احمد اقبال صاحب! ایک ادیب سے اس سنگدلی کی توقع نہ تھی


کتنے مرد شعرا جنہوں نے ٹرین سے کٹ کر خود کشی کی۔ کس نے ان کے اعمال کو ذمہ دار ٹھہرایا۔ کتنے ادیب اور شعرا قتل ہوئے۔ کس نے ان کے جان سے جانے کی وجہ ان کی بد کرداری قرار دی۔ مگر سارا شگفتہ آج بھی معتوب ٹھہرتی ہے۔

سیمیں درانی ایک ادیبہ شاعرہ کی اندوہناک موت پر شدید غم و غصے میں کی گئی پوسٹ پر ایسے ظالمانہ تبصرے کسی ادیب کے نہیں ہو سکتے۔ لیکن یہ تبصرے اس وقت کیے گئے جب ہم ایک ادیبہ کی المناک موت پر نوحہ کناں تھے۔ یہ طے ہونا باقی ہے کہ سیمیں درانی کی موت کی اصل وجہ کیا تھی۔

یہ فیس بک جسے احمد اقبال صاحب چنڈو خانہ قرار دیتے ہیں، ہماری ایک پوسٹ پر کچھ یوں تبصرہ فرماتے ہیں۔

“قتل کے آثار واضح ہیں۔ اور اس جیسی عورت کا انجام یہی ہونا تھا۔ اچھا تھا شوہر اور بچوں کو چھوڑ دوستوں کے ساتھ رہتی۔ آزاد ہوتی کہ سگرٹ پئے یا کچھ اور۔ مگر گھر ایسے نہیں چلتے زندگی بھی ایسے نہیں چلتی۔ یہ پاکستان ہے امریکا نہیں”

اس پر ہم نے جواب دیا

مگر یہاں تو ایسے کیسز بھی ہیں کہ پردہ دار وفا شعار گھر گرہستن عورت شوہر سے قتل اور محرم رشتے داروں سے ریپ ہوتی ہے۔

سگریٹ پینا مردوں سے دوستی ہو گی تو عورت کو قتل کر دیا جائے!

مصباح نوید نے لکھا

تو پھر سگریٹ پیتے مردوں کا بھی قتل ہونا چاہیے۔ عجیب معاشرہ ہے یہاں دوستی گناہ ہے اور دشمنی اور قتل عین ثواب ہے۔

اس پر مہناز رحمان نے جواب دیا
ایک ادیب سے اس سنگدلی کی توقع نہیں تھی۔

احمد اقبال صاحب نے مزید تبصرہ کیا۔

“حقیقت انہوں نے ہی بتائی جو اس کے دوست تھے اور رفتہ رفتہ سامنے آئی۔ یہ واقعی بہت تلخ تھی۔ میں تو اسے جانتا بھی نہیں تھا لیکن پروین شاکر۔ سارہ شگفتہ۔ زاہدہ حنا کشور ناہید اور فہمیدہ ریاض کے علاوہ متعدد خواتین کی زندگی کی کہانی دیکھی ہے۔ کسی خواب نگر میں آپ بھی نہیں رہیں۔ آپ اور عاصمہ جہانگیر جیسی خواتین کا کردار باعث تقلید ہونا چاہے۔ مگر نہیں ہے۔ اس وقت میں کم سے کم ایک درجن خواتین کو جانتا ہوں جو اندر کی اور باہر کی جنت کے لیے زندگی کو جہنم بنا چکی ہیں۔ ان کے مقابلے میں مادھوری ڈکشٹ۔ دیپیکا پیڈیکون۔ ایشوریا رائے جیسی متعدد کامیاب خواتین نے کروڑوں اربوں کمانے کے بعد کامیابی اور شہرت کی دنیا پر حکمرانی چھوڑ کے خود کو گھر میں قید کر لیا۔ گھر بہت ضروری ہے اور عام مرد عورت کے لیے پہلی ترجیح”

ان کے اس تبصرے پر معروف ادیبہ نسیم سید صاحبہ نے لکھا

؎ احمد اقبال صاحب آپ ایک درجن خواتین کو تو جانتے ہیں جو اندر اور باہر کی جنت کے لئے زندگی کو جہنم بنا چکی ہیں لیکن یہ تحقیق شاید مردوں کے لئے نہیں کی ہوگی کہ گھر بھی جنت بنائے رہتے ہیں باہر کے لئے ایک الگ جنت بغل میں دبائے پھرتے ہیں۔ جن خواتین کے آپ نے نام لئے سب مثالی ہیں اور انہوں اپنا نام آپ جیسوں کے ذہن پر بھی نقش کر دیا ہے۔

احمد اقبال صاحب نے نسیم سید کو جواب دیتے ہوئے فرمایا۔

بجا ارشاد۔ تفریح کے لئے آدمی کاغان سے کولا کانپور اور دنیا بھر کے ریزورٹس میں جاتا ہے لیکن کتنے دن کے لیے دنیا کے بہترین پر آسائش ہوٹل موٹل اس کے گھر کا متبادل نہیں بنتے۔ بغل میں جنت دبا کے پھرنے والے بھی ایک گھر ضرور رکھتے ہیں جہاں رشتے ملتے ہیں بیوی بچے ماں باپ بھائی بہن ”۔ آپ جیسوں“ کا حوالہ دے کر آپ نے مجھے بس گالی دی ہے کیونکہ آپ مجھے جانتی نہیں ہیں۔ میری عمر چھیاسی سال ہے اور میری شادی کو ساٹھ سال ہونے والے ہیں پچاس برس سے میں لکھ رہا ہوں۔

پینتالیس سال پہلے اسی پیشے کی آمدنی سے گاڑی خرید چکا تھا اور اس میں مبالغہ کو ٔ نہیں کہ دنیا میں جہاں اردو پڑھی جاتی ہے میرے قدر شناس موجود ہیں میری ذاتی لائیبریری میں شعر و ادب کی پانچ ہزار سے زائد کتابیں موجود ہیں۔ اپ کے جواب میں یہ کہنا کافی تھا کہ کیا آپ بھی وہ جنت رہی ہیں جسے لوگ بغل میں دبائے پھرتے ہیں لیکن میں ایسا سوچ بھی نہیں سکتا کہ آپ جیسی کسی خاتون کے ساتھ نا شائستہ رویہ اختیار کروں۔ میں نے آپ کی پروفائل دیکھ لی ہے۔

شہناز احد صاحبہ نے لکھا
کون جانے اس پے کیا گزرتی تھی یا گزری

ایک اور پوسٹ پر وہ نئیر رانی شفق کو جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ سیمیں نے خود کو مردار خوروں کے سامنے ڈال دیا۔ میں نے پوسٹوں سے جانا کہ وہ شمع محفل تھی۔ سب کے درمیان سگریٹ بھی پیتی تھی۔ دوستوں کے گلے میں باہیں ڈال کر تصویریں بھی بنوا لیتی تھی۔

بزرگی با عقل است نہ با سال

کاغذ پر الفاظ اتریں یا پیٹ کے اندر رہ جائیں، اگر آپ حساس نہیں، درد مند دل نہیں رکھتے، الفاظ اثر کھو بیٹھتے ہیں۔ اور ڈھیروں کتابیں محض ردی ہیں۔

غیر عورتوں، مداحوں میں گھرے، شہرت اور شراب کے نشے میں چور ادیبوں کی بیویاں اپنے شوہر کے ادبی قد پر ناز کرتے چھوٹی رہ جاتی ہیں۔ ان کا نام ادیب کی بیوی کی حیثیت سے انتساب یا دیباچہ میں رہ جا تا ہے اور بس! بس!

کیا معلوم تخلیق کے کتنے دریا اس کے سینے میں بھی ٹھاٹھیں مارتے ہوں لیکن ادیب کی زندگی میں اس کا کردار کس حیثیت سے یاد کیا گیا، بھا بی جی واہ کھانے بناتی ہیں، بھا جی کی ہاتھ کی چائے، بھا بی جی بڑے صبر والی ہیں، دوست احباب کسی بھی وقت آ جائیں ہمیشہ خوش دلی سے ان کا استقبال کیا۔

اور ادیب بڑے طمطراق سے ٹانگ پر ٹانگ رکھے فرمایا کیے، بھئی یہ اسی کی ہمت تھی جو اس نے مجھے جھیلا۔

اور جو بھری جوانی کسی ادیبہ شاعرہ کے سر میں تخلیق کی ترویج اور ابلاغ کا سودا سما یا تو ہوا کیا۔ کس نے اس کو تخلیق کار ہونے کی رعایت دی، اس نے کب رعایت لینے کی ہمت کی۔ میاں بچوں کی خدمت گزاری کے بعد دو پل اپنے طریقے اور مرضی سے جینے چاہے تو آزاد کر دیا گیا۔ اس سے بچے چھین کر اسے سزا دینے کی کوشش کی گئی۔ ایک حساس تخلیق کار کے لیے اس سے بڑی سزا کوئی ہو نہیں سکتی یوں اس کے دل دماغ اور اعصاب پر ایسی ضرب لگائی جاتی ہے کہ الفاظ اثر کھو بیٹھتے ہیں۔ تحریر بے ربط، ناقدین اسے شاعرہ ادیبہ ماننے سے انکار کر دیتے ہیں۔

آپ نے ہندستانی اداکاروں کو کامیاب قرار دیا ہے۔ کاش ہم اداکارہ ہوتے، کسی کے لکھے پر ، پرفارم کرتے۔ میاں کے نخرے اور گھر کے کام، گھر سے باہر ہماری صلاحیت میں مخل نہ ہوتے۔ لوگ فاحشہ بلاتے، مگر تصویر ساتھ لینے کو مرتے مگر ہم لکھتی ہیں، اس وقت جب بچے بڑے ہوجائیں، اب یہ بے کلی کہ جانے ہاتھ پیر اور دماغ کی توانائی کب ساتھ چھوڑ جائے، عمر کے پھیروں پر کب روک لگ جائے، ایسے میں بھی شوہر کی خدمت کے لیے تساہلی کی گنجائش نہیں۔

آج صبح کی ہی بات ہے۔ اس مضمون کے لیے لیپ ٹاپ کھولا، انگلیوں نے کی ورڈز کو چھوا ہی تھا کہ میاں کا خیال آیا، اور ہمارے میاں میر احمد نوید کو کون نہیں جانتا جن کا شمار اردو دنیا کے بہترین شعرا میں کیا جا تا ہے۔ رات بھر سے حسب معمول باہر ہی تھے۔ بارشوں کا موسم ہے۔ خیال کے بہتے دھارے کو روک لگائی، فون کیا خیریت جان کر تسلی ہوئی، خیال کا سرا دوبارہ تھاما۔ ذرا آگے بڑھے تو بارش شروع ہو گئی۔ میاں بھیگتے بھاگتے گھر میں داخل ہوئے۔ دوسرے کپڑے اور ناشتہ پانی ملنے کے بعد وہ خراٹے لینے لگے۔ اور ہم گیلری سے کمرے میں آتا پانی سوتنے کے بعد دوبارہ لکھنے کی میز پر آ گئے۔

ہو سکتا ہے آپ کی نظر میں ہم جیسی عورتیں نیک ہوں، لیکن ہمیں نیک نہیں اپنی طرح کا انسان سمجھیں۔ کل کلاں کو کسی نے مار دیا یا یوں ہی تفریحاً مرنے کو جی چاہا تو آپ کے پاس کوئی مواد ہی نہ ہو گا۔ ہماری شدید خواہش ہے کہ کم از کم آپ کی نظر میں ہم نیک نہ ہوں۔ تو پلیز اب کراچی آئیں تو ادیبوں اور شاعروں سے سن گن لے لیجیے گا۔ کچھ نہ کچھ ضرور معلوم ہو جائے گا، جو بعد ہمارے مرنے کے آپ کے کام آئے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments