صحافت برائے فروخت


مجھے اس کی تلاش میں کئی برس بیت گئے ہیں۔ کیونکہ مجھے اس کی یاد بہت ستایا کرتی ہے۔ اس کی تلاش میں وطن عزیز کے تمام اخبارات و جرائد کے دفاتر چھان مارے۔ بڑے نامی گرامی میڈیا ہاؤسیز کھنگال ڈالے۔ مگر مجھے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ مجھے کہیں نظر نہیں آئی۔ قارئین میری یہ تلاش کسی حسین دوشیزہ کی نہیں ہے۔ بلکہ میں جس کی تلاش میں در بدر پھر رہا ہوں، میری اس تلاش کا نام ہے میرے ملک کی ”صحافت“ جو دو دہائی سے بھی زیادہ عرصے سے لاپتہ اور ناپید ہو چکی ہے۔ اور ہماری تمام تر جستجو اور کاوشوں کے باوجود ہمیں کہیں دکھائی نہیں دے رہی۔

آنکھ کھلتے ہی ہماری اس سے پہلی ملاقات ہوئی اور پھر جوں جوں عمر رواں آگے بڑھتی رہی اس سے شناسائی گہری سے گہری ہوتی رہی۔ گو کہ ہم نے سن اسی کی دہائی کے بعد کی ہی صحافت کو دیکھا ہے۔ مگر اپنے بڑوں سے صحافتی تاریخ سن رکھی تھی۔

ایک وقت تھا جب اسکول کالج اور درس گاہوں میں طالب علموں کی ذہنی و فکری نشو و نما ہوا کرتی تھی۔ ان کو اردو ادب پڑھایا جاتا تھا۔ تعلیمی اداروں سے ادبی جرائد و رسائل کی اشاعت ہوا کرتی تھی۔ جہاں نئے لکھنے والوں کا موقع دیا جاتا تھا۔ ان کی صلاحیتوں کو نکھارا جاتا تھا۔ اور اس کے نتیجے میں ملک کو بہترین لکھاری، افسانہ نگار، شاعر و صحافی کثیر تعداد میں ملتے رہے۔ جنھوں نے اپنی علمی و ادبی صلاحیتوں کے باعث بہت نام کمایا۔

دور جدید میں انٹرنیٹ نے روابط کو اتنا آسان بنا دیا ہے کہ پوری دنیا سمٹ کر ایک گلوبل ویلج (Global village) کی حیثیت اختیار کر چکی ہے۔ جہاں صرف ایک کلک پر دنیا سمٹ کر آپ کے اسکرین پر آجاتی ہے۔ مگر اس کو بدقسمتی ہی کہیں گے کہ جہاں جدید ٹیکنالوجی تیزی سے اپنا سفر طے کر رہی ہے۔ وہیں ہماری تہذیب، روایات، اقدار، اور علم و ادب میں نمایاں کمی آتی جا رہی ہے اور وہ بلندی پر جانے کی بجائے انتہائی تیزی سے نیچے کی طرف آ رہی ہے۔ ایک وقت تھا جب صحافت و اردو ادب کو انتہائی معزز پیشہ سمجھا جاتا تھا۔

برطانوی ادیب جارج برنارڈ شا نے صحافت کی مختصراً تعریف یوں بیان کی ہے۔ ‏ ”All great literature is Journalism۔ اعلیٰ ادب دراصل صحافت ہے۔ قرب زمانی اور تازگی صحافت کی جان ہے۔ اور گزشتہ ادوار میں ہم نے یہ ہی سب کچھ دیکھا سنا اور پڑھا۔ مگر افسوس صد افسوس آج جب ہم میڈیا ہاؤسیز میں موجود ان نام نہاد غیر تربیت یافتہ حضرات کو دیکھتے ہیں، جو خود کو صحافی تو کہتے ہیں مگر وہ صحافتی تہذیب ادب ’آداب و اخلاقیات سے ذرا بھی واقفیت نہیں رکھتے۔ ان کی گفتار ان کا انداز تکلم دیکھ کر دل پر بہت چوٹ لگتی ہے۔

میں نہیں جانتا کے ان دنوں میرے اندر بغاوت کا لاوا کیوں جوش مار رہا ہے۔ جب موجودہ دور کی صحافت کو کسی کوٹھے پر فروخت ہوتے دیکھتا ہوں یا حالیہ کساد بازاری کے دور میں روحانی، انسانی، علمی، ادبی و اخلاقی قدروں کو ہر طرح سے پامال ہوتا دیکھتا ہوں تو میرا خون نا جانے کیوں جوش مارتا ہے۔ میں نے زمانہ کمسنی میں ہی صحافتی اقدار کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔ گو کہ لکھنے لکھانے کا سلسلہ کبھی اتنا طویل نہیں رہا مگر اپنے ارد گرد کے ماحول میں اصل صاف ستھری نفیس صحافت ضرور دیکھی ہے۔ اور صحافتی آزادی کی ایک طویل جدوجہد کے قصے کچھ دیکھے بھی ہیں اور کچھ سنے بھی ہیں۔ جنرل ضیاء الحق کا دور مجھے اتنی اچھی طرح یاد نہیں ہے۔ مگر اس دور کی صحافتی جدوجہد کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔

ابراہیم جلیس، منہاج برنا، شوکت صدیقی، احفاظ الرحمن، نثار عثمانی، حسین نقی، خاور نعیم ہاشمی، اقبال جعفری، ناصر زیدی، عارف الحق عارف، نذیر خان، نسیم شاد، شریف کمال عثمانی، خالد سعید، شہریار جلیس، یوسف خان، اقبال جعفری، مشتاق سہیل، حسن عابدی، علی مختار رضوی، ارشاد احمد خان، ناصر بیگ چغتائی، ولی رضوی، آفاق فاروقی، زاہد حسین، نادر شاہ عادل، وجاہت مسعود، شین فرخ، مہناز رحمان، شمیم اختر، اور ان جیسے بہت سے ایسے نام ہیں جن کو لکھنے بیٹھوں تو صفحات کم پڑ جائیں گے۔

یہ تمام لوگ پاکستانی صحافت کے وہ انمول ہیرے تھے۔ جنھوں نے اپنی تمام عمر سامراج کی ریشہ دوانیوں کے خلاف ایک جہد مسلسل کری۔ اور ملک کے مظلوم کچلے ہوئے طبقے کے حقوق کے لئے حق صداقت بلند کرتے رہے۔ ان میں سے اکثریت جو دار فانی سے عالم جاودانی کی طرف کوچ کر گئے۔ اور اس حسیں گلدستے کے جو چند انمول پھول باقی رہ گئے ہیں۔ افسوس وہ گمنامی کی زندگی گزار رہے ہیں۔

پاکستانی صحافتی خدمات کے اعتراف میں ان حقیقی صحافیوں کو جو مرتبہ و مقام ملنا چاہیے تھا افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے وہ اس سے محروم ہیں۔ اور ان کی جگہ غیر تربیت یافتہ مصنوعی طریقوں سے پیدا کردہ ٹیسٹ ٹیوب صحافیوں کی بھرمار ہے۔ جو نا صرف مخصوص ایجنڈوں پر اپنے ضمیر کا سودا کر رہے ہیں بلکہ پاکستانی صحافت کو زرد آلود کرچکے ہیں۔

آج میرے ملک پاکستان میں ہر ڈاکٹر، اسکالر، نیوز کاسٹر، اداکار، اور ایف اے فیل نمونے اینکر یوٹیوبر بن کر خود کو صحافی کہلواتے ہیں۔ شاید وہ صحافتی اقدار کی الف ب سے بھی واقف نہیں ہوں گے۔ مگر آج وہ اینکرز صاحبان ایک مخصوص ایجنڈوں پر پر یا تو طاقت ور طبقوں کے اشاروں پر رات دن مفکر پاکستان بن کر عوام کا برین واش کر رہے ہوتے ہیں۔ یا سیاسی جماعتوں کے پے رول پر پل کر صحافتی اقدار کی دھجیاں بکھیر رہے ہوتے ہیں۔

ان کی زباں، ان کا انداز تکلم کہیں سے بھی کسی تہذیب یافتہ معاشرے کی عکاسی نہیں کرتا۔ صحافتی تعلیم تو آپ کی زباں کو سب سے پہلے شیریں بنانے کی تعلیم دیتی ہے۔ صحافتی اصولوں میں سب سے پہلا اصول یہ ہوتا ہے کہ آپ کو پارٹی نہیں بننا۔ صحافی ایک آزاد حیثیت کا شخص ہوتا ہے۔ میری ناقص رائے کے مطابق اصل صحافی وہ ہے جس نے پرنٹ میڈیا میں کام کیا ہے۔ جس نے لکھنا لکھانا سیکھا ہے۔ جس نے اپنے تند و تیز زباں کی بجائے اپنے قلم کا سہارا لیا ہے۔ پرنٹ میڈیا کے صحافی ہی صحافتی اقدار سے واقف تھے۔ جو خبر بناتے وقت ایڈیٹر تک پہنچنے سے پہلے ہی کسی پریس ریلیز سے غیر مناسب اور بازاری جملوں کو خود ہی ہدف کر دیا کرتے تھے۔

ایک وقت تھا جب صحافت کو سب سے معزز پیشہ سمجھا جاتا تھا۔ جہاں وہ اخبار نویس اپنے محدود تر وسائل کے باوجود اپنا کام ایمانداری، خلوص دل اور انتہائی جانفشانی سے انجام دیا کرتے تھے۔ وطن عزیز کے نامور شاعر، ادیب و صحافی ویگنوں اسکوٹرز اور بسوں پر سفر کیا کرتے تھے۔ ان کی ساری زندگی انتہائی کسمپرسی میں گزری۔ مگر اس کے باوجود وہ اخبار نویس وہ لکھاری معاشرے میں سب سے زیادہ باعزت سمجھے جاتے تھے۔ مجھے بہت اچھی طرح یاد ہے ممتاز شاعر ادیب و صحافی جون ایلیا مرحوم میرے والد محترم نسیم شاد کے ہمراہ موٹر سائیکل پر بیٹھ کر ہمارے گھر تشریف لایا کرتے تھے۔ اور ان کی واپسی اکثر ویگنوں پر ہوا کرتی تھی۔ ممتاز انقلابی شاعر حبیب جالب بھی اپنے دفتر یا کسی محفل مشاعرہ میں شرکت کے لئے بسوں پر سفر کیا کرتے تھے۔ ان بڑے لوگوں نے خالی جیب میں بھی کبھی اپنے قلم کی حرمت کو پامال نہیں ہونے دیا۔

اس دور کے بڑے بڑے لکھاری ادیب صحافی اپنے محدود وسائل میں شام کو ایرانی قہوہ خانوں میں نشستیں لگایا کرتے تھے۔ اور ان کی طویل نشستوں میں بھی وہ اردو ادب، صحافت اور حالات حاضرہ پر مبادلہ خیالات کرتے۔ وہ دور صحافت اگر آج ہوتا تو آج کے بڑے بڑے وہ اینکرز جن کو کلف لگا ہوا ہے، وہ دوسرے دن ہی باہر ہو جاتے۔ اس دور میں اعلیٰ تعلیم یافتہ اور علم و ادب سے آشنا قابل افراد ہی صحافتی میدان میں قدم رکھ سکتے تھے۔

یہ وہ وقت تھا جب مختلف نیوز ایجنسیوں کی طرف سے اخبارات کو انگریزی میں پریس ریلیز فیکس کی جاتی تھیں۔ جس کو کریڈ کہا کرتے تھے۔ رپورٹر اس کا ترجمہ کر کے خبر بنایا کرتا تھا۔ جو سہل کام نہیں تھا۔ اور اگر اتفاق سے کسی غلطی سے کسی اخبار میں کسی شخصیت کے بارے میں غلط خبر لگ بھی جایا کرتی تو اگلے روز فرنٹ پیج پر ایڈیٹر کی طرف سے معذرت کی جاتی تھی۔ مگر اس کے برعکس آج تو صرف پگڑیاں اچھالنے کا کام ہوتا ہے۔ الیکٹرانک میڈیا مفاد پرستی اور کمرشلائزیشن کا شکار ہو کر صحافتی اقدار سے دور جا رہا ہے۔

گزشتہ روز فیس بک پر کراچی کے ایک سینئر اخبار نویس سے ہماری گفت و شنید ہوئی۔ جو ہمارے والد گرامی کے رفقاء میں سے ہیں۔ رسمی گفتگو کے بعد جب ہم نے ان سے سوال کیا کہ آج کل آپ کس اخبار یا ادارے سے منسلک ہیں۔ تو انھوں نے انتہائی مایوسی کے عالم میں کہا آج کل ہم بے روزگار ہیں۔ اور ہمارے ادارے جس سے ہم گزشتہ تیس سال سے منسلک تھے اس نے ہمیں اور ہمارے جیسے کئی اور سینئر اخبار نویسوں کو فارغ کر دیا ہے۔ گزر بسر کے لئے آج کل ہم اور ہماری زوجہ محترمہ گھر میں تیار کردہ دال چاول کی ہوم ڈیلیوری کا کام کر رہے ہیں۔ جس سے بس گزر بسر ہو ہی جاتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ شاید ہم بوڑھے ہوچکے ہیں یا ہم وہ زبان نہیں بول یا لکھ نہیں سکتے جو ہم سے بلوائی جاتی ہے۔ ہم نے تو ضیاء دور میں بھی اپنے قلم کی حرمت کا سودا نہیں کیا تو پھر ہم کیسے آج میڈیا ہاؤسیز یا اخباری مالکان کے اشاروں پر اپنے قلم کا سودا کر دیں۔

ان کا کہنا تھا پاکستان میں صحافت کا موسم اب بالکل تبدیل ہو چکا ہے۔ اب وہ زمانہ نہیں رہا جب صحافت کو ایک معزز پیشہ سمجھا جاتا تھا۔ آج میڈیا ہاؤسیز میں غیر تربیت یافتہ اور نا اہل لوگوں کی بھرمار ہے۔ جو مخصوص ایجنڈوں پر کام کر رہے ہیں۔ بھتہ خوری اور بلیک میلنگ عروج پر ہے۔ صرف وہ ہی لوگ اب اس پیشے میں پسند کیے جاتے ہیں جو ان کاموں میں عبور رکھتے ہیں۔

خاکسار ان کی کہی ہوئی بات سے سو فیصد متفق ہے۔ آج بڑے بڑے میڈیا ہاؤسیز میں بیٹھے ہوئے نام نہاد اینکرز حضرات کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ کہیں سے بھی کسی تہذیب یافتہ قوم یا اس تہذیب یافتہ پیشے کے نہیں لگتے۔ پرنٹ میڈیا پر کام کرنے والے لکھاریوں نے اپنی ساری زندگی انتہائی کسمپرسی میں گزاری ہے۔ جو کرائے کے گھروں میں رہتے تھے اور پبلک ٹرانسپورٹ پر سفر کرتے تھے۔ بعض اوقات ان کے اداروں کی طرف سے تین تین ماہ کی تنخواہیں بھی نہیں ملتی تھیں۔

مگر انھوں نے کبھی اپنے قلم کا سودا نہیں کیا۔ ان کا قلم ہمیشہ وقت کے قد آور دیوتاؤں کو للکارتا رہا۔ انھوں نے کبھی اپنے صحافتی اصولوں کا سودا نہیں کیا۔ مگر آج یہ خودساختہ صحافی و اینکرز حضرات نا صرف لاکھوں روپے تنخواہ وصول کر رہے ہیں۔ بلکہ اوپر سے ایک ایک پروگرام کے عوض بھاری لفافہ بھی لیتے ہیں۔ اور صحافتی جڑوں کو کمزور سے کمزور کر رہے ہیں۔ ان کا نا ہی کوئی اپنا نظریہ ہے نا ہی کوئی سوچ ہے۔ یہ صرف ان قوتوں کی ترجمانی کر رہے ہیں، جنھوں نے قیام پاکستان کے بعد سے پاکستان اور یہاں کے عوام کو یرغمال بنایا ہوا ہے۔ جب کوئی ان کے خلاف حق صداقت بیان کرنے کی جسارت کرے تو اس کو بھارتی ایجنٹ اور غدار بنا دیا جاتا ہے۔

ایسا محسوس ہوتا ہے ساری حب الوطنی صرف ان قوتوں کے دلوں میں ہے۔ اور آئینہ دکھانے والا ہر انسان غدار ہے۔ جو ان کے بتائے ہوئے راستوں پر چلے وہ سو قتل کرنے کے بعد بھی محب وطن۔ اور جو ان کی پالیسیوں پر سوالات اٹھائے وہ بھارتی ایجنٹ۔

رہی سہی کثر سوشل میڈیا و یوٹیوبرز پر بیٹھے ہوئے ایف اے فیل، عقل و فہم و فراست سے قاصر یوٹیوبرز نے پوری کردی۔ جہاں جس کا دل چاہا اپنا چینل بنایا اور خود کو صحافی سمجھ کر محض چند ٹکوں کے حصول کے لیے لوگوں کی پگڑیاں اچھالتا پھرے۔ ان کی عزتوں کو تار تار کرتا رہے۔ ان کو معاشرے میں رسوا کرتا رہے۔ جس کی تازہ ترین مثال عامر لیاقت حسین تھے جو ان خود ساختہ سوشل میڈیا ایکٹوسٹ و نیم حکیم یوٹیوبرز کے ظلم و بربریت کا نشانہ بن کر اس دار فانی سے عالم جاودانی کی طرف کوچ کر گئے۔

آخر میں ان تمام سوشل میڈیا ایکٹوسٹ اور یوٹیوبرز حضرت سے انتہائی مؤدبانہ انداز میں کہنا چاہتا ہوں۔ آپ کو کسی بھی جماعت کسی بھی شخص کے موقف اس کے نظریات سے اختلاف رائے کا بالکل سو فیصد حق حاصل ہے۔ لیکن گالی گلوچ، فتوے بازی اور کسی کی ذاتی زندگی میں دخل اندازی اس کا تمسخر اڑانا اس کی نازیبا میمز بنانا سیاست یا صحافت نہیں غنڈہ گردی اور جہالت ہوتی ہے۔ آپ کا ایسا عمل آپ کے شعور کو کند کرتی جس کی اجازت ہمیں ہمارا مذہب بھی نہیں دیتا۔ سورہ الحجرات میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :

”اے ایمان والو! کوئی قوم کسی قوم کا مذاق نہ اڑائے ممکن ہے وہ لوگ ان (تمسخر کرنے والوں ) سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں ہی دوسری عورتوں کا (مذاق اڑائیں ) ممکن ہے وہی عورتیں ان (مذاق اڑانے والی عورتوں ) سے بہتر ہوں، اور نہ آپس میں طعنہ زنی اور الزام تراشی کیا کرو اور نہ ایک دوسرے کے برے نام رکھا کرو، کسی کے ایمان (لانے ) کے بعد اسے فاسق و بدکردار کہنا بہت ہی برا نام ہے، اور جس نے توبہ نہیں کی سو وہی لوگ ظالم ہیں“ ۔

(الحجرات، 49 : 11 )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments