دعا زہرا کیس: داستان عشق یا فراڈ
صدیوں سے انسان خدا کے بعد اگر کسی اور کی تلاش میں رہا ہے تو وہ ہے، محبت، ایسا محبوب جس کی خاطر کسی بھی حد سے گزر جانا، جان دینا بھی دشوار نہ ہو۔ ہزاروں سال پرانی کہانیوں سے آج بننے والی فلموں اور لکھے جانے والے ناولز میں دو دلوں کے ملنے بچھڑنے یا ہمیشہ کے لئے ایک ہو جانے کی خاطر دنیا سے ٹکرا جانے کی روداد ہوتی ہے۔
ایسا ہی ایک قصہ کچھ دنوں سے نیوز چینلز اور سوشل میڈیا پے سب کی توجہ کا مرکز بنا گیا جب دعا زہرا نامی بچی کے والدین نے رو رو کے بچی کی گمشدگی اور بازیابی کے بارے میں ٹی وی پے بیان دیا۔
بچی کچھ دن بعد پولیس نے ڈھونڈ نکالی۔ مگر یہاں سے کہانی میں خاصہ ڈرامائی موڑ آیا اور لاہور کورٹ میں دعا زہرا نے صاف الفاظ میں اپنی پسند سے شادی کرنے کا اقرار کیا اور والدین کے پاس واپس جانے سے انکار کر دیا۔ اس کے بیان پے جج نے اسے شوہر کے ساتھ بھیجنے کا فیصلہ صادر کیا۔
اسکے بعد کی پیش رفت بھی سب کے سامنے آتی رہی، سندھ حکومت نے نوٹس لیا، سندھ اور پنجاب پولیس کے اعلی افسران کو تبدیل یا معطل کیا گیا۔
کیس پنجاب سے سندھ کراچی ہائی کورٹ لایا گیا۔
ایک بار پھر دعا زہرا نے وہی بیان دیا۔ والدین اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹے، ان کی مطابق بچی کسی دباؤ کے زیر اثر ہے۔
تاہم دعا زہرا اور زہیر کے انٹرویو نے کل سے سب کو ہی حیران پریشان کیا ہوا ہے۔ بظاہر یہی لگ رہا ہے کہ یہ ہیر رانجھا، سسی پنوں جیسی ایک جوڑی ہے۔ مگر دعا زہرا کے اس انٹرویو میں کہی گئی باتوں سے معلوم ہو رہا ہے کہ اسے بہت اچھی طرح سمجھایا گیا ہے کہ کیا کہنا ہے۔
ایک بات پے غور کریں، ایک چودہ یا سترہ سال کی لڑکی جسے گھر سے سامنے نانا کے گھر تک بنا نگرانی جانے کی اجازت نہیں تھی، وہ گھر سے نکلی، رکشہ میں ائرپورٹ گئی اور وہاں سے اکیلی ٹیکسی کر کے لاہور روانہ ہو گئی۔
اس ملک میں شادی شدہ، بچوں والی، بڑی عمر اور جاب کرنے والی خواتین ہیں۔ جو اسکول، کالج، یونیورسٹی سے تعلیم یافتہ ہیں۔ ہر عمر کے لوگوں سے بات کرنے کی سمجھ ہے، کیا ان میں سے کوئی ایک خاتون بھی اکیلے ایسے ٹیکسی میں لاہور کیا حیدرآباد بھی جا سکتی ہے؟
دوسرے اجنبی شہر میں کسی کا گھر تلاش کرنا اتنا آسان نہیں ہوتا۔
میں بارہا لاہور گئی ہوں، سوائے دو گھروں کے تیسری جگہ خود راستہ بتا کے نہیں جا سکتی۔ اس میں بھی ایک آدھ بار اکیلے جانا ہوا تو سارا راستہ سورتیں پڑھتی رہی، جن کے پاس پہنچنا تھا، ان سے مستقل کال پے رہی۔
یہ کہانی ماننے والی نہیں ہے لیکن بہت ہوشیاری سے قانونی پیچیدگیوں کو سامنے رکھتے ہوئے گھڑی گئی ہے یعنی نہایت عیاری سے اغوا کے الزام کا امکان ہی ختم کر دیا گیا۔ بیان ہی یہ ہے کہ اکیلی لڑکی کراچی سے لاہور پہنچی، پہلے سے کسی کو خبر نہیں تھی۔ اچانک زہیر کے گھر جاکر کہا کہ میں آ گئی، آپ کی بہو!
اور زہیر کے ”حیران کن حد تک فرشتہ صفت“ گھر والوں نے فوراً اس کے سر پے ہاتھ رکھا اور کھڑے چڑھے نکاح کروا کے سب ہنسی خوشی رہنے لگے۔ گویا، نون نہ پاپڑی، بدھاک بہو آ پڑی!
جبکہ ہمارے معاشرے میں اگر ایسا ہو تو پہلے تو ماں اور دیگر بڑے اپنے لڑکے کی ٹھکائی کرتے ہیں، ساتھ ہی لڑکی کے گھر والوں کو کال کرتے ہیں کہ اپنی بیٹی لے جاؤ۔ ہمیں کسی پولیس کیس میں نہیں پھنسنا، تیسرے لڑکی کو آوارہ سمجھ کے کبھی بہو قبول نہیں کرتے۔
مگر دعا زہرا مسکراتے ہوئے بتا رہی ہے کہ تمام سسرال کا رویہ بہت اچھا ہے۔ ساس امی لاڈ کر رہی ہیں، اس کی فرمائش پے پیزا منگواتی ہیں، وغیرہ وغیرہ۔
والدین سے اسے بہت شکایات ہیں، اسے مارتے تھے، سختی کرتے تھے، تیسری جماعت کے بعد اسکول نہیں بھیجا گیا۔ پلاٹ کے لالچ میں اس کی شادی زبردستی تایا زاد سے کروانے کے درپے تھے یہاں تک کہ والد نے اسے جان سے مارنے کی دھمکی بھی دی۔ فیملی کو دیکھ کے ان الزامات کی صداقت مشکل لگتی ہے۔ مگر دونوں بار عدالتوں نے اس کیس کو اسپیشل کیس نہیں سمجھا۔ بہتر ہوتا کہ بچی کو کم از کم ایک ہفتہ کسی نامعلوم، محفوظ مقام پر منتقل کر دیا جاتا۔
جہاں اس کا رابطہ والدین اور شوہر سے بھی نہ ہوتا۔ چائلڈ سائیکارٹسٹ، صارم برنی جیسے سوشل ورکر اور ایک خاتون وکیل کا ایک پینل بچی کے ساتھ ریکارڈڈ سیشنز کرتا تاکہ اگر کچھ چھپایا بھی جا رہا ہے تو اس تک پہنچا جا سکے۔ کیونکہ لال مشروب سے بھرا جام ہمیشہ شربت نہیں ہوتا کبھی کبھی کسی بے بس کے خون کا پیالہ بھی ہو سکتا ہے۔
- وہ چار لڑکیاں - 05/01/2023
- آڈیو اور چھجو کا چوبارہ - 24/12/2022
- زرد پھول اور نور مقدم (تیسرا۔ آخری حصہ ) - 02/12/2022
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).