پیچھے رہ جانے والی محبتیں


وہ اپنے پندرہ سالہ بیٹے کے ساتھ ڈرائنگ روم میں بیٹھی زار و قطار رو رہی تھی اور میری والدہ کی منتظر تھی، میں اور امی کمرے میں داخل ہوئے بہت دیر تک وہ روتی رہی پھر امی نے پوچھا کہ پوری تفصیل بتاؤ کیا ہوا؟ تو بے تحاشا روتے ہوئے کہا کہ بس باجی کیا بتاؤں میری عزت خراب ہو گئی، میری بیٹی سولہ سال کی ہے، نادان ہے، ناسمجھ ہے، اسے ورغلا کر محبت کے جال میں پھنسا کر وہ اسے اپنے ساتھ لے گیا، پھر اپنے بیٹے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے گالی بک کر کہنے لگی کہ اس نے بہن کی مدد کی ہے، یہ لاکر دیتا تھا اس لڑکے کے پیغام بہن کو، اور پھر آنسوؤں سے رونے لگی۔

میں نے اس کے بیٹے سے جو کہ ڈرا سہما بیٹھا تھا مخاطب ہو کر کہا کیوں عادل کیوں دیا تم نے بہن کا ساتھ؟ کیا تمہیں لڑکا پسند تھا اپنی بہن کے لئے؟ عادل پورے اعتماد سے بولا جی باجی مجھے لڑکا پسند تھا بہت اچھا تھا اس لیے میں نے بہن کا ساتھ دیا، لڑکے کا جواب سن کر اس کی ماں نے اسے مزید برے القابات سے نوازا اور کہنے لگی ان کا باپ کوئٹہ میں ہے وہ وہاں کام کرتا ہے میرے پاس بچوں کو چھوڑ کر گیا تھا لیکن بیٹی کو وہ لڑکا ورغلا کر لے گیا مجھے میری بیٹی واپس دلا دیں۔

کیس پولیس میں لڑکے نے خود رجسٹرڈ کروا دیا ساتھ ہی نکاح نامہ بھی، لڑکی کی ماں غریب تھی اور بے بس بھی، سال بعد میں نے عادل (لڑکی کے بھائی) کے واٹس ایپ پر اس کے بھانجے کی پیدائشی تصویر دیکھی مجھے اس وقت اس لڑکی کی ماں کے آنسو بہت یاد آئے جب وہ روتے ہوئے کہہ رہی تھی کہ میری بیٹی تو بہت معصوم تھی گھر بھر کو سنبھالتی تھی، میں کام پر اسے گھر میں لاک کر کے جاتی تھی، پتہ نہیں یہ سب کیسے ہو گیا۔

اس بات کو تقریباً چار سال ہونے والے ہیں اور آج پورے پاکستان میں ہر زبان خاص و عام جو ایک ہی معاملہ ہے، وہ ہے سید مہدی علی کاظمی کی بیٹی دعائے زہرا کی ظہیر احمد سے شادی، اس معاملے کا رخ بھی اب تقریباً وہی ہو چکا جو میں نے اوپر لکھا ہے لیکن یہ معاملہ عام پسند کی شادی والا معاملہ نہیں رہا۔ سید مہدی اور ان کی بیوی نے جس طرح اپنی بیٹی کی گمشدگی پر دن رات اس کی تلاش میں صرف کیا اس میں وہ اکیلے شامل نہیں رہے بلکہ کم و بیش تمام اہل دل ان کے ہم آواز ہوئے اور بیٹی کی خبر ملنے کے عرصے تک دعاؤں میں مصروف رہے کہ خدا کرے دعائے زہرا بخیریت و عافیت گھر پہنچ جائے۔

جب ملنے کی امید کم ہونے لگی تو اذہان وسوسے ابھارنے لگے ایسے میں مہدی کاظمی نے دل سوز پیغام دیا کہ مجھے اپنی بیٹی زندہ سلامت واپس چاہیے، مجھے مری ہوئی بیٹی نہیں چاہیے۔ دعائے زہرا کے ماں باپ کی تڑپ دل رکھنے والا ہر انسان محسوس کر رہا تھا پھر کچھ عرصے بعد دعائے زہرا کا نکاح نامہ منظر عام پر آ گئے جس پر قانونی تحفظات موجود تھے اور قانونی و شرعی دونوں لحاظ سے دعائے زہرا کے والدین کا دعویٰ مضبوط تھا لیکن دعائے زہرا ماں باپ سے انکاری تھی۔

عدالتوں میں دعا کی پیشی میڈیا سے دور رکھی گئی جب کہ عدالتوں سے باہر خفیہ مقامات پر دعا کو ہنسی خوشی رہتے دکھایا گیا۔ حال ہی میں دعا کا ایک برانڈڈ انٹرویو کیا گیا ہے جس میں ایک مشروب کی تشہیر کرتی ہوئی لڑکی دعائے زہرا اور ظہیر کی شادی پر انہیں ان سے زیادہ خوش ہو کر مبارکبادیں دے رہی ہے۔ یہ انٹرویو جھوٹ کے لبادے کے سوا کچھ نظر نہیں آیا، انٹرویو میں اینکر دعا اور ظہیر کے ہر لفظ کو گرہ لگاتی، مزے اور چٹخارے لے کر بیان کرتی ہوئی نظر آئی۔

کسی بھی انسان کی سچائی ماپنے کا ایک پیمانہ انسان کا دل ہے جو سامنے والے کے تاثرات سے متاثر ہو کر فیصلہ کرتا ہے کہ آیا وہ سچ بول رہا ہے یا جھوٹ، مجھے دعائے زہرا کے والد مہدی علی کاظمی میں ایک سچا انسان نظر آیا جو اپنی کم سن بچی کی شادی ایک پلاٹ کے عوض کرنے کے بارے میں نہیں سوچ سکتا، دعا کا ایسا کہنا سراسر الزام یا خود کو درست ثابت کرنے کے لئے بہکاوا ثابت ہو سکتا ہے۔

ہاں بیٹی کی کم عمری کی سبب کی گئی غلطی پر وہ بحیثیت باپ اسے آنکھیں دکھا سکتا ہے، گھور کر، ڈانٹ کر سمجھا سکتا ہے، ماں اگر باپ کے ساتھ کھڑی ہو تو وہ ایک دو تھپڑ بھی رسید کر سکتی ہے لیکن یہ سب اولاد کی بھلائی کے لئے ہو سکتا ہے۔ کوئی بھی ماں باپ اپنے لخت جگر کو کنویں میں کودتا ہوا یا آگ سے کھیلتا ہوا نہیں دیکھ سکتے۔

دعائے زہرا کی باتوں سے اندازہ لگایا گیا کہ ماں باپ اسکول نہ بھیج کر دعائے زہرا سے چھوٹے بہن بھائیوں کی ذمہ داری اٹھواتے تھے یعنی بڑے ظالم ماں باپ تھے، ہو سکتا ہے دعا کا اسکول نہ جانا اس کی اپنی عدم دلچسپی ہو، دعائے زہرا نے انٹرویو میں ذکر کیا کہ وہ ایک ٹیب پر ظہیر سے بات کرتی تھی ظالم ماں باپ بچی کو ٹیبلیٹ استعمال کرنے دیں گے؟ جہاں تک بات چھوٹے بہن بھائیوں کی ذمہ داری کی ہے تو میری پانچ سالہ بھانجی میں اتنی سمجھ ہے کہ جب اس کی مما اسے کہیں بیٹا چھوٹے بھائیوں کے پاس بیٹھو میں کام کر رہی ہوں تو وہ اپنے کھیل کود کو ترجیح نہیں دیتی۔ گھر میں سب سے بڑا بچہ ذرا سمجھدار ہو جائے تو ماں باپ اس پر انحصار کرنے لگتے ہیں کہ وہ ان کا مددگار ہو گا پھر یہ ذمہ داریوں کا بوجھ ڈال کر ظلم والا نقشہ کھینچنا بھی بالکل ہی فلاپ سین لگتا ہے۔

دعائے زہرا کے ماں باپ دونوں ہی اس کی تلاش میں اپنا آپ گنوا بیٹھے، غیر محسوس طریقے سے دونوں میں لاغر پن محسوس کیا گیا لیکن وہ اپنی بیٹی کی محبت سے دستبردار نہیں ہوئے دعائے زہرا ظہیر احمد کی چکنی چپڑی باتوں میں کس طرح آئی کہ ماں باپ کی عزت و محبت کے ساتھ اپنی عزت و زندگی بھی داؤ پر لگادی مجھے نہیں معلوم، میں صرف اتنا جانتی ہوں کہ دعائے زہرا اپنے پیچھے بہت سی بے بس محبتیں چھوڑ گئی جو آج بھی انکار کی کیفیت میں دعائے زہرا کی واپسی کی امید لگائے بیٹھے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments