شخصیات کی آڑ میں نظریات پر نشانہ


میں آج سوچ رہا تھا کہ انسانی مساوات۔ انصاف اور بلاتخصیص احترام کے نظریے کے حامل افراد کے ساتھ پوری معلوم تاریخ میں کیا سلوک کیا گیا ہے۔ قدیم ایران میں مزدوک نامی شخص نے ظالمانہ طبقاتی نظام اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کے خلاف آواز بلند کی اور محروم۔ غریب اور مظلوم عوام کی اکثریت اس کے گرد جمع ہو گئے۔ اس کا پیغام سادہ اور عام فہم تھا کہ ہمیں اپنے مجموعی وسائل اور دولت و املاک کو آپس میں تقسیم کر لینا چاہیے۔ تاکہ معاشرہ میں پائی جانے والے شدید۔ ظالمانہ اور غیر انسانی تقسیم اور محرومی کا خاتمہ ہو سکے۔ اس نعرے کی عوام میں بڑھتی ہوئی پذیرائی نے اہل اقتدار اور ان کے آس پاس پائے جانے والے مراعات یافتہ امراء کو پریشان کر دیا۔ کیونکہ اس ”سب کچھ آپس میں تقسیم کر دو “ کے نظریے اور نعرے کے تحت ان اہل اقتدار اور امراء کو اپنا اقتدار اور دولت عوام کے ساتھ بانٹنی پڑتی۔ لہذا انہوں نے ہمیشہ کی طرح اپنے دیرینہ مددگاروں اور آلہ کاروں یعنی مذہبی پروہتوں کے ساتھ سر جوڑ لیے۔ کہ اس آواز کو کس طرح خاموش کیا جائے۔ اور اس۔ ان کے لیے خطرناک اور ناقابل قبول نظریے کا تدارک کیا جائے۔ سوچ و بچار اور مشورے کئیے گئے اور ایک حکمت عملی طے کی گئی۔ اور اس منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے دو گروہ تیار کئیے گئے، ایک گروہ جس کا عوام میں گہرا اثر و رسوخ اور رابطہ تھا۔ وہ مذہبی پروہتوں کا گروہ تھا۔ ان کے ذمے عوام کو مزدوک کے پیغام کی، گمراہ کن اور عوام کے لیے اشتعال انگیز تشریح عوام میں پھیلانے کے مقصد کی تکمیل کا ذمہ دیا گیا۔ اور دوسرے گروہ نے جو بادشاہ کے خصوصی طور پر منتخب شدہ افراد پر مشتمل تھا۔ پہلے گروہ کی اپنے مقصد میں کامیابی کے بعد عوام کے روپ میں مزدوک کے خاتمے کی حتمی کارروائی کرنی تھی.

چنانچہ مذہبی پروہتوں نے عوام کے ساتھ مذہبی تقریبات کے دوران یہ بات پھیلانی شروع کر دی کہ مزدوک جو تقسیم کر دینے کا نعرہ بلند کرتا ہے۔ اور مساوات و برابری کا سبق دیتا ہے اس کا اصل پیغام اور مقصد یہ ہے کہ تمہاری عورتوں یعنی تمہاری بیویوں۔ بیٹیوں اور بہنوں کو عوام میں تقسیم کر دیا جائے۔ اور اپنے معاشی تقسیم کے نعرے کی آڑ میں مزدوک کا اصل مقصد ہی تمہاری عورتوں کو اجنبیوں میں تقسیم کر دینا ہے۔ عوام چونکہ مذہبی تقدس۔ عقیدت اور جاہلیت کی وجہ سے ان مذہبی پروہتوں کا بہت احترام کیا کرتے تھے۔ تو ان میں سے بہت سے ان کی ان باتوں کو سچ سمجھنے لگے۔ اب مقرر کردہ دوسرا گروہ حرکت میں آیا اور انہوں نے مزدوک کے گرد جمع عوام کی تعداد میں کمی آتے ہی حملہ کر کے مزدوک کو قتل کر دیا۔ اس جھوٹے پر اپیگنڈے کا اثر اتنا گہرا ہوا۔ کہ آج ہزاروں سال گزر جانے کے باوجود۔ مزدوک کے بارے میں کوئی تحریر لکھی جاتی ہے۔ تو اس میں مزدوک کے پیغام کے بارے میں اس جھوٹے الزام کا ذکر ضرور کیا جاتا ہے۔ کہ مزدوک عوام کی عورتوں کو آپس میں تقسیم کر دینے کا پیغام دیتا تھا۔ لہذا عوام نے اشتعال میں آ کر اسے قتل کر ڈالا۔ حالانکہ اس الزام کا جھوٹا اور مضحکہ خیز ہونا واضح ہے۔

اسی طرح اور آگے آئیں تو اسلامی تاریخ میں اس مساوات کی ایک آواز ہمیں حضرت ابوذر غفاریؓ کی سنائی دیتی ہے۔ جو ضرورت کے مطابق ہی ملکیت اور حق کی منصفانہ تقسیم کی تبلیغ کیا کرتے تھے۔ لیکن ان کے ساتھ بھی اس وقت کے اہل اقتدار اور اہل حشم نے وہ سلوک کیا جس کی کہانی مدینہ سے دو سو کلومیٹر دور نجدہ کے صحرائی ویرانے میں ان کی تنہا قبر کے چند بے ترتیب پڑے پتھر آج بھی بیان کر رہے ہیں۔ اب ذرا اور آگے آ جائیں تو ہمیں کارل مارکس دکھائی دیتا ہے۔ اپنی اعلیٰ ترین تعلیم اور بلند شعوری سطح کے باوجود بار بار جلا وطن ہوتا۔ انتہائی مصائب۔ تقریباً فاقہ کشی۔ کا شکار اپنے پیارے بچوں کو اپنی غربت کا نشانہ بنتے اور ہلاک ہوتے دیکھتا ہے۔ لیکن استحصال کے مکروہ چہرے پر پڑے بظاہر خوشنما نقاب اٹھا کر اس کا اصل چہرہ محنت کشوں کو دکھانے اور ان کو ان کے انسانی مقام اور بنیادی انسانی حقوق کی پہچان اور ان کے حصول کے لیے ان کے شعور کو بیدار کرنے کے مشن سے پیچھے نہیں ہٹتا۔ اور اسی مقصد کے حصول کی کوششوں کے دوران ان ہی شدید آلام و مصائب میں اس کی زندگی کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔ اس کا نظریہ اور غریب۔ محروم اور مظلوم مزدور و محنت کش کو اس کے بنیادی انسانی حق کا احساس دلانا اور ان کا استحصال کرنے والوں کے چہروں کو ان محنت کشںوں کے سامنے متعارف اور بے نقاب کرنا ہی، اس کا ایسا ناقابل معافی جرم بن گیا۔ جس کی سزا اس نے انتہائی عزم و حوصلہ اور سربلندی کے ساتھ تمام زندگی بھگتی۔

آج ہم مغرب کے جمہوری معاشروں میں محنت کش کے معاشی تحفظ کا جو نظام سوشل سیکورٹی اور مختلف صورتوں میں دیکھتے ہیں، ان حقوق کے حصول اور ان کا شعور پیدا کرنے میں کارل مارکس کے نظریے کا بنیادی کردار ہے۔ ورنہ یہی یورپ اپنے محنت کشوں کے لیے بدترین حالات کار کے لیے مشہور تھا جہاں محنت کش کا شدید استحصال کیا جاتا۔ اور انھیں بدترین حالات کار میں انتہائی قلیل معاوضوں پر کام کرنے پر مجبور کیا جاتا تھا۔ لیکن ان محنت کشوں میں سوشلزم اور اپنے حقوق کا شعور پیدا ہونے سے ان کے استحصالی سرمایہ دار ان کے حقوق دینے اور ان کے حالات و اوقات کار بہتر کرنے پر مجبور ہو گئے۔

اپنے ملک میں دیکھیں تو یہاں بغیر کسی جرم کے صرف انسانی مساوات اور سوشلزم کا نظریہ رکھنے کی پاداش میں کتنے دانشوروں کو اذیت گاہوں میں۔ شاہی قلعے کے ٹارچر سینٹروں میں بہیمانہ تشدد سے ہلاک کر دیا گیا۔ ان کا واحد جرم ہی یہ نظریہ ٹھہرا۔ پاکستان میں ان نظریاتی حریت پسندوں کے ساتھ اس سلوک کی ذمہ داری پاکستان کی غیر جمہوری قابض طاقتوں کے سرمایہ داری کے مرکز و نگہبان امریکہ سے گٹھ جوڑ پر عائد ہوتی ہے۔ جب ان غیر جمہوری طاقتوں کے ساتھ سازباز اور گٹھ جوڑ کر کے پاکستان کو سوویت یونین کے خلاف ایک صف اول کے مورچے کی حیثیت دی گئی۔ امریکہ نے پاکستان میں ان ہی غیر جمہوری آمروں کے ساتھ ساز باز کر کے فوجی اڈے حاصل کئیے، جن سے امریکی طیارے پروازیں کر کے سوویت یونین کی جاسوسی کیا کرتے۔ ان ہی سے ایک یو ٹو طیارہ روس نے اپنی فضاء میں مار گرایا اور اس کے امریکی پائلٹ ”گیری پاورز“ کو گرفتار کر لیا۔ جس نے ان جاسوسی مشن اور ان کے مقام کی سب معلومات روسیوں کو دے دیں۔ جس پر روس کے صدر خروشیف نے کہا کہ ہم نے نقشے پر پشاور کے گرد سرخ دائرہ لگا دیا ہے۔

دوسری طرف بھارت کے پنڈت نہرو نے امریکہ کے ساتھ ان دفاعی معاہدوں جو کہ صرف سوویت یونین کے خلاف تھے۔ کو بہانہ بنا کر کشمیر میں رائے شماری کے اپنے وعدوں سے انکار کر دیا۔ یعنی یہاں امریکہ نے اپنے مفادات کے حصول کے لیے پاکستان کے غیر جمہوری۔ سازشی ناجائز حکمرانوں کی سرپرستی کی ان کو کھل کر اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا دوسرے ان کے ذریعے پاکستان میں ترقی پسند مخلص دانشوروں کی آواز کو سختی اور ظلم و ستم کے ساتھ کچل دیا گیا۔ یہاں حبیب جالب جیسا شاعر سڑکوں پر پولیس سے ڈنڈے کھاتا۔ اور ہتھکڑیاں لگا کر جیلوں میں ڈالا جاتا رہا جس کا جرم صرف اس کے افکار ٹھہرے۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی بنیادی وجہ بھی وہاں کے عوام کی غربت۔ محرومی اور ان کی اکثریت کی شکل میں ان کے سوشلزم کے نظریے کی طرف جھکاؤ کا امکان ہی تھا جومغربی پاکستان کے سرمایہ داروں اور قابض۔ غاصب غیر جمہوری طاقتوں کو کسی طرح بھی گوارا نہیں تھا لہذا جان بوجھ کر ایسے حالات پیدا کئیے گئے۔ جن کی وجہ سے پاکستان کے عوام کی اکثریت کو پاکستان سے علیحدگی کا فیصلہ کرنا پڑا۔ ان کا سیاسی اور پھر عسکری ہانکا کر کے ان کو کھدیڑ کر پاکستان سے الگ ہو جانے پر مجبور کر دیا گیا۔

ادوار اور زمانے سے قطع نظر ہمیں انسانی مساوات اور احترام انسانیت کا سوشلزم کا نظریہ رکھنے والوں کے انجام میں دور قدیم سے لے کر آج تک ایک عجیب مماثلت اور یکسانیت نظر آتی ہے۔ کہ ان سب کے نظریے کو جرم قرار دیتے ہوئے ان کو سزائیں دیں گئیں یعنی کسی عملی جرم کے ارتکاب کے بجائے صرف مساوات کا نظریہ ہی شدید جرم قرار دیا جاتا رہا۔ جس کی ان کو مختلف طریقوں سے سخت ترین سزائیں دی جاتی رہیں۔ ممتاز دانشور محترمی وجاہت مسعود نے ایک حالیہ مضمون میں روس میں سٹالن کے ہاتھوں۔ چین میں ماوزے تنگ کے ہاتھوں اور شمالی کو ریا میں پورٹ پال کے ہاتھوں کروڑوں انسانوں کی ہلاکت کا رقت انگیز ذکر تو کیا لیکن اس پس منظر میں وہ اس بات کو مکمل طور پر نظر انداز فرما گئے کہ یہ انقلابات بنیادی طور پر دو طبقات محروم اور مقتدر کی کشمکش تھی۔ جس کا انجام دونوں فریقین میں سے ایک کے خاتمے یا مکمل طور پر مغلوب ہونے سے ہی ممکن تھا۔ فرانس کے انقلاب میں بھی لاکھوں افراد کو تہہ تیغ کیا گیا یا وہ سرکاری افواج کے ہاتھوں ہلاک کئیے گئے۔ وہاں بھی یہ کشمکش بنیادی طور پر معاشی اور سماجی ہی تھی جس کا شاخسانہ انقلاب فرانس بنا۔

اگر اس مقتدر طبقے کو برتری حاصل ہو جاتی تو کیا انہوں نے موقع ملنے پر اس سے زیادہ ظلم اور قتل و غارت نہیں کرنا تھا۔ انسانی تاریخ گواہ ہے کہ اقتدار، مقتدر اور استحصال کو بھی جب جب موقع ملا انہوں نے قتل و غارت، ظلم میں کچھ کمی نہیں کی، بلکہ ان کے مسلسل مظالم کا دورانیہ بھی طویل ہوتا ہے، ایک المیہ یہ بھی ہے کہ تاریخ لکھنے کا موقع ہمیشہ جنگ یا کشمکش میں فاتح فریق کو ہی ملا کرتا ہے – سرمایہ دارانہ نظام کے سب سے بڑے نگہبان اور علمبردار امریکہ کے ہی کردار کا دنیا میں جائزہ لیں تو اکیلے اس کی طرف سے خود امریکہ میں ہی وہاں کے کروڑوں قدیم باشندوں کا قتل عام کیا گیا۔ بنیادی طور پر اس کی وجہ بھی زمین پر قبضہ اور وسائل کو ہتھیانا اور ان کی لوٹ مار ہی تھی۔ افریقہ۔ شمالی امریکہ کے ممالک۔ ایشیا اور مشرقی بعید کے ممالک میں اپنے نظریے کی مخالفت کے جرم میں بہایا گیا خون اور ہلاکتوں کی تعداد ان سب مزکور ہلاکتوں سے زیادہ ہی نکلے گی۔ جن کا روس۔ چین۔ شمالی امریکہ ویتنام کے ضمن میں ذکر کیا گیا تھا۔ امریکی سازشوں اور مجرمانہ مداخلت سے دنیا کے کئی ممالک میں خانہ جنگی کروائی گئی۔ اور قحط کی کیفیت باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ پیدا کروائی گئی جو لاتعداد انسانوں کی بھوک کے ہاتھوں ہلاکت کا باعث بنتی رہی۔ انگریزوں کے برصغیر چھوڑنے کی وجہ گاندھی کی ”سودیشی“ تحریک نہیں بنی۔ بلکہ دوسری جنگ عظیم اور اس کے نتیجے میں دنیا کے سیاسی اور اقتصادی قطبین میں نئی تقسیم اور تبدیلیاں بنیں۔

آج ہم پاکستان کے حالات کا جائزہ لیں تو ہمیں معاشی اور معاشرتی حوالے سے عوام کے درمیان ایک مسلسل گہری ہوتی خلیج واضح طور پر دکھائی دیتی ہے۔ ایک طرف زندگی کی تمام بنیادی سہولیات سے محروم عوام کا انبوہ کثیر ہے۔ جس کے لیے نہ روز گار ہے۔ نہ علاج۔ نہ تعلیم۔ نہ مناسب رہائش حتیٰ کہ ان کے نصیب میں پینے کا صاف پانی تک نہیں۔ اور ناقص اور متعصبانہ تعلیمی نظام اور دیگر مذہبی اعتقادات اور تعصبات کو ایک ہتھیار کی طرح استعمال کرتے ہوئے ان سے شعور تک چھین لیا گیا ہے۔ ان عوام کی اکثریت اب صرف کسی وائرس کی طرح۔ آگے اپنے ہی جیسی جاہل متعصب اور بے شعور کاپیاں ہی تیار کر رہے ہیں۔ کیونکہ ان کو اسی شعوری حالت میں رکھنے کے لیے بڑی محنت سے ناقص تعلیمی نصاب۔ کے ساتھ ساتھ تعصب اور نفرت پر مبنی مذہبی جذبات کو پروان چڑھایا جاتا ہے۔ تاکہ ہر وائرس صرف اپنے جیسی نقلیں ہی تیار کرے۔ دوسری طرف شاندار اور پرتعیش ”گیٹڈ کمیونیٹیز“ ہیں جو مسلح محافظوں کے پہرے میں محفوظ دیواروں کے حصاروں کے اندر بسائی جا رہی امراء کی جدید بستیاں ہیں۔ جن میں زندگی کی ہر سہولت وہیں مہیاکر دی گئی ہے۔ وہیں ان کے جدید اور بہترین شاپنگ سینٹر۔ ہسپتال۔ تعلیمی ادارے۔ تفریحی مقامات۔ اور مسلسل جاری رہنے والی برقی توانائی کا انتظام کیا جاتا ہے ان کے بچوں کے لیے نہ صرف اندرون ملک بلکہ بیرون ملک مختلف ممالک میں بہترین تعلیمی اداروں میں تعلیم کے وسائل اور مواقع ہیں۔ گویا جس طرح سقراط کہا کرتا تھا کہ ہر شہر کے اندر دو شہر ہوا کرتے ہیں۔ جو ایک جگہ پر ہی واقع ہونے کے باوجود بالکل الگ الگ ہوتے ہیں۔ ایک امیروں کا شہر اور ایک غریبوں کا شہر۔ اب تو نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ مخالف اور متحارب ممالک کی طرح ان شہروں کے متمول اور محروم باشندوں کے علاقوں کے درمیان لکیریں اور دیواریں تک کھینچی جا رہی ہیں۔ کل اگر کسی ”معجزے“ یا اتفاق کی وجہ سے ان محروم عوام کی اکثریت کے اندر اپنے حقوق کا شعور پوری طرح بیدار ہو جاتا ہے تو کیا یہ استحصالی طبقہ آرام سے ان کے حقوق ان کو دے دے گا۔ ہماری جیلیں ایسی ہی انفرادی کوششیں کرنے والوں سے بھری پڑی ہیں۔ چاہے انہوں نے اپنے تئیں اپنے ”حق“ کے حصول کے لیے انفرادی طور پر جرم کا راستہ اپنایا ہو۔ جس کی پاداش میں انھیں سزایاب ہونا پڑا ہو۔

یہاں اس معاملے کو اس طرح بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ اگر یہی کوشش کہ اپنے حقوق مقتدر اور محکم طبقہ سے چھین لیے جائیں۔ اجتماعی طور پر کی جائے تو کیا اسی کو انقلاب نہیں کہتے۔ اور طویل عرصہ لگا کر مقتدر طبقے نے محروم طبقات کی جو شعوری اور ذہنی کیفیت بنا دی ہوتی ہے تو انقلاب کے دوران یہ ناخواندہ یا کم خواندہ محروم اکثریت اسی دستیاب ناقص شعور کی مدد سے ہی فیصلے کرتی ہے۔ جو اکثر ظالمانہ نتائج پر منتج ہوتے ہیں۔

مثال کے طور پر انقلاب فرانس کے لیے عوام کو تیار کرنے والا تھامس پین جب انقلاب کے دوران وسیع پیمانے پر قتل و غارت کی مخالفت کرتا ہے۔ تو اسے بھی قید میں ڈال کر قتل تک کر دینے کی دھمکی دی جاتی ہے۔ حالانکہ وہ اس انقلاب کے معماروں میں شمار ہوتا تھا۔ انسانی تاریخ خود ایک کتاب اور سبق ہے جس کے انسانی خون سے لتھڑے ہوئے صفحات اتنے قابل مطالعہ تو ہیں ہی۔ کہ آج ہم ان سے سبق حاصل کر کے آج کے علم۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے عروج کے دور میں نئے سرے سے۔ پرامن طور پر۔ خون بہائے بغیر۔ دنیا کے وسائل کی انسانوں کے درمیان تقسیم کا پرامن نظام وضع کریں۔ سوشلزم کوئی مذہب نہیں۔ نہ کوئی گناہ یا جرم ہے۔ بلکہ ایک ممکنہ اختیاری طریقہ ہے۔ جو انسان کے لیے بلاتخصیص رنگ۔ نسل مذہب و ملت۔ ہر تضاد اور اختلاف سے ماوراء ہو کر بنی نوع انسان کی اجتماعی منصفانہ بنیادوں پر بہبود اور ان کو یکساں طور پر بنیادی انسانی ضروریات کی فراہمی۔ ان سے ضرورت کے شعبے میں کام لینے۔ اور اس تقسیم اور مطلوبہ کام کی منصوبہ بندی کرنے کی ذمہ داری ایک مشترکہ حکومت کو دیتا ہے۔ اسی وجہ سے اسے ”اشتراکیت“ بھی کہا جاتا ہے۔ اور اس لفظ سے ہی اس نظام کے کام کرنے کے طریقہ کار کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

ایسی مشترکہ عالمی حکومت جو نسل انسانی کو دستیاب وسائل۔ علم، سائنس اور ٹیکنالوجی کی مدد سے دنیا کے ہر انسان کی تمام بنیادی ضروریات کی فراہمی کی ضمانت دیتی ہو۔ اور انسانوں کی محروم اکثریت کو ان دنیاوی بنیادی ضروریات کے حصول کی ذمہ داری کسی ماورائی طاقت پر عائد کر کے خود کو ان ذمہ داریوں سے بری الزمہ قرار نہ دیتی ہو -آج دنیا میں جتنی رقم نسل انسانی پر ہی مشتمل مختلف ممالک افواج اور دفاعی تیاریوں آلات اور تباہ کن ہتھیاروں کی تیاری اور تحقیق پر خرچ کرتے ہیں۔ باہمی تفرقات۔ تعصبات پر مشتمل کھینچی گئی لکیروں کو ختم کر کے اس رقم کی ایک تہائی رقم سے ہی ہم تمام دنیا کے محروم اور مظلوم انسانوں کی تمام بنیادی انسانی ضروریات کی معیاری فراہمی کر سکتے ہیں۔ دستیاب سائنس اور ٹیکنالوجی کا مثبت استعمال کرتے ہوئے نہ صرف ہر قسم کی پیداوار میں تین گنا تک اضافہ کر سکتے ہیں بلکہ اس کرہ ارض کے قدرتی ماحول کو بھی تمام انسانوں اور دیگر جانداروں کے جینے کے لیے زیادہ بہتر اور محفوظ بنا سکتے ہیں۔

اتنے طویل ارتقائی، اخلاقی، اور علمی سفر کے بعد بھی آج اس ظالمانہ اور استحصالی سرمایہ دارانہ نظام میں تمام دنیا کا پچانوے فیصد سرمایہ صرف چار فیصد افراد کے پاس ہے اور باقی پانچ فی صد دنیا کی چھیانوے فی صد محروم اور استحصال زدہ افراد کو صرف زندہ رکھنے کے کام آ رہی ہے۔ تاکہ وہ قدیم غلاموں کی طرح بمشکل زندہ رہ کر سرمایہ داروں کے لامتناہی سرمائے کے حصول کی نہ ختم ہونے والی خواہشات کی۔ اپنا حال اور مستقبل بلکہ اپنے آنے والی نسلوں کا مستقبل داؤ پر لگا کر تکمیل کر سکیں۔

کوئی بھی ایسا طریقہ سوچنا جو باہمی تعاون اور اشتراک سے تمام باہمی بے کار اور نقصان دہ تعصبات اور تقسیم کو ختم کرتے ہوئے۔ دنیا کی محروم انسانی اقلیت کو مساوات اور انصاف کی بنیاد پر اس کا انسانی حق اور مقام عطا کرنے کا طریقہ وضع کرے۔ کیا یہ جرم ہے؟ مروجہ تقسیم در تقسیم کے غیر متوازن بلکہ غیر انسانی نظام کے پاس ایسا کوئی پروگرام۔ کوشش یا نیت دکھائی نہیں دیتی جس کا خواب مروجہ نظام کے تحت دکھا کر کچھ سو یا کچھ ہزار سال تک مزید یہ طبقاتی استحصال جاری رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

ایسے میں۔ عقل و شعور کا تقاضا ہے کہ اب کسی خون آشام انقلاب کا انتظار کئیے بغیر دونوں طبقات سرمایہ دار ماضی کے انقلابات کی طرح وسیع پیمانے پر قتل ہونے یا قتل کرنے کے ظلم سے بچنے کے لیے خود ہی شعوری طور پر مل کر ایک مخلصانہ کوشش کریں۔ یوں علم کے عروج کے دور میں محبت تعاون۔ انسانیت اور امداد و مفاد باہمی کی بنیاد پر سب مل کر یہ نیا پرامن انقلاب برپا کریں۔ کیونکہ جوں جوں دنیا میں علم و شعور میں پہلے کے ادوار کی بہ نسبت بہت تیزی سے اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ اس کے پیش نظر نسل انسانی کے لیے مستقبل کے دو ہی امکانات ہیں یا توہم باہمی اشتراک سے پرامن طریقے سے ایک نئی دنیا کی تعمیر کی طرف جائیں یا دوسری صورت میں وسائل کی تقسیم کی جنگ میں موجود تباہ کن ہتھیاروں کو ایک دوسرے پر استعمال کر کے نسل انسانی کو ہی اس کرہ ارض سے معدوم کر دیں۔ تیسرا اور کوئی راستہ نہیں۔ لہذا ہمیں ان دو راستوں میں سے ہی کوئی ایک راستہ منتخب کرنا پڑے گا۔

آج یہ سوال نہیں کہ چے گویرا نے مرتے وقت آہ و زاری کی تھی یا وہ رویا تھا۔ یا چیخا تھا یا نعرہ لگایا تھا یا منت سماجت کی تھی۔ یا کروڑوں انسانوں کا قتل عام۔ لینن اور ماوزے تنگ یا جاپان کے دو شہروں کو ایٹم بموں سے تباہ کرنے والے امریکی صدر روز ویلٹ نے کروایا تھا۔ یہ آج کا سوال ہی نہیں ہے، یہ ماضی ہے، جیسے لاکھوں یا شاید کروڑوں بے گناہ افراد کے قاتل سکندر اعظم۔ اٹیلا۔ اور چنگیز خان۔ آج سب ماضی ہیں۔ لہذا ہمیں ان کرداروں کے آخری الفاظ سے آج کوئی عملی سروکار نہیں۔ لہذا ان کا طنزیہ اور طعنہ کے انداز میں ذکر کرنا بھی بیکار ہے۔

بلکہ ہمیں نظام اس کے مطلوبہ مقاصد اور ان مقاصد کے حصول کے لیے بہتر ممکنہ طریقہ کار پر بحث و مباحثہ کی ضرورت ہے مستقبل پر نظر رکھنی ہے۔ دنیا کے موجود نظام میں انسانوں کی اکثریت کے استحصال کو اور ایک مختصر اقلیت کی طرف سے ان کے معاشی استحصال کی ماضی کی روشنی میں بہتر طور پر شناخت کر کے۔ اس صورت حال کے موثر اور پرامن سدباب اور نسل انسانی کی مجموعی بہتری کی منصوبہ بندی کی اور اس مقصد کی پرامن تکمیل کے حصول کے مقصد کی طرف تیزی سے پیش قدمی کی ضرورت ہے۔ مطلوبہ مقصد یہی ہے چاہے اس کا نام آپ اور ہم سوشلزم رکھیں۔ اشتراکیت رکھیں یا پھر جمہوری نظام رکھیں اہمیت مطلوبہ اور موثر نظام کے عملی انتخاب۔ اطلاق اور نتائج کی ہے۔ تاکہ نسل انسانی کی تاریخ کے مزید صفحات خون آلود ہونے سے بچ سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments