کیا آپ اپنی شریک حیات کی جنسی ترجیحات یا خواہشات سے واقف ہیں؟


بات کہاں سے شروع کی جائے اور کیسے کی جائے؟ یہ وہ بنیادی اوپننگ لائن ہے جو ہر ایسے موضوع پر قلم اٹھانے سے پہلے سوچنا پڑتی ہے جسے معاشرتی سطح پر حساس اور انتہائی بے شرمی والا موضوع سمجھا جاتا ہو۔ خاص طور پر اگر اس کا تعلق جنس سے ہو اور آپ اس مضمون کو بغیر کوئی روایتی فلٹر استعمال کیے اظہار کر دیں یا لکھ ڈالیں تو بس پھر آپ کی خیر نہیں ہے اور معاشرتی جج لٹھ لے کر آپ کے پیچھے پڑ جاتے ہیں، بالکل ان معاشرتی منافقوں کی طرح جو رات کے اندھیرے میں طوائفوں کے بستر میں اور کبھی کبھار اسٹیج ڈراموں کی کرسیوں پر دوسروں کی نظروں سے بچتے بچاتے بیلی ڈانس انجوائے کرتے پائے جاتے ہیں اور باہر نکل کر ثواب کی خاطر اس احتجاج کا حصہ بنتے بھی نظر آئیں گے جو اس بات کا مطالبہ کر رہے ہوں گے کہ ”جسم فروشی کے اڈے بند کرو اور اسٹیج ڈراموں پر بے حیائی کی وجہ سے پابندی لگاؤ“

اس قسم کی ننگی منافقت ایسے معاشروں کا جزو لاینفک یا اٹوٹ انگ ہوتی ہے جہاں بہت سے موضوعات خاص طور پر جن کا تعلق انسانی جسم سے ہوتا ہے انہیں یہ کہہ کر سائیڈ لائن کر دیا جاتا ہے کہ اس قسم کے موضوعات کو سرعام ڈسکس کرنے کی ہمارے معاشرتی بندوبست میں قطعی طور پر کوئی گنجائش نہیں ہے اور ہم اس قسم کے اوپن کلچر کو فروغ دے کر اپنی اخلاقیات پر کوئی سمجھوتہ نہیں کر سکتے۔

اس قسم کی تنگ نظری والی سوچ کو خوش فہمی کے فریم میں سجا کر فخر ضرور کیا جا سکتا ہے مگر یہ پریکٹیکل یا عقلمندانہ قسم کا رویہ نہیں ہے۔ ایسے گھٹن زدہ معاشروں میں زیر زمین کلچر فروغ پانے لگتا ہے، آپ سعودی عرب یا دیگر عرب ممالک کے علاوہ افغانستان اور ایران کے زیر زمین کلچر کا مطالعہ کر سکتے ہیں تصویر بالکل واضح ہو جائے گی۔ ایسے سخت گیر قسم کے مذہبی معاشروں میں سب کچھ دستیاب ہوتا ہے، صحیح قیمت ادا کرنے پر یہ سہولت آپ کے ڈور سٹیپ پر بھی مل سکتی ہے۔

بند معاشروں میں وہی کچھ چھپ چھپا کے اور درجنوں قسم کے منافقانہ پرسونا ماسک پارسائی کے نورانی چہروں پر چڑھا کر ہوتا ہے، جبکہ دوسری طرف یورپین جنسی معاملات کو دو بندوں کا نجی معاملہ قرار دے کر انفرادیت کے اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے معاشروں میں خالص رویوں کو فروغ دینے کی سعی کرتے نظر آتے ہیں۔ لٹھ اٹھا کر ہر بندے کو سیدھا کرنے کا رویہ کوئی نارمل یا عقلمندانہ قسم کا صحت مند طرز عمل نہیں ہوتا۔ اس طرح کے سخت گیر اور وحشیانہ معاشروں میں ذہنی امراض کی سطح کافی بلند ہوتی ہے۔

ریپ، زنا، چھوٹے یا بڑے بچے بچیوں سے جنسی زیادتیوں کی شرح بڑھنے لگتی ہے۔ جن معاشروں میں جنس جیسے اہم موضوعات پر گفتگو کرنے کو معیوب تصور کیا جاتا ہے یا اسکول و کالج کی سطح پر جنسی تعلیم دینے کا بندوبست نہیں ہوتا تو پھر ایسے معاشروں میں افراد کی جمالیاتی سمجھ بوجھ زیرو ہوتی ہے جس کا نتیجہ جنسی ہوس ناکیوں اور قبروں میں لیٹی خواتین کو باہر نکال کر بھمبھوڑنے کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ اس قسم کے مکروہ، نجس اور بدبودار قسم کے رویے ایسے معاشروں کا وتیرہ بن جاتے ہیں جہاں اسکولنگ یا تربیت کی بجائے خوامخواہ کے مصنوعی یا بناوٹی طرز کے پارسائی کے لبادوں کو فروغ دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔

یہ مضمون لکھنے کا محرک گزشتہ روز ”ہم سب“ پر شائع ہونے والا ایک مضمون ہے جس کا عنوان ”ایسی پانچ باتیں جو عورت کسی کو نہیں بتانا چاہتی“ ہے۔ جسے پڑھنے کے بعد لگا کہ اس موضوع پر کچھ لکھا جائے اس مضمون کا آغاز زرینہ نامی ایک ہائی اسکول کی ٹیچر سے ہوتا ہے جس کا شوہر لاہور کے ایک ہسپتال میں معروف ڈاکٹر ہے دونوں بظاہر خوشحال زندگی بسر کر رہے ہیں مگر جنسی زندگی کچھ زیادہ صحت مند یا آئیڈیل نہیں ہے۔ 12 برس کی شادی کے دوران زرینہ کا شوہر فقط اپنی جنسی بھوک مٹا کر چلتا بنتا ہے اور اتنے عرصے میں وہ یہ تک نہ جان پایا کہ اس کی شریک حیات کی جنسی ترجیحات کیا ہیں؟

کیا وہ جنسی لحاظ سے آپ کی پرفارمنس سے مطمئن ہے؟ یا خود کے اندر کبھی یہ امنگ پیدا ہوئی کہ شریک حیات کو بھی باہمی جنسی تسکین کا حصہ بنانے کے لیے اس کی مرضی کا کچھ منفرد کیا جائے؟ زرینہ کی سہیلی اسے مشورہ دیتی ہے کہ وہ اپنے شوہر سے اس مسئلہ پر گفتگو کر لے، مگر زرینہ یہ موقف اختیار کر کے راہ فرار اختیار کرنے کی کوشش کرتی ہے کہ ”بابا سیکس پر بات نہیں کر سکتی ہمت ہی نہیں پڑتی، آخر میں اسے کیا بتاؤں کہ میں کیا چاہتی ہوں“ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ صرف ایک زرینہ کا مسئلہ ہے یا دیگر تعلیمی اور سماجی حیثیت رکھنے والی اکثر عورتوں کا کامن مسئلہ ہے؟

قابل ذکر بات یہ ہے کہ زرینہ جیسی خواتین کا شمار معاشرے کے اس طبقے میں ہوتا ہے جو مالی طور پر مستحکم اور ازدواجی حیثیت میں مل کر کمانے والے افراد ہوتے ہیں اگر ان کی جنسی زندگی بے مزہ اور غیر مطمئن ہے تو پھر معاشرے کے ان طبقات کی کیسی ہوگی جہاں کمانے والا صرف مرد، ہینڈ ٹو ماؤتھ گزر بسر اور جوائنٹ فیملی سسٹم کے جنجال پورہ جیسے ماحول میں زندگی کسی بھی طرح سے پوری ہو رہی ہو؟ اس مضمون میں سات برسوں سے حمید کے ساتھ بیاہی ہوئی 29 سالہ بانو کا بھی تذکرہ موجود ہے، جس کا موقف ہے کہ ”حمید کو اس بات کی سمجھ ہی نہیں آئی اس پر دفتری کام کا بہت بوجھ ہوتا ہے، وہ بجھا بجھا سا گھر آتا ہے، میرے ساتھ کوئی بات نہیں کرتا بغیر کسی چاہت کا اظہار کیے مجھے بیڈروم میں آتے ہی دبوچ لیتا ہے۔ میں فوراً گرم جوشی نہ دکھاؤں تو اس کا موڈ بگڑ جاتا ہے“

یہاں بھی ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ فقط صرف ایک بانو کا مسئلہ ہے یا ان جیسی دیگر خواتین کا کامن مسئلہ ہے؟ نفسیات کے گیانی بتاتے ہیں کہ مرد کی بستر پہ پرفارمنس گھر کے مجموعی ماحول سے لنک ہوتی ہے۔ اگر گھریلو ماحول ڈسٹرب ہو تو جنسی عمل محض روٹین یا فقط ایک فرد کی تسکین کا محور بنتا ہے اور دوسرا جنسی تشدد کا شکار ہوتا رہتا ہے اور ظاہر ہے وہ پیاسا فرد خاتون ہی ہوتی ہے۔

اگر دونوں کی شامیں لڑنے جھگڑنے یا ایک دوسرے سے بے نیازی میں گزرتی ہوں تو پھر بیڈ پر عورت سرد مہر اور لاتعلق ہی رہتی ہے، مرد اپنی ہوس مٹا کر منہ دوسری طرف کر کے سو جاتا ہے۔ اس سارے پس منظر میں غور طلب نقطۂ یہی ہے کہ مرد کی ذہنی صحت یا ذہنی سکون ایک صحت مند جنسی زندگی کا ضامن ہوتا ہے۔ امریکہ کی جنسی تعلیم کے پروگرام کی ذہنی معالجہ پامیلا شروک کے مطابق ”اکثر شادی شدہ افراد اپنی ساتھی کی جنسی ترجیحات سے بے خبر ہوتے ہیں“ ایک اور ممتاز امریکی ماہر کیتھلسن میکائے نے شادی شدہ خواتین کا ایک غیر رسمی سروے کیا تو معلوم ہوا کہ ان کی کئی ایسی جنسی ضرورتیں ہیں جن سے ان کے شوہر بالکل بے خبر رہتے ہیں، عورتیں چاہتی ہیں کہ کسی نہ کسی طرح ان کے شوہروں کو ان کی ضروریات کی اطلاع ہو جائے۔

آپ ان کو ایسے جنسی راز قرار دے سکتے ہیں جن سے عورتیں اپنے شوہر کو باخبر دیکھنا چاہتی ہیں۔ قابل غور بات یہ ہے کہ ہمارے جیسے درجنوں ترقی پذیر ممالک میں آخرکار آبادی کی شرح اتنی زیادہ کیوں ہوتی ہے؟ بنیادی وجہ سیکس ایجوکیشن کو اہمیت نہ دینا اور اپنے وجود سے بے اعتنائی برتنا اور ہنگامی بنیادوں پر صرف اور صرف خاندانی بڑوں کی خوشنودی کی خاطر بے جوڑ شادیاں ہوتی ہیں جو جیسے تیسے ہو جاتی ہیں اس کے بعد مرد کا ٹارگٹ یا کردار بچے پیدا کرنے والے روبوٹ کی طرح کا ہوجاتا ہے جو اپنی بریڈنگ مشین میں حصہ ڈالتا رہتا ہے اور مشرقی روایات میں یہ روٹین نجانے کب سے چلتی آ رہی ہے۔

ہمارا معاشرہ ابھی پختگی کی اس سطح کو چھو ہی نہیں پایا ہے کہ جہاں اپنی زندگی کے اہم ترین فیصلے فرد کی سطح پر افراد اپنی مرضی و منشا سے خود لے پائیں، ان کی زندگی کے اہم ترین فیصلے جو والدین بڑے بن کر لیتے آرہے ہیں وہ دراصل انفرادیت کے زمرے میں آتے ہیں اور مشرقی والدین کو دل بڑا کر کے اپنے بالغ بچوں کے فیصلوں کا احترام کرتے ہوئے انہیں اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے میں مدد دینی چاہیے تاکہ وہ اپنی اگلی زندگی میں مضبوط قدموں کے ساتھ جمے رہیں اور رسک لینا سیکھیں نا کہ ساری زندگی معاشرے کے رحم و کرم پر رہیں۔

روایتی یا جبری شادیوں کا لازمی نتیجہ انتشار ذہنی اور لڑائی جھگڑوں کی صورت میں سامنے آتا ہے جس کا خمیازہ بچوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔ اس کی مثال میں کچھ اس طرح سے دینا چاہوں گا کہ میری ملاقات ایک ہوٹل کے مالک سے ہوئی جس کی عمر کوئی اتنی زیادہ نہیں تھی۔ میں نے سوال پوچھا کہ تم اکثر ہوٹل پر ہی پائے جاتے ہو گھر کب جاتے ہو؟ سنتے ہی کہنے لگا باؤ جی میں تو سوتا بھی ہوٹل میں ہوں۔ تقریباً آٹھ بچے پیدا کر لئے ہیں بیوی گھر کے کام کاج میں مصروف رہتی ہے اور میں ہوٹل میں مصروف رہتا ہوں۔

میں نے پوچھا کہ تمہارا دل نہیں کرتا کہ کچھ تنہائی کے لمحات اپنی بیوی کے ساتھ گزاروں؟ باؤجی بڑوں کی مرضی سے شادی کی تھی زیادہ سے زیادہ بچے پیدا کرنا بھی ان کی خواہش تھی اپنا کام پورا ہو چکا ہے۔ اب کاہے کی تنہائی اور کہاں کی محبت؟ جب طلب ہوتی ہے تو باہر منہ مار لیتا ہوں اپنا سرکٹ چلتا رہتا ہے۔

اس طرح کی ہزاروں مثالیں ہمارے سماج میں مل جائیں گی جو ہمارے اردگرد موجود ہیں۔ اسی وجہ سے جنسی ترجیحات، فور پلے یا آ فٹر پلے جیسی بنیادی باتیں جن کا ازدواجی زندگی کو خوشیوں سے بھرنے میں بہت اہم کردار ہوتا ہے بے معنی ہو کر رہ جاتی ہیں اور ہم جیسے معاشرے میں اس قسم کی باتوں کو محض خیالی، جنسی عیاشی یا بے مقصد سمجھا جاتا ہے۔

ہمیں یہ باتیں بڑی عجیب لگتی ہیں کہ جب میاں بیوی سیکس پر آمادہ نہ ہوں تو بھی ایک دوسرے کے لئے چاہت کا اظہار کریں یا مرد بغیر کسی وجہ کے کبھی کبھار اپنی شریک حیات کو گلدستہ پیش کردے۔ سیکس تو چند لمحے کا ہوتا ہے مگر زندگی تو بہت بڑی ہوتی ہے اور بہت سی خواتین جو سیکس لائف سے زیادہ ایک دوسرے سے میٹھی میٹھی باتیں کرنے والے لمحات کو زیادہ پسند کرتی ہیں مگر یہ آئیڈیل لمحات کیسے نصیب ہو سکتے ہیں یہ سب سے بڑا سوال ہے؟

ظاہری بات ہے اگر آپ اپنے بچوں کو بادشاہ کے روپ میں دیکھنا چاہتے ہیں تو پھر اپنے جیون ساتھی کو ملکہ کا کا درجہ دینا پڑے گا چونکہ ملکہ کے بچے ہی بادشاہ بنتے ہیں نوکرانیوں کے نہیں۔ اور ایسا اسی صورت میں ممکن ہو پائے گا جب ہم اپنی شریک حیات کے ساتھ کوالٹی ٹائم گزاریں گے اور جنسی ترجیحات کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنی زندگی کو آئیڈیل بنانے کی کوشش کریں گے۔ اس ٹارگٹ کو حاصل کرنے کے لیے بنیادی بات جو سمجھنے کی ضرورت ہے اور وہ ہے ”باہمی رسپیکٹ یا میوچل کنسنٹ“ ۔

اپنی شریک حیات کا دل سے احترام کرنا، جس احترام کے ساتھ آپ جنسی لمحات انجوائے کرتے ہیں یا انڈر گا گارمنٹس اتارتے ہیں فراغت کے بعد اسی احترام و اہمیت کے ساتھ اسے پہنانے میں بھی وہی گرم جوشی دکھائیں۔ یاد رکھیں محبت کرنا اور جمالیاتی حس کا ادراک رکھتے ہوئے سیلیبریٹ کرنا ایک آ رٹ ہے جسے ہمیں سیکھنے کی ضرورت ہے۔ محبت کرنا اور رشتے میں باہمی احترام کو قائم رکھنا ایک ایسا معجزہ ہے جو بہت کم لوگوں کے حصے میں آتا ہے۔

ایسی پانچ باتیں جو عورت کسی کو نہیں بتانا چاہتی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments