پاکستان، امریکہ تعلقات: ’مشرق وسطیٰ کے دفاع‘ کے تناظر میں پاکستان کو ملنے والی پہلی امریکی فوجی امداد جس نے انڈیا کو روسی ہتھیاروں کی جانب راغب کیا

عمر فاروق - دفاعی تجزیہ کار


Pakistan Prime Minister Mohammed Ali is greeted by President Eisenhower upon arriving at the White House for a session expected to involve increased U.S. aid for the Moslem nation. After a half hour talk, the Prime Minister had lunch with the President.

سنہ 1954: پاکستانی وزیراعظم محمد علی کا امریکی صدر آئزن ہاور وائٹ ہاؤس میں استقبال کر رہے ہیں

امریکہ اور پاکستان کے درمیان 19 مئی 1954 کو باہمی دفاع کے ایک معاہدے پر کراچی میں دستخط ہوئے تھے جس کے تحت امریکہ نے پاکستان آرمی کو فوجی ساز و سامان اور تربیت دینے پر اتفاق کیا تھا۔

اس معاہدے کے بعد دونوں حکومتوں نے یہ اعلان بھی کیا تھا کہ یہ کوئی فوجی اتحاد نہیں اور نہ ہی امریکہ کو فوجی اڈے دینے پر دونوں ممالک کا کوئی اتفاق ہوا تھا۔

دونوں ممالک کے درمیان اس معاہدے پر دستخط سے پہلے، اُس وقت کے امریکی صدر آئزن ہاور نے اعلان کیا تھا کہ پاکستان کی فوجی ساز و سامان کے ذریعے مدد کے فیصلے کا مقصد سٹرٹیجک مشرق وسطیٰ کی دفاعی صلاحیت کو مضبوط کرنا ہے اور ساتھ ساتھ ہی انھوں نے یہ وعدہ بھی کیا تھا کہ اگر انڈیا کو ایسی مدد کی ضرورت ہے تو انڈیا کی طرف سے فوجی مدد کی درخواست پر ہمدردانہ غور کیا جائے گا۔

دونوں ممالک کی فوجی اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ابتدائی اختلافات اور غلط فہمیوں کے بعد امریکی محکمہ دفاع نے آخرکار سنہ 1955 میں پاکستانی بری افواج کی چار انفنٹری (پیدل فوج) اور ڈھائی آرمرڈ ڈویژنز (توپ خانہ) کو امریکی ہتھیاروں اور فوجی ساز و سامان سے لیس کر دیا جس کی تفصیل امریکہ پاکستان دفاعی تعلقات پر لکھی جانے والی متعدد کتابوں اور ڈی کلاسیفائی ہونے والی سرکاری دستاویزات میں درج ہے۔

قیام پاکستان کے بعد ملکی افواج کو فوجی ساز و سامان اور تربیت کی اشد ضرورت تھی۔ پیسہ نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان کی اُس وقت کی حکومت اس حالت میں نہیں تھی کہ اپنی فوج کو ہتھیار اور فوجی سازوسامان فراہم کر سکتی یا محدود مالی وسائل کے سبب اس نوعیت کی فوجی ضروریات کو پورا کر پاتی۔

پاکستان آرمی کے اُس وقت کے کمانڈر انچیف جنرل ایوب خان امریکہ کے ساتھ دفاعی تعلقات کے معمار سمجھے جاتے ہیں۔ امریکی انتظامیہ میں سرکاری افسروں کی دفتری سست روی کے باعث ہتھیاروں کی فراہمی جیسے مسائل کو وہ اکثر و بیشتر چٹکیوں میں حل کروا دیتے تھے۔

ہاور
پاکستان آرمی کے اُس وقت کے کمانڈر انچیف جنرل ایوب خان امریکہ کے ساتھ دفاعی تعلقات کے معمار سمجھے جاتے ہیں

پاکستانی مسلح افواج کے ہتھیاروں اور ساز و سامان کے لیے امریکی محکمہ دفاع کی طرف سے ابتدا میں جو فنڈز فراہم کیے گئے تھے وہ پاکستانی حکومت کی توقعات سے کہیں کم تھے۔

اس موضوع پر ’پاکستان ڈیفنس پالیسی‘ کے عنوان سے کتاب لکھنے والے پروفیسر پرویز اقبال چیمہ کے مطابق جنرل ایوب خان سمیت پاکستان کے سرکاری حکام بشمول وزیر اعظم واشنگٹن کے تجویز کردہ قلیل فنڈز پر کھلم کھلا تشویش کا اظہار کرتے تھے۔

ایوب خان کی طرف سے بھرپور اور مسلسل لابی کرنے کی وجہ سے امریکہ نے اس ضمن میں مختص کیے گئے فنڈ میں اضافہ کر دیا۔ یہ وہ وقت تھا جب جنرل ایوب خان نے ابھی مارشل لا نافذ نہیں کیا تھا۔

پاکستان کو فوجی امداد کے امریکی فیصلے کے اعلان سے ایک روز قبل صدر آئزن ہاور نے انڈین وزیراعظم نہرو کو ایک خط بھجوایا جس میں نہرو کو یقین دہانی کروائی گئی کہ پاکستان کو دی جانے والی فوجی امداد انڈیا کے خلاف نہیں اور امریکہ کی دی ہوئی فوجی مدد کو استعمال کرتے ہوئے اگر پاکستان نے کوئی جارحیت اختیار کی تو امریکہ ایسی کسی بھی جارحیت کو ناکام بنانے کے لیے فوری مناسب اقدام اٹھائے گا۔

یاد رہے کہ اس سے قبل وزیر اعظم نہرو نے آئزن ہاور کی انڈیا کی اسی طرح کی فوجی مدد کی پیشکش مسترد کر دی تھی۔ انڈین پارلیمان میں خطاب کرتے ہوئے نہرو نے امریکہ پر الزام عائد کیا کہ وہ ایشیائی امور میں مداخلت کر رہا ہے تاہم اپنے خطاب میں انھوں نے امریکی صدر پر سخت تنقید کا انداز نہیں اپنایا اور یہ کہا کہ ’مجھے یقین ہے کہ آئزن ہاور انڈیا کو نقصان نہیں پہنچانا چاہتے۔‘

بعد ازاں نئی دہلی میں امریکی سفارت خانے کے ڈی کلاسیفائی ہونے والے کیبلز (سفارتی مراسلوں) کے مطابق امریکی سفیر سے نجی گفتگو میں نہرو نے کہا تھا کہ انڈیا میں قلیل مقدار میں انتہا پسند مسلمان رہتے ہیں جن کو امید ہے کہ (فوجی) امداد سے مسلمان دوبارہ انڈیا پر غلبہ حاصل کر لیں گے۔

نہرو نے امریکی سفیر سے یہ بھی کہا کہ اس احساس نے درحقیقت ہندو انتہا پسندی کے خدشات کو جنم دیا ہے جو اس وقت ہر طرح کی فوجی تیاریوں کا مطالبہ کر رہے تھے، اس صورتحال سے نہ صرف انڈیا اور پاکستان کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوگیا بلکہ انڈیا کے اندر مذہبی طبقات کے بھی جذبات میں اضافہ ہوا یعنی ان کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ امداد کی فراہمی کے اس پروگرام (امریکی پالیسی) کے نتیجے میں انڈیا کی سیکولر پالیسی بھی متاثر ہو رہی ہے۔

نہرو
پاکستان کو امریکی فوجی امداد کی اطلاعات پر انڈین وزیراعظم نہرو نے پارلیمان میں خطاب کرتے ہوئے امریکہ پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ (امریکہ) ایشیا کے امور میں مداخلت کر رہا ہے

پاکستان کو فوجی امداد ’فری لنچ‘ نہیں تھا

امریکہ کی سفارت کاری پر ممتاز ترین تاریخ نویس رابرٹ میک موہن نے اپنی کتاب ‘کولڈ وار آن دی پیریفیری’ (قرب وجوار میں سرد جنگ) میں کوریا کی جنگ کو مشرق وسطیٰ میں امریکہ کی سکیورٹی اور خارجہ پالیسی کے از سر نو جائزے کی بڑی وجہ کے طور پر پیش کیا ہے اور اس تبدیلی کا سب سے پہلا فائدہ پاکستان کو ہوا۔

میک موہن اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ جون 1950 میں جب شمالی کوریا نے جنوبی کوریا کی 38 ویں ‘پیرالَل’ (دونوں حصوں کے درمیان سرحد) کو عبور کیا تو دوسری عالمی جنگ کے بعد بین الاقوامی تعلقات کی نوعیت کو امریکہ کی جانب سے سمجھنے میں بڑی ڈرامائی تبدیلیاں واقع ہوئیں۔

امریکہ کی قیادت میں مغربی دنیا نے سویت یونین کو ‘جارح’ اور ‘بے قابو فوجی طاقت’ کے طور پر دیکھنا شروع کیا۔ یورپ کے اندر بے چینی موجود تھی جبکہ امریکی فوجیں مغربی اور مشرقی یورپ کی سرحدوں پر سویت بری افواج کے سامنے موجود تھیں۔

مشرقی یورپ میں امریکی بری افواج کی مضبوط فوجی قوت موجود تھی لہذا امریکہ کے مغربی یورپی اتحادیوں پر سویت افواج کی جارحیت کا خطرہ نہ ہونے کے برابر تھا۔ شمالی کوریا کی جنوبی کوریا میں جارحیت کے نتیجے میں سویت یونین کی مشرقی ایشیا کو لاحق خطرہ کو امریکی فوج کی قیادت میں جدید ترین ہتھیاروں سے پسپا کر دیا گیا تھا۔

امریکہ کا اندازہ تھا کہ سویت یونین کی سرحد کے قریب سب سے زیادہ خطرے کا محاذ مشرق وسطیٰ ہے جو سویت جارحیت کے نتیجے میں محفوظ نہیں۔ مشرق وسطیٰ کے عرب ممالک ترقی پزیر تھے جن کے پاس فوجی ہتھیار اور افرادی قوت موجود نہیں تھی کہ وہ سویت یونین کی طرف سے چڑھائی کرنے پر اپنا دفاع کر سکتے۔

مشرق وسطیٰ کے عرب ممالک سویت یونین کے خلاف قابل بھروسہ فوجی قوت نہیں ہو سکتے تھے۔ اس صورتحال میں امریکی فوجی اور جنگی حکمت عملی بنانے والوں کی نظریں پاکستان پر جم گئیں جو جنوبی ایشیا کی ایک ابھرتی ہوئی مسلم قوم تھی جہاں کے لوگوں کی جنگی بہادری کی روایات بھی تھیں اور وہ سویت یونین کے اتنے قریب بھی تھا کہ جہاں سے سویت سرحد کے اندر بمباری بھی کی جا سکتی تھی اور نگرانی کرنے کے لیے جاسوسی کی کارروائیاں بھی ممکن تھیں۔

اس وقت کے امریکی سیکریٹری آف سٹیٹ جان فاسٹر ڈولَس پاکستان آرمی کے نوجوان افسران سے بہت متاثر تھے۔ بعدازاں انھوں نے امریکی کانگریس کمیٹی میں اس کی شہادت بھی دی۔ وہ پاکستان آرمی کے افسران کو ‘ناقابل اعتبار عربوں’ کے بالکل اُلٹ دیکھتے تھے۔

(Original Caption) Gift Gun...A Royal Pakistan Artillery sergeant inspects a 105mm Howitzer supplied under the U.S. Military Aid Program. Medium tanks, communication equipment and engineering supplies are among other major items being furnished Pakistan by the U.S. A team of instructors from Ft. Sill, Oklahoma, has been sent to the Pakistan Artillery School at Nowshera to train Pakistan Army officers in the use of the equipment. The officers will pass along the training to Pakistani troops. The veil of super-secrecy surrounding the aid program was lifted recently when newsmen got a look at the Nowshera installation.
پاکستانی فوجی اہلکار امریکہ کی جانب سے پاکستان کو فوجی امداد کے تحت ملنے والے ہتھیاروں کا معائنہ کر رہا ہے

امریکی فوج خارجہ پالیسی کے حکمت کاروں نے مشرق وسطیٰ کے دفاعی ڈھانچے میں پاکستان کو مستقل مقام دینے کے بارے میں سوچنا شروع کیا۔ اور پھر پاکستانی افواج کو اسلحہ سے لیس کرنا شروع کیا۔

وزیراعظم لیاقت علی خان سمیت اس وقت کی پاکستانی سویلین قیادت واشنگٹن میں ہونے والی بحث اور غوروفکر سے اچھی طرح آگاہ تھی کہ امریکی پالیسی سازوں کے حلقوں میں پاکستان کو مشرق وسطیٰ میں سویت جارحیت کے خلاف ‘فرسٹ لائن آف ڈیفنس’ (اولین دفاعی حصار) کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

امریکی فوجی حکمت کار سمجھتے تھے کہ پاکستانی افواج سویت فوج کی جارحیت کے عمل کو سست کر سکتی ہیں اور اس دوران مشرق وسطیٰ میں کسی فیصلہ کن فوجی کارروائی کے فیصلے تک پہنچنے میں امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں کو وقت میسر آ جائے گا جیسا کہ انھوں نے کوریا کے دارالحکومت میں کیا تھا۔

عمومی طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ ان دنوں پاکستانی بری افواج نے مغربی فوجی طاقتوں کے ساتھ مشترکہ جنگی مشقیں بھی کی تھیں جن میں مشرق وسطیٰ کے تیل کے کنوﺅں یا تنصیبات کو سویت یونین کے قبضے سے کو واپس لینے کے عمل کو دوہرایاگیا تھا۔

سنہ1950 میں مشرق وسطیٰ کے دفاعی ڈھانچے میں پاکستان کو شامل کرنے کی امریکی کوششیں ‘کاغذی شیر’ رہیں۔ پاکستان کی فوجی افرادی قوت کو وہ ‘آزاد دنیا’ کے خلاف سویت یونین کی مداخلت کا سدباب کرنے کا ذریعہ دیکھ رہے تھے۔ چین اور سویت یونین کی مدد سے شمالی کوریا کے جنوبی کوریا پر حملے کے بعد سویت یونین کی اس مداخلت کا خطرہ کئی گنا بڑھ گیا تاہم امریکیوں کو یقین تھا کہ تنازع کشمیر حل کیے بغیر فوجی خطرے کے طور پر انڈیا کو نیوٹرالائز (معتدل) کر کے پاکستان سے مشرق وسطیٰ کی تیل کی تنصیبات کا دفاع کروایا جائے۔

اس تمام عرصے کے دوران امریکی کھل کر پاکستان کو فنڈز دے رہے تھے اور پاکستان کی مسلح افواج کو ہتھیاروں سے لیس بھی کر رہے تھے اور یہ سب وہ مشرق وسطی کے دفاع کو ذہن میں رکھتے ہوئے کر رہے تھے۔

سنہ 1950 کی دہائی میں امریکی فوجی منصوبہ سازوں کے ذہن پر پاکستان کا جغرافیائی محل وقوع چھایا ہوا تھا۔ اس زمانے کے امریکی پالیسی دستاویزات سے معلوم ہوتا ہے کہ امریکیوں کے خیال میں کراچی اور لاہور کے علاقوں میں موجود امریکی بمبار طیارے بڑی آسانی سے مشرق وسطیٰ کی تیل کی تنصیبات اور سویت علاقوں تک پہنچ سکتے ہیں۔

اُس زمانے میں عام خیال یہ تھا کہ خطے میں کسی فوجی مہم جوئی یا فوجی تنازع میں پاکستان کو شراکت دار بنانے کی قیمت بہت زیادہ ہوگی۔ سویت یونین کے خلاف 1950 میں جب پاکستان پاکستان امریکی فوجی شراکت دار بنا تو اس وقت یہ بہت زیادہ تھی، امریکہ سے ہتھیار لینے کے بعد بھارت کے ساتھ معاملات بہتر بنانے کے امکانات ہوا میں تحلیل ہو گئے۔ خطے میں کشیدگی میں ڈرامائی طور پر اضافہ ہوگیا اور کشمیر کا مسئلہ لاینحل ہوگیا۔

فوج
ایوب خان کی کوششوں اور لابی کے بعد امریکہ فوجی امدادی پروگرام کی رقم 450 ملین ڈالر تک بڑھا دی گئی

اس دفاعی معاہدے کو پاکستان نے کیسے دیکھا؟

پاکستان کی تمام سیاسی اور فوجی اشرافیہ نے امریکہ سے فوجی امداد کے حصول کے لیے پوری تگ و دو کی تھی۔

پروفیسر چیمہ جیسے تجزیہ نگاروں کے خیال میں میڈیا اور رائے عامہ مشرقی سرحد سے لاحق خطرات پر متفق تھے اور انڈیا سے پاکستان کو محفوظ بنانے کے لیے غیرملکی فوجی امداد کے حصول کے حامی تھے اور ایوب خان امریکہ سے فوجی ہتھیاروں کے حصول کے سب سے زیادہ پیش پیش تھے۔ امریکہ سے فوجی امداد حاصل کرنے کی سفارتی کوششوں میں وہ سرفہرست شخص تھے۔

پاکستان کی فوجی اور سیاسی قیادت جلدی میں تھی اور بڑے پیمانے پر ہتھیاروں کے جلد ازجلد حصول کی خواہش مند تھی۔ ایوب خان نے دفاعی معاہدے پر دستخطوں سے پہلے فوری طور پر واشنگٹن کا دورہ کیا اور امریکی فوجی حکام کے ساتھ بات چیت کی۔ پاکستانی اشرافیہ امریکی جواب میں سست روی پر تشویش میں بھی مبتلا تھی۔

پینٹاگون کی بیوروکریسی کے سست رویہ کے بارے میں پاکستنای حکام بطور خاص فکرمند تھے اور اس ضمن میں امریکی انتظامیہ کو پاکستان کی اس خواہش سے آگاہ کیاگیا کہ پاکستان آرمی کو اُسی تیزی کے ساتھ ہتھیار فراہم کیے جائیں جیسا کہ ایک اور مسلمان ملک ترکی کے معاملے میں کیاگیا تھا۔ اُن دنوں ترکی کو بھی امریکہ کی جانب سے فوجی امداد کی فراہمی جاری تھی۔

پروفیسر چیمہ نے اپنی کتاب میں لکھا کہ ایوب خان اس وقت بے حد پریشان ہوئے جب امریکہ نے 1954 کے سال میں ابتدائی طور پر پاکستان کی مسلح افواج کے لیے 29.5 ملین ڈالر کی رقم کا اعلان کیا۔ اس رقم میں آرمی کے لیے 16.5 ملین، بحریہ کے لیے پانچ اور فضائیہ کے لیے آٹھ ملین ڈالر کی رقم شامل تھی۔

پروفیسر پرویز اقبال چیمہ کی کتاب ‘پاکستانز ڈیفنس پالیسی’ کے مطابق پاکستان میں امریکی فوجی نمائندوں سے تفصیلی بات چیت کے بعد ایوب خان بڑے دل برداشتہ اور دل شکستہ تھے۔ پروفیسر چیمہ کے مطابق ایوب خان نے اس وقت کے وزیراعظم کو آگاہ کیا کہ اگر پاکستان کو مزید رقم نہ ملی جیسا کہ سیکسن (امریکی فوجی نمائندے) نے عندیہ دیا تھا تو پاکستان کے لیے یہ ہی بہتر ہوگا کہ امریکہ کے ساتھ دفاعی معاہدہ قطعی طور پر نہ کرنا ہی بہتر ہوگا۔

ایوب خان کی مسلسل لابی کی وجہ سے یہ ممکن ہوا کہ واشنگٹن نے پاکستان کے لیے امداد بڑھا کر 171 ملین ڈالر کر دی جو ساڑھے تین سال کے عرصے پر محیط تھی۔

پروفیسر چیمہ کے مطابق امریکہ کے نئے عہد کے تحت امریکی پینٹاگون نے پاکستان آرمی کے چار انفینڑی اور ڈیڑھ آرمرڈ ڈویژنز کو جدید ترین ہتھیاروں سے لیس کیا۔ 12 بحری جہازوں میں تباہ کرنے والے جنگی جہاز، بارودی سرنگیں صاف کرنے والے بحری جہاز، جنگی جہازوں کو راستے میں تباہ کرنے والے سکواڈرن، ایک ہلکی بمباری کرنے والا سکواڈرن اور ایک ٹرانسپورٹ سکواڈرن شامل تھے۔ تنصیبات کی تعمیر کے لیے بجٹ میں اضافہ کیاگیا، چالیس ہزار اضافی دستوں پر آنے والے اخراجات بھی اس میں شامل تھے جو ان نئے ہتھیاروں کے لیے درکار تھے۔

ہوائی اڈوں اور کراچی بندرگاہ کی بہتری بھی اس کا حصہ تھی۔ اس نئے امریکی وعدے کے باوجود پاکستانی فوج کو ہتھیاروں اور سازوسامان کی فراہمی کا عمل سست رہا۔ ایوب خان اپنے امریکی دوستوں سے شکایت کرتے رہے اور اکثر وہ (امریکی) اُن کی بات مان لیا کرتے تھے۔

پروفیسر چیمہ کے مطابق 1955 کے وسط میں پینٹاگون نے تخمینہ لگایا کہ پاکستان کو امریکی فوجی پروگرام کی کل لاگت ابتدائی تخمینہ کے مطابق 171 ملین ڈالر نہیں بلکہ 300 ملین ڈالر ہوگی۔ ایوب خان کی کوششوں اور لابی کے بعد امریکہ فوجی امدادی پروگرام کی رقم 450 ملین ڈالر تک بڑھا دی گئی۔

ہتھیاروں کی فراہمی کے بعد پابندی

اُس زمانے میں عام تصور یہ ہی تھا کہ خطے میں کسی فوجی مہم جوئی یا فوجی تنازع میں پاکستان کو شراکت دار بنانے کی قیمت بہت زیادہ ہوگی۔ سویت یونین کے خلاف 1950 میں جب پاکستان پاکستان امریکی فوجی شراکت دار بنا تو اس وقت یہ بہت زیادہ تھی، امریکہ سے ہتھیار لینے کے بعد انڈیا کے ساتھ معاملات بہتر بنانے کے امکانات ہوا میں تحلیل ہوگئے۔ خطے میں کشیدگی میں ڈرامائی طور پر اضافہ ہوگیا اور کشمیر کا مسئلہ لاینحل ہوگیا۔

پاکستانی اشرافیہ کا اس معاملے پر اتفاق نہیں تھا کہ امریکی فوجی امداد پاکستان کے فائدے میں ہوگی یا نہیں۔ ایک بڑی فوجی اسٹیبلشمنٹ کو چلانا اور اس کے اخراجات کو برقرار رکھنا جو امریکی فوجی امداد کے حصول کے لیے ضروری تھی، پاکستانی حکومت کے لیے ناقابل برداشت تھی۔ اس وقت کے وزیر خارجہ چوہدری محمد علی نے امریکی حکام کے ساتھ اپنی ملاقات میں اس پہلو کو نمایاں کرتے ہوئے اپنی تشویش کا اظہار کیا تھا۔

پاکستان نے فوجی ہتھیاروں اور جنگی سازوسامان کے معیار کے لحاظ سے انڈیا پر یقیناً ایک سبقت تو حاصل کی لیکن یہ تھوڑے ہی عرصے کے لیے تھی کیونکہ ایک طرف وزیراعظم نہرو کی قیادت میں انڈین حکومت نے فوری طور پر ہتھیاروں کی فراہمی کے لیے روس سے رابطہ کیا تو دوسری جانب جیسے ہی 1965 کی جنگ شروع ہوئی تو امریکہ نے پاکستان پر پابندیاں لگا دیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32484 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments