قلم کے دھنی


صاحبان قلم کا ایک اژدھام ہے اخبارات کے ادارتی صفحے بھرے پڑے ہیں مختلف موضوعات پر خامہ فرسائی ہو رہی ہے ارباب قلم میں طبقہ اناث نے بھی اپنا حصہ ڈالا ہوا اپنے استعداد کے مطابق لکھ رہی ہیں یہ ایک خوش آئند بات ہے ایک جمہوری ریاست میں ان کا بھی حق ہے وہ اپنا نکتہ نظر بیاں کر سکیں۔

بلاشبہ ہر ایک کا اپنا طرز تحریر ہے۔ جس طرح میں نے پہلے بھی کہا کہ لکھنے والوں کی کمی نہیں لیکن بعض ایسے انشا پرداز ہیں جن کے مضامین اخبارات کی زینت ہوتے ہیں جس دن ان کا مضمون شائع ہو تا ہے اس دن اخبار بھی بھاری سا محسوس ہو تا ہے۔

ایسے خامہ فرساوٴں کا طرز اسلوب لفظوں کی کاٹ فقروں کی منجدھار قاری کو دیوانہ بنا دیتی ہیں۔

ایسے منجھے کالم نویسوں میں چند کا ذکر کرتے ہیں جن کی طرز تحریر علمی استعداد اور موضوعات کا چناوٴ پڑھنے والے کو فریفتہ کر دیتا ہے۔

سب سے پہلے بات کرتے ہیں وجاہت مسعود صاحب کی جن کے لکھنے کا اپنا ہی انداز ہے اور علمی صلاحیت اتنی ہے چاہے تاریخ ہو ادب ہو سیاست ہو عمرانیات ہو فلسفہ ہو سب گھول کے پی رکھا ہے کالم کو اس قدر بھاری بنا دیتے ہیں کہ بات ادب سے نکلتی ہے عمرانیات و سیاست گزرتی فلسفے پہ اختتام پذیر ہوتی ہے اتنے سارے موضوعات کو ایک ہی تحریر میں تسلسل کے ساتھ جوڑنے کا ہنر وجاہت صاحب سے بہتر کون جانتا ہے۔ ایک ہی مضمون کو پڑھنے سے سارے موضوعات کی وضاحت ہو جاتی ہے یوں پڑھنے والے کی دلچسپی بڑھ جاتی ہے کیونکہ موضوع ایک نکتہ ارتکاز میں نہیں ہوتا اپنے جوہر بدلتا رہتا ہے لیکن تسلسل کا معیار بھی قائم رہتا ہے۔ وجاہت صاحب کی کالمز کے مجموعے پر مشتمل محاصرے کا روزنامچہ سے دو کتب شائع ہو چکی ہیں۔

بات کرتے ہیں یاسر پیر زادہ کی جن کا طرز اسلوب تو سادہ ہے لیکن موضوعات کا چناوٴ کمال ہوتا ہے وہ عام مضمون نگار کی طرح سیاسی موضوعات کو زیر بحث نہیں لاتا بلکہ ان کے موضوعات میں انسان سازی اور سماج سازی پر بات ہوتی ہے دریا کو کوزے میں بند کرنے کا ہنر جانتے ہیں بڑے سے بڑے موضوعات کو اس اختصار سے پیش کرتے ہیں کہ بات ایک ہی کالم میں مکمل ہو جاتی ہے یاسر کا انداز اسلوب سادہ ہے مگر قاری کو نہ چاہتے ہوئے بھی پڑھنے پر مجبور کرتا ہے ان کے مجموعہ کالمز پر مبنی دو کتابیں ذرا ہٹ کے نام سے شائع ہو چکی ہیں۔

بات کرتے ہیں وسعت اللہ صاحب کی جن کے وسیع علم اور تجربے سے مفر ممکن نہیں۔ ان کا طرز تحریر کمال کا ہے موضوعات اس قدر پر اثر ہوتے ہیں پڑھتے وقت لگتا ہو گویا یہ سب کچھ آنکھوں کے سامنے ہو رہا ہو۔ پورا منظر نامہ سامنے ہوتا ہے۔ حالات حاضرہ ہو یا سیاست ہو خواہ کوئی بھی موضوع ہو دقیق سے دقیق موضوعات کو بھی قاری کو مدنظر رکھتے ہوئے عام موضوع کی طرح قلمبند کرتے ہیں۔

خاتون قلمکاروں کی بات کی جائے تو عفت نوید کا نام سر فہرست ہے ان کے موضوعات کا چناوٴ ہر انسان سے جڑا ہوتا ہے مضامین میں معاشرتی موضوعات کا دامن اس قدر وسیع و عریض ہے کبھی کوڑا اٹھانے والا لڑکا موضوع بحث بنتا ہے تو کبھی سکھیوں کے ساتھ بیتے لمحات کبھی پدر سری نظام کو کاٹ دار لفظوں سے نشانہ بنانا کبھی سندھ کے تھریوں کی آہ و فغاں بیان کرنا کبھی ذاتی زندگی کے تجربات کو احاطہ ء قلم میں لانا۔ طرز اسلوب کی یہ خوبصورتی ہے جو اسے ایک بار پڑھتا ہے پھر بار بار پڑھتا ہے۔ ہم سادہ الفاظ میں کہہ سکتے ہیں لفظوں اور فقروں کی نشتر زن ہیں۔ لفظوں کی کاٹ اور نشتر زنی سے پڑھنے والوں کو مائل کرتی ہیں۔

امر جلیل پائے کے کالم نویس ہیں ان کا شمار بھی چند معروف گنے چنے صاحبان قلم میں ہوتا ہے جن کی تحریریں قارئین کو دلدادہ بنا دیتے ہیں ان کا انداز تحریر و طرز اسلوب بلا کا ہے پڑھتے وقت ایسا محسوس ہوتا ہے کہ امر جلیل صاحب سامنے بیٹھے خود گویا ہوں۔

کالم کو بھی اس طرز سے لکھتے ہیں گویا افسانہ ہو۔ ان کے کالمز میں افسانوی چھاپ برملا نظر آتی ہے فقروں کی بے مثل بناوٹ کاٹ دار لفظوں کا انتخاب مزاح کا تڑکا تحریروں کو جاندار بنا دیتا ہیں۔

ان کا موضوع ہمیشہ عام آدمی رہا ہے وہ معاشرے کے مزاج حالات و واقعات کی قلم کشی کرتے ہیں۔ امر جلیل صاحب کا طرز اسلوب جاندار ہے شاندار لکھتے ہیں۔

خواتین کے کالمز بہت کم پڑھنے کو ملتے ہیں لیکن جن کے پڑھنے کو ملتے ہیں کمال ہوتے ہیں۔

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی کا بے مثال طرز اسلوب ہے بہت ساری چیزیں ایک ہی تحریر میں سمائی ہوتی ہیں لکھنے کا انداز اتنا خوبصورت ہے قاری پڑھتا ہی چلا جاتا ہے پتہ ہی نہیں چلتا کہ کالم اختتام کو پہنچتا ہے۔ سماجی موضوعات پہ لکھنے کا شغف رکھتی ہیں۔ خاص طور پر ان کے موضوعات کا محور و مرکز عورت ہوتا ہے وہ عورت جو معاشرے کی بر بریت کا شکار ہو وہ عورت جو رسم و رواج کی بلی چڑھائی گئی ہو وہ عورت جو کم۔ عمری میں بیاہی گئی ہو وہ عورت جو ساس کے ہاتھوں جلائی گئی ہو۔ بسا اوقات زندگی کے ذاتی تجربات کو اس طرز سے بیان کرتی ہیں ایسا لگتا ہے کہ ہم اپنی ہی آب بیتیاں پڑھ رہے ہوں۔

عرفان جاوید نوجوان ادیب ہیں میں ذاتی طور پر ان کی طرز تحریر کا بڑا مداح ہوں فقروں کے تال میل کا جوہر اس سے بہتر کون جانتا ہے۔ ادب پہ گہری نظر رکھتے ہیں ان کے بے شمار سلسلے ہفتہ وار جنگ سنڈے میگزین کی زینت بن چکے ہیں۔

ان کے طرز اسلوب میں ایسا جادو چھایا ہوا ہے کہ اسے پڑھتے ہوئے آپ دنیا جہاں سے بے خبر ہو جاتے ہیں نظر مضمون پہ ٹکی رہتی ہیں ہلنے کا نام نہیں لیتی۔ دماغ میں فقروں کا تال میل چلتا ہے سکون سا محسوس ہوتا ہے ان کے اتنے ضخیم سلسلے پڑھنے کے بعد دل نہیں بھرتا۔ مزید پڑھنے کی خواہش باقی رہ جاتی ہے۔

آج کا نوجوان جو لکھنے سے شغف رکھتا ہے اسے عرفان جاوید کو پڑھنا چاہیے جاندار لکھاری ہیں لکھنے کے فن کے دھنی ہیں۔

صاحبان قلم کی فہرست طویل ہے وقت متناہی ہے تحریر کے محدود احاطے میں چند معروف صاحبان قلم کا ذکر کیا گیا۔

لکھنے کا ہنر اتنا سہل نہیں ایک جہد مسلسل کی ضرورت ہوتی ہے صاحبان قلم ریاضت کرتے ہیں وقت کھپانا پڑتا ہے علم کے دریا میں ناوٴ کی رفتار کو تیز کرنا پڑتا ہے تب جا کے منزل ملتی ہے مسلسل غور و فکر کے نتیجے میں تب جا کے گیان ملتا ہے۔

پھر ایسے لوگوں پہ قلم ناز کرتا ہے وہی لوگ ”قلم کے دھنی“ کہلاتے ہیں۔

احمد علی کورار
Latest posts by احمد علی کورار (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments