مونا کینال: وہ خطرناک بحری راستہ جہاں ہر سال درجنوں تارکین وطن امریکہ پہنچنے کی کوشش میں مارے جاتے ہیں

رونلڈ اویلا کلاڈیو - بی بی سی نیوز منڈو


خشکی سے کہیں دور جب وہ صرف ’پانی اور آسمان‘ دیکھ پا رہی تھیں تو اُنھیں اپنے اس سفر پر افسوس ہوا۔ ایریسبیل ہیریرا کو اس دن لگا کہ وہ تند و تیز لہروں کی زد میں موجود اپنی اس لکڑی کی کشتی میں ہی مر جائیں گی۔

تب سے اب تک دو دہائیاں گزر چکی ہیں مگر اُنھیں آج بھی مونا کینال عبور کرنے کا اپنا تجربہ یاد ہے۔ یہ ایک چھوٹی سی سمندری راہ گزر ہے جو ڈومینیکن رپبلک کو پورتو ریکو سے علیحدہ کرتی ہے۔

وہ پورتو ریکو کے دارالحکومت سین ہوان میں اپنے گھر سے ہم سے بات کر رہی تھیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’یہ سفر بہت پریشان کن تھا۔ میں نے یہ قدم مایوسی میں اٹھایا تھا۔ میں نے سوچا کہ میرے خدا، میں نے یہ کیا کیا۔ میں تو اپنے خاندان کی مدد کرنے کے لیے نکلی تھی مگر شاید اب میں اُنھیں دوبارہ کبھی نہ دیکھ پاؤں۔‘

اب وہ 40 برس کی ہیں اور ڈومینیکن شہریت رکھتی ہیں۔ وہ ان ہزاروں لوگوں میں سے ہیں جنھوں نے امریکہ پہنچنے کی خواہش میں 112 کلومیٹر طویل اس راستے کو کسی نہ کسی طرح پار کرنے کی کوشش کی ہے۔

رواں سال اب تک 71 لوگ اس جگہ پر یا ہلاک یا لاپتہ ہو چکے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے بین الاقوامی ادارہ برائے ہجرت (آئی او ایم) کے مطابق اس کے مقابلے میں سال 2021 میں یہاں 65 اموات ہوئی تھیں۔

ہمیں کبھی بھی حتمی اعداد و شمار نہیں ملیں گے کیونکہ حکام کے لیے بھی ان تمام لوگوں کا پتہ لگانا ایک پیچیدہ کام ہے۔ مگر جو کہانیاں منظرِ عام پر آتی ہیں وہ اکثر بہت دل شکن ہوتی ہیں۔

مثال کے طور پر 12 مئی کو 75 تارکینِ وطن کو لے جا رہا ایک بجرا الٹ گیا۔ امریکی کوسٹ گارڈز نے 38 افراد کو بچا لیا جبکہ 11 لاشیں برآمد کی گئیں۔ تمام ہلاک شدگان ہیٹی سے تعلق رکھنے والی خواتین تھیں۔ اور جو لوگ بچ جاتے ہیں، ان کی روح پر ایریسبیل کی طرح ہمیشہ کے لیے ایک گھاؤ رہ جاتا ہے۔

مونا چینل سمندری گزرگاہ ماہر ترین ملاحوں کے لیے بھی خطرات سے بھرپور جگہ ہے۔ امریکی کوسٹ گارڈز کے کپتان گریگوری میگی جو پورتو ریکو میں امریکی کوسٹ گارڈز کے سربراہ ہیں، کہتے ہیں کہ ’یہ خطرناک ہے۔ یہاں بحرِ اوقیانوس بحیرہ کیریبیئن سے ملتا ہے اور مختلف بہاؤ آپس میں ٹکراتے ہیں۔‘

وہ ایسا یقینی طور پر اس لیے کہہ سکتے ہیں کیونکہ اُنھوں نے بھی اس چینل کا سفر کیا ہے مگر اول درجے کی کشتیوں اور خصوصی ٹیکنالوجیکل آلات کے ذریعے۔

مونا چینل، ایریسبیل کی نظر سے

جب ایریسبیل نے مونا کینال سمندری گزرگاہ کو عبور کرنے کا فیصلہ کیا تھا تو وہ 21 برس کی تھیں۔ وہ مشرقی ڈومینیکن رپبلک کے ایک قصبے ہیگوئے میں رہتی تھیں جو سیاحت کے لیے مشہور شہر پنتا کانا کے قریب ہے۔

وہ سنہ 2001 تھا، اور وہ دو بچوں کی ماں تھیں جن کا کوئی شریکِ حیات نہیں تھا۔ وہ سلائی کرنے کی ایک فیکٹری میں کام کرتی تھیں۔

دو ہزار ڈومینیکن پیسو (40 امریکی ڈالر) کی اُن کی تنخواہ اُن کے ہاتھ سے پانی کی طرح بہہ جاتی کیونکہ اُنھیں ڈائپرز، کھانے اور کرائے کی مد میں ادائیگی کرنا ہوتی تھی۔

وہ کہتی ہیں کہ ’میری زندگی بہت مشکل تھی۔ پھر ایک موقع سامنے آیا۔ میرے محلے کے ایک لڑکے نے مجھ سے کہا، چلو پورتو ریکو چلیں۔‘

اُنھوں نے کہیں نہ کہیں سے چھ ہزار ڈومینیکن پیسو (تین ماہ کی تنخواہ) ادھار لی جو ان کے مطابق اس وقت ان کے لیے ’ایک جہان‘ تھی۔ رقم اکٹھے کرنے کے بعد وہ کیبیزا ڈی ٹورو نامی ایک ساحلی علاقے گئیں جہاں سے اُنھوں نے اپنی بہن کے ساتھ ایک لکڑی کی کشتی میں بیٹھ کر پورتو ریکو جانا تھا۔

وہ بتاتی ہیں کہ ’اگر اس سفر کے شروعات کی بات کریں، تو ایسا نہیں تھا کہ بس کشتی ساحل کے کنارے کھڑی تھی اور ہم اس پر سوار ہو گئے۔ ہمیں تقریباً چار منزلہ اونچی چٹان سے سمندر میں کودنا پڑا اور پھر تیر کر کشتی تک پہنچنا پڑا۔‘

’میں نے جیسے ہی چھلانگ لگائی تو (ڈومینیکن رپبلک کی) بحریہ کے اہلکار سامنے آ گئے۔ اُنھوں نے میری بہن کو گرفتار کر لیا اور مجھے اوپر سے ہی گولی ماری۔ میں نے کشتی کا ایک سرا پکڑ لیا اور اسے نہیں چھوڑا۔ اس سب میں میرے تین ناخن اتر گئے۔ کشتی میں موجود چند لوگوں نے کشتی میں چڑھنے میں میری مدد کی۔‘

یہ کشتی ہاتھ سے بنائی گئی تھی اور اس کی لکڑی نیلے اور سفید رنگ میں رنگی تھی۔ اس میں دو انجن تھے۔ اُن کے ساتھ 11 دیگر افراد بھی اس کشتی میں سوار تھے۔ وہ کہتی ہیں کہ جیسے ہی کشتی مونا چینل میں داخل ہوئی تو اسے تیز ہواؤں کا سامنا کرنا پڑا۔

’لہریں بلند ہوئیں اور کشتی ہچکولے کھانے لگی۔ کشتی میں ہر طرف سے پانی آ رہا تھا۔ اگر کشتی الٹی نہیں تو صرف اس لیے کہ یہ اچھی بنی ہوئی تھی۔‘

سفر کا سب سے مشکل حصہ ڈیڑھ دن پر محیط تھا جب وہ مونا چینل کے شمال میں پورتو ریکو سے 21 کلومیٹر دور مغرب میں جزیرہ دیسیچیو پہنچے۔

یہ وہی جگہ ہے کہ بحیرہ کیریبیئن اور بحرِ اوقیانوس کے پانیوں کا ملاپ ہوتا ہے۔ رواں سال مئی میں ہیٹی سے تعلق رکھنے والے 11 تارکینِ وطن یہاں ہلاک ہوئے ہیں۔

ایریسبیل نے بی بی سی مُنڈو کے ساتھ ویڈیو کال پر بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ’جب آپ پورتو ریکو کی روشنیاں دیکھ لیں، تب بھی آپ کو دیسیچیو سے گزرنا پڑتا ہے۔ (یہاں) آپ کو معلوم نہیں ہوتا کہ کشتی کس طرف نکل جائے گی۔ ہر کوئی یہاں گھبرانے لگتا ہے۔ زیادہ تر لوگ یہیں لاپتہ ہوتے ہیں۔‘

یہ بھی پڑھیے

لیبیا کے پناہ گزینوں کی کشتی جو غائب ہو گئی

نقل مکانی کے لیے دنیا کے سب سے خطرناک راستے کون سے ہیں؟

اُن افراد کی زندگی کیسی ہوتی ہے جو برطانیہ میں پناہ کی تلاش میں آتے ہیں؟

’لاشوں کو رات کے وقت کشتی سے سمندر میں پھینک دیا جاتا تھا‘

وہیں پر پانی اُن کی کشتی میں داخل ہونے لگا۔ وہ کہتی ہیں کہ ’آپ کو لگتا ہے کہ الوداع کہنے کا وقت آ گیا۔‘

اُن کی کشتی کنارے لگ گئی کیوں کہ ہر کسی نے پانی نکالنے کی بھرپور کوشش کی۔ جب ایریسبیل کشتی سے اتریں تو چینل نے اُنھیں دوبارہ دکھایا کہ یہ کتنا خطرناک ہو سکتا ہے۔ ’میں کشتی کے سامنے سے اتری اور اسی لحظے میں ایک لہر نے اسے مجھ پر الٹ دیا۔ موٹر کے بلیڈز نے میرا جسم چیر دیا۔‘

وہ خون میں لت پت ہی کسی نہ کسی طرح خشکی پر پہنچنے میں کامیاب رہیں۔

کپتان گریگوری میگی کہتے ہیں کہ تجارتی رحجان، سمندری بہاؤ، ساز و سامان کی کمی، اور کشتی رانی میں مہارت نہ ہونے کے باعث مونا چینل تارکینِ وطن کے لیے ’ناقابلِ پیش گوئی‘ ہو جاتا ہے۔

اس کے علاوہ کئی دیگر عوامل مثلاً ریڈار، سیل فونز اور لائف جیکٹس کے بغیر سفر کرنا بھی اس سفر کو خطرناک بنا دیتا ہے جبکہ ان کمزور کشتیوں میں بسا اوقات درجنوں افراد سوار ہوتے ہیں۔

میگی کہتے ہیں کہ ’چند انسانی سمگلروں کو محفوظ راستہ لینے کے بجائے زیادہ فکر حکام سے بچنے کی ہوتی ہے۔‘

پورتو ریکو میں مرکز برائے ڈومینیکن خواتین کی ڈائریکٹر رومیلنڈا گرولون کہتی ہیں کہ اس چینل کی خصوصیات کے علاوہ بھی خطرات ہیں جن کا سامنا یہاں سفر کرنے والے کرتے ہیں۔

ان کی تنظیم تارکینِ وطن بالخصوص خواتین کو قانونی اور نفسیاتی مدد فراہم کرتی ہے۔ اُنھوں نے درجنوں ایسے افراد کی مدد کی ہے جن کا سفر کے دوران جسمانی و جنسی استحصال کیا گیا ہے، جبکہ ایسے افراد کی بھی مدد کی گئی جنھیں اس سفر کی وجہ سے نفسیاتی دباؤ اور تناؤ کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

گرولون، جن کی تنظیم پورتو ریکو میں 19 برس سے خدمات فراہم کر رہی ہے، کہتی ہیں کہ ’ان میں سے کئی خواتین کشتی میں سوار ہونے سے قبل کھیتوں میں انتظار کرتی ہیں۔ یہ عرصہ کئی دنوں پر محیط ہو سکتا ہے اور اس دوران کئی خواتین کا ریپ کر دیا جاتا ہے۔ اور جب وہ کشتی میں پہنچ جائیں تو وہ جتنا زیادہ وقت گہرے سمندر میں گزاریں، ان کے جنسی استحصال کا خطرہ اتنا ہی بڑھ جاتا ہے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ کئی لوگ ایسے بھی ہیں جن کے سامنے چینل سے گزرتے ہوئے دوسرے لوگوں کو کشتیوں سے پھینک دیا گیا اور اس کی کئی وجوہات ہوتی تھیں، جس میں سمندری سفر کی گھبراہٹ سے لے کر خواتین میں محض ماہواری آنا جیسے شامل ہیں۔

مگر اس کے باوجود تارکینِ وطن نے یہ سفر کرنا نہیں چھوڑا ہے۔ عالمی وبا کے دوران یہ چینل پار کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا۔

امریکی کوسٹ گارڈز کے مطابق سنہ 2020 میں 1122 افراد اس راستے سے پورتو ریکو پہنچے جبکہ سنہ 2019 میں یہ تعداد 1041 تھی۔ سنہ 2021 میں یہ تعداد دوبارہ کم ہو کر 707 ہو گئی۔ ان تارکینِ وطن کی سب سے بڑی تعداد ڈومینیکن رپبلک اور ہیٹی سے تعلق رکھتی ہے مگر وینیزویلا، کیوبا، ترکی اور برازیل کے افراد بھی ان میں شامل ہوتے ہیں۔

ہجرت، امریکہ

صدمے پر صدمہ

رومیلندا گرولون کہتی ہیں کہ کئی تارکینِ وطن کے خواب امریکی سرزمین پر اترنے کے بعد ٹوٹ جاتے ہیں۔ مستقل حیثیت حاصل کرنے کے لیے دفاتر کے چکر کاٹنے کے دوران اُنھیں بسا اوقات غیر محفوظ حالات میں غیر رسمی ملازمت کرنی پڑتی ہے جس میں اُنھیں کوئی سماجی فوائد نہیں ملتے اور تنخواہ بہت ہی قلیل ہوتی ہے۔

اس کے علاوہ اُنھیں تفریق اور استحصال کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے جس کی رپورٹ وہ ملک بدر ہونے کے ڈر سے نہیں کروا پاتے۔

ایریسبیل کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ وہ خون میں لت پت حالت میں مغربی پورتو ریکو کے ایک قصبے آگواڈیلا پہنچیں جہاں اُنھوں نے ریستورانوں سمیت دیگر جگہوں پر کام کیا تاکہ ڈومینیکن رپبلک میں اپنے پیچھے رہ جانے والے دو بچوں کو پیسے بھیج سکیں۔

وہ کہتی ہیں کہ امریکہ میں اُنھیں ایک جوڑے نے جسمانی اور جنسی استحصال کا نشانہ بنایا جس سے اُنھیں ایک اور اولاد ہوئی۔

ایریسبیل نے اپنے آنسو نہ چھپاتے ہوئے بتایا کہ ‘مجھے دھمکی دی گئی کہ میں کام نہ کروں جو کہ میں اپنے بچوں کے لیے کرتی تھی۔ مجھے کہا گیا کہ اگر میں کام پر گئی تو میری رپورٹ کر دی جائے گی۔’

ڈومینیکن ویمنز سینٹر میں اُنھیں نفسیاتی مدد فراہم کی گئی۔ ساتھ ہی ساتھ اُنھیں قانونی امداد بھی فراہم کی گئی اور سنہ 2021 میں وہ مستقل حیثیت حاصل کرنے میں کامیاب رہیں۔ اس سب قانونی کارروائی کے دوران ڈومینیکن رپبلک میں اُن کا بیٹا فوت ہو گیا اور وہ اس کی آخری رسومات میں شریک نہیں ہو سکیں۔ اب ان کا مقصد اپنی بیٹی کو وہاں سے نکال کر پورتو ریکو لانا ہے۔

حالانکہ وہ لوگوں کے مسائل اور معاشی مشکلات کو سمجھتی ہیں، مگر کشتی پر سوار ہو کر مونا چینل پار کرنے کے بارے میں وہ یقین سے کہتی ہیں کہ وہ ’اس کا مشورہ کسی کو نہیں دے سکتی۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments