لڑکیاں گھر چھوڑنے پر کیوں مجبور ہوتی ہیں؟


ہماری ایک دوست کے گھر ایک عورت پچیس سال سے برتن اور کپڑے دھو رہی ہے۔ وہ بتاتی ہیں کہ جب اس خاتون نے نیا نیا کام شروع کیا تھا۔ اس وقت اس کے دو نومولود بچے تھے۔ اس کا شوہر ٹیکسی چلاتا تھا۔ گھر کا گزارا نہ ہونے کی وجہ سے اس نے گھروں میں کام کاج شروع کر دیا۔ میاں ٹیکسی لے کر نکل جاتا وہ بیچاری کام کرنے نکل جاتی۔ اس طرح بچوں پر توجہ نہ ہونے کے برابر رہ گئی۔ بیٹے سے زیادہ پیار اور توجہ کی وجہ سے بیٹی احساس کمتری کا شکار رہتی تھی۔

خاتون کو ایک امیر فیملی کے گھر کام مل گیا جنھوں نے بچوں کی تعلیم کا خرچ اٹھانے کی ذمہ داری لی۔ آٹھ دس سال سکول کی فیس یونیفارم اور کتابوں کے پیسے بھی دیتے رہے۔ لیکن بچے نہ پڑھے۔ بیٹے کو سکول چھڑوا کر بجلی کی دکان میں بٹھا دیا، جبکہ بچی گھر میں رہتی۔ بچی بلوغت کی عمر کو پہنچی تو اس کے محلے کے آوارہ لڑکے سے معاشقے کی خبریں والدین تک پہنچنے لگیں۔ ماں نے بچی کے رشتے کے لئے اپنے اور اپنے شوہر کے خاندان میں بہت کوششیں کیں۔

لیکن ان کی غربت کو دیکھتے ہوئے کوئی رشتہ لینے پر راضی نہ ہوا۔ ماں کی بے بسی کو دیکھتے ہوئے بچی نے خود سے شادی کا فیصلہ کر لیا۔ ایک روز خاتون بچی کو ہماری دوست کے گھر لے آئی اور کہا کہ باجی آپ ہی اسے سمجھاؤ۔ باجی نے بچی کو بہت سمجھایا۔ اسے بتانے کی کوشش کی کہ شادی شدہ زندگی کانٹوں کی سیج ہوتی ہے۔ یہ دور سے بہت اچھی لگتی ہے۔ لیکن یہ ذمہ داریوں سے بھری ہوتی ہے۔ ابھی تمہاری عمر ہی کیا ہے۔ پڑھو اور والدین کی دی ہوئی آسائشوں کو انجوائے کرو۔

والدین کے سمجھانے کے باوجود وہ ایک ایسے لڑکے کے ساتھ بھاگ گئی۔ جو کوئی کام نہیں کرتا تھا۔ سال چھ مہینے ناراضگی کے بعد والدین نے بچی کو گھر آنے کی اجازت دے دی۔ لڑکے کو نشے کی لت لگی تھی۔ شادی کے دو سال بعد بچی نے لوگوں کے گھروں میں کام کرنا شروع کر دیا۔ چھ سالوں میں اللہ نے تین بیٹوں کی نعمت سے بھی نوارا۔ لیکن بات نہ بنی۔ ہر وقت کی لڑائیوں کے بعد چند روز قبل لڑکی نے خلع لے لی۔ اب وہ گھروں میں صفائی کر کے اپنا گزر بسر کر رہی ہے۔

سوال یہ ہے کہ لڑکی گھر چھوڑنے پر کیوں مجبور ہوتی ہے؟ اس سوال کے جواب تو ہزاروں ہوسکتے ہیں لیکن ہم اسے وسیع پیمانے سے دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

ہمارے ملک کی اکثریت تین طرح کے خاندانوں پر مشتمل ہے۔ پہلا نمبر ان گھرانوں کا ہے جنہیں اللہ پاک نے صرف بیٹوں کی نعمت سے نوازا ہے۔ ایسے گھرانوں کو ہمارے معاشرے میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ بیٹوں کی وجہ سے لوگ ان سے مراسم بڑھانے کی کوششوں میں لگے رہتے ہیں۔ والدین سر اٹھا کر رشتہ داروں اور دوستوں کے گھروں میں جاتے ہیں۔ اپنے بیٹوں کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے۔ بیٹیوں والے انھیں مظلوم اور مسکین نظر آتے ہیں۔ یہ بیٹیوں والوں کو نجی محفلوں میں طنز اور تنقید کا نشانہ بھی بناتے نظر آتے ہیں۔

دوسرا نمبر ان گھروں کا آتا ہے۔ جنھیں اللہ تعالٰی نے صرف بیٹیوں کی نعمت سے نوازا ہے۔ ایسے گھروں میں اکثر لوگ بیٹے کی خواہش میں کئی بیٹیاں پیدا کر لیتے ہیں۔ بعض دوسری شادی بھی کر لیتے ہیں۔ ایسے گھرانوں کے والدین کی شناخت بڑی آسانی سے کی جا سکتی ہیں۔ یہ لوگ بہت ہی ڈرپوک اور خوش اخلاق ہوتے ہیں۔ ہر کسی سے بنا کر رکھتے ہیں۔ خاندان کے لڑائی جھگڑوں سے دور رہتے ہیں۔ جن گھروں میں بیٹے ہوتے ہیں ان سے بنا کر رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

وہ دو چار باتیں سنا بھی دیں تو ہنس کر درگزر کر دیتے ہیں۔ بیٹیوں والے والدین کو ساری عمر بیٹا نہ ہونے کے طعنے ملتے رہتے ہیں۔ خاندان، محلے اور رشتہ داروں میں سے کوئی بھی اپنا غصہ اتارنے کے لئے ان پر الزام لگا سکتا ہے۔ معاشرے اور خاندان کا خوف ان کے گھروں کے اندر صاف جھلکتا نظر آتا ہے۔ والدین پر جوانی میں ہی بڑھاپے کے آثار نمایاں ظاہر ہونے لگتے ہیں۔ بیماریاں جلد ہی انھیں گھیر لیتی ہیں۔ ایسے گھروں کی بچیوں میں احساس کمتری نمایاں نظر آتی ہے۔ والدین بیٹیوں کے بوجھ کو سر سے اتارنے کے لئے صحیح اور غلط ہر قسم کا فیصلہ کرنے میں دیر نہیں لگاتے۔ والدین کی سختیاں، معاشی حالات، والدین کے غلط فیصلے بچیوں میں اکثر بغاوت کے جذبات پیدا کرتے ہیں۔

تیسرا قبیلہ ایسے خاندانوں کا ہے جنھیں خدا نے بیٹے اور بیٹیوں دونوں کی نعمت سے نوازتا ہے۔ ایسے گھروں میں لڑکوں کو شہزادوں والی اہمیت ملتی ہے۔ بیٹوں کو زیادہ اور بیٹیوں کو کم اہمیت دی جاتی ہے۔ بیٹیوں کو سرکاری یا گھر کے پاس کسی چھوٹے موٹے سکول میں ڈالا جاتا ہے۔ جبکہ بیٹے کے لئے شہر کے بہترین سکول کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ بیٹی کو خرچے کے دس روپے دیے جاتے ہیں تو وہیں بیٹے کو خرچے کے بیس روپے دیے جاتے ہیں۔

بیٹی کو ناشتے میں انڈا دیا جاتا ہے تو بیٹے کو اس کے ساتھ مکھن اور ملائی بھی دی جاتی ہیں۔ سالن کی بہترین بوٹی بیٹے کی پلیٹ میں ڈالی جاتی ہے۔ بچیوں کو یہ باور کروانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ تم تو پرائی امانت ہو۔ ہمارا بازو تو بیٹے نے ہی بننا ہے۔ ایسی بچیاں صبح سکول جاتی ہیں واپسی پر گھر کے سارے کام کرتی ہیں۔ نا انصافیوں کا یہ سلسلہ بچیوں میں مایوسی اور بغاوت کے جذبات کو ابھارنے کا سبب بنتا ہے۔ جس کی وجہ سے لڑکیاں انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور ہوجاتی ہیں۔

گھروں سے بھاگ کر شادی کرنے کے زیادہ تر واقعات انہی خاندانوں میں پیش آتے ہیں جہاں بیٹوں اور بیٹیوں کے درمیان اعتدال کا رویہ نہیں اپنایا جاتا۔ جہاں بچیوں پر بے جا پابندیاں لگائی جاتی ہیں۔ بارہ سے بیس سال کی عمر کی لڑکیوں میں بغاوت کے ایسے رجحانات زیادہ پائے جاتے ہیں۔ گھروں سے بھاگنے والی یہ لڑکیاں مایوسیوں اور نا انصافیوں کی وجہ سے غیر متوازن رویہ رکھتی ہیں اسی رویے کی وجہ سے صحیح لڑکے کا انتخاب نہیں کر پاتیں۔ لڑکے کے گھر والے انھیں ساری زندگی قبول نہیں کرتے۔ اسی وجہ سے گھر سے بھاگنے والی ان لڑکیوں کی شادی کے چند سالوں بعد ہی طلاق ہو جاتی ہے اور یہ بقیہ زندگی چھوٹی موٹی نوکریوں یا گھروں میں کام کاج کر کے گزارتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments