آخری رات


مارچ 1994 کی یہ آخری رات تھی۔ سامنے کے کمرے میں ایک ٹرنک پڑا تھا۔ ٹرنک میں ایک فہرست تھی۔ ساٹن کے دو عدد پتلون، کے ٹی کی سفید قمیضیں (جو اس شام، مغرب سے ذرا پہلے، نصیب درزی کا لڑکا دے کر گیا تھا) ، سروس کے آکسفورڈ پیٹرن جوتے اور تین تالے وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب سامان، سلیقے سے ٹرنک کے آس پاس دھرا تھا۔ کمرے میں جدائی، نئے سامان اور مارچ کے اواخر کی نیم گرم سی خوشبو تھی۔ آتی جاتی بجلی سے کبھی پنکھے چلتے اور کبھی بالکل ساکت ہو جاتے۔ لائلپور کے ان گھرانوں میں ابھی تک نیند اور بجلی کا تعلق قائم نہیں ہوا تھا سو باقی سب لوگ سو رہے تھے۔ رات کا کوئی لمحہ تھا جب اس کمرے کی دہلیز پہ، نیم تاریکی میں کھڑی ہوئی میری ماں، دروازے کی چوکھٹ سے لگی، چپ چاپ، رو رہی تھی۔ صبح مجھے پی اے ایف کالج جانا تھا۔ یوں تو میرے والدین کے درمیان گفتگو کی گاڑی کم کم ہی آگے بڑھتی تھی مگر اس رات ابو نے امی سے ایک بات کہی جو شاید آخری وقت تک ان دونوں کے ساتھ، الگ الگ انداز میں موجود رہی۔

”آج اس گھر میں ہمارے بیٹے کی یہ آخری رات ہے۔ اس کے بعد یہ ہمیشہ مہمانوں کی طرح آئے گا“۔

وہ رات، واقعی اس گھر میں میری آخری رات تھی۔ سرفراز کالونی کا یہ مکان، حقیقت سے گمان ہوا تو میں کالج سے اکیڈمی پہنچ چکا تھا۔ چھٹیوں میں جو کہانیاں پورا گھر سنتا تھا، وہ اک کمرے میں محدود ہوئیں تو میں پنوں عاقل کا رہائشی تھا۔ کراچی کی پوسٹنگ آئی تو اب وہ کمرہ میرا نہیں، ہمارا تھا۔ سیاچن سے واپس آنے اور امریکہ جانے کے درمیان، اب اس کمرے میں ہم تینوں، باقاعدہ مہمانوں کی طرح عید اور شب بارات پہ ہی آتے۔ گوجرانوالہ سے کوئٹہ جانے لگے تو ہم چاروں نے بہت مشکل سے پانچ دن وہاں گزارے، اور پھر یہ سفر، شہروں کی بجائے ملکوں میں پھیل گیا۔ گھر میں وہ آخری رات البتہ ٹھہر چکی تھی۔

اب نہ وہ گھر ہے نہ وہ محلہ اور نہ وہ شہر۔ برسوں پہلے، انیس بھائی نے جب قومی ترا نے کے مطلب سمجھائے تھے تو گمان تک نہ تھا کہ قوم، ملک، سلطنت کی کہانی اتنی پیچیدہ ہو جائے گی۔ آدمی نے ”اپنا، میرا اور ہمارا“ کرنے کے چکر میں کاغذ کے پرزے، پلاسٹک کے پارچے، زمین کی لکیریں، عقیدے کے علم اور نظریے کے نشان جیسے بندوبست کر ڈالے، مگر آدم کے بچوں کے سر چھپانے کی ابھی تک کوئی جگہ نہیں۔

لائل پور کی واحد نہر کے ساتھ اترتی سڑک کے کنارے، ایک قبرستان ہے جس میں مٹی کی بہت سی ڈھیریاں ہیں اور انہی میں وابستگی کی کئی آخری نشانیاں ہیں۔ میرا بھائی، دو باتوں کے سبب قبرستان جاتا ہے، اول یہ کہ اسے ابو بہت یاد آتے ہیں اور دوئم یہ، کہ گورکن، اس کی مستقل آمد کے سبب ہمارے گھر کی قبروں میں کسی دوسرے گھر کی یادداشتیں ڈالنے سے باز رہتا ہے۔ زندگی میں کہانیوں کی جو بھی جاگیر ہے وہ، ان تین ڈھیریوں کی تروینی سے سیراب ہوتی ہے اور ابو، ان پانیوں کا آخری بہاؤ تھے۔

ان کی رخصت کو آج دو سال ہوتے ہیں۔ تعزیت کے سب پیغام، مجھ پہ میرے ہی باپ کے نئے معانی کھولتے ہیں۔ ابو کی زندگی، ان کے معمولات کی طرح، واضح طور پہ خانوں میں بٹی تھی۔

پہلے حصے میں شاہدرہ تھا، بچپن کی عسرت تھی اور یتیمی کی پریشانی تھی۔ شدید افلاس اور اس سے جڑی محرومیوں نے زندگی کے اس حصے کو اتنا تلخ کر دیا تھا کہ وہ اپنے سفر کے آخر تک اس دور کی اذیت اور حساسیت سے رہا نہیں ہو سکے۔

دوسرے حصے میں وہ لائلپور آ گئے اور روزگار کی سانپ سیڑھی میں الجھنے لگے۔ اس دوران، انہیں معاش کی فکر تو تھی مگر بہت زیادہ پریشانی نہیں تھی۔ سن 60 کی دہائی کے اولین سالوں سے شروع ہونے والا یہ سلسلہ، 1979 تک گیا۔ اپنی زندگی کے اس خانے میں انہوں نے شاندار دوست بنائے، بہترین فلمیں دیکھی اور عمدہ شاعری پڑھی۔

تیسرے حصے میں وہ سماج کے گول چکر کی ضروریات نبھاتے رہے۔ معاشرت کی اس قربان گاہ پہ ان کا تخلیقی احساس، ہم سب کی پرورش، تربیت اور معیار زندگی کے نام پہ شاید ہر لمحہ ارپن ہوتا اور وہ بغیر کسی احساس تفاخر اور طلب تشکر کے، ایسا کرتے رہے۔ اپنی شادی سے لے کر میری والدہ کی وفات ( 2006 ) تک کا یہ دور تقریباً 27 سال پہ محیط ہے۔

اپنے آخری دور میں وہ بہت اکیلے ہو گئے تھے۔ امی کے انتقال کے بعد انہوں نے ایک ایک کر کے باقی بچوں کی شادیاں کیں اور خود آہستہ آہستہ اپنے کمرے تک محدود ہوتے چلے گئے۔ وقت کے ساتھ کم ہوتی سماعت نے ان کا سماجی دائرہ مختصر کر دیا تھا۔ بولنے والے کو اپنی آواز بلند نہ کرنی پڑے، اس لئے انہوں نے ملنا جلنا ہی کم کر دیا۔ ایاز کہتا ہے وہ اپنی خاموشی سے اس قدر شاندار تاثر چھوڑتے تھے کہ انہیں الفاظ کی ضرورت نہیں تھی۔ زندگی کی معنوی اور بے معنوی ذمہ داریاں نبھاتے نبھاتے، ان کی عمر کا یہ چوتھا حصہ، 15 جون 2020 کو اپنے اختتام تک پہنچا۔

وبا کے دنوں میں ایک روز خیال آیا کہ ابو سے ان کی کہانی سنی جائے۔ اول اول تو انہوں نے صاف انکار کر دیا، پھر چند ریکارڈنگز اور کچھ گفتگو کے اقتباسات سے ایک ڈھانچہ بنا۔ جب انہوں نے ذرا دلچسپی لینا شروع کی تو تاپ نے گھر دیکھ لیا تھا۔ اس سے پہلے کہ کہانی اکٹھی ہوتی، ہماری زندگی بکھر چکی تھی۔ پہلے سال کچھ لکھا مگر اس خیال سے نہیں چھپوایا کہ کسی کی ذاتی زندگی میں، اوروں کو کیا دلچسپی ہو سکتی ہے۔ اس بار بھی کچھ ایسا ہی لکھا اور پھر حوصلہ نہیں کر پایا۔ رنگ برنگے پانیوں کے اس پار، دنیا کے بالکل دوسرے کونے میں، ایک اور بیٹا تھا جس نے ایک دن قہقہوں کی پوٹلی سے المیے کا لعل نکالا اور سمجھایا کہ کہ لکھنے والا جب زندگی کی داستان لکھتا ہے تو اوروں کے لئے نہیں، فقط اپنے لئے لکھتا ہے۔

ابا کی کہانی کا یہ پہلا حصہ ہے۔ اس میں کہیں کہیں ابا بولتے ہیں اور کہیں کہیں چند خالی جگہیں تھیں جو ان کے بعد ، مجھے پر کرنا پڑیں۔ اس وقت یہ اندازہ ہوا کہ کچھ خالی جگہیں بھرتے بھرتے، آدمی خود خلا ہو جاتا ہے۔ وقت ملا اور زندگی بچی تو باقی حصے بھی لکھوں گا۔

نوٹ : تحریر کا مزاج کچھ ایسے ہے جیسے وہ مجھے کہانی سنا رہے ہوں۔ اسے بدلنا، میرے لئے شاید ممکن نہیں تھا۔


کہانی

یوں تو ہر انسانی زندگی ایک کہانی ہے لیکن ہر اتار چڑھاؤ، سب پر یکساں نقش نہیں چھوڑتے۔ کچھ لوگ اسے رضائے الٰہی سمجھ کر گزار دیتے ہیں اور کچھ اس کی مشکلات و عنایات کو اپنا اثاثہ سمجھ کر سینے پہ سجا لیتے ہیں۔ صبر شکر، ہر رنگ میں لازم ہے لیکن یہ بھی اللہ کی عطا کی ہوئی انسانی جبلت ہے کہ ہر چیز، ہر انسان پہ ایک طور، اثر انداز نہیں ہوتی۔ بچپن کی محرومیاں، نہ صرف بڑھاپے کے قصے کہانیاں بن جاتی ہیں بلکہ عمر کے عذابوں میں ایک اضافہ بھی ہوتی ہیں۔ بلاشبہ، خوبصورت بچپن، بڑھاپے کے لیے ایک بہتر اثاثہ ہے جو انسان کو کسی حد تک مسرور رکھتا ہے۔ بصورت دیگر، ”دنیا کو ہم کیا بتلائیں۔ کیا جیتے کیا ہار گئے؟“

ہم 1961 میں لائل پور آئے تھے۔ سن 51 میں ابا جی پورے ہوئے تو میں، ماں جی اور میری تین بہنیں تھیں جن میں سے دو شادی کی عمر کو پہنچ چکی تھیں۔ میری ماں، ایک حوصلہ والی عورت تھی اور شاید اس کی واحد کمزوری اور امید، بیک وقت میں ہی تھا۔ جس طرح جنگ میں بہترین، بے تکلف اور پرخلوص رشتہ ان سپاہیوں کا ہوتا ہے جو ایک خندق میں اکٹھے رہے ہیں، اسی طرح غربت اور تنگدستی ہمارا سانجھا دکھ تھا۔

شاہدرہ ریلوے اسٹیشن کے سامنے، جی ٹی روڈ پہ، انجمن حمایت اسلام کی ملکیت، ایک چھوٹی سی غلہ منڈی تھی جس میں کرایہ جمع کرنے کی ذمہ داری تمہارے دادا کی تھی۔ ہر ماہ کے پہلے ہفتے، وہ دکانوں سے کرایہ اکٹھا کرتے اور انجمن کے دفتر میں دے آتے، بدلے میں انجمن انہیں کچھ رقم دے دیا کرتی۔

اس کے علاوہ، ان کی کریانے کی دکان اور آٹے کی ایک چکی تھی۔ ابا جی کے انتقال کے بعد ، چاچا سراج نے انجمن حمایت اسلام کے ارباب کو یقین دہانی کروائی کہ اگر کرایہ اکٹھا کرنے کا یہ انتظام انہیں دے دیا جائے تو اس سے مرحوم کے بچوں کی کفالت ہو جائے گی۔ مجھے بعد میں تمہاری دادی نے بتایا کہ انجمن حمایت اسلام نے ہماری کفالت کے لئے نہ صرف کرایہ اکٹھا کرنے کی ذمہ داری، میرے اس چاچا کو دے دی بلکہ اس کے ساتھ ساتھ کچھ اضافی زرعی زمین بھی دے دی تا کہ ہماری گزر اوقات بہتر ہو سکے۔ کہتے ہوئے عجیب سا لگتا ہے لیکن اس بندوبست کا کوئی مالی فائدہ ہم تک نا پہنچ پایا۔ خاوند کا ماتم ٹھنڈا ہوا تو تمہاری دادی نے سوچا کہ دکان کی خبر گیری کرے۔ دکان پہ ابا جی کے وقت سے ہی ایک آدمی کام کرتا تھا جو ہمارا پرانا ملازم تھا۔ ابا جی کے خاص بھروسے کا آدمی ہونے کے سبب وہ، دکان کے سبھی معاملات دیکھتا تھا۔ تمہاری دادی مطمئن تھی کہ یہ ایک نیک آدمی ہے، سو ہماری اصل کو خیر ہے۔

زندگی اپنے معمول پہ چلنا شروع ہوئی۔ میں شاہدرہ کے پرائمری سکول میں جانے لگا مگر آہستہ آہستہ محرومی کے چاند نے ہماری دہلیز پہ مستقل نکلنا شروع کر دیا اور جب یہ چاند ڈوبتا تو ذلت کا سورج طلوع ہو جاتا۔ ابا جی کے پانچ بھائی تھے، ان کی اپنی اپنی زندگیاں تھیں۔ شاہدرہ کے محلہ سنگ تراشاں میں ہم سب کے گھر تو ساتھ ساتھ تھے لیکن افلاس کی چادر، صرف ہمارے سروں پہ تنی تھی۔ میری ماں کہتی تھی کہ کسی سے کچھ مانگنا مت، سو یہ دہری اذیت تھی۔ اسی دوران ہماری چھوٹی بہن پلی ایک حادثے میں فوت ہو گئی، اس طرح، اس نے، ہمارے غم میں اپنا حصہ ڈال دیا اور اپنی ذمہ داریوں سمیت منوں مٹی تلے جا دفن ہوئی۔

دوسری تدفین کے بعد ماں جی کو بیٹیوں کے بیاہ کی اچانک جلدی پڑ گئی۔ تھوڑے ہی عرصے میں مناسب رشتے دیکھ کر دو بڑی بیٹیاں بیاہ دیں۔

دھوکے کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ جب تک آدمی اسے اپنے گھر میں نہ دیکھ لے، یہ کہانیوں کا پرندہ ہی رہتا ہے۔ ایک دن پتہ چلا کہ دکان کا سارا مال، اس خاص آدمی نے بیچ دیا ہے۔ میں اور تمہاری دادی، بعد میں کئی سال تک اس کے اندرون لاہور والے گھر جاتے رہے۔ وہ ہماری بات سنتا، ہاں ناں کرتا اور تھوڑے بہت پیسے دے کر ہمیں واپس بھیج دیتا۔ عین ممکن ہے جو پیسے وہ ہمیں دیتا ہو، وہ ہمارا حق ہوں۔ عین ممکن ہے وہ اپنے کاغذوں میں خیرات نکالتا ہو۔

شادی کا وقت آیا تو میری ماں نے دکان کا رہا سہا سامان بیچا، کوئی پرانا گہنا گروی کیا اور مقبرہ جہانگیر کے دالان میں لائلپور سے آنے والی بارات کو کھانا کھلا کر جیسے تیسے دونوں بیٹیاں رخصت کر دیں۔ اب گھر میں، میں، تمہاری دادی اور تمہاری چھوٹی پھوپھو رہ گئے۔ کچھ دن گزرے تو میری ماں کی ایک سہیلی نے اسے سلائی کا کام سکھلا دیا۔ زندگی کی گاڑی، اب کرائے اور سلائی کے کپڑوں کی آمدن پہ چلنے لگی تھی۔ میں بھی آٹھویں والے سکول جانے لگا تھا۔

اب اپنے پوتے کو اتنے مہنگے سکول چھوڑ کر آتا ہوں تو یاد آتا ہے۔ ہمارا سکول، تقریباً دو کلومیٹر کے فاصلے پہ تھا اور زیادہ تر پیدل ہی آنا جانا ہوا کرتا تھا۔ کبھی کبھار جن کے پاس پیسے ہوتے انہیں ریڑھے والا، دو پیسے لے کر بٹھا لیتا اور اس وقت یہ بہت بڑی عیاشی اور سہولت سمجھی جاتی تھی۔ تین افراد پر مشتمل ہمارا یہ کنبہ صاحب حیثیت اپنوں کے درمیان، آسودگی کے نام سے نا آشنا، ذلت نما غربت کے شب و روز تمام کرتا رہا۔

میری بڑی بہن، شاد باجی کا پورا نام شہزاد بیگم تھا۔ انور بھائی سے بیاہ کر وہ خانقاہ ڈوگراں چلی گئی، منزہ وہیں پیدا ہوئی، انور صاحب نے لاہور میں بی ایڈ شروع کر لیا تو باجی ہمارے ساتھ رہنا شروع ہو گئی۔ شائستہ بھی شاہدرہ میں پیدا ہوئی۔ پھر جب بی ایڈ مکمل ہوا تو وہ لائلپور چلے گئے انہیں وہاں سائنس ٹیچر کی نوکری مل گئی۔ دوسری بہن، باجی ریاض، پہلے تو کچھ دیر اپنے شوہر آفتاب بھائی کے ساتھ شاہدرہ رہی پھر وہ دونوں بھی لائلپور چلے گئے۔ آپا (ماں جی) کا آدھا دل، ہم لوگوں کے ساتھ اور آدھا، لائلپور میں رہتا۔ ایک دن میں سکول سے گھر آیا تو سامنے باجی ریاض اور آفتاب بھائی بیٹھے تھے۔ ماں جی نے فیصلہ کر لیا تھا کہ ہم لوگ لائل پور جائیں گے۔ مجھے شاہدرہ چھوڑنے کا ملال کبھی بھی نہیں رہا۔ اب تو خیر وہاں کچھ بھی پہچانا نہیں جاتا، لیکن جب وقت تھا تب بھی ان نیم تاریک گلیوں سے میرا زیادہ تعلق، محرومی کا تھا۔ شاید یاد کی ساری عمارت خوشی کی بنیاد پہ استوار ہوتی ہے۔ معلوم نہیں۔

(جاری ہے )
افضال احمد
محمد حسن معراج


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments