دو محبتوں میں گھری لڑکی کی کتھا


وہ بیس اکیس برس کی الہڑ مٹیار تھی، جس کی شوخ اور چنچل آنکھوں میں خوبصورت خواب بستے تھے۔ اکلوتی ہونے کے کارن بلا کی ضدی جو اپنی ہر خواہش جب چاہتی منوا کر ہی دم لیتی۔ وہ خوشیوں میں پلی بڑی اور محبت کے سائے میں جوان ہوئی۔ غضب کا سراپا اور قیامت کی چال جو کسی بھی حسین شخص کا خاصہ ہوتا ہے وہ اس میں تھا۔ مسکراتی تو گویا بہار کا سماں، موتیوں سے الفاظ، ادا جیسے ادائے دلبرانہ، اس کی خاموشی گویا کسی حسیں ویرانے کا منظر۔

غرض وہ ایسی لڑکی تھی، جو محبت کا پیکر اور نفرت سے ناآشنا تھی۔ تاہم اس نے جب اپنی دنیا سے نکل کر ، باہر قدم رکھا تو اسے یہ دنیا عجیب عجیب سی لگی، جس میں خوشی، مسکراہٹ، پیار اور درد سب کچھ مصنوعی تھا۔ جہاں ہر رشتہ مفادات سے جڑا اور ہر محبت ہوس کے تیروں میں بجھی ہوئی تھی۔ اس نے بدلتے وقت کے ساتھ جو تبدیلی محسوس کی، وہ والدین اور بھائیوں کے بدلتے رویے تھے، جس کا سبب ایک عدد گھر تھا جو کمسنی میں اس کے باپ نے اس کے نام کر واکر، اب اس وجہ سے پچھتا رہا تھا، کہ یہ گھر اس کی بیٹی کی شادی کے بعد ہمیشہ کے لئے ان سے چھن جائے گا جو اسے اور اس کے بیٹوں کو گوارا نہ تھا۔

وہ لڑکی جو محبت کے گھنے پیڑ کے سائے میں رہی تھی، اب اس کے لئے محبت کے بغیر جینا ناممکن ہو چلا تھا۔ اور پھر وہ ہمہ وقت محبت کو پانے کی جستجو میں مگن رہنے لگی۔ اسی جستجو اور لگن نے اسے جانے انجانے میں ایک ایسے شخص کے قریب دیا جو پہلے سے شادی شدہ تھا۔ مگر وہ اس بات سے بے خبر، دل ہی دل میں اسے دل دے کر یک طرفہ محبت کے سحر میں جکڑی جا چکی تھی۔ ادھر وہ اس کی محبت میں سرشار اور ادھر اس کے والدین اس کی شادی کے لئے غور و خوض میں مشغول۔

تاہم اس نے کمال ہمت اور بہادری سے والدین کی اس پسند کو ٹھکرا دیا جو شادی سے پہلے اس کی عزت لوٹنے کے درپے ہوا کرتا تھا۔ اس کا یہ انکار گھر والوں کو اس قدر ناگوار گزرا کہ سب نے اس سے تعلق منقطع کر کے، اس کو زمانے کی بے رحم موجوں کے سپرد کر دیا۔ اب وہ بس تنہائی کی ساتھی، اور خود کلامی کے ساتھ زندگی گزارنے والی لڑکی بن چکی تھی، جو بس آہیں بھرتی رہتی اور اپنے محبوب سے وصل کی آرزو کرتی رہتی۔

اس دوران اس کی زندگی میں ایک اور موڑ آتا ہے جب ایک شخص اس لڑکی کی محبت میں گرفتار ہو کر اس سے اظہار محبت کر بیٹھتا ہے۔ تاہم وہ کمال بے اعتنائی اور بے رخی سے اس کی محبت کو ٹھکرا دیتی ہے۔ مگر وہ شخص بھی اس کاروبار میں اپنے دل کا سودا کرچکا تھا، لہذا اس کی محبت میں بھی کوئی کمی نہیں آئی۔ مشہور ہے کہ انسان کو اگر محرومیاں ملتی ہیں، تو چند عطائیں بھی اس کا مقدر ہوتی ہیں، جو اس کی زندگی کا توازن برقرار رکھتی ہیں۔

چنانچہ یہاں بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہوا، اور اس لڑکی کو اس کے سپنوں کا ساجن معجزاتی طور پر شوہر کی صورت میں مل گیا۔ اور اس نے یہ خوشخبری سب سے پہلے، اسی شخص کو سنائی جو اس کا سودائی تھا۔ یہ خبر سن کر اس کا عاشق یہ سمجھنے سے قاصر تھا کہ وہ محبوب کی خوشی میں شریک ہو کر اسے پیغام تہنیت دے یا اپنی سیاہ بختی اور شب دیجور جیسے ہجر پہ ماتم کرے۔ ادھر اس کا محبوب خوشی سے پھولے نہ سما رہا تھا، اور ادھر اس پہ زندگی کا ایک لمحہ بھاری پڑ رہا تھا۔

بہرحال وصل کی گھڑی آن پہنچی اور اس لڑکی کو اس کی مراد مل گئی۔ وہ بہت خوش تھی اور یہ جان کر اور بھی مسرور ہوتی تھی کہ اس کا شوہر بھی اسے چاہتا ہے۔ الغرض اس نے شادی کی خوشیوں کے ساتھ ایک نئی زندگی کا آغاز کیا، جس میں شوہر کا پیار اور اس کے دل کی مراد دونوں شامل تھے۔ مگر تھوڑے ہی دنوں میں اسے شوہر کے رویے میں تبدیلی محسوس ہونا شروع ہو گئی، جس کا سبب اس کی سوتن اور وہ مکان تھا جو اب اس کے شوہر کی آنکھوں میں بھی کھٹکنا شروع ہو گیا۔

ابتداء میں شوہر نے بے اعتنائی برتی اور دھیرے دھیرے اس سے تعلقات میں بیگانگی، اکتاہٹ، سردمہری اور لاتعلقی میں اضافہ ہونا شروع ہو گیا۔ کیونکہ اس لڑکی کے لئے محبت ہی حاصل زندگی تھی، لہذا اب اس نے اس شخص سے دوبارہ تعلقات استوار کر لیے جس کی محبت کو اس نے ٹھکرایا تھا۔ وہ شوہر کی غیر موجودگی میں سارا سارا دن اس سے محو گفتگو رہتی اور اپنے دل کا درد اس سے بیان کرتی۔ وہ اپنے محبوب کا شکوہ اس شخص سے کرتی جس کی وہ محبوب تھی۔

تاہم شوہر کے رویے اور لاپرواہی نے اسے شوہر سے اس قدر متنفر کر دیا کہ وہ اب شوہر کی بجائے اس شخص کی محبت میں آ گئی جس سے اس کا ملن ناممکن تھا۔ وہ دونوں مگر اس کے باوجود خوش تھے کہ یہ محبت یک طرفہ نہیں بلکہ باہمی تھی جس میں دونوں طرف برابر کی آگ لگی ہوئی تھی۔ وہ عورت پاس والے شخص سے دور اور دور والے شخص کے پاس تھی۔ ان دونوں نے شروع میں یہ ہجر کی آگ خوب سینکی، مگر دل اب وصل کا متمنی تھا۔ وہ تمام فاصلے، تمام پردے ہٹا کر آنکھ کے روبرو اپنی محبت کو دیکھنا اور اسے چھونا چاہتا تھا۔

مگر وصل کی کوئی صورت بنائے نہ بنتی تھی۔ وہ ہر روز اس وصل کے خواب بنتے اور پھر عقل کی قینچی سے انہیں ادھیڑ دیتے۔ تاہم ایک دن انہوں نے ان فاصلوں کو مٹانے کا فیصلہ کیا تاکہ وصل نصیب ہو۔ وہ شخص گھر سے وصل کی خوشی سے سرشار ہو کر نکلا کہ آج وہ اپنے محبوب کا بلاواسطہ نظارہ کرے گا، مگر دوسری طرف اس لڑکی نے محبت پہ شوہر کی عزت کو ترجیح دینے کا فیصلہ کیا اور اپنے گھر سے باہر قدم نہ رکھا۔ وہ دن اور آج کا دن، اس شخص کی محبت کا ماتم جاری ہے اور وہ آج بھی یہ سوچتا ہے کہ یہ کیسی کتھا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments