والدین کا مقام و مرتبہ


اسلام تہذیب و آداب اور آپس میں ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔ اللہ رب العزت نے انسانوں کو مختلف رشتوں میں پرویا ہے، ان میں کسی کو باپ بنایا ہے تو کسی کو ماں کا درجہ دیا ہے، اور کسی کو بیٹا بنایا ہے تو کسی کو بیٹی کی پاکیزہ نسبت عطاء کی ہے، غرض رشتے بنا کر اللہ تعالیٰ نے ان کے حقوق مقرر فرما دیے ہیں، ان حقوق میں سے ہر ایک کا حق ادا کر نا ضروری ہے، لیکن والدین کے حق کو اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں اپنی بندگی اور اطاعت کے فوراً بعد ذکر فرمایا ہے، یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ رشتوں میں سب سے بڑا حق والدین کا ہے۔

سورۃ بنی اسرائیل میں اللہ تعالی نے انسان کو اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک اور نرمی کا برتاؤ کرنے کا حکم دیا ہے۔

ترجمہ: اور آپ کے پروردگار کا فرمان ہے کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو۔ اگر ان دونوں میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائے۔ تو ان کو اف تک نہ کہو۔ اور نہ ان کو جھڑ کو ۔ بلکہ ان سے نر می سے بات کرو۔ اور اپنے بازوں کو نرمی اور عاجزی سے ان کے سامنے پھیلاؤ۔ اور ان کے لئے یوں دعا رحمت کرو۔ اے میرے پروردگار (تو ان ) پر اس طرح رحم فرما جس طرح ان لوگوں نے بچپن میں مجھ پر (رحمت اور شفقت) عطا کی (سورۃ بنی اسرائیل آیت نمبر 42، 32) اللہ تعالی نے اس آیت میں اپنی عبادت اور بندگی کے حکم کے ساتھ ہی والدین کے ساتھ نیکی اور حسن سلوک کا حکم بھی دیا ہے اس سے معلوم ہوا کہ والدین کی خدمت نہایت ضروری اور اطاعت کی حامل ہے۔

والدین اولاد پر ظلم زیادتی بھی کرے تو اولاد کو ان کے ظلم و زیادتی کا جواب دینے کی اجازت نہیں ہے۔ بلکہ ان کو سراپا اطاعت و نیاز بنے رہنا چاہیے۔ جھڑکنا تو دور کی بات ان کے سامنے اف تک کرنے کی اجازت نہیں۔ سورۃ لقمان میں اللہ تعالی نے فرمایا کہ اپنے ماں باپ کے احسانات پر اللہ تعالی کا شکر ادا کرو۔ ارشاد خداوند قدوس ہے ترجمہ: میرا اور اپنے والدین کا شکریہ ادا کرو (تم سب کو ) میری طرف لوٹ کر آ نا ہے۔ اگر وہ تجھ پر دباؤ ڈالیں کہ تو میرے ساتھ اس کو شریک ٹھہرا جس کا تجھے کچھ علم نہیں تو (اس مطالبہ معصیت میں ) ان کی اطاعت ہر گز نہ کرو۔

لیکن دنیا میں ان سے حسن سلوک کرتے رہو، (سورۃ لقمان آیت 41، 51) او لاد کے فرائض میں شامل ہے کہ وہ اللہ اور رسول ﷺ کی نافرمانی کے سوا والدین کے ہر حکم کی تکمیل کریں۔ اور ان سے ہمیشہ محبت اور نرمی کا سلوک کریں۔ ان کی رائے کو ترجیح دیں۔ یعنی ان کی رائے کو مقدم کر کے اسے تسلیم کریں۔ اور اس کی بجا آوری کریں۔ خاص طور پر جب والدین بڑھاپے میں پہنچ جائیں۔ تو ان کے جذبات اور احساسات کا خیال کریں۔ ان سے نرمی اور محبت سے پیش آئیں۔

اپنی مصروفیات میں کچھ وقت ان کے لئے مخصوص کر دیں۔ ان کی بھرپور خدمت کریں۔ اور ان کی وفات کے بعد ان کے ایصال ثواب کے لئے وقتاً فوقتاً دعائے مغفرت و رحمت کا اہتمام کرتے رہیں۔ جیسا کہ قرآن پاک میں ارشاد باری ہے کہ، ان کے حق میں یوں دعائے رحمت کرو، اے اللہ تو ان دونوں پر اپنا رحم فرما جس طرح انہوں نے بچپن میں ہم کو (رحمت و شفقت سے پالا) ۔ سورۃ بنی اسرائیل آیت نمبر 32۔ اس حوالے میں ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اسوہ حسنہ ہمارے لئے بہترین مثال ہے۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے لئے والدین کے لئے اور تمام مسلمانوں کے لئے دعائے مغفرت کیا کرتے تھے۔ جس کو قرآن پاک میں اس طرح ذکر کیا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے۔ ترجمہ: اے میرے رب مجھے بخش دے، میرے والدین کو بخش دے اور مسلمانوں کو بخش دے جس دن حساب قائم ہو گا۔ (سورۃ ابراہیم آیت نمبر 14) والد کی عظمت و بزرگی کا ایک پہلو یہ ہے کہ اس کائنات کی عظیم ترین ہستی کا اعزاز بھی ایک مرد (حضرت محمد مصطفی ﷺ ) کو حاصل ہے۔

اور آپ ﷺ پر دین اور دنیا کی ہر قسم کی عظمت و فضیلت اور بزرگی کو ختم کر دیا گیا ہے ۔ یہ بات بطور خاص ذہن نشین رہنی چاہیے کہ قرآن پاک کے احکامات اور فرامین رسول ﷺ کے مندرجات میں کہیں بھی ماں باپ کے مقام مرتبہ میں تفاوت اور تقابل کا ذکر نہیں۔ بلکہ ہر دوسری جگہ ماں باپ کی اطاعت و خدمت کا حکم ہے اور ظاہر ہے کہ والدین میں باپ درجہ اول کا حامل ہے۔ کہ بنی نوع انسان کی ابتداء مرد سے ہی ہوئی تھی والد کی عظمت و فضیلت کا ایک روشن پہلو یہ بھی ہے کہ بنی نوع انسان کی ابتداء والد سے ہوئی۔

اور والد انسان کو عدم سے وجود میں لانی والی واحد ذات ہے۔ یعنی اس کی پیدائش کا سبب و ذریعہ ہے۔ اور اس گلشن انسانیت کی ابتداء باپ (حضرت آدم) سے ہوئی۔ اور ان ہی سے عورت (حضرت حوا) کا وجود تیار کیا گیا ہے۔ والد کی عظمت و شان کا ایک روشن اور درخشاں پہلو یہ بھی ہے۔ چنانچہ حضرت ابو درداء بیان کرتے ہیں۔ کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا۔ ترجمہ : ”قیامت کے دن تمہیں تمہارے ناموں اور تمہارے باپوں کے نام سے پکارا جائے گا۔

پس تم اپنے نام اچھے رکھا کرو۔“ (مشکوۃ المصابیح، صفحہ 804) اولاد کی تربیت میں والد کا کردار بڑا اہم اور ضروری ہوتا ہے۔ جبکہ اس کے برعکس یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ماں کی حد سے زیادہ نرمی اور لاڈ پیار اور نڈر، بے باک اور بعض اوقات بے قابو ہو جاتی ہیں۔ والدین کی دعائیں اولاد کے حق میں ضرور قبول ہوتی ہیں۔ جو اپنے والدین کو راضی رکھتا ہے اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت کی بھلائیاں عطا فرماتے ہیں یکم جون کو والدین کا عالمی دن منایا جاتا ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ والدین کو صرف عالمی دن پر نہیں بلکہ پورا سال، ہفتہ کے سات دن، چوبیس گھنٹے یاد رکھا جائے ان کی دل و جان سے خدمت کی جائے۔

جن کے والدین دونوں یا ان میں سے کوئی ایک با حیات ہوں تو ان کو اللہ کی بہت بڑی نعمت سمجھ کر ان کی فرمانبرداری کرے، ان کے ساتھ حسن سلوک کرے جتنا ہو سکے ان کی خدمت کرے اور ان کے حقوق کو ادا کرنے کی بھر پور کوشش کرے اور جن کے والدین دونوں یا ان میں سے کوئی ایک اس دنیا سے رخصت ہو گئے ہو، تو ان کے ساتھ اب حسن سلوک یہ ہے کہ ان کی وصیت کو نافذ کرے، ان کے ذمہ کوئی قرضہ ہوتو اسے ادا کرے، شرعی حصص کے مطابق میراث کو تقسیم کرے، خود دینی تعلیم حاصل کرے اور اس پر عمل کرے تلاوت قرآن اور ان کی طرف سے نفلی صدقہ اور نفلی حج و عمرہ کرے، ان کے لیے دعا کرے، اللہ سے ان کے لئے رحمت و مغفرت طلب کرے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا مانگتے ہوئے ہمیشہ اپنی دعا میں یہ قرآنی دعا مانگنی چاہیے

( اے ہمارے پروردگار جس طرح میرے ماں باپ نے بچپن میں مجھے پالا ہے آپ بھی ان کے ساتھ رحمت والا معاملہ کیجئے۔ ) (القرآن)

اللہ تعالیٰ ہمیں ماں باپ کی دل و جان سے خدمت اور ان کے لیے دعائیں کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین یا رب العالمین


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments