بلومز ڈے: تخلیق کا ساتواں دن


ہر سال 16 جون کو دنیا بھر میں لاکھوں افراد ایک دلچسپ ادبی اور ثقافتی تہوار مناتے ہیں۔ دراصل 16جون 1904 وہ مخصوص دن ہے جس میں پیش آنے والے افسانوی واقعات آئرش ادیب جیمز جوائس کے شہرہ آفاق ناول یولیسیس میں بیان کیے گئے ہیں۔ ناول کے مرکزی کردار لیوپلڈ بلوم کی نسبت سے اس دن کو بلومز ڈے کہا جاتا ہے۔ اس دن یوں تو پوری مغربی دنیا میں رنگا رنگ تقریبات ہوتی ہیں جس میں اس دور کی مخصوص موسیقی، ناول کے مختلف حصوں کی قرات، ٹیبلو، فینسی ڈریس اور یورپ کے مختلف شہروں میں جوائس موزیئم کی زیارت شامل ہیں، مگر ان سب سے اہم مشہور زمانہ یولیسیس یاترا ہے جس میں شرکاء ڈبلن شہر کے ان مقامات کا سفر کرتے ہیں جو اس ناول کے مرکزی کرداروں لیپولڈ بلوم اور اسٹیفن ڈیڈیلس نے وزٹ کیے۔

اپنے سن اشاعت 1922 سے لے کر آج تک یہ ناول قاری اور نقاد کی توجہ کا مرکز رہا ہے۔ انتہائی متنازع مواد (جس پر برنارڈشا اور ورجینیا ولف جیسے روشن خیال معاصرین تک نے تنقید اور نہایت منفی آراء کا اظہار کیا) کھردرے اور بے روایت اسلوب اور مشکل زبان و بیان کے باوجود اسے جو غیر معمولی پذیرائی ملی اس کی وجہ جاننے کے لیے ہمیں اس تخلیقی بحران کا ذکر کرنا ہو گا جو صنعتی عہد میں دخول کے بعد مغربی فنکاروں کو درپیش تھا۔

پکاسو کی مصوری کے حوالے سے کسی نے کیا خوب لکھا کہ صنعتی انقلاب کی وجہ سے مغرب کی تمدنی اور معاشرتی زندگی میں جو جوہری تبدیلی آئی اس نے ہزاروں برس کے جمے جمائے تصورات بدل ڈالے۔ نئی دنیا کی حقیقتوں کے بیان کے لیے تخلیقی اظہار کے پرانے اسالیب ناکافی ثابت ہوئے تو پکاسو اور اس کے معاصرین کو تجریدیت کا سہارا لینا پڑا۔ فکشن میں یہی معاملہ کافکا کی کہانیوں اور یولیسیس کا ہے۔

یولیسیس اپنے نام ہی نہیں ساخت کے اعتبار سے بھی ہومر کی مشہور زمانہ داستان اوڈیسی سے متاثر ہے۔ ہومر کے ہیرو یولیسیس کے برخلاف ناول کے ہیرو لیوپڈ بلوم اور اسٹیفن ڈیدیلس انجانی سرزمینوں کے دشوار اور پر خطر سفرپر نہیں نکلتے، ان کا جہان حیرت تو ڈبلن شہر کی شاہرائیں اور گلیاں ہیں یہیں مٹر گشت کرتے وہ سارا دن گزارتے ہیں اس دوران صبح آٹھ بجے سے لے کر نصف شب تک ان پر جو بیتی یہ ناول اسی کی روئیداد ہے۔

اوڈیسی کو جس طرح یورپی ادب کا نقطہ آغاز کہا جاتا ہے اسی طرح یولیسیس جدید مغربی ادب کا آغاز ہے۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے ہمیں اس عہد کو جاننا ہو گا۔ یولیسیس کا زمانہ تحریر تاریخی اعتبار سے بڑا منفرد ہے۔ ایک طرف آئرلینڈ میں یہ سات سو سالہ برطانوی سامراج کی آخری دہائی ہے اور یوں پورے ملک میں نئے آئرش وطن کے خد و خال اور اس کی سیاسی اور آئینی تنظیم پہ بحث زور و شور سے جاری تھی۔ ساتھ ہی ساتھ پروٹسٹنٹ اور کیتھولک منافرت بھی عروج پہ تھی اور ہر طبقے میں سرایت کر چکی تھی۔ اپنے سماج سے جڑے سچے تخلیق کار کی حیثیت سے جوائس کی اس صورتحال پر گہری نظر ہے۔ ناول میں کئی مقامات پر سیاسی اور مذہبی مباحث دکھائے گئے ہیں، سڑک، پارک، دفتر، بار ہر جگہ کیا طالب علم، کیا رپورٹر، کیا سیاسی کارکن اور کیا طوائف سب ہی اس بحث میں حصہ لیتے ہیں۔

یہ تو ہوا آئرلینڈ کا قومی منظر نامہ جس کی بھرپور عکاسی جوائس کی ہر اس تحریر جو اس زمانے میں لکھی گئی مثلاً Portrait of the Artist as a Young Man اور Dublineers میں کی گئی ہے مگر اسی کے ساتھ ساتھ ایک اور وسیع تر عالمی تناظر بھی ہے۔ پہلی جنگ عظیم کے آس پاس کا زمانہ دراصل وہ دور ہے جب مغرب مکمل طور پر جدید ہو گیا۔ گویا وہ تاریخی عمل جو چودھویں صدی میں نشاط ثانیہ سے شروع ہوا وہ اب کہیں جا کے مکمل ہوا۔ یہ عظیم پیش رفت اپنی جلو مین جو انقلابی تبدیلیاں لائی ان کے اثرات سیاسی بھی ہیں معاشی بھی اور سماجی بھی۔

سیاست کے میدان مین جہاں ایک طرف برطانیہ اور فرانس میں لبرل ڈیماکریسی کی بنیاد پڑی وہیں روس، ترکی اور جرمنی میں قدیم بادشاہتوں کا خاتمہ ہوا۔ معیشت کے میدان میں پر یورپی امیرئل ازم کی جگہ امریکی برانڈ کی کثیر القومی کمپنیوں کی سرمایہ داری کا ظہور ہوا۔ اور پھر انہی سیاسی اور معاشی تبدیلیوں کی بدولت سماج کی صورت گری کچھ یوں ہوئی کہ اجتماعی زندگی کی بساط سکڑنا شروع ہو گئی اور انفرادی زندگی کا دائرہ پھیلتا چلا گیا۔ ان ہوشربا تبدیلیوں نے یوں تو پورے سماج کی بنیادیں ہلا دیں مگر سب سے زیادہ متاثر جو طبقہ ہوا وہ فنکار اور ادیب ہی تھا۔ کیا لکھے اور کیا سنائے۔

یولیسس کے تین مرکزی کردار ہیں بلوم، اسٹیفن اور مولی (بلوم کی بیوی) ۔ پہلے سترہ ابواب میں بلوم اور اسٹیفن کی سرگزشت بیان ہوئی ہے (جبکہ مولی کا کردار غائبانہ موجود رہا ہے ) ، آخری باب مولی کی خود کلامی پر مشتمل ہے۔ بلوم ایک ادھیڑ عمر نوکری پیشہ یہودی ہے جو گھر اور معاشرہ دونوں جگہ دباؤ کا شکار ہے، جبکہ اسٹیفن گوئٹے اور انیسویں صدی کے رومانوی شاعروں کے ہیرو جیسا ہے ذہین، عالم اور کلچرڈ، وہ مذہب، تاریخ اور آئرش قومیت کے بارے مقبول عام نظریات کے برعکس خیالات رکھتا ہے اور ان کا برملا اظہار بھی کرتا ہے۔ بلوم کی عملیت پسندی بیٹے کی موت، بیوی کی بو وفائی اور قوم یہود کی عالمی تنہائی میں بھی جینے کی صورت نکال لیتی ہے۔ کیا عجب اتفاق ہے کہ بلوم کی شکست خوردگی سے فعالیت جنم لیتی ہے اور اسٹیفن کی بغاوت اسے بے عملی کی راہ دکھاتی ہے۔

تیکنیک کی بات کی جائے تو جائے تو یولیسیس میں اسٹریم آف کاشیائنس یا شعوری رو کا استعمال کیا گیا ہے یعنی ناول میں پلاٹ کی بنت واقعات کے اتار چڑھاؤ کے بجائے کرداروں کی سوچ کے دھارے پر رکھی گئی ہے۔ یہ سوچیں بظاہر کسی ایک نقطے پر مرتکز نہیں رہ پاتیں اور خارجی عوامل کی شہ پاکر ادھر ادھر بھٹکتی تو ہیں مگر مقناطیس کی سویوں کی طرح اپنے مرکز کے گرد ہی گھومتی رہتی ہیں۔ اس لیے آئرلینڈ کا قومی سوال ہو یا یہودیوں کے ساتھ نسلی امتیاز کا معاملہ، بلوم کی جنسی نا آسودگی ہو یا اسٹیفن کا احساس جرم سوچ کا دائرہ مرکز ذات سے باہر نہیں نکلتا۔

اس ناول کے اہم ترین مباحث میں سے ایک تاریخ بمقابلہ قومی حافظہ ہے۔ قومی حافظہ کیا ہے؟ یہ دراصل تاریخ کو حافظے کے ساتھ جوڑنے کی واردات ہے۔ یہاں ماضی کے واقعات کے اسباب و علل اور ان کے اثرات کے معروضی تجزیے کے بجائے اس جذباتی کیفیت کے ساتھ جذب کرنے پر زور ہے جو ان کے ساتھ درآمد ہوتے ہیں۔ یہ کیفیات لوک گیتوں، داستانوں، مذہبی روایات اور اب میڈیا کے ذریعے ذہنوں نفوذ کرتی ہیں۔ اس عمل سے جہاں ایک مثبت قومی شناخت کا تصور راسخ ہوتا ہے وہیں ایسی کٹھ ملائیت بھی جنم لیتی ہے جو تاریخ کو ایک مخصوص سمت میں سفر کرتا دیکھتی ہیں ان کے نزدیک تاریخ کا مقصد کچھ تعصبات کی تصدیق کے سوا کچھ نہیں۔

یہ ذہنیت بظاہر عام شہریوں کی روز مرہ کی گفتگو کا حصہ ہے مگر دراصل یہ پچھلی صدی کے فلسفیوں خصوصاً مارکس اور نطشے کے لہجے کی بازگشت ہے جنہوں نے اپنے تئیں انسانی فلاح کی حتمی راہ ڈھونڈ لی تھی۔ یہ بھی ایک طرفہ تماشا ہے کہ انہی دونوں فلسفیوں کے نظریات پر کھڑی ریاستوں نے بیسویں صدی کے بد تریں جبر کا مظاہرہ کیا۔ بہرحال یہ تو ربیع صدی بعد کا قصہ ہے جس کی جھلک جوائس نے ڈبلن کی گلیوں اور بازاروں میں دکھا دی۔

اسٹیفن اور بلوم دونوں ہی اپنے اپنے دائروں میں اس تنگ نظری کا مقابلہ کرتے ہیں جیسے اسٹیفن کا اپنے استاد مسٹر ڈیسے سے مکالمہ جس میں وہ تاریخ کو ایک ڈراؤنے خواب سے تشبیہ دیتا ہے جس سے نکلنے کا راستہ نہیں ملتا۔ ساتھ ہی ساتھ وہ یہ سوال بھی اٹھاتا ہے کہ مختلف ادوار میں انسانی تاریخ کا سفر کی کسی معنی خیز اور مربوط نظام کا حصہ ہے یا پھر اتفاقی حادثات کا مجموعہ؟ مثلاً یہ کہ فسطائیت کا بیج اگرچہ یورپ کے ہر ملک اور ہر قوم میں پڑ چکا تھا مگر خاص کر جرمنی میں ہٹلر کے نازی ازم کا ظہور محض حسن اتفاق ہے یا پھر تاریخ کے ارتقائی عمل کا شاخسانہ؟

اسٹیفن کے برخلاف بلوم کی مخالفت نظریاتی کے بجائے عملی ہے۔ پورے ناول میں اس کی یہودی شناخت ایک مسئلہ ہے۔ مختلف مقامات اور تقریبات میں اسے دوستوں اور رفقاء کی ہمراہی تو میسر ہے مگر صاف نظر آتا ہے کہ وہ ان کے خاص حلقے میں شامل نہیں اور گاہے بگاہے تضحیک آمیز رویے کا نشانہ بھی بنتا ہے۔ سماجی بے دخلی کی یہ کیفیت بارہویں باب میں ٹکراؤ کی صورت اختیار کر لیتی ہے جب نام نہاد محب وطن شہری اس کی یہودی شناخت پر حملہ آور ہوتا ہے اور اسے آئرش قوم کا حصہ تسلیم کرنے سے انکار کر دیتا ہے۔

پورے ناول میں یہ پہلا مقام ہے جہاں بلوم ایک قطعی اور ٹھوس موقف اختیار کرتا ہے۔ دوسرا اور آخری موقع وہ ہے جب وہ اسٹیفن کو انگریز کانسٹیبل سے بچانے آگے بڑھتا ہے۔ بالآخر حضرت عیسیؑ کے یہودی النسل ہونے کا اعلان اس کی طرف سے اتمام حجت ہے جس کے بعد نام نہاد محب وطن شہری کے لیے تشدد کے سوا کوئی راستہ باقی نہیں بچتا۔

جدید ادب کے بنیادی نظریات میں سے ایک پرسپیکٹیو ازم ہے، جو بتاتا ہے کہ حقیقت کے اتنے ہی معنی ہیں جتنے اسے دیکھنے کے زاویہ نگاہ۔ اس خیال کو پہلے پہل مصوری مین پکاسو اور اس کے معاصرین نے استعمال۔ افسانوی ادب میں اس سے اولین استفادہ حاصل کرنے والوں مین جیمز جوائس بھی ہیں۔ پہلی بات تو اس سلسلے میں تخلیقی عمل کا وہ اصول ہے کہ حقیقت جب تحریر و تقریر اور تصویر کا لباس پہن کر سامنے آتی ہے تو وہ اپنی اصل ماہیت اور ساخت کو برقرار رکھنے کے بجائے اس پیرائے میں ڈھل جاتی ہے جو مقرر، مصنف اور مصور نے اختیار کیا ہوتا ہے۔ گویا تاریخ اور مذہب کے وہ نظریات جو نسل در نسل ہمارا ورلڈ ویو بناتے ہیں وہ اصل سے زیادہ پیرائیہ بیان کے رہین منت ہیں کیونکہ یہاں معنی کی تفہیم کا دار و مدار متن سے زیادہ اسلوب بیاں پر ہے۔

اس بات کو سمجھانے کے لیے جوائس نے ایک ایسی انوکھی تیکنیک اختیار کی جس کی مثال شاید اس سے پہلے نہیں ملتی، اس نے تحریر میں کئی اسالیب اختیار کیے مثلاً آئرش ساگا، بائبل کی حکایات، اخبار کی سرخیاں، باکسنگ میچ کی کمنٹری، خواتین کے ڈائجسٹ، اشتہاری پوسٹر کے ساتھ ساتھ سولہویں صدی سے اپنے زمانے تک کی انگریزی نثر کے نمائندہ اسالیب۔ پھر یہ کہ یہ سارے اسالیب پلاٹ میں مختلف مقامات پر پیش آنے والے واقعات کی مناسبت سے اختیار کیے گئے، مثلاً مسز ڈے کے ہاں بچے کی ولادت والا حصہ بائبل کی کتاب تخلیق کے انداز میں لکھا گیا ہے، اسی طرح اسٹیفن اور انگریز کانسٹیبل کی لڑائی کا بیان باکسنگ میچ کی کمنٹری کے انداز میں کیا گیا۔ یہ سارا تردد محض یہ سمجھانے کے لیے کیا گیا ہے کہ قاری اور سامع پر متن سے زیادہ اثر اسلوب بیان کا ہوتا ہے۔

پھر ہمیں بلوم کی زبانی پیلا رکس کے بارے میں پتہ چلتا ہے جو فلکیات کی اصطلاح ہے جس کے مطابق کسی بھی فلکی جسم کا مشاہدہ کرنے والی آنکھ اسے اس کے حقیقی مقام پر نہیں دیکھ پاتی بلکہ ایک ایسے مقام پر دیکھتی ہے جو خود مشاہدہ کرنے والے کے اپنے مقام (جہاں سے مشاہدہ کیا جا رہا ہے ) پر منحصر ہوتا ہے، گویا وہی آنکھ اگر کسی دوسرے مقام سے مشاہدہ کرے تو اسی فلکی جسم کو ایک مختلف مقام پر پائے گی۔ چنانچہ پورے ناول میں مختلف کرداروں کی گفتگو اور خود بلوم کی سوچ کے تانے بانے سے مولی کا جو تاثر قائم ہوتا ہے وہ ایک ابرو باختہ عورت کا ہے۔ مگر پورے تین سو ساٹھ ڈگری کا چکر کاٹ کر قاری جب آخری باب پر پہنچتا ہے تو مولی کی خودکلامی سے تصویر کا دوسرا رخ سامنے آتا ہے۔

مغربی ادب میں ہیرو کا تصور بتدریج تبدیل ہوا ہے۔ ابتدائی داستانوں اور علاقائی ساگا میں ایک قسم کا فوق البشر ہیرو نظر آتا ہے۔ دور وسطی میں شوالری اور نائٹس کا دور دورہ رہا۔ اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں روشن خیال امراء، درمیانے طبقے کے سیلف میڈ یا پھر انقلابی اور رومان پرست نوجوان، پچھلے زمانوں کے جنگی سورماؤں کے بر خلاف ان کی زندگی کا اسٹیج بھلے عام ہو مگر ان کا ذہنی افق کشادہ ہوتا تھا۔ بیسویں صدی آتے آتے ہیرو کا تصور بدل گیا۔

اب ایک عام سا آدمی بظاہر عام سی زندگی گزارتا ہے، پہلی جنگ عظیم کے دوران لکھے گئے دونوں بڑے ناولوں ”کھوئے ہوئے زمانے کی تلاش“ اور ”یولیسیس“ میں ہمیں ایسے ہی عام سے ہیرو نظر آتے ہین۔ یولیسیس میں تو ہمیں بڑا دلچسپ تقابل آڈیسس اور لیوپڈ بلوم کا نظر آتا ہے، کبھی کبھی تو گمان ہوتا ہے کہ بلوم آڈیسس کا ماڈرن کیری کیچور ہے۔ ہومر کی داستان میں ہم دیکھتے ہیں کہ آڈیئسس ایک مہم جو جہاز راں ہے جو ناقابل یقین حالات کا سامنا کرتا ہے، بلوم کو ڈبلن کی جانی پہچانی گلیوں میں جس چیلنج کا ثامنا ہے وہ کوئی جان جوکھم میں ڈالنے والی مہم نہیں بلکہ جنسی نا آسودگی اور معاشرتی تنہائی ہے۔

آسمانی کتابوں میں کائنات کی تخلیق چھ دن میں کیے جانے کا ذکر ہے، اور بائیبل کی کتاب پیدائش کے مطابق ساتواں دن خدا نے آرام کے لیے چنا۔ دیکھا جائے تو یہ ساتواں دن ہی اس آفاقی ڈرامے میں حضرت انسان کی طوفانی انٹری کا موقع ہے۔ گویا اب تک تو یہ کائنات بسیط و قدیم تخلیق کے ایک ہی سرچشمے سے فیضیاب ہو رہی تھی مگر پھر کرہ ارض پر شعور اور اس سے بھی بڑھ کر تخلیقی وجدان کی حامل حیات کا ظہور اس کی تاریخ کا اہم ترین موڑ ثابت ہوا۔ اب بہ زبان اقبال ایک طرف صدائے کن فیا کون آ رہی ہے تو دوسری طرف سے کار جہاں دراز ہے کا اعلان ہو رہا ہے۔ بلومز ڈے اسی ساتویں دن کی یادگار ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments