بیٹیاں تو سانجھی ہوتی ہیں


لیجیے۔ قوم کو ٹوپی پہنانے کے لیے دعائے زہرا اور اس کے نام نہاد شوہر کے انٹرویو کی صورت میں ایک نیا ڈرامہ ضمیر فروش یو ٹیوبرز کے ذریعے پیش کیا گیا لیکن ڈرامے کے ہدایت کار کو نہیں اندازہ کہ یہی ان کی فاش غلطی ہے۔ اس معاملے میں پوری قوم بیدار ہے۔ ہر صاحب اولاد اور باضمیر فرد کا دل اور دعائیں دعائے زہرا کے والدین کے ساتھ ہیں۔ لڑکی کا بار بار بدلتا بیان، اس کے چہرے کے پل پل بدلتے رنگ، اس کا ہاتھوں کو مسلنا اور اس کی بدلی ہوئی ظاہری وضع قطع سے صاف ظاہر ہے کہ یہ ایک طے شدہ انٹرویو ہے۔ دعائے زہرا کا معاملہ اب کراچی لاہور اور مقامی کورٹ کچہریوں سے نکل کر عالمی سطح پر نمایاں ہو چکا ہے اور مختلف ممالک میں دعائے زہرا کے تحفظ اور بازیابی کے حوالے سے مظاہرے اور پٹیشنز کی شروعات ہو چکی ہیں ایک چودہ سالہ کمسن لڑکی کا معاملہ اب آئی ایس آئی تک پہنچ چکا ہے اور آرمی تک بات جا پہنچی ہے۔

قوم کے باشعور اور صاحب ضمیر لوگ دعائے زہرا کے والد مہدی علی کاظمی اور ان کی اہلیہ کے ساتھ لیکن بڑی تعداد ان افراد کی بھی ہے جو دعائے زہرا کے اور ظہیر کے ساتھ ہیں اور اس کے والدین کو لعن طعن کر رہے ہیں۔ حیرت مجھے ان دانشوروں پر ہے جو اس معاملے کو مسلکی اور لسانی نکتہ نگاہ سے دیکھ رہے ہیں اور سوشل میڈیا پر گل افشانیاں کر رہے ہیں۔ عوام میں بھی کافی تعداد ایسے افراد کی ہے جو دعائے زہرا کے والدین کو قصوروار قرار دے رہے ہیں اور دعا زہرا اور ظہیر کے انٹرویو اور ان کی بظاہر وکٹری پر خوش اور مبارک باد دیتے نظر آرہے ہیں۔

وکٹری اس لیے کہ ویڈیو میں دونوں وکٹری کا نشان بناتے نظر آرہے ہیں۔ گویا ایک چودہ سالہ ناسمجھ اور نادان بیٹی کے ہاتھوں ایک شفیق اور بے انتہا پیار کرنے والا باپ ہار گیا۔

دوسری طرف مہدی علی کاظمی نہ ہارے ہیں نہ ہاریں گے بلکہ اس انٹرویو کے بعد سے ان کا حوصلہ مزید بلند ہو گیا ہے اور آخری حد تک انہوں یہ قانونی جنگ لڑنے کا اعلان کیا ہے۔ ان کے اس موقف پر پاکستان کے باشعور عوام کی غالب اکثریت شامل ہیں جس میں ہر شعبہ ہائے زندگی سے مختلف مکاتب فکر سے وابستہ نامور افراد بلا امتیاز مذہب و مسلک شامل ہیں۔

مائنڈ سائنس کے ممتاز ماہر سکالر ڈاکٹر معیز حسین نے دعائے زہرا کے انٹرویو کی روشنی میں بہترین تجزیہ پیش کیا ہے۔ جس کے بعد میں خود بھی اسی موقف پر قائم ہوں کہ یہ برین واشنگ ہے۔ لڑکی کو خود نہیں پتہ کہ اس کے ساتھ کیا ہو رہا ہے اور کیا ہونے جا رہا ہے اس کا ذہن اس وقت ایک معمول کی طرح کام کر رہا ہے۔ وہ جیسا کہتے ہیں وہ اسی گیٹ اپ کے ساتھ سکھائے ہوئے مکالمات دہراتی ہے۔ شاید عام لوگ اس کیفیت کو نہیں جان سکیں لیکن ماہرین نفسیات، ہپناٹزم کے ماہرین یا وہ لوگ جو برین واش کیے گئے بچوں یا افراد سے کسی بھی ریلیشن میں تجربے سے گزر چکے ہیں اس کیفیت کا بخوبی ادراک کر سکتے ہیں۔

بچی جو کہہ رہی ہے اس کہ باڈی لینگویج، حرکات و سکنات، آنکھیں اور مسکراہٹ اس کے بیان کی صاف نفی کر رہے ہیں۔ اب اس کے پیچھے خوف، انزائٹی، بلیک میلنگ، برین واشنگ، دھمکی، مافیا، ہیومن ٹریفکنگ گینگ، کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ بچی کو دارالامان میں رکھنا چاہیے تھا، اور اس کا نفسیاتی معائنہ بے حد ضروری تھا۔ جب تک بچی ان لوگوں کی تحویل میں ہے نہ وہ سچ بولے گی نہ تسلیم کرے گی۔ جس طرح الیکٹرک سرکٹ کو توڑنے کے لیے سورس کو منقطع کیا جاتا ہے لڑکی کو وہاں سے نکالا جائے۔ اور اسے اس ٹروما سے نکلنے کے لیے وقت دیا جائے۔ ریاست کی ذمے داری ہے کہ وہ بچی کو تحفظ فراہم کرے۔ نارمل ماحول میں بغیر کسی دباؤ کے اس کا بیان ریکارڈ ہو۔ نکاح تو اس کا ویسے ہی تمام مکتب فکر کے علما نے ولی کی اجازت کے بغیر باطل قرار دیا ہے۔ لہذا بچی کو وارثین کی تحویل میں دیا جائے۔

جیسا کہ میں نے گزشتہ تحریر میں عرض کیا تھا کہ ہمیں اپنے بچوں کے معاملے میں بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے کہ برین واشنگ کی یلغار مختلف صورتوں میں جاری و ساری ہے اس کی زندہ مثال یوٹیوبرز کی نشر کردہ وہ حالیہ ویڈیوز ہیں جن میں جام شیریں کے جام سامنے رکھ کر ایک کم سن لڑکی کی بھیانک غلطی کو وکٹری کا نشان بنا کے نوجوان نسل کو فیسینیٹ کیا جا رہا ہے یہی نہیں بلکہ ان دونوں کو سراہا جا رہا ہے کہ آپ نے اتنا بڑا کارنامہ کیا ہے کہ اس پر فلم بننے جا رہی ہے۔ بقول شہلا رضا صاحبہ جام شیریں سامنے رکھ کر نوجوان نسل کو زہر ہلاہل دیا جا رہا ہے۔

اب یہ آپ کا کام ہے کہ آپ اپنی دعائے زہرا کو یہ جام دینا پسند کریں گے یہ مہدی علی کاظمی کی آواز بن کر اس معصوم دعا زہرا کو ڈھونڈ نکالیں گے جو دب گئی ہے چھپ گئی ہے گھٹ رہی ہے۔ اس سے پہلے کہ اس کا دم گھٹ جائے اسے نکالیں۔ یقین جانیے جو نظر آ رہا ہے، وہ نہیں ہے۔ بلکہ یہ کچھ بھی نہیں۔ شدید دباؤ کا شکار بچے یا تو ہار مان کر اسی جھوٹ کو سچ مان لیتے ہیں جو ان کے لاشعور میں برین واشنگ کی تکنیک کے ذریعے انڈیلا جاتا ہے پھر وہ اسی پر قائم رہتے ہیں نفسیاتی طور پر یوں سمجھ لیں وہ ایسے ہی ہو جاتے ہیں جیسا بنایا جاتا ہے۔

یہ ایک طرح سے ان کا ہتھیار ڈالنا ہوتا ہے۔ ان کا ذہن ان کے کنٹرول میں نہیں رہتا کیونکہ پروگرامنگ کردی جاتی ہے اور اگر حقیقت کو قبول نہ کریں لیکن خوف یا دباؤ کی وجہ سے چپ ہو جائیں تو نتائج مزید بھیانک ہو سکتے ہیں۔ اس لیے جتنی جلدی ممکن ہو اس مسئلے کا سدباب ضروری ہے۔ دعائے زہرا کی جان اور ذہنی و جسمانی صحت کو شدید خطرہ ہے۔ دنیا میں کوئی بھی والدین سے بڑھ کر نہیں ہو سکتا ۔

کیا آپ کے گھر میں بھی کوئی دعائے زہرا ہے؟
اگر آپ کا جواب ہاں میں ہے تو مہدی علی کاظمی کی آواز بنیں۔ بیٹیاں تو سانجھی ہوتی ہیں نا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments