سب رنگ تماشا: سب رنگ کی پذیرائی کا راز


”سب رنگ کہانیاں“ کی چوتھی جلد میں پریس چیمبرز میں واقع سب رنگ کے دفتر کا مختصر احوال درج تھا۔ عمارت کی فرشی منزل پر چھاپے خانے تھے تو اوپر کی دو منزلوں پر زیادہ تر اخبار، رسالوں کے دفاتر۔ تیسری اور آخری نصف منزل سب رنگ کے پاس تھی۔ عرض کیا جا چکا ہے کہ وہ تو اپنا دوسرا گھر تھا۔ پیسٹنگ کی راتوں کو تو یہیں بسیرا ہوتا۔ خوب دھوم دھڑکا، جشن کا سا سماں۔ پریس چیمبرز سے شائع ہونے والے اخبار رسالوں میں سب رنگ واحد رسالہ تھا جس نے سارے ملک میں علم گاڑ دیے تھے۔ لوگ سوال کرتے کہ سب رنگ کی اس پذیرائی کا راز کیا ہے؟ کوئی ایسا راز نہیں تھا، بس چند باتیں۔ انھیں راز کہہ لیجیے یا کچھ اور۔

انھی دنوں کا ذکر ہے، وضع دار، خوش خلق، نفیس احمد سالار نامی ایک صحافی اور ادیب پریس چیمبرز کے ایک کمرے سے کوئی تجارتی ہفت روزہ نکالتے تھے۔ اچھی سلام دعا ہو گئی تھی۔ ایک دن تشریف لائے اور طنز و مزاح پر ماہ نامہ شائع کرنے کا مژدہ سنایا۔ بتایا کہ خاصا کام کر لیا گیا ہے۔ اجازت نامہ بھی ”سندھ پنچ“ کے نام سے حاصل کر لیا گیا ہے (ایسا ہی کچھ نام تھا) ۔ اس موضوع پر سردست کوئی رسالہ بھی نہیں نکل رہا۔ پوچھا کہ اس موضوع پر پہلے نکلنے والے رسالوں کا کیا ہوا؟ افسردگی سے فرمایا کہ نہیں رہے۔ کیوں؟ ناچیز کے سوال پر متذبذب ہوئے اور کہا صحیح وجوہ کا علم نہیں۔ شروع شروع میں کئی شمارے شائع ہوئے اور خاصے معیاری، پھر عدم تواتری ہونے لگی اور کچھ عرصے بعد یہ صورت بھی نہ رہی۔ ظاہر ہے، توجہ کی کمی، مالی وسائل کی بھی ایک وجہ ہو سکتی ہے۔ گزارش کی کہ پھر جناب نے کیا انتظامات کیے ہیں کہ پچھلے رسالوں والا حشر نہ ہو۔ پراعتماد لہجے میں موصوف نے بتایا کہ یہاں وہاں بہت سے ادیبوں، شاعروں، ترجمہ نگاروں سے رابطے ہوئے ہیں۔ کچھ کی تو تخلیقات بھی آ چکی ہیں۔ طنز و مزاح سے دل چسپی رکھنے والے دوستوں کی ایک ٹیم بڑی پرجوش ہے، ہر طرح کے تعاون پہ کمر بستہ۔ اشتہاری ایجنسیوں کے سربراہوں سے ملاقاتیں ہوئی ہیں، سبھی نے حوصلہ افزائی کی ہے۔ دواؤں کے ایک ادارے نے سال بھر کے اشتہار بک کر لیے ہیں۔ پہلے چھے شماروں کی تو ادائی بھی پیشگی کر دی ہے۔ پی آئی اے، نیشنل بینک آف پاکستان کے تعلقات عامہ والوں نے وعدے کیے ہیں۔ ان تمام وعدوں کے باوجود تھوڑا بہت انتظام خود بھی کر رکھا ہے۔ باقی اللہ مالک ہے، پرچہ اچھا ہوا تو اپنی جگہ بنائے گا۔

سوال تو سر میں بہت کلبلا رہے تھے مگر سالار صاحب کے جذبے اور ولولے سے لب ریز کلمات کے بعد مبارک باد ہی لازم ہو گئی تھی۔

اور ایک دو ہفتے ہوئے ہوں گے۔ پریس چیمبرز کے ایک پڑوسی نے نفیس احمد سالار کے بارے میں بتایا کہ وہ تو آج کل شد و مد سے نئے رسالے کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ یہ زبان بڑی بے لگام چیز ہے۔ منھ سے نکل گیا۔ ”چلیے، چار پانچ مہینے شوق پورا ہونے دیجیے۔“ کچھ گمان نہیں تھا کہ بعض حضرات میں ناتوانیٔ شکم کا عارضہ شدید ہو سکتا ہے۔ مذکورہ پڑوسی نے احتیاط نہ کی اور اس بد زبان کا ”یا وہ“ دہرا کے سالار صاحب کو آزردہ بل کہ ناراض کر دیا۔ پرانی وضع کے آدمی تھے۔ کوئی شکوہ تو نہیں کیا لیکن سب رنگ کے دفتر آنا جانا موقوف کر دیا۔ یہ عاجز بھی ان کا سامنا کرتے ہوئے کترانے لگا تھا۔

”سندھ پنچ“ کا پہلا شمارہ، وہ جو کہتے ہیں، پوری آب و تاب سے شائع ہوا۔ توقع سے کہیں بہتر، تعریف و تحسین کا سزا وار۔ دوسرا شمارہ بھی اعلیٰ درجے کی تخلیقات سے مزین اور وقت پر برآمد ہوا۔ کسی ہوٹل میں رونمائی یا پذیرائی کی تقریب بھی منعقد کی گئی۔ اور ہوا یہ کہ تیسرے شمارے میں کسی قدر تاخیر ہو گئی، چوتھے پانچویں میں کچھ زیادہ ہی۔ صفحات بھی کم کر دیے گئے۔ سال سوا سال گزر گیا، چھٹا شمارہ نہیں آ سکا۔ اور ایک روز سالار صاحب قبلہ تشریف لائے اور ڈوبی ہوئی آواز میں کہنے لگے۔ ”برادرم، آپ ٹھیک کہتے تھے، ہم رسالہ جاری نہ رکھ سکے۔“

”سب رنگ کہانیاں“ کی کسی جلد میں اس صورت حال پر کچھ عرض کیا گیا تھا۔ کوئی باقاعدہ سروے یا تحقیقی رپورٹ تو پاس نہیں تھی۔ مشاہدے، تجربے کی بنیاد پر ایک اندازہ تھا کہ نوے سے پچانوے فی صد اردو رسالے، اخبار مختصر یا طویل عرصے بعد بند ہو جاتے ہیں۔ بند کیوں ہو جاتے ہیں؟ ان صفحات میں تفصیلی جائزہ تو ممکن نہیں۔ بات کچھ طلب و رسد کی بھی ہے۔ ملک کی آبادی بائیس کروڑ کے لگ بھگ بتائی جاتی ہے۔ خواندہ افراد کی اوسط کے متعلق متضاد دعوے کیے جاتے ہیں، اور کچھ یہی نظر آتا ہے کہ بیس پچیس سے اوپر خواندگی مبالغہ ہی ہو گی۔ پچیس فی صد خواندگی سے مراد ہے، پانچ سوا پانچ کروڑ افراد۔ گویا اخبار، رسالے اور دیگر مطبوعات اسی تعداد کے لیے شائع ہو سکتی ہیں، بائیس کروڑ کے لیے نہیں۔ ان خواندہ افراد میں بھی ایسے افراد شامل ہیں جنھیں ناظرہ کلام پاک، قاعدہ، چوتھے، پانچویں درجے تک کی نصابی تعلیم، خط لکھنے، دکانوں پر آویزاں بورڈ پڑھنے کی حد تک ہی لکھنا پڑھنا آتا ہے اور کتابوں، اخبار رسالوں سے ایسا کوئی سروکار نہیں ہے۔ ملک میں چھپنے والے رسالوں، اخباروں کی اشاعتیں آئینہ نمائی کرتی ہیں۔ مقبول ترین اخبار، رسالہ ڈیڑھ دو لاکھ سے زائد تعداد میں شائع نہیں ہو پا رہا۔ کتابیں تو دور کی بات ہیں۔ کچھ وہی طلب و رسد والا مفروضہ، طلب ہی قلیل ہو تو رسد کی کثرت بے جواز ہو گی۔

رہے ادب و شعر کے دل دادگان، ان کی نفری تو خواندہ معاشروں میں بھی نمک برابر ہوتی ہے۔ اپنے ہاں اخبار، رسالہ گھر کی آخری ضرورت ہے۔ بہت سے پڑھے لکھے گھروں میں آخری بھی نہیں۔ غیر نصابی کتابوں کی اشاعت عام طور پر ہزار سے زیادہ نہیں ہوتی۔ دوسرے تیسرے ایڈیشن کی فضیلت معدودے چند، کہانیوں، سرگزشتوں، سفرناموں، دینی اور سیاسی انکشافاتی نوعیت کی کتابوں کو حاصل ہو پاتی ہے۔ کتاب فروش حضرات کا بیان ہے، گنتی کے معروف و مرغوب شعرا کے سوا نئے، ان جانے شاعروں کے مجموعے قارئین کی صورت دیکھتے رہ جاتے ہیں۔

ایک محترم شاعر، ادیب کا قصہ ہے۔ حال ہی میں انتقال ہوا ہے۔ انگریزی سے ان گنت افسانے ترجمہ کیے تھے، ناقد بھی تھے اور شاعری بھی اچھی کیا کرتے تھے۔ خوب جانے پہچانے جاتے تھے۔ ان کی خواہش پر ڈھائی تین سو کی تعداد میں شعری مجموعے کی اشاعت میں سب رنگ نے تعاون کیا۔ سو سوا نسخے انھوں نے احباب میں تقسیم کر دیے اور فرمایش کی کہ کیوں نہ کچھ مجموعے کسی سول ایجنٹ کے پاس رکھوا دیے جائیں۔ سو کتابوں کے ایک بڑے اسٹور ”ویل کم بک پورٹ“ کے سربراہ، ممتاز ناشر اور تقسیم کار اصغر زیدی صاحب سے رابطہ کیا گیا۔ انھوں نے بوجھل آواز میں فرمایا۔ ”بھائی جان! یہ شعری کتابیں جگہ بہت گھیرتی ہیں، بکتی بکاتی تو شاذ ہی ہیں۔“ بہرحال، ازرہ مراسم دیرینہ زیدی صاحب نے ایک سو بیس کتابیں منگوا لیں۔ سال ڈیڑھ سال بعد ادیب شاعر دوست کو بے چینی ہوئی کہ پوچھیں تو سہی، کتنے مجموعے فروخت ہوئے۔ زیدی صاحب کو فون کیا تو انھوں نے ترشی ملی ہوئی عاجزی سے کہا۔ ”بیس اکیس کے قریب نکل گئے ہیں، باقی کے لیے درخواست ہے، واپس منگوا لیے جائیں۔ آپ نے خود دیکھا ہے، اپنے اسٹور میں جگہ کیسی مسئلہ بنی ہوئی ہے۔“

بات رسالوں کی ہو رہی تھی۔ بہتر ہو گا، انھیں پانچ حصوں میں تقسیم کر لیا جائے۔

ایک وہ رسالے جو سرکاری ادارے، سماجی فلاحی تنظیمیں، کالج اور اسکول شائع کرتے ہیں۔ ان کی حیثیت اپنے اداروں کے ترجمان کی سی ہوتی ہے۔ بعض جریدوں میں شعر و ادب کی آمیزش بھی روا رکھی جاتی ہے۔ جیسے پی آئی اے کا ”ہم سفر“ ، پاک فوج کا ”ہلال“ ، نیشنل بک فاؤنڈیشن کا ”کتاب“ ، جمعیت پنجابی سوداگران دہلی کا ”سوداگر“ ، ریڈیو پاکستان کا ”آہنگ“ ۔ سرکاری اور نیم سرکاری اداروں کی طرف سے شائع ہونے والے شروع تا آخر ادبی رسالے، انجمن ترقیٔ اردو کا ”قومی زبان“ اور ”اردو“ ، رائٹرز گلڈ کا ”ہم قلم“ ، وزارت اطلاعات کا ”ماہ نو“ ، مجلس ترقیٔ ادب کا ”صحیفہ“ ، مقتدرہ کا ”اخبار اردو“ ، اکادمی ادبیات کا ”ادبیات“ وغیرہ۔ ان رسالوں پر قیمت درج ہوتی ہے لیکن اشاعت کی قلت و کثرت سے انھیں غرض نہیں ہوتی۔ اداروں کی جانب سے مختص فنڈ سے نکلتے رہتے ہیں، ادارے ختم ہو جائیں یا مالی طور پر کم زور، یا ادارے کی پالیسی ہی بدل جائے تو بند ہو جاتے ہیں۔

دوسری قسم کے وہ رسالے، سائنس و ٹیکنالوجی، ٹی وی فلم، کھیل، صحت، مزاح، صنعت و تجارت اور دیگر کسی شعبے کے لیے وقف۔ یہ انھی قارئین کے لیے کشش رکھتے ہیں جنھیں اپنے کسی خاص موضوع یا مضمون سے شغف، شغل و شوق ہو۔ یوں ان رسالوں کا حلقۂ اشاعت محدود ہوتا ہے۔ ایک ہی موضوع پر تسلسل سے نئے نئے متن کی بازیابی آسان نہیں ہوتی۔ قارئین کی رغبتیں بھی عمر کے ساتھ بدلتی رہتی ہیں۔ یہ رسالے کسی وقت بہت اوپر آتے اور کبھی معیار کی یک سانی سے دل کشی کھو دیتے ہیں۔ پہلے تواتر متاثر ہوتا ہے، پھر زندہ رہنا دشوار ہو جاتا ہے۔

تیسری قسم عام رسالوں کی ہے۔ بالعموم کوئی ایک فرد، شاعر، ادیب یا اس کے دو چار ہم قبیل دوستوں کے تعاون سے یہ رسالے شائع ہوتے ہیں۔ شاعری، افسانہ، تنقید، سوانح، کسی قلم کار کی تازہ واردات تخلیق کے گوشوں، سماجی، تاریخی، فلسفیانہ، لسانی مقالوں اور گرم عصری، ادبی مباحثوں پر مشتمل تحریروں سے مملو ہوتے ہیں۔ علمی کم، ادبی زیادہ، کسی کی ضخامت کم، کسی کی بیش، ماہانہ، سہ ماہی، شش ماہی، سالانہ یا پھر مرضی پر منحصر، یعنی مرضی نامے۔ سبھی کی ترتیب ایک جیسی ہوتی ہے۔ کبھی عہد آفریں شخصیات اور اہم موضوعات پر دستاویزی طرز کے شمارے شائع ہوتے ہیں۔ مثالاً رسول نمبر، قرآن نمبر، غالبؔ، اقبالؔ، فیضؔ نمبر، خطوط نمبر وغیرہ۔ عرض کیا ہے، کوئی ایک شخص ہی ان رسالوں کا روح و رواں ہوتا ہے۔ ”زمانہ“ کے حسرت موہانی، ”الہلال“ کے ابو الکلام آزاد، ”نگار“ کے نیاز فتح پوری، ”نیرنگ خیال“ کے مولانا صلاح الدین، ”نقوش“ و ”فنون“ کے احمد ندیم قاسمی اور محمد طفیل، ”اوراق“ کے وزیر آغا، ”نمک دان“ کے مجید لاہوری، ”نقش“ کے شمس زبیری جیسے حضرات۔ برصغیر میں ان رسالوں کی روایت بڑی پرانی ہے۔ اپنے پاکستان کے قصبوں سے نکلنے والے ادبی رسالوں کا تو شمار ہی نہیں۔ علمی ادبی تحریروں کا بڑے سے بڑا دیوانہ ان ساروں کو نہ خرید سکتا ہے نہ پڑھ سکتا ہے۔ بک اسٹالوں پر بھی یہ سارے دکھائی نہیں دیتے۔ اشاعت ہزار سے زیادہ نہیں ہوتی اور اب تو سنا ہے، پانچ سو کی تعداد میں بھی چھپتے ہیں۔ شاعروں، ادیبوں ہی سے ان کا کچھ معاملہ رہتا ہے، عام قاری سے نہیں۔ بڑے فکر انگیز، خیال افروز ناموں سے طلوع ہوتے ہیں اور زود یا بدیر ڈوب ہو جاتے ہیں۔

چوتھی قسم، بچوں کے رسالے، پھول، پھلواری، نونہال، کھلونا، تعلیم و تربیت، جگنو، جنگل منگل، آنکھ مچولی اور بہت سے۔ ان رسالوں کے خریدار ادبی رسالوں سے زیادہ ہوتے ہیں، سالانہ خریدار بھی خاصے۔ تین چار پرچوں کے سوا اشاعت بس ہزار ڈیڑھ ہزار، مسائل عام رسالوں سے زائد، وہی تحریریں شائع ہو سکتی ہیں جو بچوں کو کسی دقت بغیر منتقل ہو سکیں۔ ذخیرۂ الفاظ محدود، عبارت میں سادگی، روانی، ثقیل الفاظ سے گریز۔ عمر کے ساتھ بچوں کے تعلیمی مدارج بڑھتے رہتے ہیں۔ سو کس عمر اور کس جماعت تک کے بچوں کے لیے تحریریں منتخب کی جائیں؟ خصوصی تحریروں کی دست رسی ہی ان رسائل کا بڑا مسئلہ ہوتی ہے۔ شکایت ہے، ہمارے صف اول کے ادیبوں، شاعروں نے بچوں کے ادب سے تھوڑی بہت مغائرت برتی ہے۔ مولوی اسماعیل میرٹھی، حامد اللہ افسر سے صوفی غلام مصطفیٰ تبسم تک چند ہی نام نمایاں نظر آتے ہیں۔ یہ الزام کسی حد تک بجا معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے بڑے ادیب، شاعر بچوں کے لیے قلم کاری کو کوئی کم تر بات سمجھتے ہیں یا پھر یہ بھی ایک وجہ ہو کہ بچوں کے لیے لکھنے میں بہت محتاط رہنا پڑتا ہے، لفظوں کا انتخاب، لہجے کی سادگی وغیرہ۔

ان رسالوں کا حال بھی ادبی رسالوں سے مختلف نہیں ہے، اداروں کی طرف سے جاری ہوں تو عمر دراز، افراد نکالیں تو زندگی ان کی صواب دید، ان کے حالات پر منحصر۔

اور اب تو نقشہ ہی دگر ہو چکا ہے، جدھر دیکھیے، انگریزی ذریعۂ تعلیم کے اسکول سر اٹھائے ہوئے ہیں۔ ذرا سی آسودگی ہو انگریزی اسکول ہی تعلیم کی منزل ہوتے ہیں۔ کسی باراں دیدہ کا ارشاد ہے، زبان کا تعلق روزگار سے ہے۔ جس زبان میں روزگار ارزاں، فراواں ہو وہی مفتخر روز گار ہو گی۔

ادھر انگریزی درس گاہوں کے بچے نفیس کاغذ پر آراستہ مصور انگریزی رسالوں کتابوں کی طرف لپکتے ہیں کہ اردو رسالے کتابیں کسی پہلو انگریزی مطبوعات کی ہم سری، ہم چشمی نہیں کر پاتیں۔

پانچویں قسم کے رسالے ڈائجسٹ رسالے ہیں۔ دیکھا نہیں، سنا ہے، مولانا حسرت موہانی کے کسی بھانجے بھتیجے نے پہلا ڈائجسٹ کراچی سے شائع کیا تھا۔ تین چار شمارے ہی آ سکے۔ برسوں بعد لاہور سے سیارہ اور اردو ڈائجسٹ نے عالمی شہرت یافتہ ریڈرز ڈائجسٹ کی تقلید میں ڈائجسٹ رسالے شائع کرنے کا اہتمام کیا تھا۔ دونوں بہت کام یاب رہے۔ اردو ڈائجسٹ نے تو کمال کر دکھایا۔ اس کی دیکھا دیکھی ہم نے اپنے علمی و ادبی رسالے انشا کا نام اور حلیہ بدل کے عالمی ڈائجسٹ کر دیا۔ ہزار جتن سے ساڑھے بارہ سو سے اوپر نہ پڑھے جانے والا رسالہ انشا عالمی ڈائجسٹ کا روپ دھار کے بیس ہزار تک پہنچ گیا۔ عالمی ڈائجسٹ سے ناچاقی پر اس بے اماں کے دماغ میں اپنا کوئی رسالہ نکالنے کی سمائی۔ سب رنگ نے اردو صحافت میں رکارڈ قائم کیے۔ سب رنگ کے بعد تو ڈائجسٹ رسالوں کی یلغار سی ہو گئی۔ نکلتے رہے۔ بند ہوتے رہے اور آخر سب رنگ بھی نہ رہا۔

عام رسالوں سے یہ ڈائجسٹ جدا رسالے تھے۔ انھوں نے ادبی، علمی و سماجی مضامین اور شاعری کی جگہ صرف کہانیوں پر تکیہ اور اصرار کیا۔ کہانی، ادب کی سب سے مطلوب صنف ہے۔ ناخواندہ حضرات بھی کہانی سننے، تھیٹر، ٹی وی اور فلم میں کہانی دیکھنے کے مشتاق رہتے ہیں۔ ڈائجسٹوں نے دنیا بھر سے دل آویز، دل ستاں کہانیوں کے تراجم کے ساتھ اردو اور برصغیر کی دیسی زبانوں کی کہانیوں کے انتخاب کو ترجیح دی۔ فسانوی مجموعوں اور ادبی رسالوں میں شائع ہونے والی کہانیاں یوں کم پڑھی جاتی ہیں کہ ادبی رسالوں اور کتابوں میں انتخاب نہیں ہوتا۔ ڈائجسٹوں نے بڑے ناموں کے بجائے کہانیوں کی دل چسپی کو فوقیت دی۔ مغربی کہانیوں کے تراجم میں بھی انتخاب کی شرط لازم رکھی گئی۔ اس کے علاوہ ڈائجسٹوں نے آپ بیتی، سرگزشت طرز کی تحریریں شروع کیں۔ بیش تر طبع زاد، حیرت انگیز، عبرت آمیز اور ناقابل فراموش واقعات کے ان قسط وار سلسلوں نے قارئین کو جکڑ سا لیا۔ کتب فروش کہتے ہیں کہ عام قاری کو فسانوی ادب کی طرف کھینچ کے لانا ڈائجسٹوں کا کارنامہ ہے۔ فسانوی مجموعے کثرت سے فروخت ہونے لگے۔ لوگ نام لے لے کر اپنے پسندیدہ تخلیق کاروں کے ناول اور کہانیوں کے مجموعے طلب کرنے لگے۔

صحیح تعداد کا تو علم نہیں۔ ڈائجسٹوں کی غیر معمولی پذیرائی سے متاثر کوئی تیس چالیس ڈائجسٹ رسالے مختلف شہروں سے نمودار ہوئے۔ اور کچھ عرصے رنگ جما کے غروب ہو گئے لیکن باقی رہ جانے والے پندرہ سولہ ڈائجسٹ قابل رشک تعداد میں چھپتے ہیں۔ کہانیوں پر مبنی خواتین کے ایک ڈائجسٹ کے بارے میں تو کہا جاتا ہے لاکھ سے اوپر اشاعت حاصل کر چکا ہے۔

اور وہی ایک سوال، اردو کی یہ میعادی مطبوعات، یہ رسالے، اخبار جلد یا بدیر بند کیوں ہو جاتے ہیں؟

پہلی صاف اور سیدھی بات تو یہ ہے کہ ہر نئے جریدے کو پہلے سے جاری جریدوں سے ممتاز ہونا چاہیے۔ متن، اصل اور بنیاد ہے۔ پیش کش کی رعنائی و زیبائی اور بروقتی اسے دو آتشہ کر دیتی ہے۔ ہمارے نوے فی صد رسالے کسی ایک شاعر ادیب کی مساعی کے مرہون ہوتے ہیں۔ یہ صاحبان نہ اتنے مال و زر والے ہوتے ہیں نہ رسالے کے تجارتی، تکنیکی امور سے اس قدر واقف۔ انھیں اندازہ نہیں ہوتا، رسالہ نکلنے کے بعد کیسی ناروائیوں، پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ عمدہ اعلیٰ متن اکٹھا کرنا ہی ایک کام نہیں، کمپوزنگ / کتابت، پیسٹنگ، تزئین، طباعت و اشاعت (سرکولیشن) کے مراحل، ایجنٹوں سے رابطے، کھاتے داری، چھوٹا بڑا دفتر، کوئی کام والا، چپراسی اور کلرک، چائے پانی، فون، بجلی، پیکنگ، ڈاک اور ترسیل۔ ہم ذوق دوستوں کا تعاون جزوقتی ہی ہو سکتا ہے۔ مرکزی مدیر کے ساتھ رسالے میں کئی معاونین کے نام کندہ ہوتے ہیں لیکن بانی مبانی مدیر ہی سارا کچھ ہوتا ہے۔ وہ قلم ور بیمار پڑ جائے یا کسی ان ہونی، ناگہانی سے دوچار ہو جائے تو رسالہ لڑکھڑانے لگتا ہے اور انتقال کے سانحے پر تو کہیں روپوش۔ مثالیں موجود ہیں، ایک نہیں متعدد۔ احمد ندیم قاسمی کا فنون، محمد طفیل کا نقوش، نیاز فتح پوری کا نگار، وزیر آغا کا اوراق، مظہر خیری کا جام نو۔ اپنے محبی مرشدی کی یاد میں قریبی احباب رسالہ زندہ رکھنے کی کوشش کرتے ہیں تو تادیر ممکن ہو نہیں پاتا۔ کیا کہا جائے، ان مخلصین کے اپنے مشاغل ہی فرصت و فراغت نہ لینے دیتے ہوں، ادبی رسالہ کاری تو کل وقتی کام ہے۔ ازرہ سخن پروری بڑے اخباری ادارے اور کتابوں کے ناشرین کے لیے کسی ماہانہ، سہ ماہی ادبی رسالے کا انعقاد کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہیے۔ تھوڑا بہت گھاٹے کا سودا سہی، ادارے کی قدر و منزلت کیسی فزوں ہو سکتی ہے۔ زمانہ گزرا، اخبار ”جنگ“ نے شفیع عقیل مرحوم کی ادارت میں بچوں کا ایک خوب صورت رسالہ ”بھائی جان“ شروع کیا تھا۔ جانے کیا ہوا کہ بند کر دیا گیا۔ کچھ نقصان ہو رہا تھا تو جنگ کے ادارے پر کون سا پہاڑ ٹوٹ پڑتا۔ پھر وہی ناکافی وسائل والے ادب و شعر کے جنوں پیشہ ادیب شاعر رہ جاتے ہیں جو حجت ہزار کے باوجود ادبی رسالے شائع کرنے کا بیڑا اٹھاتے ہیں اور بہ قدر جذبہ و حوصلہ ادب تماشا جاری رکھتے ہیں۔

ایسے میں ڈائجسٹ رسالوں نے صورت حال ہی منقلب کر دی۔ انھوں نے چہار سو خاص و عام قاری کو اپنی جانب راغب کیا۔ کتابی سائز کے ان رسالوں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ ادبی رسالوں سے قطعی مختلف تھے۔ دو کالمی صفحہ، خفی خط، فی سطر نو سے تیرہ الفاظ، ہر کالم میں پینتیس سے چالیس سطریں، ہر کہانی کے پس منظر اور کرداروں پر مصوروں کی بنائی ہوئی تصویریں، ایک سو ساٹھ سے شروع ہونے والے صفحات بڑھتے گئے، رنگین خوش نما سرورق، ہر کہانی پر تین چار تعارفی سطریں، بعض پر مصنف کا سوانحی خاکہ، طویل کہانیوں کے درمیان مختصر و معلوماتی شذروں، لطائف کے چوکھٹے، دنیا بھر سے منتخب کارٹون، ایک صفحے میں زیادہ سے زیادہ ’میٹر‘ دینے کی نیت۔ قارئین کی سیری کے لیے قسط وار سلسلوں کی ہر قسط میں زیادہ سے زیادہ صفحات۔ یہ تمام دل آرائیاں، دل داریاں اپنی جگہ لیکن ان کی حیثیت ضمنی۔ دل جو تو ڈائجسٹوں کی تحریریں تھیں اور ہیں، ساری دنیا سے، ایک سے بڑھ کر ایک کہانی، کہانیاں ہی کہانیاں۔ طبع زاد سلسلوں کے علاوہ سارے کا سارا انتخاب اور دو سو ڈھائی سو صفحات کی کتاب کے مقابلے میں بہت کم قیمت پر۔

ڈائجسٹ شروع کرنے والے بھی عام وسائل کے لوگ تھے۔ کام یابی کی ایک ہی رمز نہاں، عیاں ہے۔ دل چسپ متن کا نکتہ۔ جس ڈائجسٹ نے تحریروں کے انتخاب میں جتنی عرق ریزی، جاں سوزی کی، کام راں رہا۔

اشتہار رسالوں، اخباروں کی رگ جاں ہوتے ہیں۔ اشتہاری ایجنسیوں کے بجٹ میں پہلا نمبر آج کل ٹی وی کا ہوتا ہے، پھر سڑکوں پر نصب بورڈوں اور اخباروں کا۔ رسالے اول تو بجٹ میں شامل ہوتے ہی نہیں، ہوتے ہیں تو سب سے آخر میں۔ حالاں کہ کتابوں کے بعد رسالوں کی عمر طویل ہوتی ہے۔ فائلیں محفوظ کی جاتی ہیں۔

جن رسالوں کے مدیر اشتہارات کے لیے دوڑ بھاگ کرتے ہیں اور جنھیں اشتہاری ایجنسیوں، بینکوں، بڑے تجارتی اداروں کے سربراہوں، تعلقات عامہ کے عہدے داروں، انکم ٹیکس، ایکسائز اور کسٹم افسروں سے صاحب سلامت کی عزت حاصل ہے انھیں ’مروتی‘ اشتہار نصیب ہو جاتے ہیں۔ انشا، عالمی ڈائجسٹ میں کام کے عرصے میں اشتہار عطا کرنے والوں سے سب رنگ کے مدیر کی خوب سلام دعا ہو گئی تھی۔ ایسا کم ہی ہوتا ہے۔ یہ سن کے کہ یہ کم ترین اپنا ایک رسالہ نکال رہا ہے، انھوں نے ازخود اشتہار کی عنایت و سخاوت کی۔ سب رنگ پہلے دوسرے شمارے ہی سے منافع میں آ گیا تھا۔ مدیر سب رنگ سے کوئی پوچھے تو کیا لب کشائی کرے۔ متن کی دست یابی کتنا ہی دقت طلب معاملہ ہو، کم تر اشاعت کے لیے اشتہار یافتگی کسی چیلنج اور امتحان کے مانند ہے۔ ایسا صبر و ضبط، تحمل و استقلال کچھ بیمہ ایجنٹوں ہی میں نظر آتا ہے۔ غالباً اسی لیے آزمودہ کاروں نے اسے ایک فن اور آرٹ قرار دیا ہے۔

ایک بار اسلام آباد میں منعقدہ اہل قلم کانفرنس میں، ”حماقتیں“ ، ”مزید حماقتیں“ کے تخلیق کار شفیق الرحمان کے ذریعے ہم رسالے والوں نے قرار داد پیش کی کہ ادبی رسالے علم و ادب، فکر و خیال کی نمو اور فروغ کے لیے اہم کردار ادا کرتے ہیں، کیا ہی اچھا ہو، حکومت اپنے تجارتی اداروں کو پابند کرے کہ اشتہاری بجٹ میں ادبی رسالوں کی معاونت کے طور پر کچھ رقم لازماً مختص کیا کریں۔ اتفاق رائے سے قرارداد منظور ہو گئی مگر پھر وہی ہوا جو ہوتا آیا ہے۔

ممکن ہے، بہت سے دوستوں کے لیے یہ واقعہ انکشاف کا درجہ رکھتا ہو کہ زمانۂ دراز سے کتابوں، رسالوں، اخباروں کے تھوک اور خردہ فروش کو چالیس سے پچاس فی صد کمیشن دینے کا رواج رائج ہے۔ مطلب یہ کہ سو روپے کی کتاب میں پچاس روپے، سو روپے کے رسالے، اخبار میں چالیس روپے کے شراکت دار تھوک اور خردہ فروش ہوتے ہیں اور مستزاد یہ کہ صرف فروخت ہو جانے والے رسالے، اخباروں کی ادائی ہوتی ہے، نہ فروخت ہونے والے رسالے، اخبار ناشر کو واپس کر دیے جاتے ہیں۔

ابتدا ہوئی تھی، پڑوسی سالار صاحب کے ذکر خیر سے۔ وہ باقاعدہ طباعت و اشاعت، قلم اور صحافت کے آدمی تھے۔ ہر جانب دیکھ بھال کے، مصمم ارادے اور خلوص نیت سے طنز و مزاح پر رسالے کا آغاز کیا، پانچ شمارے شائع ہوئے، چھٹے کی نوبت نہ آ سکی۔ کیوں؟ ان اوراق میں کچھ انھی اسباب کی نشان دہی کی کوشش کی گئی ہے۔ ہر بار بہتر سے بہتر رسالہ مرتب کرنے اور معیار کی برقراری کی خواہش ہر مدیر کو ہوتی ہے۔ سالار صاحب کو مالی خستگی سے اس قدر نہیں، بہتر متن کی تلاش میں جس قدر مایوسی ہوئی ہو گی۔ طنز و مزاح ویسے بھی ادب کی ایک مشکل صنف ہے۔ ہر لکھنے والا طنز و مزاح نگار نہیں ہوتا، نہ ہو سکتا ہے۔ دعوے یوں بہت، متاثر کرنے والے شاذ و نادر۔ طنز و مزاح کے جریدے سے مراد ہے، مخصوص نوعیت کا جریدہ، عام رسالوں سے جدا۔ سالار صاحب کو اشتہار بھی توقع سے کم مل سکے اور رسالوں کی فروخت بھی امید سے کم رہی۔ تین چار سرکاری ادبی رسالے چھوڑ کر لکھنے والوں کو اپنے ہاں معاوضہ دینے کی ریت بھی نہیں ہے۔ البتہ ہر ڈائجسٹ آغاز ہی سے قلم کاروں کو معاوضہ ادا کرنے میں پیش پیش رہا ہے۔

اتنا کچھ لکھنے کا ارادہ نہیں تھا لیکن، یہی کاغذ قلم، رسالے اخبار کے شغل و اشغال روز و شب کا وظیفہ رہے ہیں۔ ذکر چھڑا تو بات بڑھتی گئی۔ یہ قلم بھی کبھی سنبھالے نہیں سنبھلتا، بے قابو ہو جاتا اور من مانی پر اتر آتا ہے۔ سب رنگ کا ذکر رہے جا رہا ہے کہ سب رنگ نے آخر کیا جادو کیا تھا۔ مگر اب باقی آئندہ ہی مناسب رہے گا۔

بک کارنر کے عالی قدر شاہد حمید کے بارے میں کچھ کہنا ہے۔ ان کی داستان، جہد مسلسل، عزم و ہمت کی داستان ہے، چھوٹے پیمانے سے کتاب دوستی کا سفر شروع کیا تھا اور مثال قائم کی۔ ایک زمانے کو قائل کیا، کتاب اس انداز سے بھی چھپ سکتی ہے کہ پڑھنے کو جی بے تاب ہو۔ ایک خیال کار شخص، جدت و ندرت کے جویا۔ ان کا احساس جمال ان کے کام سے جھلکتا ہے۔ جانے کہاں کہاں سے ڈھونڈ ڈھانڈ کے یادگار اور نایاب کتابوں کی بار دگر اشاعت کا اہتمام کیا اور دیدہ زیب کتابوں کے ناشرین کی فہرست میں بک کارنر کو نمایاں مقام سے سرفراز کیا۔ اب ان کے جواں سال، سعادت آثار بیٹے گگن اور امر اپنے مایۂ ناز والد کی پے روی میں مستعد، سرگرم، پرجوش نظر آتے ہیں۔ افسوس ہے، خاک سار کو عالی جناب شاہد حمید سے ملاقات کا موقع نہ مل سکا، تا زندگی جس کا قلق رہے گا۔ گگن اور امر بتا رہے تھے کہ ان کے باوا جان کو سب رنگ بہت پسند تھا۔ کہتے تھے، اسے پڑھا کرو، اس میں بہت کچھ الگ ہے۔

”سب رنگ کہانیاں“ کی یہ پانچویں جلد، گزشتہ چار جلدوں کی پذیرائی کی شہادت ہے۔ اس اعتراف صادق سے دل ہلکا ہوتا ہے کہ سارا تماشا تو سب رنگ زدہ، سب رنگ گزیدہ حسن رضا گوندل کا ہے۔ یہ دید باز تو محض ایک تماشائی ہے، نظارہ باز۔

گزشتہ دنوں گوندل کراچی آئے تھے، کسی کام سے نہیں، ان کے پاس اب کوئی اور کام بھی نہیں، سب رنگ نوردی، سب رنگ پیمائی کے سوا۔ سب رنگ ختم ہو گیا لیکن سب رنگ تو حسن رضا کی شکل میں بہ ہمہ رنگ زندہ ہے۔

و ما علینا الا البلاغ
………………………………………………………………..
اشاعت جون ”
شکیل عادل زادہ کا نگار خانہ
سب رنگ کہانیاں | پانچویں جلد
تالیف و تشکیل: حسن رضا گوندل
سب رنگ تماشا | صفحہ نمبر 9 ― 16


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments