تخلیق کاروں کے حصول منزل کی داستان: ’گہر ہونے تک‘


”زندگی میں ہر وقت حوصلہ بڑھانے والے لوگ آپ کے قریب نہیں ہوں گے مگر ، اگر کتاب سے آپ کی دوستی ہے تو “ گہر ہونے تک ”کبھی بھی آپ کا حوصلہ ٹوٹنے نہیں دے گی۔ ایک قاری اور لکھاری کی حیثیت سے یہ میرا آپ سے وعدہ ہے“ ۔

یہ الفاظ ہیں پاکستان کی قلم کار صوفیہ کاشف کے جو انہوں نے اپنی کتاب ”گہر ہونے تک“ کے پیش لفظ میں تحریر کیے ہیں۔ اس قدر اعتماد ظاہر ہے کہ کسی لچر اور تھرڈ گریڈ رائٹر میں نہیں آ سکتا جو ادھر ادھر سے مارکر کتاب تیار تو کر دیتا ہے لیکن ہر لمحہ خوف میں مبتلا رہتا ہے کہ کہیں دھر دبوچا نہ جاؤں۔ پوری کتاب صوفیہ کاشف کے اسی اعتماد اور محنت کا ثمرہ ہے جسے انہوں نے سال بھر کی انتھک محنت اور جدوجہد کے بعد ترتیب دیا ہے۔

وہ خود کہتی ہیں ”میں یہ بات دعوے سے کہہ سکتی ہوں کہ اس کتاب میں کسی بھی شخصیت یا واقعہ کے بارے میں ایک ذرا سی بھی مبالغہ آرائی نہیں، ایک ایک لفظ اور جملہ بے تحاشا ریسرچ اور توجہ سے لکھا گیا ہے۔ شخصیت کی زندگی، جدوجہد، ناکامیوں اور کامیابی کی داستان میں نہ کوئی مبالغہ کیا گیا ہے نہ کٹوتی۔ محض جذبات، الفاظ اور تاثرات میرے ہیں۔ کہانیاں، واقعات، القاب و خطاب سب مستند کتابوں سے لیے گئے ہیں“ ۔

مصنفہ نے اپنی کتاب کے بارے میں جو دعویٰ کیا ہے، اس میں کافی حد تک وہ سچی ہیں اور کتاب کی ایک ایک سطر اس کی گواہی دیتی ہے۔ اس کتاب میں انہوں نے آٹھ مصنفین سڈنی، شیلڈن، اوپراونفرے، پاؤلو کوئلیو، ولیم شیکسپئر، والٹ ڈزنی، اورحان پامک، ساغر صدیقی اور ممتاز مفتی کی شخصیت کو بطور تخلیق کار دکھانے کی کوشش کی ہے۔ اس میں انھوں نے ان بڑے تخلیق کاروں کے زمین سے آسمان تک کے سفر کو انتہائی دلچسپ پیرائے میں بیان کیا ہے اور بتایا ہے کہ اس سفر کے دوران مذکورہ مصنفین نے کن کن صعوبتوں کو جھیلا، کیا کیا مصیبتیں برداشت کیں، اور کن دشوار گزار مراحل کو طے کر کے ادبی و فکری شہ پائے تخلیق کیے اور کیسے کیسے ہیرے موتی لٹائے۔ سماج کو کیا کچھ دیا اور کیسے اس دنیا سے رخصت ہوئے۔

اس کتاب میں انہوں نے ان مصنفین کے علاوہ تین پائے کے مصنفین کی معروف کتابوں پر تبصرہ اور ان کا تعارف بھی پیش کیا ہے جو عمدہ نثر اور ندرت تحریر کے باعث عمدہ تبصرہ نگاری کا نمونہ ہے۔ اس کے ذریعے نہ صرف مصنفہ کے اسلوب نگارش کا پتہ چلتا ہے بلکہ اسے پڑھنے کے بعد متعلقہ کتاب کی اہمیت کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔ یہ تین کتابیں ایلف شفیق کی فورٹی رولز آف لو، جبکہ دوسری کتاب محمد محسن کی ایگزٹ ویسٹ ہے، وہیں ایک کتاب دی گرل آن دی ٹرین ہے، جس کے مصنف پاولا ہاؤکنس ہیں۔ حالانکہ یہ تبصرے مصنفین پر لکھے گئے مضامین کی طرح جاندار تو نہیں ہیں، لیکن پڑھنے لائق ضرور ہیں۔

اس کتاب کی سب سے پہلی کہانی سڈنی شیلڈن کی ہے، جس نے سترہ سال کی عمر میں ڈرگ اسٹور پر ایک سامان پہنچانے والے لڑکے کے طور پر کام کرنا شروع کیا تھا کیوں کہ اس کے ذریعے اس کے لیے پسند کی خواب آور گولیاں چوری کرنا آسان تھا۔ خودکشی کے خواب دیکھنے والے سڈنی کی کی کہانی بہت ہی حیران کن ہے، سڈنی نے محض بارہ سال کی عمر میں اسکول کے پروجیکٹ کے لیے ایک جاسوسی ناول لکھا جو کلاس کے استاد کو حیرت زدہ کر گیا اور اسے اسٹیج کرنے کی پیش کش کی گئی۔

معیشت کی گاڑی کو دھکا دینے اور کالج کی تعلیم کو جاری رکھنے کے لیے سڈنی کو خود میدان میں نکلنا پڑا۔ سڈنی نے ایک ہوٹل میں ہینگ مین کی معمولی سے نوکری تین ڈالر فی رات کے معاوضے پر قبول کی۔ اس آمدنی سے اس کا خرچ نکلنے لگا، تین بجے سہ پہر اسکول سے واپسی پر وہ ہوٹل کے لیے بس میں بیٹھ جاتا۔ یہاں سے واپسی کبھی آدھی رات اور کبھی صبح صادق کے قریب ممکن ہوتی اور اسے اگلے دن اسکولوں اور نوکری کے لیے بغیر آرام کیے نکلنا پڑتا۔ مصنفہ نے سڈنی کی زندگی کی کہانی کو اس خوبصورتی سے بیان کیا ہے کہ چند سطروں میں اس کی تلخیص ممکن نہیں ہے۔ پوری کہانی کا ایک ایک لفظ نوٹ کرنے لائق ہے۔

دوسری کہانی اوپرائےونفرے کی ہے، مصنفہ کا ابتدائیہ ہی سحر طاری کر دیتا ہے۔ انھی کے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیں چند سطور ”ننھی اوپرا کیلے کی چھال سے بنی بوری کے کپڑے پہنے اپنی غریب نانی کو گندے کپڑے پانی میں ابالتے ہوئے دیکھتی اس لیے کہ غربت کی مہربانی سے ان کے ہاں کپڑے دھونے کا انتظام نہ تھا۔ چنانچہ کپڑے پانی میں ابال کر صاف کیے جاتے۔ اس تکلیف سے ناخوش اس کا دل کہیں لاشعوری کی تہوں سے گواہی دیتا“ میرا مقدر ایسا نہیں ہو گا ”۔

اور اس طرح اوپرا نے اپنی جدوجہد سے اپنی تقدیر خود بنائی۔ ذلت اور پستیوں کی گہرائی سے اتنی اونچائی تک کہ اس کی آنکھ کا اشارہ بڑے بڑے فن کاروں، برانڈز اور کتابیں اس کے عروج کا سبب بن گئیں۔ اس کے الفاظ سے لوگوں کی تقدیر بدلنے لگی اور نام اے ٹی ایم کی طرح استعمال ہونے لگا، جس سے جب چاہے کوئی ذرا سی معلومات دے کر جتنے چاہے پیسے نکلوا لے۔

اوبرا بیسویں صدی کی سب سے زیادہ مالدار افریقی، امریکی، امریکہ کی تاریخ کی عظیم ترین کالی انسان دوست اور شمالی امریکہ کی پہلی واحد ملٹی ملنیئر کالی عورت۔ تاریخ کا اپنی قسم کا سب سے مشہور شو اوبراونفرے شو کرنے والی اور 2006 میں امریکہ کی تاریخ میں سب سے زیادہ معاوضہ وصول کرنے والی ہستی جس کی سالانہ آمدنی پچھتر ملین یو ایس ڈالر کے قریب تھی۔ صوفیہ نے اوبرا کی داستان کو بھی نہایت ہی شگفتگی سے بیان کیا ہے جس کا ہر لفظ نگینے کی طرح خوبصورت اور کہانی بھی سبق آموز ہے۔

تیسری کہانی پاؤلو کوئیلو کی ہے۔ مصنفہ کہتی ہیں ”زندگی میں صرف ایک چیز جو آپ کو ہرا سکتی ہے اور وہ ہے ہار کا خوف اور یہ خوف پاؤلو کی کسی جیب میں نہ تھا“ ۔ پاؤلو کوئیلو کی زندگی بھی پاکبانا کے ساحل کے سمت کھلنے والی کھڑکیوں والے مہنگے اور پرتعش فلیٹ سے پہلے ریودے جنریو کے ایک مڈل کلاس علاقے کے مڈل کلاس گھرانے کے ناکام سپوت کی خوابناک کہانی کے ایک کردار جیسا ہے، ایک ایسے ناکام بیٹے اور بے بس انسان کی کہانی جو نہ تو اپنے اساتذہ سے توصیف سمیٹ سکا نہ والدین کی پلکوں پر اترنے والے خوابوں کا بوجھ اپنی پوروں سے اٹھا سکا، ایسا عام انسان جو اپنے اندر ایک مضطرب روح، ایک بے چین وجود کی شناخت کے سفر کا راہی جو لمبا بھی تھا، کٹھن بھی اور آسیب زدہ بھی۔

لیکن سالوں کی دھوپ سر پر کاٹنے اور صدیوں کا بوجھ کندھوں پر اٹھا لینے کے بعد یہ مضطرب روح منظر عام پر آئی تو نہ صرف یہ کہ شہرت کی تمام حدیں پار کر گئی بلکہ ہزاروں لوگوں کو خواب دینے، نئی دنیائیں دریافت کرنے کی تحریک دینے کے اسباق سکھانے لگی، دنیا بھر میں دو سو ملین سے زیادہ بکنے والی کتابوں اور اسی (80) زبانوں میں ترجمہ ہونے والے ناول الکیمسٹ کا مصنفہ جس کے الفاظ ہزاروں لاکھوں لوگ روزانہ سونے سے پہلے زندگی اور معاشرے کے ہاتھوں اپنی کچلی روحوں کو تسلی دیتے ہوئے پڑھتے ہیں، اپنے ماضی کو دفن کرنے اور نئی صبح کو روشن کرنے کا عزم کرتے ہیں، اسی کا نام پاؤلو کو ئیلہو ہے جس کی کہانی صوفیہ نے قرطاس پر اتار کر ان لوگوں کے لیے ایک امید کی راہ سجھائی ہے، جو منزل دور دیکھ کر سو جاتے ہیں۔ اس کہانی کے ذریعہ کو ئیلہو کی زندگی کے کئی اہم گوشوں کا علم ہوتا ہے جس سے ہم پہلے واقف نہ تھے۔

چوتھی کہانی ویلیم شیکسپیئر کی ہے جو صدیاں بیت جانے کے باوجود آج بھی انگریزی زبان و ادب پر راج کر رہا ہے۔ شیکسپیئر جب پیدا ہوئے اس وقت برطانیہ کے مختلف علاقوں میں ہیضہ کا مرض پھیلا ہوا تھا، ان کے والد جان شیکسپیئر بلدیہ میں ملازم تھے اس درمیان انہیں کافی رفاہی کام کرنے کا موقع ملا جس کی و جہ سے ان کی ترقی ہوئی اور ان کے بچوں کو تعلیم کے مواقع ملے مگر ابھی شیکسپئر تیرہ سال کے بھی نہ ہوئے تھے کہ تعلیم منقطع کرنا پڑا۔

18 سال کی عمر میں اپنی عمر سے بڑی خاتون کے ساتھ شادی کی اس کی وجہ جو بھی رہی ہو، لیکن اس کی وجہ سے ولیم کی مالی تنگی ضرور دور ہوئی، مگر بے چین روح کو سکون کہاں ملنے والی تھی، ولیم سالوں غائب رہے، اس دوران تقریباً گیارہ سال بعد ان کا سراغ لندن کے مشہور تھیٹرز کی کہانیوں اور ڈراموں سے ملتا ہے، اس کے بعد تھیٹر میں سرمایہ کاری، اس کے ڈراموں کی اشاعت، شاعری کے مجموعے کا منظر عام پر آنا، اس کی شہرت، غربت، کوشش اور پھر اس سے باہر نکلنے کے لیے شیکسپیئر کی جدوجہد کو خوبصورتی سے بیان کیا گیا ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔

پانچویں کہانی والٹ ڈزنی کی ہے جو لکی ماؤس اور ڈزنی لینڈ کے خالق کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ سنہرے بالوں اور تیکھے نقوش والے شرارتی اور ہنس مکھ وائٹ ڈزنی کا بچپن مارسلین کے ایک فارم ہاؤس پر گزرتا ہے، پچھلی دو صدیوں میں انتہائی زرخیز تخیل کے مالک والٹ کی محنت، جستجو اور ریاضتوں کی کہانی جوانی کے خوبصورت خوابوں سے نہیں بلکہ بچپن کی نوخیز نرم ہتھیلیوں اور ننھے پیرو سے ہی شروع ہوجاتی ہے۔ فطرت جن افراد کو بلند مقام کے لیے تخلیق کرتی ہے انہیں کندن بنانے کے لیے آغاز سے ہی معصوم اور کمزور ہاتھوں کو سنگ تراشی کی صلاحیت عطا کر دیتی ہے، ڈزنی کا بچپن بھی غربت و افلاس میں والدین کے شانہ بشانہ معاشیات کو سنبھالنے کی کوشش میں گزرا۔

والد کے کاروبار میں ہاتھ بٹاتے نو سالہ وائٹ ایک بڑے علاقے میں گھر گھر دو بار اخبار پہنچاتا، مگر اس کے باوجود اس کی جیب میں پاکٹ منی کے نام پر ایک سکہ تک نہ ہوتا، پاکٹ منی کے حصول کے لیے نو سالہ وائٹ نے فارمیسی کی ادویات سپلائی کی اور اسکول کے تفریح کے اوقات میں ایک دکان پر ٹافیاں بیچیں تاکہ خود کچھ سکے والد سے نظر بچا کے اپنے لیے رکھ سکے، اخباروں سے بھری ریڑھی دھکیلتے سردی کی کپکپاہٹ سے تھک کر کبھی اخباروں کے ڈھیر میں اور کبھی کسی گاہک کے گھر پورچ میں لیٹ کر سو جانا وائٹ ڈزنی کا شوق نہیں جان توڑ مجبوری تھی، اور یہ مزدوری کم وبیش چھ سال تک والٹ نے سنبھالی، اس مشقت کی تھکاوٹ اور مزدوری کی الجھنیں اس کے لاشعور پر ایسے گہرے نقوش چھوڑ گئیں کہ ساری عمر اسے ایک ڈراؤنے خواب کی طرح یاد رہیں۔

حتی کہ چالیس سال کی عمر میں بھی والٹ آدھی رات کو پسینے میں شرابور اس خوف سے اٹھ بیٹھتا کہ کوئی گھر اخبار پھینکنے سے رہ نہ جائے اور گلی کے نکڑ پر کھڑا اس کا باپ اسے دوبارہ وہاں اخبار پھینکنے کے لیے اسی طویل رستے پر نہ دوڑا دے۔ ڈزنی کی یہ ایک طویل اور جدوجہد پر مبنی کہانی ہے جس سے ان کی لکھنے کی عادت، زندگی کے اتار چڑھاؤ، مصیبت اور دکھ کے ساتھ ساتھ ہار اور جیت کا اندازہ ہوتا ہے۔

چھٹی کہانی ترکی کے مشہور ادیب اور ناول نگار اور ہان پامک کی ہے جس میں ان کی زندگی کے مختلف نشیب و فراز، دکھ سکھ کی کہانی کے ساتھ ساتھ ان کے لکھنے پڑھنے کے شوق، فن اور آرٹ سے دلچسپی وغیرہ کو خوبصورتی سے بیان کیا گیا ہے۔ مصنفہ کے بقول : انیس سالوں سے زیادہ عرصہ ڈیسک پر تنہا بیٹھ کر لکھنے والے اور ہان کے کل لکھے کا صرف چند فیصد ہی قارئین کے ہاتھوں پہنچ سکا ہے، اپنی تحریر سے کبھی مطمئن نہ ہونے والے اورحان کی اتنی محنت مشقت ہی اس کی زندگی کا بنیادی جزو رہا جس سے اسے دنیا کے صف اول کے لکھاریوں میں جگہ دی اور ترکی میں ادب کا نوبل پرائز حاصل کرنے والا واحد لکھاری بنا دیا۔

ساتویں کہانی اردو کے معروف شاعر ساغر صدیقی کی ہے۔ محمد اختر شاہ کے نام سے ایک غریب محلے میں پیدا ہونے والے شاعر ساغر صدیقی اوائل عمر سے ہی یتیمی کا شکار تھے، غربت کی کوکھ سے جنم لینے والے ساغر اسکول یا مدرسے کی اوقات نہ رکھنے کے باوجود گلیوں محلوں میں آوارہ پھرنے کے بجائے محلے کے ایک بزرگ حبیب حسن سے سبق لے کر تعلیم سے جڑے رہے، ساغر کی غیر رسمی تعلیم اس کی زبان کی مہارت اور الفاظ کی جادوگری کے لیے ایسی بار آور ثابت ہوئی کہ سولہ سال کی عمر سے شاعری کی فتوحات ساغر صدیقی کا پیچھا کرنے لگی۔

مصنفہ نے ساغر کی اس کہانی کو اداسی اور دکھ میں لپیٹ کر اس انداز میں پیش کیا ہے کہ آنکھیں بھر آتی ہیں۔ مصنفہ کہتی ہیں : ”چونی دینے والوں، مفت کی شاعری اڑانے والوں اور پیسے دبا کر بیٹھنے والوں نے مرجانے کے بعد ساغر بابا کی موت پر خوب وفا نبھائی کہ جس کے سر پر چھت نہ تھی اس کا سنگ مرمر سے مزین مزار بن گیا، جو جسم سڑکوں پر تنہا ننگے سر دھوپ اور بارش سہتا رہا اس کے مزار پر سالانہ میلے لگنے لگے“ ۔

آٹھویں کہانی ممتاز مفتی کی ہے جنہوں نے ”الکھ نگری“ ، ”لبیک“ اور ”آپ“ جیسی کتابیں لکھ کر تخلیقی دنیا کو حیران کر دیا۔ ممتاز مفتی پر یہ مختصر مگر جامع تحریر دل کو چھو جانے والی ہے، جس میں مصنفہ نے بڑی خوبصورتی کے ساتھ مصنف کی زندگی اور ان کی تخلیقی سرگرمیوں کو دلچسپ انداز میں بیان کیا ہے۔

دوسرے حصے میں مصنفہ نے کچھ کتابوں کا تعارف کرایا ہے جس کا تذکرہ اوپر ہو چکا ہے، یہ تبصرے بھی دلچسپ اور خوبصورت انداز میں لکھے گئے ہیں۔ جو کسی بھی قاری کو پڑھنے پر مجبور کرتے ہیں۔ تقریباً 172 صفحات پر مشتمل اس کتاب کی زبان و بیان سلیس اور رواں ہے۔

اس کتاب کو عکس پبلی کیشن نے شائع کیا ہے جس کی قیمت 700 روپے ہے۔ سر ورق اور کتابت و طباعت بھی نفیس اور جاذب نظر ہے۔ مجموعی طور پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ دنیا کے بڑے تخلیق کاروں کی حصول منزل کے لیے کی گئی محنت کی سچی داستان بیان کرتی یہ ایک عمدہ کتاب ہے جس میں لکھنے پڑھنے والوں کے لیے بہت کچھ ہے۔ ایسی عمدہ کتاب کے لیے مصنفہ مبارک باد کی مستحق ہیں، ہم امید کرتے ہیں کہ مصنفہ کا تخلیقی سفر جاری رہے گا اور ان کے قارئین کو عمدہ چیزیں پڑھنے کو ملتی رہیں گی۔

محمد علم اللہ جامعہ ملیہ، دہلی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

محمد علم اللہ جامعہ ملیہ، دہلی

محمد علم اللہ نوجوان قلم کار اور صحافی ہیں۔ ان کا تعلق رانچی جھارکھنڈ بھارت سے ہے۔ انہوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ سے تاریخ اور ثقافت میں گریجویشن اور ماس کمیونیکیشن میں پوسٹ گریجویشن کیا ہے۔ فی الحال وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ’ڈاکٹر کے آر نارائنن سینٹر فار دلت اینڈ مائنارٹیز اسٹڈیز‘ میں پی ایچ ڈی اسکالر ہیں۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا دونوں کا تجربہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے دلچسپ کالم لکھے اور عمدہ تراجم بھی کیے۔ الیکٹرانک میڈیا میں انھوں نے آل انڈیا ریڈیو کے علاوہ راموجی فلم سٹی (حیدرآباد ای ٹی وی اردو) میں سینئر کاپی ایڈیٹر کے طور پر کام کیا، وہ دستاویزی فلموں کا بھی تجربہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے نظمیں، سفرنامے اور کہانیاں بھی لکھی ہیں۔ کئی سالوں تک جامعہ ملیہ اسلامیہ میں میڈیا کنسلٹنٹ کے طور پر بھی اپنی خدمات دے چکے ہیں۔ ان کی دو کتابیں ”مسلم مجلس مشاورت ایک مختصر تاریخ“ اور ”کچھ دن ایران میں“ منظر عام پر آ چکی ہیں۔

muhammad-alamullah has 170 posts and counting.See all posts by muhammad-alamullah

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments