منظر بدلنا چاہیے (شعری مجموعہ)۔


شاعرہ: تنظیم الفردوس
صفحات: 224، قیمت 380
ناشر: قرطاس، ادیبوں کا اشاعتی ادارہ، پوسٹ بکس نمبر 25، فیصل آباد
مبصر:ڈاکٹر تہمینہ عباس

”منظر بدلنا چاہیے“ ڈاکٹر تنظیم الفردوس کا شعری مجموعہ ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر تنظیم الفردوس کا تعلق جامعہ کراچی کے شعبہ اردو سے ہے۔ اس شعری مجموعے کو ڈاکٹر صاحبہ نے ”راہ یار“ کے نام سے موسوم کیا ہے۔ اس مجموعے میں تین پیش لفظ ہیں۔ پہلا پیش لفظ احسان اکبر نے لکھا ہے۔ ڈاکٹر تنظیم الفردوس کی شاعری پر تبصرہ کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں کہ ”زبان تنظیم الفردوس کے گھر کی باندی ہے۔ انھوں نے کتابی نہیں گھریلو زبان برتی۔

تنظیم نے جتنے زیادہ موضوعات کو نظم کے لیے چنا ہے وہ حیران کن ہیں۔ اس لیے کہ ہماری خواتین زندگی کی اتنی وسعت پر نگاہ رکھتی ہی نہیں“ ۔ تنظیم الفردوس نے غزل بھی کہی مگر ان کی نظم کے موضوعات متنوع ہیں۔ مثلاً پرسہ، مرثیہ، ایک کلک کے بعد ، بخشش، مرد و زن، بیٹے کے لیے ایک دعا، جیون گیان، بیراگن، دائرے، الٹے عکس، دھوکہ، مہم جو اڑان سے پہلے، سیاسی موضوع ”فلوجہ“ اور جدید حسیات ادبی جیسے ”رد تشکیل“ وغیرہ بھی ان کی توجہ سے اوجھل نہیں رہ پاتے۔ تنظیم الفردوس نے کھلی آنکھوں دنیا دیکھی اور اسے کھلے اسلوب میں منظم کر دیا۔

سحر انصاری کے مطابق ”ڈاکٹر تنظیم الفردوس کی نظموں میں دبا دبا سا دکھ اور سچائی کی روشنی اس طرح سما جاتی ہے کہ دل و دماغ پر ایک کیفیت سی طاری ہوجاتی ہے۔ انھوں نے ایک ایسے دور میں شعر کہنا شروع کیا جب نسوانی آوازیں اپنے اپنے رنگ میں نمایاں ہو رہی تھیں۔ کئی شاعرات کے اسالیب اور موضوعات کی نقل بھی ہو رہی تھی لیکن تنظیم الفردوس کی نظموں پر کسی کی چھاپ نہیں ہے۔ ان کا انداز سخن اپنا ہے۔ اس لیے کہ انھوں نے شاعری کو کسی سماجی ضرورت کے تحت اختیار نہیں کیا۔

یہ ان کی روحانی کیفیت کا اظہار ہے۔ “ فرخند شمیم کا کہنا ہے کہ ان کی شاعری رومانیت کے رنگوں سے آراستہ ہے اس میں ہجر اور برہا کے لمحات بھی ہیں اور وصل و رفاقت کی سرشاری بھی، انہوں نے سادہ لفظوں میں شاعری کی ہے اور ان کا بنیادی جھکاؤ ہندی آمیز لفظیات کی سمت بھی ہے۔ تنظیم کی نظموں میں خوبصورت ہندی رنگ خود بخود شامل ہوجاتا ہے اور لطف سخن میں اضافہ کر دیتا ہے۔ ان کی شاعری پڑھتے ہوئے بھی کچھ ایسا سماں بندھنے لگتا ہے یوں جیسے کوئی علی الصبح اپنی کیاری میں بیٹھ کر ہوا سے باتیں کرے۔

بچھڑ کے تجھ سے خبر بھی نہیں ملی اپنی
کوئی بتاؤ کہ یہ عمر کیا ہوئی اپنی
٭٭٭
پھر اس کے بعد کوئی جواب لکھ نہیں پائے
تمہارا قرض تھی آنکھوں کی روشنی اپنی
٭٭٭
بہت قریب رہا وہ ہمیں خبر ہی نہ تھی
تمام عمر یہ دل جس کی آرزو میں رہا
٭٭٭
تو سامنے ہو تو زندگی کے بہت سے رنگیں خیال سوچوں
تری جدائی میں دل پر گزری قیامتوں کے عذاب لکھوں
٭٭٭
خالی منظر سوچ رہا ہے
پیڑ یہ سوکھا کیوں رہتا ہے
٭٭٭
وہ اک نگاہ تماشا بنانے آئی تھی
عجیب طرح محبت کی اس نے ڈالی ہے
٭٭٭
خلوص و مہر و وفا کی کوئی تو قیمت ہو
ہجوم سنگ میں شیشے کا دل سوالی ہے
٭٭٭

ڈاکٹر تنظیم الفردوس اپنے وجود کا ادراک رکھتی ہیں۔ وہ اپنے وجود کے اسی ادراک سے حقیقتوں تک پہنچنے کی کوشش کرتی ہیں۔ نئے کھلونے، مردوں کا ٹیلا، آگہی، پرسہ، جیسی نظموں سے ان کے باشعور ہونے کا اندازہ ہوتا ہے۔ وہ ایک معصوم اور حقائق کی پروردہ عورت کے طور پر سامنے آتی ہیں۔ وہ تمام زندگی دوسروں کے لیے جینے کا حوصلہ رکھتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اپنی نظم ”مشورہ“ میں یہ کہتی ہوئی نظر آتی ہیں۔

”مشورہ“
کاگا سب سے پہلے میری
دونوں آنکھیں ہی کھالی جیو
ایسی آنکھوں کا کیا کی جیو
پی کو جو اپنے جاتا دیکھیں

ڈاکٹر تنظیم الفردوس کی شاعری پڑھ کر اس بات کا ادراک ہوتا ہے کہ انھوں نے یہ شاعری شہرت اور مشاعروں کے لیے نہیں کی، بلکہ اپنی تخلیقی صلاحیت کی شناخت کے لیے کی ہے۔ انھوں نے ہندی لفظیات کا بہ خوبی استعمال کیا ہے۔ ان کی شاعری میں ادبی، سیاسی اور سماجی موضوعات کا تنوع نظر آتا ہے۔ ان کی شاعری میں، ان کی مثبت سوچ کا اثر نمایاں ہے۔ یادوں کا ایک تسلسل ہے جس میں خوف، بے ثباتی اور انجانے راستوں پر چلنے کا ایک خوف شامل ہے۔ کئی نظموں میں ان کا انفرادی جوہر نمایاں ہے۔ محبت ان کا بنیادی موضوع ہے۔ ان کی نظموں میں محبت کے بہت سے رخ آئے ہیں۔ انھوں نے کہیں کہیں بڑی جرات سے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔

دھوپ میں برسات کا منظر بدلنا چاہیے
اب ہماری ذات کا منظر بدلنا چاہیے
پتھروں میں زندگی کی لہر دوڑانے کے بعد
برف جیسی رات کا منظر بدلنا چاہیے
٭٭٭
بہت سے خواب بکھرتے رہے تمہارے بغیر
ہم آئینوں سے گزرتے رہے تمہارے بغیر
٭٭٭

خود اس شعری مجموعے کا دیباچہ ”منظر اور پس منظر“ میں ڈاکٹر تنظیم الفردوس تحریر کرتی ہیں کہ ”الحمدللہ! دکھ اور سکھ کی ہمسائیگی میں زندگی کا سفر آگے بڑھتا رہا۔ کھونے کے لیے کچھ پاس تھا ہی نہیں زندگی نے دیا بہت کچھ، بہت سے مواقع اور کامیابیاں، بے غرض مخلص ساتھی، یہ ضرور ہوا کہ انسانوں کے بارے میں شدید متضاد رویہ پیدا ہوا، جس کے تحت یا تو آنکھ بند کر کے کسی پر بھروسا کیا یا پھر یکسر مسترد کر دیا۔ بتوں کو نظر انداز بھی کیا اور بت بنائے بھی، کچھ بتوں کو پورے قد سے گرتے بھی دیکھا، بقیہ بھی گرا سکتے ہیں! لیکن جب بنا لیے تو خود ہی کیسے گرا دوں؟ البتہ اب بت نہیں بناتی۔

سنائیں مقطع، سمیٹیں یہ داستان الم
تمام کیجیے، تنظیم اب یہ قصہ بھی
٭٭٭

”منظر بدلنا چاہیے“ کی ابتدا میں حمدیہ نظم ”الف اللہ“ نعتیہ نظم ”حسن عقیدت“ تمنا، وقت رخصت اور ”فریاد“ نامی مناجات کے علاوہ پانچ نعتیں شامل ہیں۔ جو اس حقیقت کی مظہر ہیں کہ ڈاکٹر تنظیم الفردوس نعت گوئی پر بھی مکمل عبور رکھتی ہیں۔ ان کے مجموعے کلام میں محض نظمیں اور غزلیں ہی نہیں، بلکہ حمد اور نعتیں بھی شامل ہیں۔

ہے فلک مطمئن، بحر و بر مطمئن
اور بشر ان کی پاکر خبر مطمئن
ذکر سرکار میں اب تو رہنے لگے
نطق و لب مطمئن اور نظر مطمئن
ظلمتوں، کلفتوں کی ستائی ہوئی
خلق رہنے لگی کس قدر مطمئن
اس مجموعہ کلام میں پچیس غزلیں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ متفرق اشعار بھی موجود ہیں۔
کاش وہ انتظار ہی رہتا
تجھ سے مل کر ہوئی ہے تنہائی
٭٭٭
اس نے کب پھول دیے تھے کہ کتابوں میں رکھو
چشم نم دین تھی اس کی یہ بھرم بھی ٹوٹا
٭٭٭
شکایتوں کی تمنا میں عمر کاٹی ہے
سماعتوں سے مگر اذن گفتگو نہ ملا
٭٭٭
” منظر بدلنا چاہیے“ کی نظموں کے عنوانات ہی ان کے متنوع اور منفرد ہونے کی عکاسی کرتے ہیں۔

دور نگاہی، انت، ہستی، وہ ایک لمحہ، زمانہ، خواب کے دو رنگ، پہلا رنگ: شکستگی، دوسرا رنگ امید، برہا، بابا، دور، احساس زیاں، محرک، سوچ کی اڑان، نگار خانہ، موم کی گڑیا، ضروری لوگ، آبگینۂ درد، مراجعت، مجھے خبر ہے، رنگوں کے بعد ، شک، وہ مجھ سے پوچھے، آئینہ، عفریت، عذاب خواب، مٹی، پردیسی، تم میری آنکھیں ہو، شب الم، ایک گیت، پہلی دعا، گنبد کی صدا، درد کا شہر، موج کنارے کی، تلاش، کولاژ، چھت، ممتا، نئے کھلونے، حسن امکاں، مردوں کا ٹیلا، رد تشکیل کا ہنر، شکست دل کی صدا، وصل کی ساعت سمٹی سی، اڑان سے پہلے، لا تعلقی، فلوجہ، مہم جو، کون سے، دھوکا، الٹے عکس، طلسم، ہمیشگی، الاؤ، ادھورا سفر، مشورہ، درد کہانی، بیراگن، دائرے، دیے کی چنگاری، آواز مکاں، جیون گیان، سچ جھوٹ، مرد و زن، بخشش، ناز شکست، بیٹے کے لیے ایک دعا، پھر سے سب جی اٹھے، شرط، مشورہ، اب مشکل ہے، پہلی سالگرہ، ایک ”کلک“ کے بعد ، اپنی ماں کے پہلے چاند کا مرثیہ، بھائی جان کی ”گڑیا“ کے لیے، آگہی، پرسہ، صدائیں گم ہوئی ہیں، ہائیکو۔

ڈاکٹر تنظیم الفردوس کی نظموں کے موضوعات منفرد ہیں اور یہ نظمیں تخیل کی سطح پر قاری اور سامع کو اک دوسرے جہاں کی سیر کراتی ہیں۔

شرط
دعائیں ہار جاتی ہیں
دعائیں پر شکستہ ہوں
تو اکثر ہار جاتی ہیں
دعا مقبول ہونے کے لیے بے حد ضروری ہے
دعا کو وہم اور تشکیک کی قینچی سے یکسر دور رکھیں ہم
٭٭٭
صلہ
مجھ کو شب نے دیا
جاگنے کا صلہ
آنکھ جھپکی نہیں
میرے احساس کی

224 صفحات پر مشتمل ڈاکٹر تنظیم الفردوس کا شعری مجموعہ ”منظر بدلنا چاہیے“ فن شعر میں ان کی مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ڈاکٹر تنظیم الفردوس نے شروع سے آخر تک شاعری کے معیار اور وزن کا خاص خیال رکھا ہے۔ امید ہے کہ یہ شعری مجموعہ، اردو شاعری میں ایک اچھا اضافہ ثابت ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments