خواجہ سرا: گرو چیلا سسٹم کے حامیوں کا موقف کیا ہے


خواجہ سراء کمیونٹی اس قدر زیادتیوں کا شکار ہے کہ یہ عام لوگوں پر اعتبار نہیں کرتی۔ انھیں ہر شخص مفاد پرست جنسی بھیڑیا نظر آتا ہے۔ دو سال قبل میں نے ان کے حقوق پر آواز اٹھانے کی کوشش کی تو مجھے کہا گیا آپ ہمارے پاس آئیں گے ہم سے معلومات لیں گے، ویڈیوز بنائیں گے پھر انھیں باہر بیچ کر پیسہ کمائیں گے۔

”ہم سب“ کے تعاون سے لکھی گئی تحریروں کے نتیجے میں خواجہ سراء کمیونٹی میں بحث مباحثوں کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ ہمارے موقف کے حامی اور مخالف ایک دوسرے کو قائل کرنے کی بھر پور کوشش کرتے ہیں۔ مشکل موضوعات پر بحث کا چھڑ جانا ہی حقیقی آگہی ہے۔

چند روز قبل ہم نے خواجہ سراء کمیونٹی میں گرو چیلا سسٹم کے مخالفین کا موقف بیان کیا جس پر بہت بحث اور لڑائی جھگڑے ہوئے۔ کچھ گروؤں نے مجھ سے رابطہ کیا۔ میں نے ان سے کہا ہمارا مقصد آپ لوگوں کی رائے کو عوام تک پہنچانا ہے۔ گرو چیلا سسٹم کے سپورٹ میں آپ کی کیا رائے ہے؟

تین خواجہ سراء گروؤں نے اپنی رائے کا اظہار کیا۔ تینوں خواجہ سراء کمیونٹی کی اہم ترین شخصیات ہیں۔ میں ان تینوں کو جانتا ہوں۔ تینوں اپنے علاقوں میں خواجہ سراء کمیونٹی کے لئے بھر پور خدمات سر انجام دے رہی ہیں۔

صاحبہ جہاں کا تعلق بہاولپور سے ہے۔ فوکس ٹرانس جینڈر آرگنائزیشن کی صدر ہیں۔ صاحبہ کا ادارہ خواجہ سراء، معذور افراد، بچوں اور خواتین کے حقوق کے لئے کام کرتا ہے۔ کچھ عرصہ قبل خواجہ سراؤں کا سکول بھی قائم کیا۔

صاحبہ کہتی ہیں کہ انھیں پڑھنے کا بہت شوق تھا۔ ایف۔ اے کے دوران گھر والوں، خاندان اور معاشرے کا دباؤ بہت بڑھ گیا۔ ایک روز صاحبہ کی مرحوم بہن نے ان سے کہا کہ اب تمھارے پاس دو ہی راستے بچے ہیں خودکشی کر کے دباؤ سے آزادی حاصل کر لو یا پھر گھر سے بھاگ جاؤ۔

بہت سوچ بچار کے بعد صاحبہ نے گھر سے بھاگنے کو ترجیح دی۔ صاحبہ کہتی ہیں گھر سے فرار کے بعد گرو ہی تھے جنھوں نے انھیں پناہ دی۔ بچوں کی طرح پالا روز گار کے قابل بنایا۔ صاحبہ نجی تقریبات میں ڈانس کر کے گزر بسر کرتی ہیں۔ اپنے بزرگ والدین کا خرچہ بھی صاحبہ ہی اٹھاتی ہیں۔

صاحبہ کہتی ہیں کہ گرو چیلے سسٹم میں کچھ برائیاں ضرور ہیں لیکن یہ کہہ دینا کہ اس سسٹم کو ختم کر دیا جائے یہ غلط ہے۔ اکثر چیلے گھر والوں، خاندان اور معاشرے سے دھتکارے جانے کے بعد گروؤں کے پاس آتے ہیں۔ یہ گرو ہی ہوتے ہیں جو انھیں اپنے بچوں کی طرح پالتے ہیں۔ نئے رشتے دیتے ہیں۔ روز گار کے قابل بناتے ہیں۔ جس طرح گھروں میں غلطی پر بچوں کو پیار سے، ڈانٹ کر یا پھر مار کر سمجھایا جاتا ہے۔ اسی طرح گرو بھی غلطی کرنے پر چیلے کو پیار یا سختی سے سمجھاتے ہیں۔

گرو چیلا سسٹم کو انسانی اسمگلنگ سے جوڑنا سراسر جھوٹ ہے۔ اکثر چیلوں کو جب کسی دوسرے گرو کے سپرد کیا جاتا ہے۔ تو اس وقت وہ گرو کا مقروض ہوتا ہے۔ دوسرا گرو وہ پیسے ادا کر کے اسے اپنا شاگرد بنا لیتا ہے یا پھر چیلے کو جب کسی دوسرے گرو کے سپرد کیا جاتا ہے تو وہ اپنی خوشی سے پہلے گرو کو کچھ رقم ادا کر دیتا ہے۔

انمول رضا شاہ بخاری کا تعلق ساہیوال سے ہے۔ زندگی ویلفیئر سوسائٹی کی صدر، ساہیوال میں ٹرانس جینڈر کمیونٹی کی فوکل پرسن اور ڈویژنل کارڈینیٹر ہیں۔

انمول والدین کی اکلوتی اولاد ہیں۔ بچپن میں ہی والدہ صاحبہ کی وفات ہو گئی۔ جس کے بعد والد نے دوسری شادی کر لی۔ سوتیلی ماں انمول کا ہر ممکن ساتھ دینے کی کوشش کرتیں لیکن چچا، تایا نے زندگی اجیرن کر کے رکھ دی۔ والد نے انھیں اپنے ساتھ رکھنے کی بڑی کوشش کی لیکن جہاں بھی جاتیں لوگوں کے مذاق اور تلخ سوالوں کا سامنا کرنا پڑتا۔

انمول ہر وقت کی مار دھاڑ، کبھی کمرے میں بند تو کبھی کھانا بند سے تنگ تھیں۔ اسی دوران گاؤں کے با اثر افراد نے انمول کی عزت تار تار کر دی۔ والد نے بڑی بھاگ دوڑ کی لیکن پرچہ تک نہ کٹوا سکے۔ پولیس کی ملی بھگت سے دونوں فریقوں کو صلح کرنی پڑی۔ اس واقعہ نے انمول کو گھر کو خیر آباد کہنے پر مجبور کر دیا۔

انمول خواجہ سراؤں کے ایسے گروپ سے جا ملیں جو نہایت عبادت گزار تھا۔ ڈانس صرف پیٹ بھرنے کے لئے کیا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ ان میں کوئی برائی نہ تھی۔ انمول پنجاب کے مختلف اضلاع میں لگنے والے میلوں میں پرفارم کر کے پیسہ کمانے لگیں۔ ان کا ڈانس اتنا مشہور تھا کہ لوگ میلے کی باقی ساری چیزیں چھوڑ کر ان کی پرفارمنس دیکھنے لگ جاتے۔ کچھ عرصہ میلوں میں کام کرنے کے بعد انمول ٹولی والے خواجہ سراؤں سے جا ملیں۔ ٹولی والے خواجہ سراؤں کو عبادت گزاری کی وجہ سے کمیونٹی میں معتبر سمجھا جاتا ہے۔

انمول کہتی ہیں کہ جب اپنوں نے جینا تنگ کر دیا تو گرو ہی تھے جنھوں نے ان کے سر پر ہاتھ رکھا۔ اپنی مرضی کی زندگی جینے کا موقع فراہم کیا۔ گرو چیلا سسٹم میں نقائص ضرور ہوں گے لیکن اسی سسٹم نے لاکھوں خواجہ سراؤں کو سر چھپانے کا ٹھکانہ مہیا کیا ہوا ہے۔

شہانہ عباس شانی کا تعلق مظفر گڑھ سے ہے۔ 2009 ء سے کمیونٹی کے لئے خدمات سرانجام دے رہی ہیں۔ شہانہ کہتی ہیں کہ یہ دس سال کی عمر میں گرو چیلا سسٹم سے جڑی ہیں۔ شہانہ کہتی ہیں کہ یہ جس گھر میں رہ رہی ہیں وہ انھیں اپنی گرو سے وراثت میں ملا ہے۔ زمین کا یہ ٹکرا سات سو سال سے خواجہ سراؤں کے پاس ہے۔ سات سو سال قبل کسی نے خواجہ سراؤں کو اس جگہ گھر بنا کر دیا۔ جو نسل در نسل گروؤں سے چیلوں کو منتقل ہو رہا ہے۔ شہانہ کہتی ہیں کہ خواجہ سراؤں کی تاریخ اتنی پرانی ہے جتنی کہ نسل انسانی۔ برصغیر پاک و ہند میں دین اسلام کے فروغ میں خواجہ سراؤں نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ بہت سے خواجہ سراؤں نے اولیا کرام کے ساتھ مل کر دین کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا جن کا ذکر اولیاء کرام کی کتابوں میں بھی ملتا ہے۔

شہانہ کہتی ہیں کہ بھیک، ناچ گانا اور سیکس ورک خواجہ سراء کمیونٹی کے شعبے نہیں ہیں۔ حقیقی خواجہ سراء ان چیزوں سے دور رہنا پسند کرتے ہیں۔ خواجہ سراء کمیونٹی میں بہت سے ایسے لوگ گھس آئے ہیں جو نہ تو خواجہ سراء ہیں اور نہ ہی ان کے پاس خواجہ سراء والا شناختی کارڈ ہے۔ یہ لوگ مصنوعی ہیں جو ایل۔ جی۔ بی۔ ٹی کو فروغ دینا چاہتے ہیں۔ ایچ۔ آئی۔ وی کے نام پر انھیں سیکس ورک کی ٹریننگ دی جاتی ہے اور بیرونی ایجنڈے کو فروغ دیا جاتا ہے۔

اصل خواجہ سراء گھر تبدیل نہیں کرتے۔ ہمارے گھروں میں تمام مکتبہ فکر اور مختلف مذاہب کے خواجہ سراء اکٹھے رہتے ہیں۔ چیلوں کی خرید و فروخت کے حوالے سے شہانہ کہتی ہیں کہ جب کوئی چیلا کسی گرو کی شاگردی میں آتا ہے تو وہ اسے زیور اور پیسے چڑھاتا ہے اور جب یہ چیلا کسی دوسرے گرو کی شاگردی میں جاتا ہے تو وہ پیسے گرو کو واپس کیے جاتے ہیں۔ اصلی خواجہ سراؤں میں چیلوں کی انسانی اسمگلنگ کا تصور نہیں پایا جاتا۔

صاحبہ جہاں کا آزاد دھڑے سے سوال ہے کہ آپ نے خواجہ سراء کو گرو سے آزادی تو دلوا دی اب اس کے بعد کیا ہے؟ اس خواجہ سراء کی رہائش، روزگار اور تحفظ کے حوالے سے آپ کا کیا پلان ہے؟ باتیں سننے میں تو بہت اچھی لگتی ہیں لیکن اس کے بعد کیا ہو گا یہ کسی نے نہیں بتایا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments