وراٹ کوہلی: رنز کے انبار لگانے والے انڈین سپر سٹار کے بلے کو ’زنگ‘ کیسے لگا؟

چندرشیکھر لوتھرا - سینیئر سپورٹس صحافی


چند برس پہلے تک وراٹ کوہلی اپنی شرائط اور مزاج کے مطابق کھیلنے والے کرکٹر تھے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ ان کا بیٹ کرکٹ کے تمام فارمیٹس میں مسلسل رنز بنا رہا تھا۔

کوہلی کی بیٹنگ کی وجہ سے سچن تندولکر کا ون ڈے کرکٹ میں 49 اور ٹیسٹ کرکٹ میں 51 سنچریوں کا ریکارڈ خطرے میں دکھائی دے رہا تھا۔

ایک وقت ایسا بھی تھا جب ان کی مرضی سے ٹیم کے ہیڈ کوچ کا انتخاب ہوتا تھا۔ سنہ 2017 میں انیل کمبلے کے مقابلے روی شاستری کو انڈین کرکٹ بورڈ نے ہیڈ کوچ تعینات کیا تو اس کے پیچھے وراٹ کوہلی کی مرضی کارفرما تھی۔

کوہلی کا کریئر گذشتہ ایک دہائی تک بلا روک ٹوک چلتا رہا اور مبصرین کے مطابق وہ گذشتہ دہائی کے بہترین بلے بازوں میں سے ایک تھے۔

بین الاقوامی سطح پر ٹیسٹ اور ون ڈے کرکٹ میں 70 سنچریاں کوئی معمولی کامیابی نہیں ہے لیکن ان سب ریکارڈز اور کامیابیوں کے بعد اب یہ کہا جا سکتا ہے کہ کم از کم گذشتہ دو برسوں سے وراٹ کوہلی کے بلے کو ’زنگ‘ لگ گیا ہے۔

22 نومبر 2019 کے بعد سے وہ بین الاقوامی کرکٹ میں کوئی سنچری سکور نہیں کر سکے۔

33 سالہ کوہلی نے اس عرصے میں 100 سے زائد اننگز کھیلی ہیں جن میں 17 ٹیسٹ، 21 ون ڈے، 25 ٹی ٹوئنٹی اور 37 آئی پی ایل میچز شامل ہیں جن میں وہ کوئی سنچری نہیں بنا سکے۔

کوہلی بڑی اننگز کھیلنے سے قاصر

ایسا نہیں ہے کہ کوہلی مکمل طور پر آؤٹ آف فارم ہیں۔ درحقیقت، انھیں اس معیار کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے جو انھوں نے اپنی کپتانی کے دنوں میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر کے بلند کیا تھا۔

وہ عام طور پر اچھے شاٹس کھیل رہے ہوتے ہیں، اچھی شروعات کر رہے ہوتے ہیں لیکن وہ اپنی اننگز کو بڑی اننگز میں تبدیل نہیں کر پاتے۔

کولکتہ میں بنگلہ دیش کے خلاف سنچری بنانے کے بعد وہ کئی بار پچاس یا اس سے زیادہ رنز بنانے میں کامیاب ہو چکے ہیں لیکن ان کے کیرئیر کی 71ویں بین الاقوامی سنچری ان کے قریب پہنچنے سے کتراتی دکھائی دے رہی ہے۔

انگلینڈ کے خلاف ایجبیسٹن ٹیسٹ سے لے کر پہلے ون ڈے تک کوہلی بڑا سکور نہیں کر سکے جس کے بعد ٹیم میں ان کی موجودگی پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔

ایجبیسٹن ٹیسٹ سے قبل انڈیا نے لیسٹر شائر کاؤنٹی کے خلاف وارم اپ میچ کھیلا، جس میں کوہلی اپنی رنگت میں نظر آئے، پہلی اننگز میں 33 رنز بنانے کے بعد کوہلی نے دوسری اننگز میں 67 رنز بنائے لیکن ایجبیسٹن ٹیسٹ میں وہ صرف 11 اور 20 رنز ہی بنا سکے۔

نہ صرف بین الاقوامی کرکٹ بلکہ آئی پی ایل میں بھی وہ کوئی بڑی اننگز نہیں کھیل سکے۔ اس سیزن کی 16 اننگز میں انھوں نے صرف 341 رنز بنائے ہیں اور اس دوران ان کا بیٹنگ سٹرائیک ریٹ بھی 116 سے کم رہا ہے جو ان کے عمومی سٹرائیک ریٹ سے خاصا کم ہے۔

रविंद्र जडेजा

وجہ تکنیکی خامیاں ہیں؟

یوں تو کوہلی کافی عرصے سے بڑی اننگز نہیں کھیل سکے لیکن بیٹنگ کرتے ہوئے وہ مشکل میں نہیں دکھائی دیتے یعنی وہ ایک، ایک رن کے لیے جدوجہد کرتے نظر نہیں آتے جو عام طور ایک آؤٹ آف فارم بلے باز کا خاصا ہے۔

ایسی صورتحال میں کھیلوں کے تجزیہ کاروں کو لگتا ہے کہ یا تو کوہلی اپنا اعتماد کھو رہے ہیں یا وہ اپنی توجہ بلے بازی پر مرکوز نہیں کر پا رہے۔

کریز پر جدوجہد کرتے نظر نہ آنے کے باوجود وہ کچھ تکنیکی خامیوں سے بھی چھٹکارا حاصل نہیں کر پا رہے۔ جن میں سے آؤٹ سائیڈ آف اپنے جسم سے دور گیندوں کو چھونے کی کوشش ہے۔

تاہم یہ کہنا مبالغہ آرائی ہو گی کہ صرف اس کی وجہ سے وہ کوئی بڑی اننگز کھیلنے سے قاصر ہیں۔ کرکٹ جیسے کھیل میں قسمت کا بھی اہم کردار ہوتا ہے اور جب کوہلی کا بلا رنز اگل رہا تھا تو ان کی تکنیکی خامیوں کو نظر انداز کیا جاتا تھا۔

کوہلی کے کریئر میں پہلی بار سنچری کا ایسا بحران آیا ہے اور ٹیسٹ کرکٹ میں بلے بازوں کی تازہ ترین رینکنگ میں وہ تین درجے تنزلی کے ساتھ 13ویں نمبر پر آ گئے ہیں۔

بات یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ کرکٹ سے محبت کرنے والوں نے بھی ٹیم میں ان کی جگہ پر سوال اٹھانا شروع کر دیے ہیں۔ سوشل میڈیا پر صارفین کے مطابق کوہلی کی ناکامی سے انڈین مڈل آرڈر متاثر ہو رہا ہے۔

دوسری جانب ان کے ہم عصر انگلینڈ کے جو روٹ، نیوزی لینڈ کے کین ولیمسن اور آسٹریلیا کے سٹیون سمتھ اپنی ٹیم کے لیے مسلسل اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔

विराट कोहली

ٹی ٹوئنٹی ٹیم سے ہٹانے کا مطالبہ

ٹی ٹوئنٹی میچوں میں بھی نسبتاً نوجوان کھلاڑیوں کا سٹرائیک ریٹ ان سے بہتر نظر آ رہا ہے۔ اس سال آئی سی سی ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ ہونے میں 100 سے بھی کم دن باقی ہیں۔

آسٹریلیا کی پچوں کے چیلنج کے پیش نظر کوہلی کو 15 رکنی سکواڈ سے ڈراپ کرنے کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ کئی دعویدار کوہلی کی جگہ لینے کے لیے مسلسل دستک دے رہے ہیں۔ سوریہ کمار یادو، شریاس ائیر اور دیپک ہودا جیسے کرکٹر کوہلی کی جگہ لینے کے لیے لائن میں کھڑے ہیں۔

ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ سے پہلے انڈین سلیکٹرز کو ویسٹ انڈیز، زمبابوے کے دوروں اور ایشیا کپ میں شرکت کرنے والی انڈین ٹیم کا انتخاب کرنا ہے۔

اگر کوہلی کو ان دوروں کے لیے منتخب نہ کیا گیا تو شاید یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ ان کے کریئر اعداد و شمار کے مطابق یہ خاصی زیادتی ہو گی لیکن ان کی جگہ لینے کے لیے تیار کھلاڑیوں کو زیادہ دیر تک نظر انداز بھی نہیں کیا جا سکتا۔

27 سالہ دیپک ہودا کی مثال سامنے ہے جو بہترین بلے بازی کے ساتھ ایک کارآمد آف سپنر ثابت ہو سکتے ہیں۔

روہتک میں پیدا ہونے والے دیپک ہودا کو اس سال کے آئی پی ایل سیزن میں لکھنؤ سپر جائنٹس کی ٹیم نے بولر کے طور پر بہترین استعمال کیا تھا۔ ٹی 20 کرکٹ میں روی چندرن اشون کی واپسی کے امکانات کم ہیں، اس لیے مانا جا رہا ہے کہ وہ ہودا، یوزویندرا چہل کے ساتھ اچھی جوڑی بنا سکتے ہیں۔

دیپک ہودا کی ایک خاصیت یہ ہے کہ وہ ٹیم کی ضرورت کے مطابق کسی بھی جگہ بلے بازی کے لیے تیار رہتے ہیں۔ انھوں نے آئرلینڈ کے خلاف صرف 55 گیندوں پر سیدھے بلے سے شاٹس کھیل کر جس طرح کا مظاہرہ کیا اس کی مثال انڈیا میں کم ہی ملتی ہے۔

وہ نہ تو سپن کھیلنے میں ہچکچاتے ہیں اور نہ ہی شارٹ پچ گیندیں انھیں ڈراتی ہیں۔ آسٹریلوی پچوں کو دیکھ کر ان کی یہ خوبی ایک بڑی خصوصیت میں بدل سکتی ہے۔

ٹیم میں نیا خون

ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے لیے ٹیم کا انتخاب کرتے وقت سلیکٹرز دور حاضر میں ٹی ٹوئنٹی کی ضرورت اور چیلنجز کو ضرور مدِنظر رکھیں گے۔

اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ دنیا بھر میں کئی ٹیموں نے زیادہ جارحانہ اور تیز بیٹنگ کے آپشن چنے ہیں جس کے باعث وہ دوسری ٹیموں کے مقابلے میں بہتر پرفارم کر رہی ہیں۔ دوسری طرف، انڈیا کے ٹاپ آرڈر میں اب بھی روایتی انداز میں کھیلنے والے بلے باز ہیں جیسے لوکیش راہول، روہت شرما اور وراٹ کوہلی۔

یہ تینوں بلے باز بڑی اننگز کھیلنے کی صلاحیت تو رکھتے ہیں لیکن اب ان میں اننگز کو انجام تک لے جانے کی قوت ارادی کی کمی ہے۔ ایسے میں دیپک ہودا ساتھی بلے بازوں سوریہ کمار یادو اور رشبھ پنت کے ساتھ مل کر انڈین مڈل آرڈر کو مضبوط کر سکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

بابر اعظم کی کوہلی کے لیے ٹویٹ: ’کوئی انڈین ایسا پیغام بھیجتا تو پتا نہیں ہمارے ملک میں اس کے ساتھ کیا ہوتا‘

انڈیا بمقابلہ انگلینڈ: ویراٹ کوہلی کی ناکامی اور انڈین ٹیم کی نئی حکمت عملی

ورلڈ ٹیسٹ چیمپیئن شپ میں انڈیا پاکستان سے پیچھے:’میچ ہارنے سے زیادہ تکلیف دہ پوائنٹس کم ہونا ہے‘

وراٹ کی میراث: کوہلی دھکا دیے جانے سے پہلے ہی کود پڑے

تاہم، سلیکٹرز کے پاس کوہلی کو ڈراپ کرنے کی وجوہات بھی ہیں، کیونکہ چتیشور پجارا اور اجنکیا رہانے جیسے سینیئر کھلاڑیوں کو خراب فارم کی بنیاد پر ٹیم سے ڈراپ کیا گیا ہے۔

اس کے بعد پجارا کاؤنٹی کرکٹ میں رنز بنانے کے بعد ٹیم میں واپس آئے ہیں، جبکہ رہانے کی واپسی کا انتظار باقی ہے۔ کوہلی کی موجودہ ناقص فارم کا فائدہ اٹھانے کے لیے قطار میں موجود بلے بازوں میں شریاس ائیر بھی شامل ہیں۔

تاہم انھوں نے اب تک ملنے والے مواقعوں سے بھرپور فائدہ نہیں اٹھایا اور شارٹ پچ بالز کھیلنے میں ان کی کمزوری انگلینڈ کے دوران سیریز میں بھی ظاہر ہوئی ہے۔ اس کے باوجود ائیر کو بہت باصلاحیت بلے باز سمجھا جاتا ہے۔

شریاس ائیر کے علاوہ سنجو سیمسن بھی ٹیم میں جگہ کے دعویدار ہیں تاہم ان سب میں سے ایک کرکٹر جن کی جگہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے لیے ٹیم میں یقینی سمجھی جا رہی ہے وہ سوریا کمار یادو ہیں۔

سوریا کمار یادو نے 24 ون ڈے میچوں میں 41 کی اوسط اور 97 کے سٹرائیک ریٹ سے رنز بنائے ہیں۔ یہ کارکردگی انھیں ٹیم میں جگہ دلانے کے لیے کافی ہے۔ اگر کہیں تھوڑی سی کمی رہ بھی گئی تھی تو وہ انگلینڈ کے خلاف سیریز کے آخری ٹی ٹوئنٹی میچ میں صرف 55 گیندوں پر 117 رنز بنا کر اسے دور کر چکے ہیں۔

انگلینڈ کے خلاف ٹی 20 انٹرنیشنلز میں سنچری بنانے والے سوریہ کمار یادو ٹی 20 کرکٹ میں سنچری بنانے والے صرف پانچویں انڈین بلے باز ہیں۔ اس میچ میں جب وہ بیٹنگ کے لیے باہر آئے تو تیسرے اوور میں ٹیم کا سکور دو وکٹوں کے نقصان پر 13 رنز تھا جب کہ ٹیم کو جیت کے لیے 216 رنز کا بڑا ہدف ملا تھا۔

آخری دو اوورز میں انڈیا کو جیت کے لیے 41 رنز درکار تھے لیکن سوریہ کمار یادیو نے ہمت نہیں ہاری اور معین علی کی پانچ گیندوں پر 16 رنز بنائے لیکن پھر آؤٹ ہو گئے۔ انڈیا یہ میچ تو نہ جیت سکا لیکن سوریہ کمار یادو نے اپنی شاندار بلے بازی سے لوگوں کے دل جیت لیے۔

ویسے کوہلی کی صلاحیت کو دیکھتے ہوئے اس بات میں کسی کو کوئی شک نہیں ہو گا کہ وہ موجودہ بحران سے باہر نکلیں گے۔ وہ یہاں سے بھی ویسی ہی مضبوط واپسی کر سکتے ہیں جیسے انھوں نے 18 سال کی عمر میں دہلی کی ٹیم کے لیے رنجی ٹرافی کے میچ میں کیا تھا۔

کوہلی کرناٹک کے خلاف اپنا ڈیبیو کر رہے تھے جب میچ کی رات ان کے والد کی موت ہو گئی تھی لیکن وہ صبح میدان میں کھیلنے آئے اور اپنے کرئیر کی بہترین اننگز کھیلی۔

کرناٹک کی مضبوط گیند بازی کے سامنے کوہلی نے 90 رنز کی شاندار اننگز کھیلی۔ جن لوگوں نے اس دن فیروز شاہ کوٹلہ گراؤنڈ میں کوہلی کی بلے بازی دیکھی تھی، انھیں آج بھی یاد ہے کہ تین گھنٹے کی اس اننگز نے ایک نوجوان کو میچور کرکٹر میں تبدیل کر دیا تھا۔

فیلڈ امپائرنگ کی غلطی کے باعث کوہلی اپنی سنچری مکمل نہ کر سکے، انھیں غلط ایل بی ڈبلیو آؤٹ قرار دیا گیا لیکن اس دور میں بھی کوہلی نے میدان میں اپنا جوش و جذبہ کبھی نہیں کھویا۔

جیسے جیسے کرکٹ کے میدان میں کوہلی کا قد بڑھتا گیا، ان کی فطرت میں بھی تبدیلیاں نظر آنے لگیں۔ ان کا جارحانہ انداز فطری ہے یا نہیں، اس پر بحث کی جا سکتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ انھوں نے اسے مخالف ٹیموں کے سامنے خوب استعمال کیا۔

وہ گذشتہ 30 مہینوں سے کرکٹ کے میدان پر بڑی اننگز نہیں کھیل سکے، پھر بھی ان کے موجودہ ریکارڈ انھیں عالمی کرکٹ کے لیجنڈز میں کھڑا کر دیں گے۔

تاہم کرکٹ کا کھیل سنہرے ماضی سے نہیں کھیلا جاتا، کسی بھی کھلاڑی کے لیے اس کی موجودہ فارم اس کے کھیل میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ کوہلی کی موجودہ فارم خود ان کے مقرر کردہ معیار پر نہیں اترتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments