بچوں اور عورتوں سے بدسلوکی: ایک معاشرتی المیہ


عید الاضحی قربانی، ایثار اور باہمی محبت کا نام ہے۔ قربانی کا مقصد بھی غریبوں، مسکینوں اور محتاجوں کو (گوشت کی شکل میں) اس نعمت تک رسائی دینا جس سے وہ سارا سال محروم رہتے ہیں۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ اپنے سے کمزور پر رحم کرو اور شفقت برتو لیکن ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں وہاں کمزور پر ظلم کرنا ہم شان سمجھتے ہیں جس کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں بچے اور عورتیں غیر اہم اور سستے انسان (چیزیں ) ہیں۔ اس کی تازہ مثال بہاولپور ڈیفنس کے علاقے میں دو معصوم ملازموں پر مالکان نے عید کے دنوں میں فریج سے کھانا نکال کر کھانے کی پاداش میں اس قدر تشدد کیا کہ ان میں سے ایک کی جان گئی اور دوسرے کو شدید زخمی حالت میں ہسپتال پہنچا دیا گیا اور دوسری مثال اسلام آباد میں 20 سال کے پیزا بوائے کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا اور اسے منہ کھولنے پر اس کی نازیبا ویڈیو وائرل کرنے کی دھمکی دی گئی۔ کراچی میں ایک شوہر نے اپنی چھ بچوں کی ماں کو مار کر بچوں کے سامنے اس کے اعضا دیگچی میں ابال دیے۔

دو غیر سرکاری تنظیموں جانب سے مرتب کردہ رپورٹ کے مطابق جون 2022 کے مہینہ میں پاکستان بھر میں کم از کم 108 خواتین اغوا، 112 جنسی تشدد اور 100 کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ اغوا کے 108 میں سے 157 کیسز پنجاب، 22 سندھ، خیبر پختونخوا چھ، بلوچستان چار اور اسلام آباد میں 17 واقعات رونما ہوئے۔ جسمانی تشدد کے پنجاب 66، سندھ 27، خیبر پختونخوا 11 اور اسلام آباد 8 جبکہ بلوچستان میں کوئی واقعہ درج نہیں ہوا۔ جبکہ جنسی زیادتی کے 100 میں سے 68 پنجاب، 17 سندھ، 13 خیبرپختونخوا اور اسلام آباد دو واقعات ہوئے۔

بچوں کے خلاف تشدد:

ماہ جون کے دوران ملک بھر سے بچوں کے تشدد کے 206 میں سے 93 بدسلوکی، 64 اغوا، 37 جسمانی تشدد، پانچ چائلڈ لیبر اور سات چائلڈ میرج کے واقعات رپورٹ ہوئے۔

گزشتہ کچھ عرصے میں بچوں اور عورتوں کے خلاف تشدد کے واقعات میں تشویش ناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔
حکومتی اقدامات:

حکومت پاکستان نے عورتوں اور بچوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے بہت سے قوانین قومی اسمبلی میں پاس کیے مثلاً خواتین مخالف طرز عمل ایکٹ 2011، تاکہ روایتی رسومات سے بچایا جا سکے مثلاً کارو کاری، ونی، بچپن کی شادیاں وغیرہ، پنجاب حکومت نے خواتین کے تحفظ کے لیے 2016 میں ایک ایکٹ پاس کیا اسی طرح سے سندھ حکومت نے بچوں اور بچیوں کی شادی کی عمر کم از کم 18 مقر ر کر کے کمسنی کی شادیوں کی روک تھام کا بل پاس کیا۔ مرکز نے بچوں کو جسمانی تشدد اور چائلڈ لیبر سے محفوظ رکھنے کا بل 2018 میں ترامیم کے ساتھ پاس کیا۔ خواتین کے لیے شیلٹر ہومز تعمیر کیے گے۔ پولیس تھانوں میں شکایت درج کرانے کی سہولیات مہیا کی گئیں۔

تشدد (جسمانی، نفسیاتی، سماجی، معاشی، سیاسی، زبانی ) ہمارے معاشرے کے اندر اس زہر کی طرح سرایت کر چکا ہے کہ اب تشدد عام سی بات سمجھ کر ٹال دیا جاتا ہے، سوشل میڈیا سے لے کر عام روزمرہ زندگی کے معاملات اور سب سے بڑھ کر سیاست میں (تحریری، تقریری یا جسمانی حملوں کی شکل میں ) نظر آتے ہیں۔ جب کسی کیس کی بدولت سوشل میڈیا پر ہنگامہ کھڑا ہو جائے تو ایوان بالا سے افسوس کرنے کے علاوہ کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کیے جاتے۔

ہر جگہ غیر پارلیمانی اور ماں اور بہنوں کی گالیاں کو زبان کا لازمی جز سمجھ کر استعمال کیا جاتا ہے۔ مذکورہ بالا تحریر کردہ جرائم کا قومی سطح پر ریکارڈ رکھنے کا کوئی خصوصی نظام موجود نہیں لیکن چند غیر سرکاری تنظیمیں اس شعبے میں بڑی محنت سے کام کر رہیں جن کا کہنا ہے کہ ایسے جرائم کی تفتیش کرنے والے پولیس اہلکار اگر ایسے جرائم کے عملی اسباب کا تعین کرتے ہیں تو بہت سے سماجی، نفسیاتی اور عمرانی ماہرین بھی اس بات پر متفق ہیں کہ پاکستان میں ان جرائم کے ارتکاب کے بڑے اسباب غربت، بے روزگاری، سماجی طور عزت اور غیرت کا تصور اور انصاف میں پائی جانے والی خامیاں ہیں۔

معاشرے میں انفرادی اور اخلاقی سطح پر خود احتسابی کی کمی، معاشرتی گھٹن اور محرومی کے احساس، عدم برداشت، سیاسی ماحول، مہنگائی اور نوجوانوں کے لیے تعلیم، تفریح اور تخلیق کے مواقع کی عدم دستیابی کو اس فہرست سے خارج نہیں کیا جاسکتا۔ جس معاشرے میں انصاف کا دہرا معیار، آزادی رائے پر پابندی، عدم برداشت، قانون کے نفاذ کا کوئی سسٹم نہ ہو وہاں جرائم کو پنپنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔

ہمارے معاشرے کو قانون کی پابندی، مساوی انصاف، تعلیم، صحت، سوچ اور سماجی رویوں میں مثبت تبدیلی کی ضرورت ہے۔ جس کے لیے سماجی ادارے حکومت اور عوام کے توجہ کے لیے اس امید کے ساتھ رپورٹس مرتب کرتے ہیں تاکہ ان واقعات کی روک تھام کے لیے عملی اقدامات کیے جاسکیں اور حکومتی مشنری، پولیس اور عدلیہ ایسے واقعات کے سدباب کے لیے خود کو وقف کریں۔

ہمیں انفرادی سطح پر رہتے ہوئے یہ کوشش اپنے گھر کے بچوں کی تربیت سے کرنی ہوگی ہمیں یہ سکھانے کی ضرورت ہے کہ بہادر وہ ہوتا ہے جس کی بدولت کمزور خود کو محفوظ اور پرسکون محسوس کرے۔ آج کے دور میں جہاں مرد اور عورت شانہ بشانہ کام کر رہے ہیں وہاں باہمی احترام، برداشت کرنے کی بجائے قبول کرنے، مذہبی ہم آہنگی، انصاف کی فراہمی، مساوی حقوق اور تمام بنیادی انسانی ضروریات کی مساوی تقسیم کو یقینی بنانا ہو گا۔ نوجوانوں کو ایسے مواقع اور ماحول مہیا کرنا جس سے ان کی تخلیقی، تحریری اور ذہنی نشوونما ہو سکے، قوانین کا احترام اور اس پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).