بہنوں کی شادی کر دی۔ چھوٹے بھائی بھی اب اس قابل ہو گئے تھے کہ وہ اپنا کام کر رہے تھے۔ اس دوران جبار کے اپنے سات بچے ہوچکے تھے۔ جبار جو کہ سمجھ رہا تھا کہ بہنوں کی شادی کے بعد اب وہ آزاد ہو گیا ہے۔ اب اس کی بیٹیاں بڑی ہو رہی تھی۔ صغیر کی عمر اس وقت چھ سال تھی۔ جب پہلی مرتبہ جبار کو پولیس پکڑنے گھر آئی اور تھانیدار نے اس کی ماں ناہید کے ساتھ بدتمیزی کی تھی اس کو اس دن بہت افسوس ہوا۔

جبار دو دن بعد گھر واپس ضمانت پر آ گیا۔ اب جبار اور ناہید کی ہر روز لڑائی رہنے لگی۔ ناہید جبار کو سمجھاتی کہ وہ سٹینڈ کے لڑائی جھگڑے میں شامل نہ ہو۔ اپنی بدمعاشی چھوڑ دے مگر جبار کہتا تھا کہ اب وہ بہت آگے نکل چکا ہے واپسی نا ممکن ہے۔ صغیر جب ماں باپ کی لڑائی دیکھتا تو پریشان ہو جاتا اور رات کو آسمان پر تارے دیکھتا رہتا اور سوچتا رہتا۔ ناہید نے صغیر کو سمجھایا کہ بیٹا تم پڑھ لکھ کر بڑے آدمی بننا، جاہل مت رہنا۔

صغیر کے ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی۔ اس کا زیادہ وقت پڑھائی میں یا سوچنے میں گزرتا۔ صغیر پڑھائی میں طاق تو نہ تھا مگر محنت کی لگن خوب تھی۔ اس دوران صغیر کے بڑے بھائیوں نے تعلیم چھوڑ کر اپنے والد جبار کے ساتھ اڈے (سٹینڈ) پر جانا شروع کر دیا۔ دونوں بھائی پڑھائی میں نکمے تھے اور ان کے بار بار فیل ہونے پر جبار نے ان کو اپنے کام پر ڈل دیا تھا۔ صغیر نے میٹرک اچھے نمبروں سے پاس کر لیا ناہید کے لیے یہ بڑی خوشخبری تھی کہ صغیر ضرور اس کے خواب پورے کرے گا۔

صغیر جب انٹر کے امتحانات دے رہا تھا۔ اسے امید تھی کہ وہ میڈیکل کالج کا میرٹ بنا لے گا تو امتحان کے دوران اس کی ماں کی طبیعت خراب ہو گئی اور وہ سات دن کے اندر اندر یہ دنیا چھوڑ گئی۔ صغیر کی ساری محبت اپنی ماں سے جڑی تھی اب اس کی زندگی ویران ہو گئی۔ امتحان میں کامیابی کی امید ختم ہو چکی تھی مگر صغیر نے دل پر پتھر رکھ کر امتحان دے دیے۔ جبار کو ناہید کی وفات کا کوئی دکھ نہ تھا۔ ناہید کی وفات کے چھ مہینے بعد ہی اس نے نائلہ جو کہ بیوہ تھی سے شادی کرلی۔

صغیر اپنے باپ کے اس عمل سے اتنا رنجیدہ ہوا کہ وہ جبار سے نفرت کرنے لگا۔ وہ زیادہ وقت اپنی تعلیم میں یا دوستوں کے ساتھ گزارتا تھا۔ انٹر کے امتحانات میں صغیر کامیاب تو ہو گیا لیکن میڈیکل کالج جانے کا خواب پورا نہ ہو سکا۔ صغیر نے بی۔ اے میں داخلہ لے لیا گریجویشن مکمل کرنا تھا کے جبار نے اس سے نوکری کرنے کا تقاضا شروع کر دیا۔ صغیر نے جبار کو لاکھ سمجھایا کے گریجویشن کے بعد اب نوکری نہیں ملتی مگر جبار نے کہا نہیں ملتی نہ ملے مگر وہ اب صغیر کی تعلیم کا خرچہ نہیں اٹھا سکتا۔ ایک نئی پریشانی نے صغیر کو آ لیا کہ اب وہ کیا کرے۔

ایک دن وہ دوستوں کے ساتھ اخبار پڑھ رہا تھا کہ اس نے اخبار میں کانسٹیبل کی نوکری کا اشتہار پڑھا۔ اپنے باپ سے پیسہ نہ لے جو کہ اس کی ماں سے ساری عمر محبت نہ کر سکا اور جو صرف خود سے محبت کرتا ہے۔ اس شے کو مدنظر رکھتے ہوئے اس نے پولیس میں بھرتی ہونے کا فیصلہ کر لیا۔ حالانکہ وہ یہ جانتا تھا کے یہ اس کی منزل نہیں ہے مگر حالات کے ہاتھوں مجبور ہو کر اس نے یہ فیصلہ کر لیا۔ اچھی تعلیم اور صحت مند ہونے کی وجہ سے وہ بغیر سفارش اور رشوت کے پولیس میں کانسٹیبل بھرتی ہو گیا۔ پولیس کا اپنا مزاج ہوتا ہے۔ جلد ہی صغیر کو معلوم ہوا کہ وہ اس محکمہ پولیس میں زیادہ عرصہ نہیں گزار سکے گا اور پریشان رہے گا۔ لیکن زندگی گزرتی گئی اور پانچ سال اس طرح گزر گئے۔ اس نے کئی مرتبہ مزید نوکریوں کے لیے امتحان دیے مگر پولیس کی مصروفیت اور سخت مقابلے کی وجہ سے وہ کامیاب نہ ہو سکا۔

شادی کی عمر ہو چکی تھی مگر جبار کی شرط تھی کہ صغیر جب تک اپنی شادی کے لیے پیسے نہیں اکٹھے کرے گا اس وقت تک وہ صغیر کی شادی نہیں کرے گا۔ صغیر اپنی قلیل آمدنی سے جو بھی بچت کرتا وہ کہیں نہ کہیں خرچ ہو جاتا۔ صغیر کو رشوت سے نفرت تھی، جبار نے بارہا اس کو کہا کہ وہ چاہے تو بہت پیسے کما سکتا ہے مگر صغیر کبھی نہ کہہ سکا کہ وہ رشوت نہیں لے سکتا۔ اگر وہ رشوت لے تو اس میں اور جبار میں پھر کیا فرق رہ جائے گا۔

ایک دن جبار نے ایک کار کی کاپی صغیر کو لاکر دی کہ وہ اس کی پولیس کلیرنس لا کر دے۔ صغیر کیونکہ اس وقت اسی برانچ میں کام کر رہا تھا۔ اس نے والد کے کہنے پر بغیر ریکارڈ دیکھے جبار کو کار کی کلیرنس کاپی بنوا کر دے دی۔ صغیر کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ کار چوری کی ہوگی۔ جبار نے چوری کی کار پولیس کلیرنس کی مدد سے بھاری قیمت پر بیچ دی مگر اس کا علم صغیر کو نہ تھا۔

کچھ دنوں بعد ایس پی صاحب نے صغیر کو اپنے دفتر بلوایا۔ جبکہ پچھلے سات سالوں میں کبھی بھی صغیر کو نہیں بلایا گیا تھا کیونکہ اس کا ریکارڈ صاف تھا۔ صغیر پریشان ہو گیا اور ایس پی صاحب کے اردل روم میں پیش ہوا۔ جب اسے معلوم ہوا کہ کلیرنس اس نے بنا کر دی ہے جبکہ گاڑی چوری کی ہے تو اس کو چکر آ گیا۔ ایس پی صاحب نے اس کو اپنا جواب جمع کروانے کو کہا ورنہ وہ اس کو نوکری سے نکال دیں گے۔ صغیر گھر پہنچا اور باپ سے بات کی، جبار مکر گیا کہ اسے معلوم نہ تھا کہ گاڑی چوری کی ہے۔ غلطی تمہاری ہے کہ تم نے ریکارڈ چیک کیے بغیر کلیرنس بنوا کردی۔ صغیر اپنے باپ کی بات سن کر دنگ رہ گیا اور کہا ”زندگی میں آج کے بعد وہ کسی کا اعتبار نہیں کرے گا“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments