مجذوب، روحانیت، دعا زہرا اور بہاولپور ترکیہ


مارچ 2022 میں میری شادی ہو گئی۔ قدرت نے کیا حسین امتزاج بنایا، میں ٹھہرا اینٹی ملوائیت مائنڈ سیٹ رکھنے والا اور مذہب کے نام پہ استحصالی رویوں کا سخت ناقد۔ وہ مولویانہ اور مذہبی ذہن رکھنے والی۔ حال ہی میں گزرے ماہ رمضان میں شب قدر کی راتوں میں ساری رات جائے نماز پہ صلٰوات التسبیح، تلاوت قرآن اور نفلی نماز میں گزار دیتی۔ مجھے جھنجھوڑتی کہ بستر سے اٹھ کے تھوڑی عبادت کر لو۔ میں کہتا ”اللہ اپنی مخلوق سے محبت کرتا ہے اور معاف کرنے والا ہے“ ۔ وہ کہتی ”شب قدر مانگنے کی رات ہے کچھ مانگ لو“ ۔ میں کہتا ”تمہیں مانگا تھا تم مل گئی اب کیا مزید بیویاں مانگوں؟“ ۔ پھر وہ غصے سے واپس جائے نماز پہ چلی جاتی۔

میں روایتی پیروں فقیروں کو نہیں مانتا اور نہ ہی مذہب کے نام پہ کسی مقدس ذات پات کو مانتا ہوں۔ میری سوچ ہے کہ کسی بھی معاشرے میں مقدس ذات پات کے وجود کے پیچھے اس عیار لاشعور کی سازش ہے جو خود محنت کر کے کمانے کی بجائے بغیر محنت کے کھانا چاہتا ہے۔ مولویوں، پادریوں، بھکشوؤں اور پنڈتوں کے بارے میں بھی میری سوچ یہ ہے کہ یہ لوگ خود محنت کر کے کھائیں نہ کہ غریب عوام کو مذہب کے نام پہ بے وقوف بنا کے ان کی محنت کو اپنے تصرف میں لائیں۔

ہاں تو یہ کہ جب میرے ساتھ اس کی شادی کی تاریخ طے ہو گئی تو وہ ملتان میں بہاؤالدین زکریا کے مزار پہ گئی اور وہاں ٹھہر کر اللہ کے حضور دعا مانگی کہ جس شخص کے ساتھ میری شادی ہو رہی ہے وہ نیک بندہ ہو۔ خیر۔ اللہ جو کرتا ہے بہتر کرتا ہے۔ زندگی کے کتنے سال ہوٹلوں اور ڈھابوں کے کھانے کھاتے گزر گئی اب منہ کو بیوی کے ہاتھ کے پکے کھانے کا ذائقہ لگا ہے تو زبان سے بے اختیار ”اللہ تیرا شکر ہے“ کے الفاظ نکل جاتے ہیں۔

اکبر میاں خواہشیں تو بہت ہیں ارماں مچلتا ہے
لگ کے پہلو میں بیوی کے صدیوں بیٹھے رہیں

جون 2022 میں بیوی میکے گئی تو مٹن، بیف، دال اور مرغ پلاؤ کی ڈشیں بنا کے ریفریجریٹر میں رکھ گئی۔ دال اس لیے بنائی کہ اسے پتہ چلا کہ دال چندی پور کے شیخوں کا نسل در نسل خاندانی سالن چلا آ رہا ہے۔ مجھے سمجھا گئی کہ فلاں سالن اوون میں اس درجہ پہ گرم کرنا ہے فلاں ڈش اس درجہ پہ۔ روٹیاں بھی رومال میں بند کر کے ریفریجریٹر میں رکھ گئی۔

12 جون 2022 کو میں نے ریفریجریٹر سے کھانا نکال کے اوون میں گرم کر کے کھایا۔ شام کو موٹر سائیکل باہر نکالا اور ملا کی دکان پہ چلا گیا۔ ملا کہنے لگا ”اکبر بھائی! گزشتہ کل ایک لڑکا لڑکی مغرب کے بعد میرے پاس کولڈ ڈرنک پینے آئے اور پھر قریبی بند گلی میں اندھیرے میں جاکر نازیبا حرکتیں کرنا شروع کر دیں“ ۔ میں نے پوچھا، پھر؟ کہنے لگا ”میں شک پڑنے پہ ان کے پیچھے چلا گیا اور ان کو ڈانٹا کہ تمہیں شرم نہیں آتی۔ بلاؤں تمہارے ماں باپ کو“ ۔ ”اکبر بھائی! دیکھو نا! کیسا دور آ گیا ہے۔ لڑکے لڑکیاں موبائل فون پہ گندی گندی ویڈیوز دیکھ کر کتنے بے شرم ہوئے پڑے ہیں“ ۔ میں نے کہا ”ملا! اس منہ زور طوفان کو روکنا ناممکن سا ہو چلا ہے۔ بہتر ہے خود کو ہی فاصلے پہ رکھو“ ۔

کراچی کی دعا زہرا نام کی کسی لڑکی نے لاہور کے ظہیر نامی لڑکے سے لو میرج کر لی تو فیس بک پہ ایک خاتون لکھاری نے غصے سے لکھا ”لڑکی تم نے اس چمونے میں کیا دیکھا جو اپنے ماں باپ کو چھوڑ کے اس کے پاس چلی گئی“ ۔

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی صاحبہ کا ایک بلاگ نظر سے گزرا جس میں انھوں نے جہاں دعا زہرا کیس میں ممکنہ وجوہات کا جائزہ لیتے ہوئے لکھا کہ آیا دعا زہرا اپنے جنسی ہارمون کے ہاتھوں مجبور ہو کر لاہور اس لڑکے کے پاس گئی یا وہ اپنے گھر میں گھٹن کا شکار تھی اور اب ظہیر کے پاس اسے آزاد فضا میں سانس لینے کا احساس ہوا ہے۔

احباب! جنسی ہارمونز سے یاد آیا۔ راقم ڈی ایچ ایم ایس کا طالب علم تھا اور ایک سینئر ہومیوپیتھ کے کلینک پہ رہنمائی کے لیے جاتا تھا۔ استاد محترم کا موبائل فون ایک مریضہ لڑکی نے اٹھا لیا۔ استاد صاحب کو بہت غصہ آیا اور لڑکی جو سر درد کی دوا لینے آتی تھی اسے جنسی ہارمونز کی پیداوار بڑھانے کی دوا دینا شروع کر دی۔ ایک دن کہنے لگے ”اکبر! میں نے اپنا بدلہ لے لیا۔ لڑکی نے میرا موبائل فون چوری کیا تھا۔ میں نے اس کے جنسی ہارمونز بڑھا دیے۔ اب پتہ چلا ہے وہ محلے کے ایک آوارہ لڑکے کے ساتھ بھاگ گئی ہے“ ۔

میں نے کہا ”استاد محترم آپ کو اسے اتنی بڑی سزا نہیں دینا چاہیے تھی“ ۔ خیر۔ ٹینشن لینے کی ضرورت نہیں۔ جنسی ہارمونز کی پیداوار بڑھانے کی دوا جرمنی اور فرانس سے پاکستان آتی تھی اور چند سال قبل جرمنی اور فرانس نے اسے پاکستان بھیجنے پہ ہی پابندی لگا دی ہے۔

اچھا، آپ کو ایک عجیب بات بتاؤں۔ ویاگرا اور سیالس نام کی ”جنسی طاقت“ بڑھانے والی دواؤں سے امریکہ میں ناکارہ گردوں کو دوبارہ فعال بنانے کے تجربات بھی کیے گئے ہیں۔ اصل میں ویاگرا دل کی نالیوں کے سکڑاؤ کو ختم یا کم کرنے کے لیے دل کے مریضوں کو دی جاتی تھی۔ امریکی ڈاکٹروں کے مشاہدہ میں آیا کہ ویاگرا یا سیالس میں موجود پی ڈی ای فائیو گردوں کے اندر انتہائی باریک نالیوں کے سکڑاؤ کو کم کرتا ہے جس سے گردوں کے فعل میں بہتری دیکھی گئی۔

احباب! اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ بے دھڑک ویاگرا اور سیالس کا استعمال کرنا شروع کر دیں۔ ان ادویات کی اوور ڈوز کے بڑے سائیڈ ایفیکٹس بھی دیکھے گئے ہیں خصوصاً ہائی بلڈ پریشر اور پہلے سے دل کی بیماری میں مبتلا مریضوں کو درج بالا ادویات کے استعمال سے روکا گیا ہے۔ میری حکومت پاکستان سے گزارش ہے کہ وہ نیفرالوجسٹس کو گردوں کے فعل میں بہتری لانے کے لیے پی ڈی ای فائیو کے تجربات کی اجازت دے دے۔ شاید اس سے ڈائیلاسز مشینوں پہ بوجھ کم ہو جائے۔

ہاں تو میں بتا رہا تھا کہ رات گئے میں ملا کی دکان سے گھر واپس آنے کے لیے اٹھا لیکن موٹر سائیکل کا رخ بے اختیار بہاول پور شہر سے باہر کی طرف ہو گیا۔ موٹر سائیکل کا بھی کیا قصور؟ وہ تو انسان کی خواہش کے تابع چل رہا ہوتا ہے۔ گھپ اندھیرے میں چلتے چلتے اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور کے بغداد کیمپس کے گیٹ کے پاس پہنچ گیا۔ وہاں سے واپس یو ٹرن لیا۔ شہر میں داخل ہوا تو اچانک دل میں خواہش سی پیدا ہو گئی کہ کوئلہ کی آگ پہ پکائے گئے تکہ کباب کھانا چاہیے۔

ایک جگہ جا کر کھانا کھایا۔ پھر موٹر سائیکل کا رخ گھر کی طرف موڑا لیکن وہ رفیع قمر روڈ کی طرف جانے والی سڑک کی طرف مڑ نے لگا۔ میں نے واپس گھر کی طرف موڑ دیا۔ اگلے چوک پہ گھر جانے کی بجائے وہ خود بخود بائیں طرف کو مڑ گیا۔ اب میں موٹر سائیکل پہ بیٹھا تھا اور میرے ہاتھ بھی موٹر سائیکل کے ہینڈل پہ لیکن کس طرف جا رہا ہوں مجھے خود بھی باقاعدہ اندازہ نہیں تھا۔ مختلف گلیوں سے ہوتا ہوا میں رفیع قمر روڈ پہ ہی جا نکلا۔

جیسے ہی میرا موٹر سائیکل رفیع قمر روڈ پہ چڑھا۔ سڑک کی گرین بیلٹ پہ ایک مجذوب بیٹھا ہوا تھا۔ کپڑے انتہائی میلے، بالوں میں مٹی، پتہ نہیں کب سے نہایا بھی نہیں تھا گویا اپنے ہوش میں ہی نہ تھا۔ میں نے موٹر سائیکل اس مجذوب کے پاس روک دیا۔ خود بخود میرے ہاتھ جیب میں گئے اور میں نے والٹ سے کچھ رقم نکال کر اس مجذوب کی طرف بڑھائے اور سامنے کھلی دکان کی طرف اشارہ کیا کہ وہاں سے کچھ کھا پی لے۔ وہ مجھے گہری نظروں سے دیکھنے لگ گیا۔ خیر۔

ویسے آج کل اپنے پاکستانی عوام بھی خوفناک مہنگائی کے ہاتھوں موٹر سائیکل بنے ہوئے ہیں۔ اس پہ راقم کے ذہن میں ایک شعر سا بنتا ہے۔

شہر کا شہر ہی ہوش کھو بیٹھا ہے
پوری قوم موٹر سائیکل ہوئی پھرتی ہے

14 جون 2022 کو نیوز چینل دیکھنے کے لیے یوٹیوب آن کی تو سامنے ترکی کی کچھ ویڈیوز آئی پڑی تھیں۔ اوپن کیں۔ ترکی کے استنبول شہر کے کسی تقسیم یا استقلال چوک پہ بیلی ڈانس میں استعمال ہونے والا ڈرم بجایا جا رہا تھا۔ مجمع جمع تھا۔ عورتوں مردوں میں سے جس کا جی چاہتا وہ ڈرم کی تھاپ پہ آ کے رقص کرنا شروع کر دیتا۔ انتہائی ماڈرن لباس والی ترک خواتین کے ساتھ ساتھ حجاب والی خواتین بھی آ کر رقص کرنا شروع کر دیتیں۔ رقص کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ دلوں کو گداز بناتا ہے۔ اکبر شیخ اکبر کی تجویز ہے کہ سرکاری اور سفارتی سطح پہ بہاول پور اور استنبول کو بھائی بھائی شہر قرار دے کر بہاول پور کا نیا نام ”بہاول پور ترکیہ“ رکھ دیا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments