عامر لیاقت: مشہور ٹی وی شخصیت اور سیاست دان کی زندگی سے جڑے تنازعات، کچھ کے لیے مزاح اور کچھ کی زندگیاں خطرے میں ڈالنے کا سبب


عامر لیاقت
عامر لیاقت نے گذشتہ روز ہی سماجی رابطوں کی ویٹ سائٹ ٹوئٹر پر اعلان کیا تھا کہ وہ اب نجی ٹی وی چینل '24' سے جلد پروگرام کریں گے
پاکستان میں رمضان کا مہینہ شروع ہوتے ہی جہاں ٹی وی چینلز پر مذہبی پروگراموں کا تانتا بندھ جاتا تھا، وہیں گذشتہ دہائی کے آغاز میں رمضان ٹرانسمیشن کا ٹرینڈ شروع ہوا اور اس کی وجہ بلاشبہ عامر لیاقت حسین ہی تھے۔

تاہم ان ٹرانسمیشنز کے دوران ایسے واقعات بھی پیش آتے تھے جو بعد میں سوشل میڈیا پر وائرل ہو جاتے تھے۔ ایک موقع پر یہ بھی کہا جاتا تھا کہ عامر لیاقت جس ٹی وی چینل پر بھی رمضان شو کریں گے، اس کی ریٹگنگ سب سے بہترین آئے گی۔

تاہم عامر لیاقت کا میڈیا کریئر صرف ان کی رمضان ٹرانسمیشنز کے باعث ہی مشہور اور کئی مرتبہ متنازع نہیں رہا، بلکہ کئی اور وجوہات نے انھیں ہمیشہ شہ سرخیوں میں رکھا۔

ناظرین کو یاد ہو گا کہ ٹی وی کے ایک پروگرام میں عامر لیاقت ایک لڑکے کے منھ میں آم ٹھونسنے کی کوشش کرتے ہوئے بار بار کہہ رہے تھے ‘آم کھاؤ گے، آم۔’ جلد ہی یہ جملہ زبان زدِ عام ہوا ہے اور سوشل میڈیا سمیت ہر جگہ اس بارے میں بحث ہونے لگی، کچھ اس منظر سے محظوظ ہوتے دکھائی دیے جبکہ اکثر افراد نے اینکر کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔

یہ منظر دراصل عامر لیاقت کے ایک گیم شو کا ہے اور ان متعدد تنازعات میں سے ایک ہے جس کے باعث وہ گاہے بہ گاہے خبروں کی ذینت بنتے رہے ہیں۔

جمعرات کو کراچی میں ڈاکٹر عامر لیاقت کی موت کی خبر نے ان کے سبھی جاننے والوں کو جھنجھوڑ کے رکھ دیا ہے۔ عامر لیاقت ناظرین کو چوکانے کا فن ہمیشہ سے جانتے تھے اور وہ آخری دم تک اس پر کاربند رہے۔ حکام کے مطابق ان کی موت کی یقینی وجہ فی الحال نہیں بتائی جا سکتی اور اس کے تعین کے لیے پوسٹ مارٹم کروایا جائے گا۔

عامر لیاقت کے دو دہائیوں پر مشتمل سیاسی کریئر، ان کی نجی زندگی اور سوشل میڈیا پر ان کے کئی بیانات تنازعات کی وجہ بن چکے ہیں۔

’نازک صورتحال‘، عالم آن لائن اور فلم غالب

سنہ 2000 کی دہائی کے دوران عامر لیاقت حسین ایک نجی ٹی وی چینل پر ایک مذہبی شو ’عالم آن لائن‘ کی میزبانی کیا کرتے تھے۔

اس کی خاص بات یہ تھی کہ ایک جانب ان کے شو میں عوام براہ راست کال کر کے اپنے نجی اور دینی مسائل کا حل دریافت کرتے تھے، اور عموماً اس کا جواب شو میں موجود عالم دین دیا کرتے تھے۔ دوسری جانب عامر لیاقت کی جانب سے شو کے اختتام میں کی جانے والی طویل دعا بھی تھی۔ تاہم اس شو کے حوالے سے متعدد تنازعات وقتاً فوقتاً سامنے آتے رہے، جن میں سے کچھ خاصے سنگین تھے۔

ایک پروگرام میں انھوں نے احمدی کمیونٹی کو غیر مسلم قرار دیتے ہوئے ان کا قتل جائز قرار دیا تھا۔ اسی ہفتے سندھ میں احمدی کمیونٹی کے دو افراد ہلاک ہوئے، ان کے اس بیان پر انسانی حقوق کی تنظیموں نے شدید تنقید کی تھی۔

اس شو کے اختتامی پروگرامز میں ان کی ایسی ویڈیو لیک ہوئی جسے ’غالب فلم‘ کا نام دیا گیا، جس میں کیمرے کے پیچھے ان کی حرکات دکھائی گئیں اور انھیں متعدد موقعوں پر نازیبہ کلمات کہتے بھی سنا جا سکتا تھا۔ اسی طرح ایک کالر کی جانب سے ایک نجی مسئلہ پوچھنے پر جب شو میں موجود ایک عالمِ دین نے کہا کہ ’بہت نازک صورتحال ہے‘ تو اس پر عامر لیاقت ہنس پڑے اور یوں یہ کلپ خاصا وائرل ہوا۔

عامر

رمضان ٹرانسمیشن کی ہاٹ پراپرٹی اور بلاگرز پر الزامات

رمضان ٹرانسمیشنز کا ٹرینڈ عامر لیاقت نے ہی شروع کیا تھا، یا کم از کم انھیں موجودہ فارمیٹ میں لانے میں ان کا اہم کردار ہے۔

اس دور کو ان کے میڈیا کریئر کا عروج بھی کہا جا سکتا ہے جب عامر لیاقت سیٹ پر ایک جگہ سے دوسری جگہ جا رہے ہوتے تھے اور شو میں موجود افراد ’عامر بھائی، عامر بھائی‘ کہہ کر انھیں اپنی جانب متوجہ کرنے کی کوشش کرتے تھے۔

ان شوز کے دوران عمومی طور پر لوگوں کو سوالات کا درست جواب دینے اور کئی مرتبہ بغیر کسی وجہ کے بھی انعامات دیے جاتے تھے۔

عامر لیاقت جیو کے علاوہ اے آر وائے، ایکسپریس، بول ٹی وی اور 24 نیوز سے بھی وابستہ رہے۔ اس دوران لوگوں کے ساتھ ناشائشہ زبان استعمال کرنے اور ان سے مختلف عجیب و غریب کھیلوں کا حصہ بنانے پر بھی انھیں تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا۔

ایک پروگرام کے دوران انھوں نے خودکشی کے مناظر کی نقل کرنے کی کوشش کی جس کے بعد انھیں پیمرا کی جانب سے نوٹس جاری کیا گیا۔

رمضان ٹرانسمیشنز کو سنہ 2016 میں خیر باد کہنے کے بعد عامر لیاقت نے بول چینل پر سیاسی موضوعات پر ٹاک شو ’ایسا نہیں چلے گا‘ کا آغاز کیا تھا۔

اس شو میں انھوں نے انسانی حقوق کی تنظیموں، صحافیوں اور بلاگرز پر ذاتی حملے بھی کیے، پیمرا نے شہریوں کی شکایات پر یہ پروگرام بند کر دیا اور انھیں عوام سے معذرت کی ہدایت جاری کی۔

پیمرا

بول چینل پر نشر ہونے والا عامر لیاقت کا پروگرام ’ایسے نہیں چلے گا‘ جسے پیمرا نے بند کرنے کا حکم دیا ہے

اسی طرح عامر لیاقت ایک پروگرام ’جیوے پاکستان‘ میں اداکار عدنان صدیقی سے بات کرتے ہوئے بالی وڈ اداکاروں عرفان خان اور سری دیوی کی وفات کے حوالے سے بھی ایک ایسا مذاق کر گئے تھے کہ انھیں اس کے بعد خاصی تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔

اس شو کے دوران ایک موقع پر عامر لیاقت نے عدنان صدیقی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’ملک سے باہر آپ جس کے ساتھ بھی کام کرتے ہیں ان کا انتقال ہو جاتا ہے۔‘

عامر لیاقت نے اپنے بیان پر معافی مانگی تھی تاہم عدنان صدیقی نے کہا تھا کہ ‘مجھے عامر لیاقت کے شو کا حصہ بننے پر افسوس ہے۔’

عامر لیاقت کی تین شادیاں اور نجی زندگی کے تنازعات

عامر لیاقت کی نجی زندگی بھی سوشل میڈیا پر بحث کی وجہ بنی رہی۔ سنہ 2018 میں انھوں نے طوبیٰ عامر سے شادی کی اور اس کے بعد جب انھیں ایک مارننگ شو پر بلایا گیا تو انھوں نے اپنی پہلی بیوی کو تنقید کا نشانہ بنایا۔

ان سے جب سوال کیا گیا کہ انھیں ان کی پہلی بیوی نے دوسری شادی کی اجازت کیوں نہیں دی حالانکہ وہ ایک مذہبی خاتون ہیں تو انھوں نے کہا کہ ’دین کی تعلیم حاصل کرنے اور ڈگری کے لیے دین پڑھنے میں فرق ہوتا ہے۔’

اپنی پہلی بیوی کے بارے میں مزید کچھ اسی طرح کے الفاظ استعمال کرنے پر بھی انھیں خاصی تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔

تاہم رواں سال عامر لیاقت کی دوسری بیوی نے ان سے خلع لے لیا اور ایک پیغام میں بتایا کہ ’میرے قریبی دوست احباب اور خاندان کے لوگ جانتے ہیں کہ میری عامر لیاقت سے 14 مہینوں سے علیحدگی چل رہی ہے اور اس دوران ہمارے رشتے میں پڑی دراڑیں ختم نہیں ہو سکیں اور ہمارے درمیان مفاہمت کا کوئی امکان نہیں تھا، لہذا میں نے کورٹ سے خلع لینے کا فیصلہ کیا۔‘

یہ خبر ابھی پرانی نہیں ہوئی تھی کہ عامر لیاقت کی جانب سے تیسری شادی کا اعلان کیا گیا۔ عامر لیاقت نے سیدہ دانیہ شاہ سے رواں سال فروری میں شادی کی اور اس بات کا اعلان کرتے ہوئے یہ بھی لکھا کہ ان کی تیسری اہلیہ کی عمر 18 سال ہے۔

اس بارے میں بھی ان پر اپنی عمر سے بہت کم عمر کی لڑکی سے شادی کرنے اور پھر سوشل میڈیا پر ان کی عمر بتانے پر تنقید کی گئی۔

تاہم یہ شادی صرف چند ماہ تک ہی جاری رہ سکی اور گذشتہ ماہ ان کی تیسری اہلیہ نے ان پر تشدد کے الزامات عائد کرتے ہوئے عدالت سے تنسیخ نکاح کے لیے رجوع کر لیا۔

عامر لیاقت کی جانب سے ان الزامات کی تردید کی گئی تھی۔

یہ بھی پڑھیے

عامر لیاقت کی وفات: ’عامر بھائی جلدی چلے گئے، یہ ماضی کی غلطیوں پر بحث کا وقت نہیں‘

گھریلو تشدد اور نشے کے الزامات، دانیہ شاہ کا عامر لیاقت سے تنسیخ نکاح کا دعویٰ دائر

عامر لیاقت کی ہندو برادری سے معافی، ٹویٹ ڈیلیٹ کر دی

ریونج پورن: کیا قانون دانیہ شاہ کو عامرلیاقت حسین کی ذاتی ویڈیوز جاری کرنے سے روک سکتا ہے؟

عامر لیاقت بطور سیاست دان: ایم کیو ایم سے تحریک انصاف تک

عامر لیاقت حسین نے سنہ 2002 کے عام انتخابات میں ایم کیو ایم کی ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے نشست پر کامیابی حاصل کی تھی اور انھیں پرویز مشرف کے دور حکومت میں وزیرِ مملکت برائے مذہبی امور بنایا گیا تھا۔

تاہم جولائی 2007 میں عامر لیاقت حسین نے قومی اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ ان کا یہ استعفیٰ اس وقت سامنے آیا تھا جب انھوں نے انڈین مصنف سلمان رشدی کو ٹی وی پروگرام میں ‘واجب القتل’ قرار دیا تھا۔ اگلے سال یعنی 2008 کو ایم کیو ایم نے عامر لیاقت کو پارٹی سے نکالنے کا اعلان کیا۔

عامر لیاقت حسین نے ایک طویل عرصے تک سیاست سے کنارہ کشی اختیار کیے رکھی اور سنہ 2016 میں ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین کی متنازع تقریر سے چند روز قبل وہ دوبارہ سرگرم ہوئے۔

جب رینجرز نے ڈاکٹر فاروق ستار اور خواجہ اظہار الحسن کو حراست میں لیا تھا تو عامر لیاقت کو بھی اسی روز گرفتار کیا گیا اور رہائی کے بعد ڈاکٹر فاروق ستار کی پہلی پریس کانفرنس میں وہ بھی موجود تھے لیکن بعد میں وہ دوبارہ غیر متحرک ہو گئے۔

تاہم یہ سیاسی سفر یہاں تمام نہیں ہوا بلکہ سنہ 2017 میں ان کی تحریک انصاف میں شمولیت کی خبریں گردش کرنے لگیں۔ بالآخر سنہ 2018 میں عمران خان کے ساتھ باقاعدہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے ان کی پارٹی میں شمولیت کا اعلان کیا گیا۔

اس موقع پر انھوں نے کہا تھا کہ ‘میرا آخری مقام پی ٹی آئی تھا۔’ وہ سنہ 2018 کے انتخابات میں این اے 245 سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے اور پی ٹی آئی کے ان اراکین میں شامل تھے جنھوں نے پی ٹی آئی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔

وہ اس دوران اکثر عمران خان سے ملاقات کے لیے وقت نہ دینے کی شکایت کیا کرتے تھے۔ تیسری شادی کرنے کے بعد وہ عمران خان سے ملنے بھی گئے، تاہم تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد سے ان کی جانب سے پی ٹی آئی اور خاص کر عمران خان کے خلاف سخت بیانات سامنے آئے۔

کچھ روز قبل ان کی جانب سے پارٹی چھوڑنے کا اعلان کیا گیا تھا اور ایک ویڈیو میں کہا گیا تھا کہ وہ بیرونِ ملک جانے کے بارے میں سنجیدگی سے سوچ رہے ہیں۔

عامر

ہندو برادری سے معافی اور لیکڈ ویڈیو

ٹی وی کے پلیٹ فارم کے علاوہ عامر لیاقت سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر بھی خاصے مقبول تھے اور ان کی جانب سے کی جانے والی ٹویٹس تنازع کی وجہ بن چکی ہیں۔

گذشتہ برس انھوں نے مریم نواز پر تنقید کرتے ہوئے ایک ٹویٹ کی جس کے بعد انھیں ہندو کمیونٹی سے معافی مانگنی پڑی۔

عامر لیاقت نے بظاہر ہندو دیوی کالی ماتا کی تصویر کو پاکستان مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز کے ایک بیان کے ٹی وی سے لیے گئے عکس کے ساتھ ‘دوسرا روپ’ کے ہیش ٹیگ کے ساتھ ٹوئٹر پر شائع کیا جس میں لکھا تھا کہ ’یہ اب میرا دوسرا روپ دیکھیں گے، مریم نواز۔‘

اسی طرح گذشتہ دنوں ان کی جانب سے عمران خان اور پی ٹی آئی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور ان کے حوالے سے نازیبہ زبان بھی استعمال کی گئی۔

اس کے علاوہ حال ہی میں سوشل میڈیا پر ایک ان کی ایک مبینہ ویڈیو اور کچھ تصاویر اور آڈیو کلپ بھی نظر آئے اور اس کے بعد دونوں میاں بیوی ایک دوسرے پر الزامات عائد کرتے بھی دکھائی دیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments