میں کیوں لکھتا ہوں


یہ سوال میرے ذہن میں دن میں کئی بار گردش کرتا ہے کہ ”میں کیوں لکھتا ہوں“ ۔ کچھ دن سے اس سوال نے بہت زیادہ تنگ کیا ہوا ہے تو میں نے سوچا کیوں نہ اس سوال کا جواب لکھ کر تلاش کیا جائے شاید مل جائے۔

میرا خیال میری تحریر میرا خود سے مکالمہ ہے۔ ہر شخص سب سے زیادہ خود سے مکالمہ کرتا ہے جو خود کلامی کہلاتی ہے اگر خود کلامی کی آواز دوسروں تک نہ پہنچے تو اس وقت تک انسان نارمل کہلاتا ہے لیکن جونہی یہ آواز دوسروں کے کانوں تک پہنچتی ہے وہ انسان پاگل کہلاتا ہے۔ میرے خیال میں مصنف چالاک انسان ہوتا ہے جو اپنی خود کلامی کو صفحہ قرطاس پر اتارتا ہے اور پھر لوگوں کو پیش کر دیتا ہے جس کی وجہ سے لوگ اس کو دانشور سمجھتے ہیں حالانکہ اس میں ایسی کوئی بات نہیں۔

یہ میری خود کلامی ہے جس کو میں لکھنے سے مطمئن ہو جاتا ہوں اور دل میں سرشاری سی محسوس کرتا ہوں۔ لکھنے کی دوسری وجہ بھی مکالمہ ہے یعنی دوسرے لوگوں سے مکالمہ۔ میں چاہتا ہوں میرے بات دوسرے تک پہنچے جو میں نے محسوس کیا ہے اس لیے اس کو دوسروں سے رابطہ کر کے خوشی محسوس ہوتی ہے اس کی تکمیل ہوتی ہے میری تحریر میرے لیے میری تکمیل کا باعث ہے جب میں ایک وقت میں کئی سو لوگوں سے گفتگو کرتا ہوں اور اپنے خیالات میں شامل کرتا ہوں۔

میں بزدل بھی ہوں۔ اس لیے جب مجھے کوئی بات غلط لگتی ہے وہ میں لوگوں کے سامنے نہیں کہتا بلکہ اس کو اپنی تحریر میں لے آتا ہوں اور اپنا غصہ کاغذوں کے حوالے کرتا ہوں۔ کوئی بات جس کا میں کھل کے اظہار نہیں کر سکتا تو اپنی تحریر میں علامت اور طنزو مزاح کے ذریعے بیان کرتا ہوں تاکہ میری بات لوگوں تک پہنچ سکے۔ میں اس کے ذریعے اپنی ذات کا اظہار کرتا ہوں میری تحریر دراصل میرے خواہشوں کا ہی دوسرا نام ہے۔ میں جس طرح معاشرے کو دیکھنا چاہتا ہوں وہ اپنی تحریروں میں بیان کرتا ہوں اس امید کے ساتھ کہ جو خواب میں دیکھ رہا ہوں اس میں دوسرے بھی شریک ہو جائیں اور مل کر معاشرے کو مثالی بنائیں یا ایسا معاشرہ بنائیں جس میں میں رہنا چاہتا ہوں۔

میری تحریریں میری تخلیق بھی ہیں۔ دینا کا سب سے خوب صورت عمل تخلیق کا عمل ہے اس عمل سے جب عورت گزرتی ہے تو کتنی مصیبت سہتی ہے لیکن جو خوشی اس کو اپنی تخلیق پر ہوتی ہے اس کا کوئی نعم البدل نہیں ہے۔ اس طرح میں بھی اس عمل سے گزرتا ہوں جب ایک خیال کہیں سے میرے ذہن کے نہاں خانے میں آ بیٹھتا ہے اور مجھ سے کہتا ہے کہ مجھ پر قلم اٹھاؤ اور مجھ پر لکھو۔ یہ خیال میرے ساتھ کئی دن رہتا ہے۔ میں اس کو سوچتا رہتا ہوں میں اس میں جان پیدا کرتا ہوں تاکہ وہ خیال پختہ ہو جائے اور ایک توانا مضمون، کہانی، شعر کی شکل اختیار کر جائے۔

جب وہ توانا ہو جاتا ہے تو میں اس کو تحریر میں لاتا ہوں لیکن بعض مرتبہ وہ توانا خیال صفحہ قرطاس پر آ کر بہت بودہ سا لگتا ہے اور وہ شکل اختیار نہیں کر سکتا جس طرح میں چاہتا ہوں اور کبھی کبھی اس کے برعکس بھی ہو جاتا ہے۔ تحریر مکمل کرنے کے بعد مجھے بھی وہی راحت ملتی ہے جو ایک ماں کو بچے کی پیدائش کے بعد ہوتی ہے۔ تحریر مصنف کے لیے کسی بچے کی طرح ہوتی ہے اس لیے اس کو اپنے تمام بچوں سے پیار ہوتا ہے لیکن لوگوں کو کچھ زیادہ پسند آتے ہیں کچھ کم۔

میرے لکھنے کی آخری وجہ یہ ہے کہ میں امر ہونا چاہتا ہوں۔ انسان کی سب سے بڑی خواہش موت سے چھٹکارا ہے۔ ہر انسان کے نہاں خانے میں امر ہونے کی خواہش کہیں موجود ہے اور اس کا اظہار کئی طریقے سے کرتا رہتا ہے۔ مجھے یہ معلوم ہے انسان فنا کا پتلا ہے اور ستر یا اسی سال کا یہاں مہمان ہے لیکن تحریر کی زندگی ہزاروں سال پر بھی محیط ہو سکتی ہے۔ میں اپنی تحریروں کے ذریعے امر ہونا چاہتا ہوں میں اپنی موت کے بعد بھی زندہ رہنا چاہتا ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments