ناممکن کو ممکن بنانے والے معذور نوجوان کی کہانی


میاں خرم شہزاد کا تعلق لاہور سے ہے۔ پولیو کا شکار ہیں۔ ایم۔ فل تک تعلیم حاصل کی ہے۔ پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ میں سترہویں گریڈ کے افسر ہیں۔ خصوصی خدمت ٹیم آف سپیشل پرسنز کے نام سے ایک این۔ جی۔ او چلا رہے ہیں۔ 2018 ء میں معذور افراد کی خدمت کے حوالے سے ”انسپرائرنگ سول ایوارڈ“ حاصل کر چکے ہیں۔ خصوصی خدمت کے نام سے ایک یوٹیوب چینل بھی چلا رہے ہیں۔

خرم کے والد صاحب سٹور چلاتے ہیں۔ خاندان تین بھائیوں پر مشتمل ہے سب شادی شدہ اور خوشحال زندگی گزار رہے ہیں

پیدائشی طور پر نارمل تھے۔ دو سال کی عمر میں تیز بخار میں مبتلا ہوئے۔ ڈاکٹر کو دکھانے پر پولیو کی تشخیص ہوئی۔ علاج کے لئے والدین نے بہت بھاگ دوڑ کی۔ ملک کے تمام بڑے ہسپتالوں سے علاج کروایا۔ حکیموں اور زیارتوں پر گئے۔ کوئی بھی جاننے والا اچھے ہسپتال یا ڈاکٹر کا پتہ بتاتا تو فوراً رجوع کرتے۔ یہاں تک کہ خاندان مالی مشکلات کا شکار ہو گیا۔ ایک وقت ایسا بھی آیا جب والد محترم کو علاج کے لئے اپنی دکان بھی بیچنا پڑی۔ بھاگ دوڑ کے نتیجے میں افاقہ ہوا لیکن پھر بھی خرم پیروں پر چلنے کے قابل نہ ہو سکے۔

ہوش سنبھالا تو اپنے آپ کو ایسا ہی پایا۔ چلنے پھرنے سے محروم ہونے کے باوجود جوش اور جذبے سے بھر پور تھے۔ بھائی کھینچا تانی کر کے کھیلوں میں لگا لیتے تو خرم ان سے مقابلہ کرنے کی بھر پور کوشش کرتے۔

پڑھنے کی عمر کو پہنچے تو گھر کے نزدیک ترین سکول میں داخلے کی کوشش کی۔ لیکن خرم کی حالت دیکھ کر سکول والے داخلہ دینے سے انکار کر دیتے۔ اس وقت خرم کے پاس ویل چیئر نہیں تھی۔ ویل چیئر مہنگی ہونے کی وجہ سے اسے امیروں کا شوق کہا جاتا تھا۔ جس کی وجہ سے گھر سے دور داخلہ کروانا ممکن نہ تھا۔ بڑی منت سماجت کے بعد گھر کے نزدیک سکول میں داخلہ ہوا۔ سواری کا بندوبست نہ ہونے کی وجہ سے والدہ صاحبہ کندھوں اٹھا کر سکول لے جاتیں۔

خدا کے خاص کرم سے خرم اچھے نمبروں سے میٹرک کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ کالج گھر سے دور، آنے جانے اور رسائی کی مشکلات کو دیکھ کر مزید پڑھنے کا ارادہ ہی ترک کر دیا۔ سوچا کہ کیوں نہ گھر کے نزدیک موبائل کی دکان کھولی جائے۔ لیکن خدا کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ خرم بخار میں مبتلا ہوئے۔ والدہ صاحبہ چیک اپ کے لئے ڈاکٹر افتخار کے پاس لے گئیں۔ ڈاکٹر صاحب کو خرم کا دکان کھولنے کا ارادہ بالکل پسند نہ آیا۔ تعلیم کی اہمیت پر ایسا لیکچر دیا کہ خرم کی زندگی ہی بدل گئی۔

ہمت کی اور لاہور کے آئی۔ بی۔ ایل کالج میں داخلہ لے لیا۔ کالج کے پرنسپل مبارک حیات نے خرم کی بھر پور حوصلہ افزائی کی اور انھیں سکالر شپ بھی دی۔ کالج میں رسائی کے نامناسب انتظامات تھے۔ جن کی وجہ سے ابتدا میں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ آہستہ آہستہ نئے دوست بننا شروع ہوئے۔ دوست اتنی محبت کرنے والے تھے کہ خرم کو اٹھا کر ایک کلاس سے دوسری کلاس میں لے جایا کرتے۔ اساتذہ کی شفقت اور دوستوں کی محبت سے خرم تعلیم کے راستے میں حائل رکاوٹیں عبور کرتے چلے گئے اور آئی۔ بی۔ ایل سے گریجوایشن کرنے میں کامیاب ہو گئے۔

ماسٹرز کے لئے یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ یونیورسٹی کا دور بھی دوستوں اور اساتذہ کے تعاون سے پایا تکمیل تک پہنچا۔ خرم جانتے تھے کہ انھیں نوکری آسانی سے نہیں ملنے والی، اس لیے ایم۔ اے کے بعد ڈگری اور دیگر اسناد کی سینکڑوں کاپیاں کروا لیں۔ فوٹو کاپیوں پر اس وقت تین ہزار روپے کا خرچہ آیا۔ بس پھر نہ آؤ دیکھا نہ تاؤ جہاں کہیں بھی مطلب کی نوکری آتی اپلائی کر دیتے۔

خرم نے نوکری کے حصول کے لئے بہت دھکے کھائے۔ ہر جگہ سے ملنے والے انکار نے انھیں باغی بنا دیا۔ یہ معذور افراد کے حقوق کے لئے ہونے والے ہر احتجاج میں شرکت کرنے لگے۔ خرم اب تک تین سرکاری نوکریاں کر چکے ہیں پہلی نوکری سپیشل ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ میں ڈیلی ویجر کے طور پر کی۔ یہ نوکری ایک احتجاج کے نتیجے میں ملی۔ دوسری نوکری ایکسائز ڈیپارٹمنٹ میں ملی۔ آج کل خرم پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ میں بطور گزیٹڈ افسر خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ یہ نوکری اوپن میرٹ کا امتحان پاس کرنے کے بعد حاصل کی۔

خرم احتجاج اور سوشل ورک کے حوالے سے وطن عزیز کی جانی مانی شخصیت ہیں۔ کچھ عرصہ قبل پنجاب حکومت نے لاہور شہر میں سپیڈو بس سروس کے نام سے ایک ٹرانسپورٹ سروس کا آغاز کیا۔ معذور افراد کے مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے قابل رسائی بسیں منگوائی گئیں۔ بس سروس کے عملے کا رویہ معذور افراد سے بہت برا ہوا کرتا تھا۔ اکثر معذور افراد کو دیکھتے ہی بس دوڑا دی جاتی تھی۔ خرم نے بس سروس کے عملے کے خلاف شدید احتجاج کیا۔ ٹریفک پولیس اور تھانوں میں رپورٹس درج کروائیں۔ جس کے بعد بس سروس کا عملہ رویہ تبدیل کرنے پر مجبور ہوا۔

اپنی زندگی میں پیش آنے والی مشکلات کے بعد خرم نے فیصلہ کیا کہ یہ اپنے جیسے دوسرے معذور افراد کے لئے آسانیاں پیدا کرنے کی پوری کوشش کریں گے۔ 2012 سے سوشل ورک سے جڑے ہیں۔ اب تک سینکڑوں معذور افراد کو تین پہیوں والے موٹر سائیکل، الیکٹرک اور مینؤل ویل چیئرز، قرض حسنہ، کاروبار شروع کرنے میں مدد، میڈیکل کے آلات اور سہولیات جیسی بہت سی سہولیات فراہم کر چکے ہیں۔ اس کے علاوہ آن لائن کورسز اور ٹریننگز بھی کرواتے ہیں۔ خرم کے کام کو دیکھتے ہوئے بہت سے ڈونر حضرات ان کے ساتھ جڑ چکے ہیں اور ان کی ایک کال پر لوگوں کی مدد کے لئے تیار ہو جاتے ہیں۔

خرم کہتے ہیں کہ ”بہتر زندگی بسر کرنے کے لئے انسان کو سو جتن کرنا پڑتے ہیں، دنیا کا ہر انسان کامیاب زندگی گزارنے کی خواہش رکھتا ہے، لیکن کامیابی سوچنے سے حاصل نہیں کی جا سکتی اس کے حصول کے لئے بھر پور محنت اور استقامت درکار ہوتی ہے، زندگی انسان سے قدم قدم پر امتحان لیتی ہے، غلط پاسورڈ سے معمولی موبائل نہیں کھلتا تو غلط طرز زندگی سے کامیابی کیسے ممکن ہو سکتی ہے؟“

معذور افراد کا طرز زندگی بدلنے اور آسانیاں پیدا کرنے کے لئے خرم نے ایک یوٹیوب چینل بھی بنا رکھا ہے۔ جس کا نام خصوصی خدمت آفیشل ہے۔ چینل پر طرز زندگی بہتر بنانے کے طریقوں سے لے کر تعلیم، ہنر اور روزگار کے حوالے سے ویڈیوز اپ لوڈ کی جاتی ہیں۔

2017 ء میں خرم رشتہ ازدواج سے منسلک ہوئے۔ بیگم صاحبہ نارمل ہیں۔ سائیکالوجی میں ایم۔ ایس۔ سی ہیں۔ شادی پسند سے کی ہے۔ جس پر بیگم کے گھر والے راضی نہیں تھے۔ اس موقع پر بیگم نے بھر پور ساتھ دیا۔ بڑی مشکل سے گھر والوں کو رشتے پر آمادہ کیا۔ خرم کو خدا نے بیٹی جیسی نعمت سے نوازا ہے۔ جس کا نام مرحبا خرم ہے۔

فارغ رہنا پسند نہیں ہے۔ فراغت کے اوقات میں سوشل ورک کرتے ہیں۔ اپنے جیسے سپیشل افراد کو رہنمائی فراہم کرتے ہیں۔ موٹیویشنل ویڈیوز اور ٹریننگ پروگرام کرواتے ہیں۔

خرم کہتے ہیں کہ معذور افراد تعلیم پر خاص توجہ دیں۔ تعلیم معذور شخص کا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ یہ انسان کو کبھی اکیلا نہیں چھوڑتی۔ اس کے ساتھ اپنے مشاغل اور صلاحیتوں کو نکھارنے کی کوشش کریں۔ اپنے جیسے دوسرے معذور افراد کا ہاتھ تھامنے کی کوشش کریں۔ کیونکہ ایک معذور کا درد دوسرا معذور ہی بہتر طور پر سمجھ سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments