کابوس زدہ معاشرہ


لگتا ہے عقل کے معاملے میں ہم ازلی بدقسمت واقع ہوئے ہیں۔ ہمیں ہمہ وقت ایسے لوگ ہی میسر آتے ہیں جن کا غور و فکر سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا مگر فکر کا پیکر بن کر سامنے آتے رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم خواب غفلت سے جاگنے کی بجائے جہالت کی نیند اور مغالطوں کے دلدل میں مزید پھنستے ہی چلے جاتے ہیں۔ یاد رکھئے خرد کی نیند صرف بلاؤں کو ہی جنم دے سکتی ہے۔ اور ہم تو خرد افروز کی نہیں بلکہ خرد بیزار اور عقل سے فرار ہونے والے لوگ ہیں۔

ہمارے عقلی فرار کے اس رویے کو جدیدیت نے جہاں مہمیز دی، تو وہاں مابعد جدیدیت نے اس عمل تیز کر دیا ہے۔ انیسویں صدی کے آخری نصف میں ہمارا واسطہ جب جدیدیت سے پڑا تو ہمارے پلے کچھ نہیں پڑا۔ جدیدیت کے ساتھ تفاعل کے نتیجے میں ہمارے ہاں دو قسم کے رویے پیدا ہوئے۔ ایک تو اپنے خول میں بند ہونا اور دوسرا عذرخوانہ جدیدیت۔ پہلے رویے کے زیر اثر تو ہم نے جدیدیت کو یکسر مسترد ہی کر دیا۔ یوں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہم نے اپنے ذہن کو اپنے لیے زندان میں تبدیل کر دیا۔

ایسا زندان جہاں نئے سوچ کی ضیا پہنچ ہی نہیں سکتی تھی اور نہ ہی تبدیلی کی تازہ ہوا اس تعفن زدہ ذہنی زندان میں داخل ہو سکتی تھی۔ اس کی وجہ سے ہمارے ذہن اور معروضی دنیا میں دوئی پیدا ہوئی۔ یہ دوئی اب ایک گہری اور اندھی کھائی میں تبدیل ہو گئی ہے، اور ہم اس کھائی کے مکین ہیں۔ یہ کھائی ہمی نہ صرف اس دنیا سے بیگانہ بنا رہی ہے بلکہ ہمارے عقل کو کھا رہی ہے۔

اب صورتحال یہ ہے کہ ہمارے ذہن میں دنیا کے متعلق الگ تخیلات ہیں اور دوسری طرف دنیا میں چیزوں اور اشیا کا انتظام و انصرام ایک مختلف فکری رویہ پر مبنی ہے، جس میں خرد اور روشن خیالی کا اہم کردار ہوتا ہے۔ جب ذہن میں تاریکی بھرٰی ہو تو وہ باہر کی دنیا کی تفہیم تو کجا وہ اس میں موجود باقی ماندہ چراغوں کو گل کر کے تاریکی میں مزید اضافہ کر دیتا ہے۔ جبکہ روشن خیالی میں پلا بڑا ذہن دنیا کو اپنے روشن افکار سے منور کر دیتا ہے۔

اس تاریکی کے زندان میں رہ کر ہم ایک ایسی عفریت بن چکے ہیں جو نئی آواز، سوچ اور عمل سے سہم جاتے ہیں۔ اسی لئے تو ہم نئے سوچنے اور عمل کرنے والوں کو کھا جاتے ہیں۔ ہماری حالت افلاطون کی حکایت میں بیان کیے گئے غار میں مقید قیدیوں کی طرح ہے جو غار سے باہر آنے سے والے کی روشنی کے متعلق باتوں کو مسترد کرتے ہیں کیونکہ غار میں لگی آگ سے پیدا شدہ ہمارے اپنے سایوں کو ہم حقیقت سمجھ بیٹھے ہیں۔ اگر کوئی غار سے باہر سورج کی روشنی میں موجود دنیا کا منظر ہمیں سمجھانے کی کوشش کرے تو ہم اسے مرتد قرار دے کر سنگسار کر دیتے ہیں۔

ہمیں اپنی آزادی سے بہت ڈر لگتا ہے اسی لیے تو ہم اپنے مغالطوں میں پناہ لیتے ہیں۔ ہم ان کو توڑنے کی بجائے ان کو مزید مضبوط بنانا چاہتے ہیں تاکہ ہماری مغالطوں پر مبنی تصور دنیا محفوظ رہے۔ اپنے آپ کی طرف مراجعت کا یہ سفر ہمارے ذہنی دریچوں کو بند کر دیتا ہے اور یوں مکالمے کی جگہ خودکلامی لے لیتی ہے اور ذہن راسخ العقیدہ میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ ہمارے ذہن میں دنیا کے متعلق تصور اور دنیا کی حقیقت کے درمیان میں بہت بڑا خلا ہے جس کی وجہ سے ہم غلط زمانی کا شکار ہیں۔

ایسی ذہنیت کے زیر اثر ہم اگر کچھ کرنے کی کوشش کرتے بھی ہیں تو وہ جدیدیت کی ایک بھونڈی نقالی ہی ہوتی ہے۔ زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم روزمرہ کی زندگی سے مثالیں لیتے ہیں۔ جدید علمیات میں علم کی تشکیل میں کانفرنسوں اور سیمیناروں کا بہت اہم کردار رہا ہے۔ آپ ہمارے کسی بھی شہر اور قصبے میں جائیں، آپ کو مذہبی تنظیموں کی طرف سے کانفرنسوں اور سیمینارز کے پوسٹرز اور بینرز کی بھرمار ملے گی، مگر ان سرگرمیوں میں علم کی کوئی نئی جہت ابھر کے سامنے نہیں آئے گی بلکہ وہاں مغالطوں کی چگالی نظر آئے گی۔

طالب علمی کے زمانے میں بسوں اور ویگنوں میں مولوی حضرات کے تقریروں کے کیسٹ چلتے تھے۔ ایسی ہی ایک تقریر میں ایک مولانا صاحب فرما رہے تھے کہ امریکہ چاند پہ اس لیے پہنچا ہے کہ اس نے وہ سوراخ دریافت کر لیا تھا جس کے ذریعے پہلے زمانے کے مسلمان عرش تک پہنچے تھے۔ بعض حضرات ایٹم بم کا فارمولا اور کہکشاؤں کی تشکیل کا فارمولا بھی مذہب کی کتابوں میں تلاش کرتے نظر آتے ہیں۔ اس رویے کو بعد از حقیقت توضیع قرار دیا جاتا ہے ۔

عذر خواہی ذہنیت کی بدولت ہم نہ سائنس میں کچھ ایجاد کر سکے اور نہ ہی عمرانی علوم بشمول الہیات کی تحقیق میں کچھ حصہ ڈال سکے ہیں۔ اب صورتحال یہ ہے کہ ہمارے پاس کوئی سوال موجود نہیں ہے کیونکہ سوال کرنے کی اجازت جو نہیں ہے۔ دو مہینے پہلے جرمنی کے لڈوگ میک ملن یونیورسٹی کے عمرانیات اور بشریات کے شعبے کے چیئر میرے گھر پر تشریف لائے۔ دوستوں کے ساتھ ایک نشست میں وہ بار بار کہہ رہے تھے کہ فلاں معاملے کے متعلق میرے پاس کافی سوالات ہیں۔

میں نے کہا کہ آپ کے سوال اٹھانے سے پہلے ہی ہمارے پاس درجن جوابات تیار ہوتے ہیں۔ ہم ایک ایسا معاشرہ ہیں جہاں پر ایسے جوابات موجود ہے جن پر سوال نہیں کیا جاسکتا ہے۔ باقی یہاں سوال پیدا کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ہم ذہنی طور پر پتھر کی مانند خشک ہو گئے ہیں۔ ہم سے سوال پیدا کرنا پتھر سے تیل نکالنے کے مترادف ہے۔ ہمارے معاشرے میں سوال سے پہلے ہر چیز کا جواب موجود ہوتا ہے۔ سوال جواب کی ماں ہے، مگر ہم ہیں کہ بغیر ماں کے بچہ پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

اسی لیے تو علمی دنیا میں ہم مذاق بن کر رہ گئے ہیں۔ انسان کو جو چیز حیوان سے ممتاز کرتی ہے وہ یہ ہے کہ انسان جبلت کا مکمل قیدی نہیں ہے۔ جبلت سے آزادی ہی انسان میں سوال کرنے کی صلاحیت پیدا کرتی ہے۔ ہمارا معاشرہ اس لحاظ سے حیوان کے قریب ہے کہ ان کی طرح ہمارے پاس بھی سوال نہیں ہیں۔ ہاں اپنی جبلی اختیاجات کی تشفی کے لیے حل ہمارے ہاں بدرجہ اتم موجود ہیں۔ اسی لیے ہم اب معاشرتی حیوان نہیں رہے۔ اب اس لفظ کی ترکیب سے معاشرتی اٹھ گیا ہے اور خالی حیوان رہ گیا ہے۔ ہماری حالت تو دیکھو کہ جدیدیت تک پہنچتے پہنچتے ہم انسان کم اور حیوان زیادہ ہو گئے۔

جدیدیت میں دنیا کو مابعدالطبعی پلان سے نہیں بلکہ انسانی خرد و فہم سے چلایا جاتا ہے۔ جدیدیت کا ایک خاصہ یہ ہے کہ وہ روایت کے چکر اور تاریخی تسلسل کو منقطع اور ختم کر دیتی ہے۔ یوں انسان اپنے پرانے تعلقات اور طرز فکر سے محروم ہوجاتا ہے۔ وہ بغیر کسی ماورائی امداد کے اپنے آپ کوایک ایسی دنیا میں پاتا ہے جو غیر شخصی ہے اور اس کی احساسات سے بے نیاز ہے۔ یہ صورتحال انسان کو وجودی بحران کا شکار کر دیتی ہے۔ اس بحران سے نکلنے کے لیے انسان کو اپنی ذات کی نئے سرے سے تشکیل کرنی ہوتی ہے۔

ایسے ہی بحرانی صورتحال میں ہی عہد ساز مفکر و افکار پیدا ہوتے ہیں۔ مگر وہ معاشرے جہاں سوال نہیں اٹھایا جاتا وہاں جواب نہیں ہوتا بس آزمائے ہوئے نسخے ہوتے ہیں۔ یوں ایسے معاشرے فکر سے عاری ہوتے ہیں۔ فکر سے محروم ایسے ہی معاشرے پرانے دو رکے مردہ خیالات سے جدیدیت کے پیدا کردہ وجودی بحران کی بیماری کا علاج ڈھونڈنے لگتے ہیں۔ پاکستان بننے کے بعد ہمیں ادیبوں کی ایک ایسی کھیپ دیکھنے کو ملتی ہے جو ریاست کے ساتھ مل کر مذہب اور تصوف کا منجن بیچتے ہیں اور لوگ اپنے علم کی بنیاد ان کے مفروضوں، لا فکر افکار اور نسخوں پر بناتے ہیں۔

قدرت اللہ شہاب، اشفاق احمد، ممتاز مفتی اور اس قبیل کے لوگ جدیدیت کے معموں کا جواب اپنے عطائی تصوف سے دے رہے ہوتے ہیں۔ یہی وہ دور ہے جب گرورجنیش عرف اوشو دنیا میں نئی روحانیت کا نقیب اور جدیدیت کے مارے لوگوں کا مسیحا بن کر ابھرتا ہے۔ لاکھوں لوگ اس کے دیوانے بن جاتے ہیں۔ اوشو کی مقبولیت کے دھارے میں بہنے کی بجائے معروف جرمن/امریکی فلاسفر ایرک فرام نے لوگوں کو متنبہ کیا کہ یہ منڈی کی روحانیت انسانوں کو مزید اندھیروں میں دھکیلے گی۔

اوشو کے خیالات کو فکری فیشن کی پیداوار کہنا ٹھیک ہے۔ فرام نے دعوی کیا تھا کہ اس روحانیت کا وفور بہت جلد ختم ہو جائے گا اور ایسا ہی ہوا۔ چونکہ اوشو میرا پسندیدہ فلسفی تھا اس لیے میں نے ان کو فلسفے کے مضمون میں تلاش کرنے کی کوشش کی۔ میں جب لندن میں فلسفے کا مضمون پڑھنے یونیورسٹی گیا تو یہ دیکھ کر سخت مایوسی ہوئی کہ اوشو فلسفے کے سلیبس میں شامل ہی نہیں ہے۔ ہاں اسے عمرانیات میں جدید زمانے میں کلٹ کی تشکیل کے حوالے سے ضرور پڑھایا جاتا ہے۔ اس سے میرے فلسفیانہ زعم کو شدید زک پہنچا کیونکہ کہ جس کو میں فلسفی سمجھتا تھا وہ کچھ اور نکلا۔

ایرک فرام نے جدید معاشرے کے معاملات کا بہت گہرائی کے ساتھ نفسیاتی نقطہ نظر سے مطالعہ کیا اور درجنوں کتابوں کی صورت میں ہمیں جدید تہذیب میں ان کارفرما عوامل کی نشاندہی کی جو تہذیب اور شخصیت میں تخریب اور تعمیر کا باعث بنتیں ہیں۔ مغرب میں اوشو رجحان کے دوران فرام جیسے متعدد فلسفی موجود تھے جو اس دور کے ذہنی و روحانی عطائیوں کو عیاں کر رہے تھے۔ مگر ایسی صورتحال میں ہمارے ہاں مفکر کم نظر آتے ہیں اور ادیب زیادہ۔ اور یہ

ادیب اصل تصویر دکھانے کی بجائے ہمیں فکری سراب میں رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم پہ حقیقت عیاں ہی نہیں ہوتی ہے۔ ہمارے افکار کا سر چشمہ مفکر نہیں ادیب ہوتے ہیں۔ ادیب ادب پیدا کرتا ہے اور مفکر افکار۔ ممتاز مفتی اور اشفاق احمد کے قبیل کے ادیب مذہب، نفسیات اور فلسفہ سمجھانے لگے اور مذہب و فلسفے پر جدید علوم کی روشنی میں تحقیق کرنے والے لوگ افکار کے میدان میں حاشیے پر چلے گئے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ قدرت اللہ شہاب اور اشفاق احمد کو سب جانتے ہیں اور علامہ آئی آئی قاضی، ڈاکٹر فضل الرحمان، ڈاکٹر حمید اللہ، ایم ایم شریف، ڈاکٹر اختر احسن، سید محمد تقی، سی اے قادر وغیرہ کو کوئی نہیں جانتا۔

ہمارے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں جو چیز جس ماخذ سے تلاش کرنا چاہیے اس کے علاوہ ہم ہر چیز میں اسے ڈھونڈتے ہیں۔ ہم فلسفے کو شاعری میں تلاش کریں گے مگر فلسفے کی کتابوں میں نہیں۔ حد یہ ہے کہ ہم اپنی حکومتی پالیسیاں بھی شاعری کی روشنی میں بناتے ہیں نہ کہ پبلک پالسی کے سائنس کی روشنی میں۔ مذہبی کتابوں میں اخلاقی ہدایات نہیں بلکہ فزکس اور کیمسٹری کے فارمولے زیادہ تلاش کرتے ہیں۔ نفسیاتی الجھنوں کے حل کے لیے ماہر نفسیات کی بجائے پیروں اور عاملوں رجوع کریں گے۔

جمالیات میں اخلاق اور اقدار ڈھونڈتے بیں۔ علم کی تخلیق کے لیے سائنسی بنیادوں پر تربیت کی بجائے آمد کے منتظر ہوں گے ۔ وجدان کو عقل پر ترجیح دیں گے اسی لیے تو مزاروں پر جم غفیر لگا رہتا ہے اور لائبریریاں سنسان نظر آتی ہیں۔ یہ سب کچھ ہمارے ذہن اور دنیا میں دوئی کی وجہ سے ہے جس میں ہمارا موضوعی ذہن باہر کی معروضی دنیا کی تفہیم ہی نہیں کر پا رہا ہے۔ یہی رویہ دو گونی جدیدیت کو جنم دے رہا ہے۔ ہمارے ذہن کا سافٹ ویئر قبل از جدیدیت کا ہے اور جسم جدید/ مابعد الجدید دور میں موجود ہے۔

ایسا ذہن اکیسویں صدی میں کسی کام کا نہیں ہے۔ اس بوسیدہ ذہن کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے، ورنہ یہ اپنے اندر ہی اپنی متناقضوں کے بوجھ تلے ڈھ جائے گا۔ ہم چونکہ ڈرپوک قوم واقع ہوئے ہیں، اس لیے تبدیلی سے ڈرتے ہیں۔ اور اگر تبدیلی لانا بھی چاہتے ہیں تو ایسی لاتے ہیں جس میں ترقی معکوس ہو۔ دو گونی جدیدیت کے زیر اثر ہم اسلام کو جدید بنانے کی بجائے جدیدیت کو مسلمان بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔

یہ تو تھے جدیدیت کے دور میں ہمارے ذہنی کارنامے۔ اب ذرا مابعد الجدیدیت کے دور میں ہماری کارگزاریوں پر نظر ڈالتے ہیں۔ اکیسویں صدی میں دنیا مابعد الجدیدیت کے عہد میں داخل ہو چکی ہے۔ ایسے میں کچھ امید تو مابعد الجدیدیت کے زمانے میں مواصلات اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبوں میں رونما ہونے والے انقلاب سے تھی کہ اس کی بدولت ہم میں کچھ تو عقل آئے گی۔ مگر ہم نے یہاں بھی اپنی جہالت کے لیے خوراک ڈھونڈ نکالی ہے۔ پہلے اینکرز اور تجزیہ نگاروں کی صورت میں پرائیویٹ ٹی وی چینلز پر سقراط ابھر کے سامنے آئے اور بائیس کروڈ عوام بائیس اینکرز کے علم کی محتاج ہو گئی۔

حسن نثار کے قبیل کے لوگ دانشور بن گئے اور ڈاکٹر مبارک علی، ڈاکٹر منظور احمد اور ڈاکٹر عائشہ جلال جیسے لوگ اس ایڈیٹ بکس یعنی ٹی وی سے تقریباً غائب ہو گئے کیونکہ ان کی سوچ، شخصیت اور انداز بیان میڈیا کے تقاضوں سے مطابقت نہیں رکھتے ہیں۔ اب سوشل میڈیا کی بدولت فیس بک اور یو ٹیوب پر ایسے سکالرز کی بھر مار ہے جو کسی بھی معاملے پر بڑے اعتماد سے اپنا علم آپ کے ساتھ شیئر کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے بڑے بڑے عالموں اور گرووں کے پاس لاکھوں کی تعداد میں فالوورز ہیں۔ آج کا دور ست گرووں، طارق جمیلوں، مفتی مسعودیوں، انجنیئر محمد علی مرزا جیسے لوگوں کا ہے۔ اب معیار مقدار تعین کرتی ہے۔ معیار کا معیار کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ اس میں یرگن ہیبرماس اور چارلس ٹیلر جیسے لوگوں کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے۔

کچھ سالوں سے پاکستان میں ہمیں عقل سکھانے کے لئے ایک نئی پود موٹیویشنل سپیکرز کی صورت میں ابھر کر سامنے آئی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ اس میں ریاستی اور تعلیمی ادارے بھی پیش پیش ہیں۔ حماد صافی نام کے بچے کو ننھا پروفیسر قرار دے کر یونیورسٹیوں میں لے جاکر طالب علموں کو اس کے علم سے فیض یاب کرایا جاتا ہے اور خوب تشہیر کی جاتی ہے۔ ایک بندے کو مکمل پروفیسر بنے کے لیے 23 سال پڑھانا اور تحقیق کرنا ہوتا ہے۔ مگر ہم تو اتنے نابغہ واقع ہوئے ہیں کہ 13 سال کی عمر میں ہی بچے کو پروفیسر بنا دیتے ہیں۔

ہم نے تو جدید علمیات سے وابستہ مقدس الفاظ کا بھی ستیاناس کر دیا ہے۔ اس میں زیادتی طلبا کے ساتھ تو ہے ہی، مگر اس سے بھی زیادہ زیادتی اس بچے کے ساتھ ہے جس کو علم کا وہم ہونے کے ساتھ ساتھ عالم ہونے کے مغالطے میں بھی مبتلا کر دیا گیا ہے۔ جب بچے کے ذہن میں عالم بکل شئى کا یقین داخل ہو تو وہ کچھ نہیں سیکھ پاتا ہے۔ حالیہ برسوں میں موٹیویشنل سپیکرز کے علم کا دائرہ مزید وسیع ہو گیا ہے۔ دیکھا دیکھی ہمارے دیسی ست گرو بھر گئے ہیں۔

کچھ دنوں پہلے موٹیویشنل سپیکرز قاسم علی شاہ اور انوار الحق کا ایک اشتہار ”اچھی بیوی کیسے بنیں“ پڑھنے کو ملا۔ اس میں یہ سپیکرز عورتوں کو سکھائیں گے کہ اچھی بیوی کیسے بننا ہے۔ کچھ عرصے پہلے ایک عالم ایک اسکول اور کالج کے خواتین اساتذہ کو سکھا رہے تھے کہ کس طرح بانجھ پن کی شکار عورتیں اسلامی طریقے سے بچے پیدا کر سکتی ہیں۔ پاکستانی مرد کا عورت پر قبضے کرنے کا جنون دیکھ کر تو یوں لگتا ہے کہ بہت جلد یہ مرد عورتوں کو ماہواری سے نمٹنے کے طریقے بھی بتائے گا۔

آج ہمیں جن بلاؤں کا سامنا ہے اس میں سب سے بڑی بلائیں علم کا واہمہ اور ان کو پھیلانے والے عالم، پدرشاہی ذہنیت، ذہن و دنیا کی دوئی پیدا کرنے والی سوچ اور ایسے عالم و مسیحا ہے جو ہمارے ذہنوں میں روشنی کی بجائے تاریک زندان بناتے ہیں۔ تاریکی میں کوئی بھی بیج نہیں پھوٹتا اور پودا پھلتا پھولتا نہیں ہے۔ پودا صرف روشنی میں ہی پنپتا ہے۔ لہذا اپنی ذہن کو روشن خیالوں سے منور کریں اور تاریکی کی بلاؤں کو اپنی ذات سے جلاوطن کر دیں۔

چونکہ جہل کو خرد سے خطرہ ہوتا ہے اس لیے خرد کے گرد پہرے بٹھا دیے جاتے ہیں اور جہل کو آزاد چھوڑ دیا گیا ہے۔ آج کے زمانے میں جہل وہ پیشوا لوگ ہیں جو ایسا علم پھیلاتے ہیں جو سوچ سے سوال نہیں بلکہ دوری پیدا کرتا ہے۔ چونکہ سوچنا ایک کوفت والا عمل ہے اس لیے لوگ سوچنے کی بجائے سوچ سے دور بھاگتے ہیں اور سراب میں پناہ لیتے ہیں۔ آپ جتنا سوچ و فکر سے دور بھاگیں گے، جہل کی یہ بلائیں اتنا ہی زیادہ آپ پر حاوی ہو جائیں گی۔

تبدیلی کا خوف اور مردہ خیالات کی پرچھائیں ہمارے ذہن اور روح پر قابوس کی طرح حاوی ہوچکے ہیں۔ قابوس کے مرض میں مبتلا آدمی کو حالت خواب میں یہ معلوم ہوتا ہے کہ کسی شخص نے اسے دبا لیا ہے اور وہ اس کی مہیب شکل سے ڈر کر آواز نکالتا ہے مگر آواز نکلتی نہیں اور اس کے بوجھ سے گویا پسا جاتا ہے۔ ہمارے ذہن اور روح کے اوپر جس جن کا سایہ ہے اس کو دور کرنے کے لیے کسی بنگالی جادوگر بابا کے پاس جانے کی ضرورت نہیں ہے۔

آپ بس اپنی زندگی کے اردگرد بنی ان دیکھی زنجیروں کو پہچانیے اور ان کو توڑ ڈالئے۔ آپ ان دیکھی زنجیروں کو دیکھنے کے تب ہی قابل ہوں گے جب آب سوال کریں گے۔ اور سوال کا بیج سوچ سے ہی پھوٹتا ہے۔ سو سوچیے اور سوال کیجئے اور جو شخص، ادارہ یا نظریہ اس سوال پر برانگیختہ ہو جائے اور آپ کو خاموش کرنے کی کوشش کرے تو سمجھنا کہ وہ ہی قابوس ہے جو آپ کو مسلسل اپنے بوجھ تلے پس رہا ہے اور آپ کی آواز دبا رہا ہے۔ اس قابوس زدہ معاشرے میں سوچ سوئی ہوئی ہے اور آواز دبی ہوئی ہے۔ ہم اپنی سوچ کو سوچ کر انسان بن سکتے ہیں۔ اس کے بغیر ہمارا درجہ حیوان سے بھی کمتر رہے گا۔

مصنف افکار کے تاریخ کے قاری ہیں سماجی فلسفے کے طالب علم ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments