جنت بیگم


گورا رنگ، بھرا بھرا جسم، لمبا قد، گول چہرہ اور گھنگریالے بال لیے جنت بیگم ایک شان سے چلا کرتی تھیں۔ پورے خاندان میں ان کے نام کا ڈنکا بجتا تھا۔ خاندان میں کوئی بندہ ایسا نہ تھا جو ان سے دبتا نہ ہو۔ یہاں تک کے ان کے اپنے خاوند بھی ان کے آگے سر جھکائے، ہاتھ باندھے کھڑے رہتے تھے۔ کہنے والے کہتے تھے کہ ان کا نام جنت تھا لیکن انہوں نے لوگوں کے لیے زندگی دوزخ بنا رکھی تھی۔ جنت بیگم کی پیدائش مولا بخش کے گھر ہوئی تھی جو کہ درمیانہ درجے کے تاجر تھے۔

گھر میں امارت نہیں مگر آسودگی ضرور تھی۔ اس لیے پچپن خوب گزرا۔ شرارتیں کرتے لوگوں کو تنگ کرتے۔ جنت بیگم اپنے پچپن سے ہی تیز مزاج مشہور تھی اور ان کے غصے سے ان کی والدہ بھی ڈرا کرتی تھی۔ اس لیے ان کی شادی ایک ایسی جگہ پر کی گئی جو کہ ذرا غریب لوگ تھے تاکہ جنت بیگم کی حکمرانی اس گھر میں بھی جاری رہے۔ داؤد ایک سرکاری ملازم تھا اور کلرک کے طور پر کام کرتا تھا۔ وہ بڑا شریف، دلیر، ملنسار اور صلح جو انسان تھا۔

جب جنت بیگم اس کی دلہن بن کر آئیں تو اس نے خود کو ان کی غلامی میں پیش کر دیا اور گھر کے تمام کام بغیر کسی حیل و حجت کے اپنے ہاتھ میں لے لیے۔ وہ صبح دفتر جاتا پھر گھر آ کر سالن تیار کرتا، روٹیاں بازار سے لاتا اور دونوں میان بیوی اکٹھے بیٹھ کر کھاتے۔ چھٹیوں کے دنوں میں داؤد صاحب اکثر کپڑے دھویا کرتے تھے۔ صبح، دوپہر، شام چائے بھی اپنے ہاتھ سے بنا کر پلایا کرتے تھے۔ داؤد صاحب نے جنت بیگم کو بیڈ ٹی کی عادت ڈال دی تھی۔

اس لیے ہر روز صبح سویرے بیڈ ٹی پلا کر دفتر روانہ ہوتے تھے۔ داؤد صاحب ایک غریب آدمی تھے تنخواہ معمولی تھی لیکن ان کی کوشش ہوتی کہ جنت بیگم کو ہر ممکن آرام دیں۔ پھر بھی آئے دن پیسے کی کمی رہتی جو جنت بیگم اپنے میکے سے لا کر پوری کرتی رہتی۔ جنت بیگم اور داؤد صاحب کی آگ پانی کی جوڑی مشہور تھی۔ اس لیے دونوں کی زندگی میں راوی چین ہی چین لکھ رہا تھا۔ جنت بیگم نے چار بچوں کو جنم دیا تین بیٹے اور ایک بیٹی۔

لیکن بیٹی صرف ایک سال کی ہو کر فوت ہو گئی اس کا پیدائشی طور پر دل میں سوراخ تھا۔ اب ان کے تین بیٹے تھے۔ دو بیٹے ان کے فرمانبردار تھے لیکن منجھلا بیٹا سعید اپنی من مانی کرنے والا تھا لیکن وہ بھی ماں سے ڈرتا تھا اور اس کی جرات نہ تھی کہ ماں کے آگے اف بھی کر جائے لیکن اس کے اندر غداری کے تمام جراثیم موجود تھے۔ جنت بیگم کی تمام توجہ اپنے بچوں کی تعلیم پر تھی گو یہ بات درست ہے کہ انہوں نے زیادہ تعلیم حاصل نہ کی ہوئی تھی لیکن تعلیم کی اہمیت سے وہ خوب واقف تھیں۔

ان کا اصول تھا کہ بچوں کو ہر سہولت دو لیکن ان پر پوری نظر رکھو یہی وجہ ہے کہ ان کے تینوں بیٹوں کی کوئی لڑکی دوست نہیں تھی اور وہ ماماز بوائز مشہور تھے۔ جب بچے بڑے ہوئے تو داؤد صاحب نقل مکانی کر کے لاہور آ گئے یہاں ان کو ہیڈ کوارٹر میں کام مل گیا لیکن ان کے پاس اتنے پیسے نہ تھے کہ اپنا گھر لے سکیں اس لیے ہوسٹل میں دو کمرے کرائے پر لیے اور بچوں کے ساتھ وہاں رہنے لگے۔ جنت بیگم نے ان کا خوب ساتھ دیا۔

دونوں میاں بیوی میں کمال محبت تھی وہ یک جان دو قالب تھے۔ یہی وجہ ہے دونوں ایک ہی چارپائی پر سوتے تھے۔ ان دو کمروں میں بھی جنت بیگم نے گزارا کیا۔ اس دوران داؤد صاحب کو کسی بیرون ملک کی کمپنی میں نوکری کی پیش کش ہوئی۔ جو انہوں نے قبول کر لی، پرکشش تنخواہ تھی، حالات بدلنے لگے داؤد صاحب نے لاہور میں ہی مکان بنا لیا۔ سرکاری نوکری کو خیر باد کہا۔ جنت بیگم نے عقابی نظروں کے ساتھ اپنے بچوں پر نظر رکھی اور تینوں بچے پڑھ گئے۔

اب ان کی شادی کا وقت آیا تو انہوں نے اپنے بچوں کی شادی اپنے بہن بھائی کے گھر کی۔ داؤد صاحب نے اس بات پر بھی سر تسلیم خم کیا اور خوشی خوشی شادیوں کی تیاری کرنے لگے۔ ان کو کوئی اعتراض نہ تھا کہ جنت بیگم نے سارے رشتے اپنے خاندان میں کر دیے ہیں وہ تو جنت بیگم کی ہر بات کے شکرگزار تھے کہ انہوں نے جو ان کے لیے کیے حالانکہ کہنے والے کہتے ہیں سب کچھ داؤد نے کیا ہے۔ بچے داؤد صاحب کی بات بالکل نہیں مانتے تھے بلکہ ڈرتے بھی نہیں تھے اگر ڈر تھا تو صرف جنت بیگم کا۔

بچوں کی شادی ہو گئی، پہلے دو بیٹوں کی شادی کی گئی پھر دو سال بعد تیسرے بیٹے کی شادی کی۔ داؤد اب مالی طور پر خوشحال تھا، بچے بھی اچھی نوکریاں کر رہے تھے۔ وقت گزرتا گیا، بڑے دو بیٹوں کے بچے پیدا ہوئے، بڑے بیٹے کے دو بیٹے اور ایک بیٹی اور سعید کے دو بیٹے جڑواں اور ایک بیٹی پیدا ہوئی۔ چھوٹے بیٹے جس کا نام معید تھا، شادی کے سات سال بعد بھی اولاد پیدا نہ ہوئی۔ معید اپنی ماں کا چہیتا بیٹا تھا کیونکہ وہ ہر وقت اپنی ماں کی خدمت میں لگا رہتا۔

اس لیے ماں نے فیصلہ کیا کہ سعید اپنی بیٹی معید کی بیوی کو دے دے۔ سعید نے کچھ کہنا چاہا مگر اپنی ماں کے حکم کے آگے کچھ نہ بول سکا اور چپ کر کے بیٹی اپنی ماں کی گود میں رکھ گیا جو جنت بیگم نے اٹھا کر معید کی بیوی کی گود میں ڈال دی۔ جنت بیگم کا اب زیادہ وقت قرآن کی درس و تدریس میں گزرتا تھا۔ داؤد اور جنت کی محبت ویسے ہی قائم تھی۔ گھر کی بھاگ دوڑ بہوؤں نے سنبھال لی تھی۔ اچانک ایک دن معلوم ہوا کہ جنت بیگم کو کینسر ہے۔

ان کی طبیعت خراب ہوئی۔ ڈاکٹر کے پاس لے گئے مختلف ٹیسٹوں کے بعد معلوم ہوا کہ کینسر ہے۔ کینسر نے جنت بیگم سے سب چھین لیا اور وہ ایک مرجھائے ہوئے پھول کی مانند ہو گئی۔ اس بیماری کے دوران سعید اور اس کے بیوی بچے ملک سے باہر تشریف لے گئے۔ معید نے اور اس کی بیوی نے ماں کی بہت خدمت کی اور دن رات ان کے لیے وقف کر دی۔ جب تک جنت بیگم زندہ رہیں سعید واپس وطن نہیں آیا۔ ماں کی فوتیدگی کی بعد سعید وطن واپس آیا اور اپنی بیٹی کا تقاضا کرنے لگا اور قرآن اور حدیث کی مدد سے باپ داؤد پر ثابت کرنے لگا کہ اس کی بیٹی واپس کی جائے کیونکہ یہ غیر اسلامی اور غیر شرعی عمل ہے داؤد نے بہت سمجھایا کہ بیٹا اب بچی کی عمر دس سال ہو گئی ہے۔

وہ معید اور اس کی بیگم کے ساتھ اچھی زندگی گزار رہی ہے اب اس موقع پر بچی کو واپس لینا درست نہ ہے لیکن سعید اڑا رہا۔ ایک دن معید اور سعید کی ہاتھا پائی ہو گئی۔ سعید نے پولیس کو بلا لیا، بڑی مشکل سے بیچ بچاؤ ہوا۔ لیکن ایک دن رات کو سعید بچی کو لیتا گھر چھوڑ کر چلا گیا اور داؤد سوچ رہا تھا کہ اگر جنت بیگم زندہ ہوتی تو گھر کا شیرازہ تو نہ بکھرتا اور چپکے سے دو آنسو اس کی آنکھوں میں آ گئے اور آنکھیں تر کر گئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments