ریپ ایک سماجی روگ ہے


ریپ کو لاعلاج مرض کینسر کا درجہ مت دیں، اسے کرونا تشخیص کے بعد ہنگامی صورتحال کی مانند نمٹا جائے اور اسے جڑ سے اکھاڑنے کی ویکسین درکار ہے۔ اسے ریاستی، حکومتی، سیاسی، سماجی، تعلیمی اور تکنیکی بنیادوں پر طے کرنا ہو گا اور نمٹنا ہو گا۔

دور حاضر میں جدید اور ناگزیر ذرائع ابلاغ کی وجہ سے اچھی، بری، غلط اور صحیح ہر طرح کی معلومات پھیلنے اور عوامی رسائی بننے میں صرف ایک کلک کا فاصلہ ہے۔ اس وقت ہمیں محض شہر یا ملک کی صورت حال کا ادراک نہیں بلکہ دنیا کا منظر نامہ چوبیس گھنٹے ہماری دسترس میں ہوتا ہے۔ اس تمہید کا میرے عنوان کے ساتھ تعلق بالواسطہ اور بلاواسطہ کہا جا سکتا ہے۔

گزشتہ ڈیرہ برس میں دو دل دہلا دینے والے، انسانی سوچ کے پرخچے اڑا دینے والے واقعات؛ ستمبر 2020 میں لاہور رنگ روڈ پر سفر کرنے والی عورت کا اپنے کم سن بچوں کی موجودگی میں گینگ ریپ اور اسی ہفتے ملتان سے کراچی ٹرین پر سفر کرنے والی خاتون کا دوران سفر گینگ ریپ۔

ہم بلا شبہ ایک ایسے معاشرے میں زندگی بسر کر رہے ہیں جہاں عورت پر جسمانی تشدد، جنسی ہراسانی، ذہنی تشدد کوئی حیرت کی بات نہیں۔ ماضی میں ایسی خبر عام ہونے کا ذریعہ نہ ہونے کے برابر تھا تو خیال تھا کہ واقعات بھی کم ہوتے ہیں۔ ایک اخبار کے کسی کونے میں عورت کے ساتھ جنسی زیادتی کی کوئی بے ضرر سی خبر لگ جاتی تھی۔ آج خبر کا معاملہ اس کے برعکس ہے۔

لہذا شاید ہی کوئی دن گزرتا ہو جب درندگی کی ہولناک خبر ہمارے کانوں تک نہ پہنچتی ہو۔ بچیوں کے ساتھ جنسی تشدد، اغوا، قتل، عورت کے ساتھ جنسی تشدد منظر عام پر ہے۔

ریپ واقعات کے رونما ہونے سے یا اسے ٹھٹھے میں اڑانے سے جھلکتا ہے کہ معاشرے میں موجود گروہ کے رویے اور سوچ میں ریپ جائز ہے یا کم سے کم اس کی گنجائش موجود ہے۔

جبکہ اس کی روک تھام کے لیے واضح رویہ اور سوچ اپنانا ہو گا جس میں مکمل سماجی ناپسندیدگی اور صفر برداشت لازم ہے۔ طاقت کے توازن کو منتقل کرنا ہو گا۔ جرم کے مرتکب کو کمزور اور متاثر کو طاقتور کرنا ہو گا۔

اس پر اظہار افسوس، اظہار تشویش، پرزور مذمت ناکافی ہیں۔ اس کا جامع، ٹھوس، بلا خوف تردید آہنی حل درکار ہے۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے واقعہ پیش آنے کے بعد حرکت میں آتے ہیں۔ لہذا قانونی چارہ جوئی مسئلے کا ثانوی جزو ہے۔ اور مجرم کو کیفر کردار تک پہنچانا اس مسئلے کا مکمل حل نہیں۔ ہمیں اس درندگی کے عمل کو روکنا درکار ہے۔

عورت پر کبھی معاشرے، کبھی مذہب اور کبھی حیا کے نام سے منسوب بے شمار قدغن لگائے جاتے ہیں۔ وہیں بے شمار بہتان بھی بطور تمغہ سجائے جاتے ہیں۔ اگر شریف عورت تھی تو رات کو اندھیرے میں گھر سے باہر کیوں نکلی، اکیلی سفر کیوں کیا، ضرورت پس پشت ڈال کر اگلے دن سویرا ہونے کا انتظار کر لیتی۔

مگر سوال یہ ہے کہ ایسی سوچ اور رویہ محفوظ معاشرہ دے سکا؟ نہیں! آج عورت غیر محفوظ نہیں معاشرہ غیر محفوظ ہے۔ اس رویے کو جنم دینے والی سوچ غیر محفظ ہے۔

ریپ درندگی ہے، یہ انتہائی درجے کا جرم ہے، اس کے لیے اجتماعی سطح ہر سوچ اور رویے میں کھلے عام نشاندہی، ناپسندیدگی، سماجی بائیکاٹ اور مسترد کرنے کو فخر بنانا ہو گا، نہ کہ چھپانا اور پردہ پوشی سے درندوں کی تعداد میں اضافہ کرتے رہیں۔

ریپ کے مجرم کے لیے معاشرے میں منہ چھپانے کی جگہ نہیں ہونی چاہیے اور قانون میں گنجائش نہیں ہونی چاہیے نہ کہ متاثرہ کو منہ چھپانے کی جگہ میسر نہ آئے اور وہ زندگی بھر کے لیے کلنک ماتھے پہ لیے زندہ لاش کی مانند سانسیں لے یا خودکشی کر لے۔

آج ہمارے سکول، ہسپتال، یونیورسٹی، سڑک، ریل گاڑی، مدارس، ہوسٹل، رات کا وقت، دن کی روشنی، پارک نیز کوئی پبلک مقام محفوظ نہیں گردانا جا سکتا۔ ان میں سے کوئی بھی ایسی جگہ نہیں جہاں ریپ کے واقعات کی گواہی نہ ملی ہو۔

لہذا ریپ کی وجہ اکیلی عورت، رات کا سفر، سڑک پہ جانا، پیدل چلنا، گاڑی چلانا یا عورت کا وجود نہیں۔ ریپ سوچ اور رویے کی درندگی ہے۔ اس درندگی کا سدباب کرنا ہو گا۔ اس کے لیے اجتماعی فکر و عمل کی ضرورت ہے۔

تعلیمی نصاب میں جہاں اور بہت سارے اسباق دیے جاتے ہیں وہاں بچیوں اور بچوں کو سیلف ڈیفنس کی تکنیکی تربیت اور ریپ اور ہرا سگی سے بچاؤ کے طریقے پڑھانے لازم قرار دینا چاہیے۔

عورت کو نہیں سوچ کو بدلیں، عورت کی نقل و حرکت نہیں غلط رویے کو روکیں۔

سلمیٰ بٹ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سلمیٰ بٹ

سلمیٰ بٹ کا تعلق پاکستان مسلم لیگ (ن) سے ہے اور وہ پنجاب اسمبلی کی رکن ہیں۔ ان کی خاص دلچسپی خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے میں ہے۔

salma-butt has 6 posts and counting.See all posts by salma-butt

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments