دعا زہرا کا عظیم باپ


ازل سے سنتے آئے ہیں جو لڑکیاں ماں باپ کی عزت کو پامال کر کے گھر سے نکل جاتی ہیں۔ ان کے لیے اکثر باپ اور بھائی یہ لفظ استعمال کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ وہ مر گئی ہمارے لئے اب کسی کے زبان پر اس کا نام نہ آئے ماں چونکہ دل سے نرم ہوتی ہے چھپ چھپ کے کبھی اگر آنسو بہاتی نظر آئے تو اس کی طرف حقارت کی نظر سے دیکھ کر اس ماں کو اس کی تربیت کا طعنہ دیا جاتا ہے۔ محلے والوں کی سوالیہ نظروں کے خوف سے باپ بھائی باہر نکلنے سے گھبراتے ہیں۔

ایسی بیٹی کے گھر والے خود اپنے ہی اندر ایک انجانے خوف سے بھرے مستقبل قریب کے تانے بانے بننا شروع ہو جاتے ہیں۔ کل کی اذیت کا سوچ کر اپنا آج اور مستقبل دونوں تباہ کر لیتے ہیں۔ غرض کے گھر سے ایک لڑکی نہیں بھاگی ہوتی سارا گھر سولی پر لٹک جاتا ہے۔ جس میں ایک لڑکی کے گھر سے بھاگ جانے کے بعد اس کی چھوٹی بہنوں سے منسلک رشتے یہاں تک کہ اس کی ماں جس نے اپنی ساری زندگی اس گھر میں اپنا وجود ختم کر دیا ہوتا ہے کہ مستقبل بھی داؤ پر ہوتا ہے۔

یہ ہے اصل حقیقت اس معاشرے میں گھر سے بھاگ کر ماں باپ کی اجازت کے بغیر شادی کرنے والی لڑکیوں کے گھروں کی جہاں ایک بچی کے غلط فیصلے سے اس کے گھر میں موجود بڑے یا سرپرست کیسے خود اپنے لئے اور اپنے گھر والوں کے لیے اس سماج کے راستے خود پر تنگ کر لیتے ہیں۔ یہ سماج تو ہے ہی ظالم یہ طاق لگائے بیٹھا رہتا ہے کب کسی کی بھول چوک کو قصہ بنا کر آگے سے آگے صرف زبان کے چسکے کی خاطر پھیلایا جائے یہ المیہ ہے اس معاشرے کا۔ جہاں ایک شخص کی غلطی کا خمیازہ پورا خاندان بھگتتا ہے اور کبھی کبھی تو نسلیں بھی ازالہ نہیں کر پاتی۔

مگر سوچ کی بات ہے کہ یہ سماج بنانے والا کون ہے؟ ہم انسان ہم ہی ریت و روایتی بنانے والے۔ ہم ہی اس کو نبھانے والے۔ اس معاشرے سے اب بہت سی ایسی دقیانوسی روایات آہستہ آہستہ ختم بھی ہو رہی ہیں۔

جس میں پیش قدمی ایک اہم مقدمہ سے ہوئی ایک بچی اچانک سے گھر سے غائب ہو جاتی ہے اور کچھ عرصے بعد خبر ملتی ہے کہ وہ کسی ظہیر نامی لڑکے کے نکاح سے منسلک ہو چکی ہے۔ اس لڑکی کے غائب ہوتے ہی اس کے باپ نے ہر وہ قانونی دروازہ کھٹکھٹایا جہاں اس کو لگتا تھا کہ میری بیٹی کو ڈھونڈنے میں یہ کارآمد ہو گا میڈیا پولیس کوٹ کچہری یہاں تک کہ اس کچھ عرصے میں ہر زبان پر دعا ظاہرہ اور اس کے باپ کا نام تھا۔ کیا کچھ نہیں سنا ہو گا اس کے باپ نے؟ اور کیا کچھ نہیں سہا ہو گا؟

پر میرا سلام ہے اس باپ کو جس نے روایتی باپ بن کر دعا زہرا کو گھر سے نکل جانے کے بعد مرنے مرانے کی بات نہیں کی جس نے اپنی بیٹی کی غلطی کو اس کا بچپنا سمجھ کر اپنے باپ ہونے کا حق ادا کیا۔ ہم سب سمجھ سکتے ہیں کہ کس طرح ایک باپ نے ٹی وی چینل پر آ کر اپنی بیٹی کے اغوا ہونے کی آہ و بکا بلند کی، کس جگرے کے ساتھ اس شخص نے اپنی بیٹی کے بارے میں وہ سب کچھ سنا جو شاید اس معاشرے میں ہر اس لڑکی کے باپ کو سننا پڑتا ہے جس کی بیٹی گھر سے بھاگ جائے۔ مگر یہاں اس کیس میں بہت مختلف انسان دیکھا گیا اس باب کو کبھی اپنی بیٹی کے لیے غصے میں نہیں دیکھا گیا۔ اس نے ہمیشہ یہی کہا وہ چھوٹی بچی ہے اور کسی غلط ہاتھ میں ہے۔ سو سالوں میں ایک ایسا بہادر پیدا ہوتا ہے۔

معاشرے میں ایک ایسی مثال قائم کی جو شاید پہلے کبھی نہ دیکھی گئی نہ سنی گئی۔ پتہ بہادری کیا ہوتی ہے۔ دور اندیشی بہادری ہے۔ بچے کو اگر بچہ سمجھ کر اس کی نادانی اور بچپن کو سنبھال لیا جائے تو شاید ہمارے معاشرے کی بہت سی لڑکیاں عزت دار گھروں سے اٹھ کر کوٹھوں کی زینت نہ بنی ہوتی ایک اندازے کے مطابق کوٹھوں یا جسم فروشی کے بازاروں میں 60 پرسنٹ وہ لڑکیاں موجود ہیں جو عشق محبت کی داستان کے پیچھے گھر سے بغاوت کر کے نکلی ہوتی ہیں اور صرف اس خوف سے کہ ان کا باپ یا بھائی ان کو قتل کر دیں گے وہ گھر واپس نہیں جاتی اور اگر جاتی بھی ہیں تو دہلیز سے دھتکار دی جاتی ہیں۔ ایسی لڑکیوں کو ہمارا معاشرہ سمندر کی لہروں کی طرح اچھال دیتا ہے اور جسے معاشرہ قبول نہیں کرتا تو یہ ایسے چنگل میں پھنس جاتی ہیں جہاں سے بس موت ہیں ان کو نکال سکتی ہے۔

سید مہدی علی کاظمی نے ایک مثال قائم کر دی اس شخص نے بتایا کہ باپ کون ہوتا ہے۔ باپ صرف وہ نہیں ہوتا جو دنیا پر اولاد کو لے کر آتا ہے۔ باب وہ ہوتا ہے جو قدم قدم کی دھوپ چھاؤں کو خود پر جھیلتا ہے۔ اس شخص نے دنیا کو یہ باور کروا دیا کے اس کی بیٹی صحیح ہے یا غلط۔ کسی غلط ہاتھوں میں خود گئی ہے یا غلط ہاتھ اس تک آئے۔ اس بچی کی زندگی کے غلط صحیح کے ساتھ اس کا باپ اس کے ساتھ کھڑا ہے اس کو بچانے کے لیے۔ دنیا کی کوئی طاقت یا کوئی غلط فیصلہ اس کی بیٹی کو نقصان نہیں پہنچا سکتا کیونکہ اس کا باپ ریت رواج کو پیروں تلے روند کر سماج کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنے وجود کی نفی کر کے صرف ایک باپ ہونے کی طاقت کے سر پر ہر اتار چڑھاؤ سے لڑ کر اپنی بیٹی کو محفوظ بنائے گا۔ اور اس لڑائی میں ان کا ساتھ دینے والے ٹی وی چینلز اور یوٹیوبرز کو میرا سلام ہے کیونکہ ان کی انتھک محنت کے بعد آج جو کامیابی دعا زہرا کے باپ کو ہوئی ہے۔ اس کا اجر تو ہے ہی مگر ہمارے معاشرے پر جو ‏مثبت اثرات ہوں گے مستقبل قریب میں آپ ان سب کامیابیوں کے علمبردار ہوں گے ۔

یہ ایک امید نو ہے ہمارے معاشرے کے لیے۔ زمانہ کچھ بھی بولے ہم زمانے کی خاطر نہیں جیے گے سب سے پہلے تو اپنوں کو اپنے اتنے قریب کریں کہ ایسی نوبت ہی نہ آئے اور اگر خدا نخواستہ ایسا وقت آن پڑے تو زمانے کو دیکھ کے فیصلہ نہیں کرنا دل اور عقل کو ملا کر فیصلہ کرنا ہے اور زندگی آسان بنانی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments