ہر عورت ایک بیٹی ہے


اسلام وہ واحد دین ہے جس نے نہ صرف عورت کو وہ حق دیا جس سے جاہلیت کے دور میں محروم رکھا گیا تھا بلکہ قدرومنزلت عطا کی اور برتری کا معیار پرہیزگاری کو قرار دیا۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

بیشک تم میں سے اللہ کے نزدیک زیادہ محترم وہی ہے جو زیادہ پرہیزگار ہے
زمانہ جاہلیت میں بیٹی کو بوجھ سمجھا جاتا تھا، یہاں تک کہ اس کو زندہ دفنا دیا جاتا تھا:

حالانکہ جب ان میں سے کسی کو بیٹی (کے پیدا ہونے ) کی خبر ملتی ہے تو اس کا منہ (غم کے سبب) کالا پڑ جاتا ہے اور (اس کے دل کو دیکھو تو) وہ اندوہناک ہو جاتا ہے (58)

سورة النحل
اسلام میں بیٹی کو رحمت قرار دیا گیا۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا فرمان ہے :

جس کے پاس بیٹی ہو، وہ اس کی تربیت کرے، اس کو اچھے عمل کی تعلیم دے، اسے کھلائے، بہتر خوراک کو مد نظر رکھے اور جن نعمتوں کو اللہ نے اس کے حوالے کیا ہے انہیں بیٹی پر خرچ کرنے میں دریغ نہ کرے تو ایسا شخص آتش جہنم سے دائیں اور بائیں دونوں جانب سے بچتا ہوا وارد بہشت ہو جائے گا۔

ہر عورت کا پہلا روپ بیٹی کا ہوتا ہے جو بعد میں بہن، بیوی، اور ماں بنتی ہے۔ میں ہمیشہ کہتا ہوں کہ کسی بھی عورت کے ساتھ ہمارے دو رشتے ضرور ہوتے ہیں، غور طلب بات ہے۔ اگر ایک ماں ہے تو وہ بیٹی بھی ہے، بہن ہے تو بھی ایک بیٹی ہے، ہر پھوپھی اور خالہ بیٹی بھی ہیں، بیوی ہو یا بہو وہ بھی اپنے اس رشتے کے ساتھ ساتھ بیٹی بھی ہیں۔ اگر اس بات کو سمجھ لیا جائے تو کوئی بہو اپنے گھر میں ظلم و زیادتی کا سامنا نہ کرے، کسی گھر میں بیٹی اور بہو میں فرق نہ رکھا جائے، بیوی اپنے ماں باپ کی محرومی یا دوری نہ محسوس کرے جب اس کا شوہر اس کو بیوی کے ساتھ ساتھ ایک بیٹی بھی سمجھے کیوں کہ ہر عورت ایک بیٹی ہے۔

میری بیٹیاں، ابیہا زینب عالم اور ردا زینب عالم، جب بھی آنکھوں کے سامنے آئیں تو بے اختیار منہ سے نکلتا ہے، الحمدللہ۔ ایک حدیث یاد آ رہی ہے، حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

جس کو اللہ تعالیٰ نے دو بیٹیاں عطا فرمائیں اور وہ ان بیٹیوں کے معاملات میں احسان کرتا رہا تو قیامت کے دن وہ دونوں بیٹیاں اسے اس وقت تک نہیں چھوڑیں گی جب تک جنت میں داخل نہیں کروا دیں گی۔

حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اپنی بیٹی حضرت فاطمہ (ع) سے محبت پوری کائنات کے لئے مثال ہے۔ آپ (ص) حضرت فاطمہ (س) کو اپنا ٹکڑا سمجھتے تھے اور ارشاد فرماتے تھے :

فاطمہ میرا ٹکڑا ہے جس نے اسے اذیت دی اس نے مجھے ستایا اور جس نے اسے راضی کیا اس نے مجھے خوش کیا
پیغمبر اسلام (ص) ارشاد فرماتے ہیں :
فاطمہ اللہ تیری خوشنودی پر خوش ہوتا ہے اور تیری ناراضگی پر غضبناک ہوتا ہے

حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب کبھی سفر کا ارادہ کرتے تو اپنے خاندان والوں سے ملاقات کرتے اور سب سے آخر میں حضرت فاطمہ زہرا (س) سے ملتے تھے۔ سفر سے واپسی پر سب سے پہلے آنحضرت (ص) حضرت فاطمہ (س ) کے گھر جاتے تھے۔ آپ (ص) کا یہ عمل ناصرف حضرت فاطمہ (س ) کی شان اور عظمت بتاتا ہے بلکہ باپ اور بیٹی کی بے لوث محبت و الفت کو بیان کرتا ہے جو ہم سب کے لئے ایک نصیحت ہے۔ آپ (ص) نے بیٹی کے استقبال میں کھڑے ہو کر پوری امت کو بیٹی کی عزت اور محبت سکھائی، اگر آج بیٹیوں کی پیدائش پر خوشی منائی جاتی ہے اور فخر کیا جاتا ہے تو یہ نبی پاک (ص) کی تعلیمات کا نتیجہ ہے کیوں کہ بیٹیوں کی پرورش کو جنت میں لے جانے کا سبب قرار دیا گیا ہے۔ حضرت محمد صلی علیہ و آلہ و سلم کی نسل کو بیٹی سے چلا کر اللہ پاک نے بتا دیا کہ عورت کا مقام کیا ہے۔

باپ ایک ایسا درخت ہوتا ہے جس کی چھاؤں میں بیٹیاں پروان چڑھتی ہیں۔ باپ دنیا کی مشکلات اور تکالیف سے بچانے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے۔

ماہرین نفسیات کے مطابق ایک شوہر کی اپنی بیوی کی طرف توجہ، اس سے محبت اور دلی لگاؤ کے مثبت اثرات ان کے بچوں خاص طور پر لڑکیوں کی زندگی میں نظر آتے ہیں۔ ایسے گھرانے جہاں والدین کے باہمی تعلقات ناخوشگوار ہوں، ان کے بچوں کی شخصیت بری طرح متاثر ہوتی ہے۔

ایک تحقیق بتاتی ہے کہ وہ بچے جن کے باپ ان کے ساتھ کھیل کود میں شامل رہتے ہیں ان بچوں کے رویوں میں ان بچوں کی نسبت مشکلات کم نظر آتی ہیں جو بچے اپنے باپ سے دور رہیں۔ ایسے بچوں کی ذہانت بھی بہتر ہوتی ہے۔ جو باپ بچوں کے ساتھ دوستانہ تعلق رکھتے ہیں، توجہ دیتے ہیں، دل کی بات سنتے ہیں، فاصلوں کو دور رکھتے ہیں، ان کے بچے با اعتماد ہوتے ہیں۔ اسی طرح جو بچے ماں باپ کے جھگڑے دیکھتے ہیں یا ماں کو باپ کے ہاتھوں مار کھاتا دیکھتے ہیں ان بچوں کی شخصیت تباہ ہو جاتی ہے اور اکثر ایسے بچے خود بھی اذیت پسند اور منفی سوچ کے حامل ہو جاتے ہیں۔

بعض مائیں نصیحت کا غلط طریقہ منتخب کر لیتی ہیں، جب بچوں سے کوئی غلطی ہو جائے یا وہ کہنا نہ مانیں تو انہیں باپ سے ڈرانے کی کوشش کرتی ہیں، اس سے ان کے دل میں باپ کا خوف رچ بس جاتا ہے۔ یہ طرز عمل ٹھیک نہیں ہے، نرم رویہ ہمیشہ اچھی تربیت کا باعث ہوتا ہے۔

کبھی ریسٹورنٹ میں جائیں یا کسی تقریب میں، آپ نے اکثر بہت سارے باپ دیکھے ہوں گے جو بچوں کو واش روم لے جاتے نظر آتے ہیں، یہ وہ برابری کا تصور ہے جو ہمیں اسلام نے دیا ہے، آپ کی بیوی آپ کی شریک حیات ہے، نوکر نہیں، یہ ذمہ داری دونوں کی ہے صرف ماں کی نہیں۔

بیوی کا خیال کرتے ہوئے کچھ لوگ آپ کو جورو کا غلام کہہ سکتے ہیں، پریشان نہ ہوں، جب آپ اپنی بیوی کو ایک بیٹی بھی سمجھیں گے تو آپ کا سلوک وہ ہو گا جو اسلام نے سکھایا ہے، جبکہ اعتراض کرنے والے اپنے داماد سے وہ امید لگائیں گے جو بہو کے لئے نا پسند کریں گے، اس منافقانہ سوچ سے باہر نکلنے کی ضرورت ہے کیوں کہ ہر عورت ایک بیٹی بھی ہے، برا سلوک کرتے وقت اپنی بیٹی کا خیال ضرور سامنے لائیں اور یاد رکھیں :

جیسا کریں گے ویسا بھریں گے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments