غلام ابن غلام


کسی گاؤں میں اگر کوئی امیر لڑکا اجڈ لہجے میں ایک میلے کپڑوں میں چمکتی آنکھوں والے بچے سے مخاطب ہو کر پوچھے کہ
اوئے ایڈھے آ (اوئے ادھر آ)
جی۔ بچہ قمیض کے دامن کو چھوتا ہوا سامنے آ جاتا ہے ۔
اگلا سوال گاؤں کی ”تہذیب“ والے جانتے ہیں کہ اکثر پوچھا جاتا ہے۔
”اوئے تسی کون ہوندے او“ ) ( یعنی تمہاری ذات، خاندان کیا ہے؟ تمہاری اپنی پہچان کیا ہے؟ )
بچے کا جواب اور اس کی آنکھوں میں نظر والے دیکھ نہ پائیں شاید۔

”جی مصلی ہاں“ ۔ بچہ جواب دیتا ہے۔ اس کے لہجے میں شامل ہے کہ ہاں ہم ”تہذیبی“ طور پر تقسیم شدہ سماج میں ادنی ذات کے لوگ ہیں۔ اس کا لہجہ اس کی روز مرہ کی کہانی بیان کرتا ہے، جب کوئی بھی اجڈ لڑکا اس سے پوچھتا ہو گا، اوئے کون ہندے او۔ اور وہ جواب دیتا ہو گا۔ مصلی۔ ممکن ہے یہ لہجہ، یہ شرمندگی، یہ ادنی و اعلی کا احساس اس نے اپنے باپ یا ماں سے سیکھا ہو۔

ممکن ہے کسی روز اس کے باپ سے کسی نے پوچھا ہو جب یہ بچہ ان کے ساتھ ہو گا، اوئے کون ہندے او؟ اور اس کے باپ نے ایسے ہی سر نیچے کر کے شرمندگی والے لہجے میں، اپنی پیدائش کی شرمندگی والے لہجے میں کہا ہو۔ جی اسی مصلی ہوندے آں۔

یہ شرمندگی، یہ ادنی حیثیت پر آمادگی، یہ اشرف المخلوقات کی خود کو کیڑا سمجھ لینے والی سوچ خود بخود پیدا نہیں ہوتی۔ ایک پوری ”تہذیب“ اور اس سے وابستہ مراعات یافتہ طبقات کی حرامزدگیاں اس تفریق کو اس تقسیم کو پالتی ہیں، تاکہ ان کو فرمانبردار غلام میسر آتے رہیں، تاکہ ان کے نالائق بچے بھی حاکم اور باقی لوگ ان کے محکوم رہیں۔

ایک زمیندار، جاگیردار کا اجڈ و گنوار بیٹا ایم پی اے اور ایم این اے بن کر وزراء اور مشیروں کے عہدے تک پہنچ جاتا ہے۔ اور ایک دیہاتی غریب یا مزارعے کی اولاد کے مقدر میں وہی غلامی اور سردار کے جانوروں کی نوکری ہی لکھ دی جاتی ہے۔ بس طبقاتی تقسیم کے عوض پیدا ہونے والا چھوٹی ذات کا مصلی ہو یا گاما میراثی ہو یا دتو نائی ہو یا غریب بخشو کمہار ان کی اولاد کے مقدر میں نسل در نسل غلامی ہی لکھی ہے۔

مگر قربان جاؤں کہکشاؤں والے خدا کے، جو اس میلے کچیلے، مصلی کے بیٹے میں بھی احساس ذلت احساس شرمندگی رکھ چھوڑتا ہے۔

جو خود پر زبردستی کی لگی چھاپ پر ناخوش ہوتا ہے، ۔ ممکن ہے اس کے دل سے یہ چنگاری کل کو اسے کسی آزاد دنیا میں جج یا بیرسٹر بنا دے۔ جیسے ہم عام طور پر واقعات سنتے ہیں۔

اس حقیقت کو ذہن میں رکھ کر جب میں نے خواجہ آصف و شہباز شریف و دیگر افراد کی باتیں سنیں کہ فلاں طاقتور ملک نہ چاہے تو ہم وینٹی لیٹر بھی نہ افورڈ کر سکیں۔ امریکہ ہماری مدد نہیں کرے گا تو ہم برباد ہوجائیں گے، امریکہ ہی ہمارا نجات دہندہ ہے، تو مجھے لگا کہ قوموں کے اس بین الاقوامی گاؤں میں خواجہ آصف جیسے مصلی سے پوچھا جا رہا ہے، اوئے کون ہوندے او؟ اور خواجہ آصف اپنے باپ دادا کی مجبوری و شرمندگی کو سامنے رکھتے ہوئے کہہ رہا ہے، جی اسیں مصلی ہوندئے آں۔

فرق صرف اتنا ہے کہ۔ خواجہ آصف کے لہجے میں اس ادنیٰ حیثیت میں ہونے کی کوئی شرمندگی نہیں تھی، وہ فخر سے باقیوں کو بتا رہا تھا کہ ہم سب مصلی ہیں اور ہمیں دنیا کے اس گاؤں کے حاکم کی جوتیاں سیدھی کرنے کے عوض جو دانہ گندم ملتا ہے، اس پر راضی رہتے ہیں۔

ایسے ہی سوشل میڈیا پر آپ بیشمار لوگ جو پینٹ کوٹ اور انگریزی تعلیم سے آراستہ ہوں گے ، لمبے چوڑے سفارتی آداب بتاتے ہوئے آپ کو سمجھائیں گے کہ آپ اس گاؤں کے مصلی ہو، آپ کو چوہدری کے ساتھ کیسے بٹھایا جا سکتا ہے؟ یاد رکھیے، یہ سفارتی آداب بھی ان کو اسی ”چوہدری“ نے اپنی یونیورسٹیوں میں پڑھائے ہئں۔ جبکہ ان کی ساری جنگی مہارت و مشینری کو اپنی آزاد شلوار قمیض اور بندوق کے ساتھ طلباء نے ان کی پشت میں انڈیل دیا ہے۔

اپنے اردگرد ایسے شرمندہ حقیقت پسندوں سے مت الجھیے، انہوں نے باپ دادا سے لے کر اب تک آزادی و برابری کا کوئی منظر نہیں دیکھا۔ آپ ان سے جب بھی پوچھیں گے کہ اوئے کون ہندے او۔ وہ بتائیں گے ”جی اسیں غلام ابن اغلام ہیں ”۔“ مائی باپ اسی اس دنیا دیے مصلی ہاں ”۔ کچھ شرمندہ اور کچھ ڈھیٹ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments