ذرا سی بات


شادی کو ہفتہ ہی ہوا تھا۔ خالہ کے ہاں دعوت تھی میں نے ستاروں بھری نیلی ساری پہنی میک اپ کیا زیور پہنے اور عابد کے سامنے بڑے چاؤ سے جا کھڑی ہوئی۔ اس نے ایک نظر بھر کر مجھے دیکھا۔ مسکرایا اور بولا

” واہ۔ کیا کہنے۔ “ اور میں نے ہنس کر آنچل لہرایا۔
” وہ جو اس دن تم نے غرارہ پہنا تھا ہلکے گلابی رنگ کا“
” جی“
” وہ تم پر بہت جچ رہا تھا۔ وہی پہن لو نا“
” ارے نہیں وہ تو آپ کی چچی کی دعوت میں پہن چکی ہوں نا“

” تو کیا ہوا تم اس میں بہت ہی حسین لگ رہی تھیں۔ چچی کی دعوت میں تمہاری خالہ تو نہیں تھیں نا۔ وہی پہن لو نا پلیز جان“

میں نے عابد کی بات مان لی۔ لباس تبدیل کر لیا۔ گلابی غرارہ پہن کر آئی تو بولا ”اے خوبصورت لڑکی تم پر یہ چھے فٹا قربان“ میں اٹھلاتی ہوئی اس کے ساتھ چل پڑی۔

عابد کا بات بات پر رومانس جتانا اور میری تعریفیں کرنا مجھے کافی مغرور کیے دے رہا تھا۔ ایک دن میں بال بنا رہی تھی تو بولا ”ہائے یہ گھٹائیں۔“ میں نے ہنس کر زلفیں اور بھی بکھیر دیں۔

” بال یوں کھلے نہ رکھا کرو۔ لوگ مر مٹیں گے تم پر۔ چوٹی باندھا کرو“ مجھے بال کھلے رکھنے کا شوق تھا ایک دن وہ خود میری چوٹی بنانے بیٹھ گیا ”دیکھو بال سمٹنے کے بعد کیا کوہ نور سا مکھڑا نکل آیا ہے۔ گھر میں روشنی ہو گئی۔ یار تم بہت ہی حسین ہو“ میں مسکرا کر تعریفیں سمیٹتی رہی۔ بال چوٹی میں گندھ گئے۔

عابد اور میں ایک ہی بینک میں کام کرتے تھے اور جلد ہی ہماری اچھی دوستی ہو گئی۔ عابد کے گھر والے اسلام آباد میں رہتے تھے وہ کراچی میں ملازمت کے سلسلے میں آیا۔ ہم ایک دوسرے کو پسند کرنے لگے۔ ہماری شادی بے حد سادگی سے ہوئی۔ عابد کا خیال تھا کہ ہم اپنی نئی زندگی شروع کرنے جا رہے ہیں ہمیں پیسے بچانے چاہیں۔ ہم نے ایک فلیٹ بھی خرید لیا۔ ہم دونوں ہی بنک میں ملازمت کرتے تھے بنک سے قرضہ لینے میں کوئی مشکل نہیں آئی۔ گھر کے فرنیچر اور دیگر سازوسامان کی ہم نے نہایت چاؤ کے ساتھ شاپنگ کی۔ عابد نے ہر چیز دیکھ بھال کر خریدی۔

مجھے آف وایٹ صوفہ پسند آیا لیکن عابد کا خیال تھا ہمیں گرے لینا چاہیے۔ سفید پر جلدی نشان پڑ جاتا ہے۔ میں مان گئی۔ مجھے بیڈروم فرنیچر مہاگنی میں چاہیے تھا عابد نے کہا یہ بہت تیز رنگ ہے بیڈروم میں ہلکے رنگ کا فرنیچر ہونا چاہیے۔ میں یہ بھی مان گئی۔

” دلہن رانی تمہارا گھر پیارا گھر سج گیا ہے۔ اب اس میں راج کرو“ اور میں نہال ہو گئی۔

عابد کا خیال تھا کہ ہمیں ابھی فیمیلی نہیں بنانی چاہیے۔ کم سے کم دو سال تک نہیں۔ ہم ابھی اپنے کریئر پر توجہ دیں۔ سیٹل ہو جایں۔ بچت بھی کر لیں۔ اور ہم نے یہی کیا۔ گھر خریدا، سجایا اور کچھ بچت بھی کر لی۔

شادی کے تین سال بعد ہمارے ہاں امید آئی۔ گھریلو ٹسٹ کا آلہ منگا کر ٹسٹ کیا۔ عابد نے آلہ مجھ سے لے لیا کہ پہلے وہ دیکھے گا۔ انتظار کے لمحے بمشکل کٹے اور میں اس کی صورت دیکھتی رہی۔ کئی لمحے مجھے بے قرار کر کے وہ بولا

” ٓآمنہ بیگم میں باپ بننے والا ہوں۔“ ہم دونوں خوشی سے اچھلنے لگے۔
” میں آج ہی امی کو خبر دے دوں گی۔ سب نے پوچھ پوچھ کر ناک میں دم کیا ہوا ہے“

” نہیں نہیں۔ “ عابد نے ٹوکا۔ ”ابھی نہیں۔ جب میں کہوں تب۔ ذرا کچھ وقت اور گزر جانے دو۔ کنفرم ہو جانے دو۔ میں مان گئی لیکن عابد مجھے گھر والوں کو بتانے سے روکتا رہا۔ دو مہینے ہو گئے لیکن میرے گھر والے بے خبر تھے۔ ایک دن عابد جم گیا ہوا تھا باجی کا فون آیا۔ حال چال پوچھنے کے بعد کہا“ اور سناؤ کوئی نئی تازی ”اور میرے منہ سے بے اختیار نکلا گیا

” میں پریگننٹ ہوں“

باجی خوشی سے چیخ اٹھیں۔ اس خوشخبری کا سب ہی کو شدت سے انتظار تھا۔ تھوڑی ہی دیر بعد باجی امی اور بھابی مٹھائی اور پھولوں سے لدے آ پہنچے۔ مبارک سلامت کا شور مچا۔ میرا دل اندر سے گھبرا رہا تھا اگر عابد آ گیا تو بدمزگی ہو گی۔ کاش اس کے آنے سے پہلے یہ سب چلے جائیں۔ عابد کی گاڑی کی آواز سنتے ہی میرا دل ڈوب سا گیا۔ وہ اندر آیا تو سب کو دیکھ کر حیران ہوا۔ ”ارے بھائی مبارک ہو۔ شکر ہے کہ میں خالہ بننے جا رہی ہوں“ باجی نے کہا۔ عابد کے چہرے پر ایسا تاثر تھا جیسے کوئی بہت بری خبر سن لی ہو۔

” کچھ خاص کھانے کو جی کرے تو بتانا میں بنا کر بھجوا دوں گی۔“ بھابی نے کہا

” ہاں بھگارے بینگن اور کڑھی پکوڑے بنا دیں کسی دن“ میں بھی لاڈ میں آئی ہوئی تھی۔ عابد روٹھا روٹھا سا بیٹھا رہا۔ مٹھائی چکھی بھی نہیں۔ میرے گھر والوں کو کھانے پر رکنے کو ضرور کہا پر وہ سب جلدی چلے گئے۔ عابد کمرے میں جا کر لیٹ گیا۔ مجھے دیکھ کر کہا ”بھگارے بینگن اور کڑھی پکوڑے؟“ وہ زور سے ہنسا ”یار کوئی اسٹنڈرڈ کی چیزوں کی فرمائش کرو۔ اور تم سے میری اتنی سی خوشی بھی برداشت نہیں ہوئی۔ بتا دیا نا سب کو“ ؟

” یہ میری بھی تو خوشی ہے عابد اور مجھے بھی تو حق ہے نا؟“ نہ چاہتے ہوئے بھی میرا انداز معذرت خواہانہ ہو گیا۔ ”چلو جاؤ معاف کیا جانم آئندہ مت کرنا“ ۔ میں سوچتی ہی رہ گئی کہ معافی کس بات کی ملی ہے مجھے۔

ایک اچھی کلینک میں نام لکھوا لیا۔ عابد ہر اپاینٹمنٹ میں میرے ساتھ جاتا رہا۔ ایک بار ایک چیک اپ کو گئے تو ڈاکٹر نے پوچھا

” آمنہ طبیعت کیسی ہے اب؟“
میرے جواب دینے سے پہلے عابد بولا ”یہ اب پہلے سے بہتر ہیں۔ متلی بھی کم ہے“

ڈاکٹر نے ابرو چڑھا کر عابد کو دیکھا ”آپ کی بیگم اپنا حال بہتر طور پر بتا سکتی ہیں۔ انہیں بولنے دیں“ عابد کھیسا سا گیا اور میں ایک گہری سوچ میں پڑ گئی۔

میرا الٹرا ساونڈ ہوا عابد بھی ساتھ تھا الٹرا ساونڈ کے دوران ڈاکٹر نے پوچھا کہ کیا ہم بچے کی جنس معلوم کرنا چاہیں گے۔ یہ بات ہم نے ڈسکس کی تھی۔ میں بچے کی جنس معلوم کرنا چاہتی تھی لیکن عابد کا کہنا تھا کہ یہ سرپرائز رہنا چاہیے۔ ڈاکٹر کے سوال کے جواب میں عابد نے کہا ”نہیں ہمیں سرپرائز رکھنا ہے۔“ ۔ ڈاکٹر نے کام ختم کیا ہم باہر آ گئے۔ تھوڑی دور جاکر میں نے عابد سے کہا ”ارے میں اپنے گلاسز وہیں بھول آئی تم گاڑی میں بیٹھو میں ابھی آئی“

وہ چلا گیا تو میں تیزی سے ڈاکٹر کے کمرے میں داخل ہوئی۔ ”مجھے بچے کی جنس معلوم کرنا ہے“ ڈاکٹر نے مسکرا کر مجھے دیکھا اور بولی ”بیٹی ہے“ بس اس لمحے سے میری زندگی بدل گئی۔ جذبات کا ایک طوفان۔ کچھ نئی سوچیں کچھ انجانے خدشات۔ الجھن تھی کہ سلجھ ہی نہیں رہی تھی۔ دل تھا کہ ڈوبا ہی چلا جا رہا تھا۔

جی میں آیا نیلے رنگ کی ستاروں بھری ساری پہنوں، میک اپ بھی کروں۔ تیز لپ اسٹک لگاؤں۔ بال کھلے رکھوں۔ پھر پرس ہلاتی عابد سے کہوں۔ میں امی کی طرف جا رہی ہوں چلو گے ”اس کی آنکھوں سے بے یقینی جھلکے میں نظرانداز کروں۔ وہ پہلے کہے“ نہیں تم جاؤ ”

میں قدم اٹھاؤں تو وہ بولے ”اچھا رکو میں تیار ہو کر آتا ہوں“

ہم گاڑی میں بیٹھیں تو میں کہوں ”راستے سے کیک لینا ہے۔ اور سنو کیک چاکلیٹ فلیور کا ہو، اسٹرابیری کا نہیں۔“ اور پھر زور کا قہقہہ لگاؤں۔

میں یہ سب سوچ کر ہی رہ گئی۔ لیکن میں جس گہری نیند میں تھی وہ اب ٹوٹنے لگی تھی۔ چیزیں اپنی اصلی صورت میں نظر آنے لگی تھیں۔

بے بی کی شاپنگ ہم دونوں نے مل کر کی۔ عابد خوشی خوشی چیزیں خرید رہا تھا۔ میں ہاں میں ہاں ملاتی رہی۔ اس نے یہ بھی کہا ”ہم نیوٹرل کلرز میں چیزیں لیں گے۔ لیکن میں تو جانتی تھی کہ ہمارے ہاں بیٹی آنے والی ہے۔ دکھ تو تھا کہ اتنی بڑی بات اپنے شوہر سے چھپائے بیٹھی ہوں لیکن مجھے اپنا یہ راز بہت پیارا بھی لگ رہا تھا۔ عابد سے چوری میں نے کچھ گلابی رنگ کے کپڑے خرید لیے اور انہیں چھپا کر رکھ لیا۔

آنکھیں کھلتیں گیں۔ ارد گرد نظریں دوڑائیں۔ ”میں“ کہاں ہوں؟ مجھے اپنی پرچھائیں تو نظر آ رہی تھی لیکن میرا وجود گم تھا۔ میری اپنی دنیا یہ نہیں ہے۔ جو بھی ہے اس میں عابد ہے۔ نہ میری پسند ہے نہ میری مرضی۔ سوچ تک پر لگتا ہے پہرے لگ گئے۔

مجھے بریانی کے بجائے پلاؤ کھانا چاہیے۔ کیونکہ عابد کہتا ہے چوکلیٹ فلیور آئس کریم کے بجائے مجھے اسٹرابیری پسند ہونا چاہیے۔ ساری نہیں شلوار قمیض مجھ پر سجتی ہے۔ پہلی بار ہم دونوں چائینیز رسٹورنٹ کھانا کھانے گئے تو میں نے بڑے جوش میں آ کر چکن کارن سوپ منگانے کو کہا تو اس نے مینو پر سے آنکھ اٹھا کر مجھے دیکھا ”ارے چھوڑو یار یہ سوپ تم جینجر سوپ پیو بہترین ہے۔ میں نے کرسٹل کا گلدان جہاں رکھا عابد نے اسے اٹھا کر دوسری جگہ رکھ دیا۔ میں نے پینٹنگ جس دیوار پر ٹانگنے کی تجویز دی عابد نے دوسری دیوار پر اسے سجا دیا۔ ستم ظریفی یہ کہ وہ مجھے قائل بھی کر لیتا اور میں مان بھی جاتی۔

کمرے پر نظریں دوڑائیں۔ بیڈ، ڈریسنگ ٹیبل سب میں عابد ہی نظر آیا۔ یہ پردے بھی عابد کی پسند ہیں۔ میرا دل الٹنے لگا۔ میں کتنی کمزور ہو گئی ہوں۔ میری فیصلہ کرنے کی صلاحیت بھی گہنا گئی۔ حد تو یہ ہے کہ صبح جاب پر جاتے ہوئے بھی میں عابد سے پوچھتی ”یہ پہنوں یا یہ“ وہ جس پر اشارہ کرتا میں وہی پہنتی۔ کچھ لباس تو اس نے بالکل رد کر دیے تھے۔ ”اس کا گلا بہت کھلا ہے۔ یہ ٹراوزر بہت اونچا ہے۔ یہ کیا لال گلابی جوڑے تم نے بنوا رکھے ہیں۔ یہ رنگ اسکول کالج کی لڑکیاں پہنتی ہیں۔ تم شادی شدہ ہو، بینک افسر ہو۔ مسز عابد ہو میری جان ہو۔ اپنے رتبہ کا خیال کرو۔ ارے اتنی تیز لپ اسٹک۔ میری محبوبہ تمہارے ہونٹ تو قدرتی گلابی ہیں۔ پنکھڑیاں ہیں گلاب کی ان کی رونق کیوں خراب کرتی ہو۔“ میری عادت تھی کہ میں کھل کر ہنستی تھی۔ اس پر ایک دن اس نے کہا ”جان عابد تم ہنسو ہمیشہ مسکراتی رہو لیکن اتنے زور کا قہقہہ تم جیسی سلجھی خاتون پر کچھ جچتا نہیں۔ “ اور میں پھر ہنسنا ہی بھول گئی۔ وہ میری تعریف بھی کرتا تھا تو اپنی کوئی بات منوانے کے لیے۔

کھانے بنانے سے پہلے پوچھتی ”کیا بناؤں؟“ وہ گھسا پٹا جواب دیتا ”جو جی چاہے بنا لو“ ”اچھا پالک گوشت بنا لیتی ہوں۔“ نہیں نہیں قیمہ آلو بنا لو۔ تم بہت اچھا بناتی ہو۔ کوئی اور ایسا نہیں بنا سکتا۔ کیا ذائقہ ہے میری بیوی کے ہاتھ میں۔ ”اور پھر قیمہ آلو ہی بنا۔ غنیمت کہ میں اپنے بنک کے بروقت اور صحیح فیصلے کر لیتی لیکن عابد کے سامنے میں بالکل بے بس ہوجاتی ہوں۔ یہ مجھے کیا ہو گیا؟ میں کہاں گئی؟ اب یہ حال ہو گیا کہ خود کو ڈھونڈنا بھی نہیں آ رہا تھا۔ آس پاس کوئی نظر بھی نہیں آتا۔ میں ہمیشہ سے کافی سوشل رہی ہوں۔ کالج اور یونیورسٹی کے دوستوں سے میرا ملنا ملانا رہا۔ لیکن یہ کیا ہوا کہ سب غائیب ہو گئے؟ کہاں گئے سب؟ کرن کا شوہر عابد کو بہت چیپ سا لگتا تھا۔ سویرا کا لباس عابد کی نظر میں کافی قابل اعتراض تھا۔ کریمہ اور زبیر دونوں میرے یونیورسٹی کے کلاس فیلو تھے دونوں نے ایک دوسرے کو پسند کیا اور شادی کرلی۔ عابد کو دونوں نا پسند تھے۔ سب سے ملنا کم ہوتے ہوتے ختم ہو گیا۔ میں اکیلی رہ گئی عابد کے اپنے دوست بھی نہیں تھے۔ وہ کم ہی کسی سے گھلتا ملتا۔ بس کام کے سلسلے میں کچھ لوگوں سے اس کی معمولی نوعیت کی دوستی تھی۔ فیملی ساری اسلام آباد میں تھی۔ آنکھوں کی پٹی اترنے لگی تو دل ڈوبنے لگا۔ بمشکل اسے سنبھالا اور سوچا کہ اب کیا کرنا چاہیے۔

ایک بار اس نے کہا تھا ”تم یوں شرماتی جھجھکتی کتنی پیاری لگتی ہو“ میں تو ایسی شرمانے جھجھکنے والی لڑکی کبھی تھی ہی نہیں۔ میں تو خود اعتماد اور نڈر تھی۔ یہ مجھے ہو کیا گیا؟

جی تو چاہا تھا کہ بس ایک ہی جملے میں اس لو اسٹوری کا ٹرجیک اینڈ کردوں لیکن کچھ سوچ کر رک گئی۔ عابد سے بات کی ”کیا تم خود کو بدل سکتے ہو؟“

وہ حیرت کی تصویر بن گیا۔ خود کو بدلنے کی بات تو دور اسے تو مسئلہ ہی سمجھ نہ آیا۔
” تم کہنا کیا چاہ رہی ہو؟“

” تم اپنی مرضی مجھ پر تھوپنا بند کر سکتے ہو؟ مجھے اپنی خوشی سے جینے دے سکتے ہو؟ میری پسند کو اہمیت اور احترام دے سکتے ہو؟“

اس کی آنکھیں حیرت سے پھٹنے کے قریب تھیں۔ ”کیا مطلب؟“

” تمہیں ہوا کیا ہے؟“ وہ کچھ بھی سمجھنے کو تیار نہ تھا۔ میں نے کھل کر بات کی لیکن وہ کچھ نہ سمجھا۔ اس نے کہا وہ کچھ غلط نہیں کرتا۔ جو بھی ہے وہ میری بھلائی کے لیے ہے۔ اور یہ بھی کہ میں بہت چھوٹی اور فضول باتیں کر رہی ہوں۔

” تو تم نہیں بدل سکتے؟“

” میں کچھ غلط نہیں کرتا جو مجھے خود کو بدلنا پڑے۔ تم اپنے ہوش میں نہیں ہو۔ کیا میں مار پیٹ کرتا ہوں؟ لڑتا جھگڑتا یوں؟ سخت ناشکری ہو تم۔“

اور میں نے فیصلہ کر لیا اور اسے سنا بھی دیا۔ وہاں وہی ہتھیار جو مردوں کے پاس ہوتا ہے۔ ”تم میرے بچے کی ماں بننے والی ہو میں تمہیں اپنا بچہ نہیں دوں گا۔ بیٹا ہوا تو بالکل بھی نہیں۔“ مجھے ہنسی آتے آتے رہ گئی۔

”ٹھیک ہے۔ رکھ لینا۔ بیٹا ہوا تو تمہارا۔ بیٹی ہوئی تو میری۔ ویسے بیٹی بھی اگر پال سکو تو لے لینا“
”کہاں جاؤ گی تم؟“ لہجے میں طنز تھا۔

” میں نہیں تم جاؤ گے۔ گھر ہم دونوں کے پیسوں سے خریدا گیا ہے۔ میں تمہیں تمہارا حصہ دے دوں گی۔ تم کہیں اور شفٹ ہو جاؤ۔ بینک کی قسطیں بھی میں دوں گی۔ ہاں اپنا سارا فرنیچر لے جانا بلکہ پردے بھی۔ ان سب میں میرا دم گھٹتا ہے۔ بچے سے ملنا تمہارا حق ہے جب چاہو مل لینا۔ ڈلیوری کے بعد طلاق کے کاغذات پر سائن کر دیں گے“

ایک استہزائی ہنسی ہنستے ہوئے آخری وار کیا۔

” رہ لو گی میرے بغیر؟ تم تو اپنے طور کچھ بھی نہیں کر سکتیں۔ کپڑے تک تو تمہیں پہننے آتے نہیں۔“ میری برداشت تمام ہوئی۔

لو اسٹوری کا اینڈ ہو گیا۔ کسی کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ میں نے یہ فیصلہ کیوں کیا۔ میرے اپنوں نے بھی ہزار ہزار باتیں بنائیں۔ ”ارے یہ تو کوئی ایسا مسئلہ نہیں تھا کہ تم شادی توڑ لو۔ مرد ایسے ہی ہوتے ہیں۔ یہ بھی ان کے پیار کو انداز ہوتا ہے“

اگر یہ پیار کا انداز تھا اور یہ ذرا سی بات تھی تو میرا دم کیوں گھٹ رہا تھا؟ یہ کوئی نہیں بتاتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments