کج روی کا حسن


اس کو اپنے باپ سے پیار بھی بہت تھا اور شاید نفرت بھی۔ وہ بہت اچھا لگتا تھا لیکن اس کی کچھ حرکات ایک آنکھ نہ بھاتی تھیں۔ خاندان کے لوگ کہتے تھے کہ جب سے میر بھجڑی کی کڑھائی کا حلوہ کھایا ہے اسے کسی پہلو کل نہیں پڑتی۔ اس کا انگ انگ تھرکتا رہتا تھا۔ یہی باتیں وہ برداشت نہیں کر سکتی تھی۔ انہوں نے اپنا شہر چھوڑ دیا۔ اس ملک کے لوگوں کو تمیز ہی نہیں، ہمدردی دکھانے کے بہانے ہمیشہ دوسروں کی دکھتی رگ کو چھیڑتے ہیں۔ اس طرح کا رویہ اسے ہر سکول میں ملتا تھا۔

وہ اس سکول میں بھی مذاق نہیں بننا چاہتی تھی۔ وہ جانتی تھی کہ ایک نہ ایک دن یہ ضرور ہو گا۔ ایسے فضول خیالات کا اسیر بن کر وہ پورا سال نہیں گزار سکتی تھی۔ جب ٹیچر نے بتایا کہ وہ ہر طالبہ کی گھریلو زندگی کا ایک جائزہ مرتب کر رہی ہے تو اس کا پہلا سوال ہی اسے بہت برا لگا۔ ٹیچر بچی کے تاثرات محسوس کیے بغیر بولتی جا رہی تھی۔

” تمہارے والد صاحب کیا کام کرتے ہیں؟ ان کی طلاق کب ہوئی تھی؟ تمہاری ماں تمہیں کیوں چھوڑ کر گئی؟ کیا تمہاری ماں سے ملاقات ہوتی رہتی ہے؟“

سارے سوال اس کے کچے زخموں کے کھرنڈ نوچ رہے تھے۔ ٹیچر دوستانہ لہجے اس کے سر پر ہاتھ رکھے ہمدردی جتلا رہی تھی کہ اسے سب پتا ہے۔ لیکن رافعہ کو سن کر متلی ہو رہی تھی۔ پچھلی کلاس ٹیچر اسے نظرانداز کرتی رہی جس سے کم از کم ایسا مکروہ چہرہ تو نہیں دیکھنا پڑتا تھا۔ خجلت زدگی اور الجھاوے میں پڑے رہنے کی بجائے وہ ٹیڑھی آنکھوں سے بار بار ٹیچر کو گھور رہی تھی۔ ٹیچر سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ کوئی طالبہ اس حد تک بدتمیز ہو سکتی ہے۔

وہ ذرا بھی شرمندہ نہیں تھی۔ پرنسپل کے لیے سب کچھ ناقابل برداشت تھا۔
”ہوا کیا تھا؟“
”تم نے کیا کیا کہ اتنی پیاری ٹیچر پریشان ہو گئی؟“
”اس لڑکی کا کیا مسئلہ ہے؟“

وہ پرنسپل آفس کے فرش پر پاؤں جمائے کھڑی تھی۔ دونوں ہاتھ جینز کی جیب میں ڈالے غصے سے اس نے مٹھیاں بھینچ رکھی تھیں۔ چھوٹے چھوٹے ہاتھ پتھر کی طرح سخت ہو چکے تھے۔

”سپورٹس ڈے پر تمام طالبات ایک پروگرام پیش کر رہی ہیں لیکن یہ لڑکی مخصوص لباس پہننے سے انکار کر رہی ہے۔ ہمارے پاس پہلے ہی طالبات کم ہیں اگر وہ شامل نہیں ہوگی تو پوری کلاس کا نقصان ہو گا۔ یہ پریکٹس ٹھیک کر رہی تھی اب اس لباس کو دیکھ کر بدک گئی ہے۔“

سرخ اسکرٹ ٹیچر کے ہاتھ سے لٹکا ہوا تھا۔ جسے دیکھتے ہی اس نے منہ پھیر لیا تھا۔
”اسے یہ سکرٹ پسند نہیں؟ باقی تمام لڑکیاں رشک سوں پھر رہی ہیں اور یہ ناک بھوں چڑھا رہی ہے۔“

اساتذہ میں سے ایک نے اسکرٹ لیا اور اسے گھما پھرا کر دکھایا اور پھر اس کی کمر کے ساتھ لگا کر کہنے لگی

”دیکھو؟ کتنا خوبصورت ہے!“

اس نے پیچھے مڑ کر ٹیچر کے ہاتھ کو زور سے جھٹک دیا۔ اسکرٹ فرش پر گر گیا۔ ٹیچر کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا۔

”بدتمیز، تمہاری ہمت کیسے ہوئی اپنی ٹیچر کو یوں جھٹکنے کی!“
ٹیچرز نے رافعہ کو گھیر لیا۔ اس کے چھوٹے چھوٹے ہونٹ پھڑکنے لگے۔
”میں یہ نہیں پہنوں گی! آپ مجھے مجبور نہیں کر سکتے۔“

اس کی آواز اتنی بلند تھی کہ سب چونک کر پیچھے ہٹ گئے۔ چہرے کے تاثرات بتا رہے تھے کہ وہ کسی بھی وقت حملہ کر سکتی ہے۔

”چیخ کیوں رہی ہو؟ کون کہتا ہے کہ تمہیں یہ روز پہننا ہو گا۔ صرف ایک دن، وہ بھی صرف اس پروگرام کے دوران۔ اتنی سی بات پر تم چڑ گئی ہو۔ کیا تم اس سکول کا حصہ نہیں ہو؟“

”میں اسے پہننے کی بجائے سکول چھوڑ دوں گی!“

رافعہ نے اپنے ہاتھ جیبوں سے باہر نکال کر ٹیچر کی طرف لہرائے۔ پتھر جیسی سخت مٹھیاں بتا رہی تھیں کہ سامنے آنے والی کسی بھی ٹیچر کو ادھیڑ کر رکھ دیں گئیں۔ سب خوفزدہ ہو کر پیچھے ہٹ گئیں۔

”بہتر ہے کہ تم کل اپنے والد کو دفتر لے آؤ۔“
وہ ذرا بھی خوفزدہ نہ ہوئی، اس کی بجائے، وہ اور بھی زور سے چلائی۔
”نہیں!“

”خاموش! تمہاری ہمت کیسے ہوئی ہم سے یوں بات کرنے کی!“ وائس پرنسپل اپنی میز کے پیچھے سے نیزے کی طرح کی لمبی چھڑی لہراتے چلایا۔ خواتین اساتذہ اپنی نشستوں پر بیٹھ گئیں۔ رافعہ نے اسے گھورتے ہوئے دیکھا۔

”اپنی بکواس بند کرو، اور کل اپنے والد کو اسکول لے کر آنا!“
وائس پرنسپل نے اپنی چھڑی کو اس کی طرف بڑھاتے ہوئے حتمی فیصلہ سنا دیا۔

رافعہ کی بھنویں تن گئیں۔ تنگ ماتھے پر بالوں کی لٹیں ڈولنے لگیں۔ ادھر ادھر دیدے گھماتے ہوئے کوئی جواب دینے کے بجائے اس نے فرش سے سرخ اسکرٹ اٹھا کر لیر و لیر کر دیا۔ پھر چیتھڑے میز پر پھینک کر بھاگ اٹھی۔ وائس پرنسپل اپنی کرسی سے اٹھ کر اس کے پیچھے لپکا لیکن وہ بھاگتی ہوئی سکول کے صحن کے اس پار پہنچ چکی تھی۔

اس نے جھوٹ نہیں کہا تھا وہ سرخ سکرٹ پہننے کی بجائے سکول چھوڑ دینا چاہتی تھی۔ وہ بھاگتی جا رہی تھی۔ سڑک پر گلیوں میں۔ سرخ رنگ اس کا پیچھا کر رہا تھا۔ اس کی سفید یونیفارم کے ساتھ لپٹا ہوا تھا۔ اسکرٹ کے چیتھڑے، اس کے دھاگے اس کے ساتھ لہرا رہے تھے۔ وہ بار بار اپنے ہاتھوں سے انہیں دور کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔ راستے میں نظر آنے والے ہر سرخ کپڑے کو وہ پھاڑ دینا چاہتی تھی۔

٭٭٭

اس کا باپ خبطی دیوانہ تھا یا احمق۔ شاید وہ پیدا ہی ایسا ہوا تھا یا بچپن میں کسی حاسد کی بری نظر پڑ گئی تھی۔ نیاز کا حلوہ کھانے سے کوئی کیسے بہک سکتا ہے۔ اس کی ماں کو کسی پیر فقیر کی بد دعا لگی یا کسی دھتکارے ہوئے بے کس و بے نوا کی بد نظری کا شاخسانہ تھا جو یہ لعنت ابا کے ساتھ چپک گئی تھی۔ اور وہ اس جنونی دیوانے باپ کی بیٹی تھی۔

جب رافعہ نے دروازہ کھولا تو اس کا خیال تھا کہ بے کراں خاموشی اس کا استقبال کرے گی۔ تنہا سہمی سی خاموشی جس سے کمپیوٹر کی گھوں گھوں لڑنے کی کوشش کر رہی ہوگی۔ وہی کمپیوٹر جو وہ صبح چلتا ہی چھوڑ گئی تھی۔ لیکن اس کے والد، جو صبح سوٹ پہن کر گھر سے نکلے تھے، چولہے کے سامنے پسینے میں شرابور کھڑے تھے۔ رافعہ کو دیکھ کر کھسیانی مسکراہٹ ان کے چہرے پر بکھر گئی۔ وہی مسکراہٹ جو اس نے اسٹور پر لپ اسٹک کے مختلف شیڈز آزماتے ہوئے ان کے ہونٹوں پر دیکھی تھی۔ اور وہ کہہ رہے تھے،

”یہ رنگ کتنے خوبصورت ہیں؟“
وہ اس مسکراہٹ کو برداشت نہ کر سکی۔ وہ سنکی دیوانہ تھے۔
اس نے اپنا بیگ فرش پر پھینک دیا۔
”آج تم جلدی گھر آ گئی ہو؟“
کوئی جواب نہ پا کر پھر بولا

”بھاگ کر آؤ، بیٹھو۔ دیکھو میں نے تمہاری پسندیدہ ڈش تیار کی ہے۔ جونہی پنیر پگھلے گا یہ کھانے کو تیار ہوگی۔“

اس کے سرخ ہونٹ کوئی بے نام دھن گنگنانے لگے۔ وہ نہیں جانتی تھی کہ یہ کون سا گانا تھا، لیکن وہ اس سے نفرت کرتی تھی۔ ایسا نہیں تھا کہ اس کی آواز اچھی نہیں تھی لیکن چونکہ وہ لرزاں آواز میں گاتا تھا، بالکل عورتوں کے انداز میں، اسے یہ لہجہ بہت برا لگتا تھا۔ جب رافعہ چھوٹی تھی، خواتین گلوکاروں کی نقل کرنے کی اس صلاحیت کو دیکھ کر وہ حیران رہ جاتی تھی، مگر اب نہیں۔ اب وہ جانتی تھی کہ یہ اس کے والد کی آشفتگی بلکہ شوریدہ سری ہے۔

”آپ کام پر نہیں گئے؟“ اس نے پوچھا۔

”میں نوکری چھوڑ رہا ہوں۔ یہاں کے لوگ میری قدر نہیں جانتے۔ میں نے ان سے کہہ دیا ہے : تم سمجھتے ہو کہ اس کے علاوہ مجھے کہیں اور نوکری نہیں ملے گی؟ سنبھالو اپنا کام، میں جا رہا ہوں۔“ وہ اپنے خاص انداز میں الفاظ کو چبا کر، ربڑ کی طرح کھینچ کر بول رہا تھا۔

جوں جوں ہنڈیا میں ابال آ رہا تھا اس کی گنگناہٹ تیز ہوتی جا رہی تھی۔ اس کا بید کی طرح کا پتلا اور لچک دار جسم گانے کی دھن کے ساتھ ڈول رہا تھا۔ رافعہ نے لمحہ بھر کے لیے اسے دیکھا اور بھاگ کر باتھ روم میں گھس گئی۔ پانی گرنے کے شور کے ساتھ ہی باہر اس کی زنانہ آواز مزید بلند ہو گئی۔ اس نے غالباً ہنڈیا کو ابلتے ہوئے چھوڑ کر کمرے میں گھومنا شروع کر دیا تھا، جیسے کوئی ماہر پاپ اسٹار سامعین کے سامنے سٹیج پر گا رہا ہو۔

رافعہ بھاگ کر سنک کے پاس گئی اور اس کی آواز کو دبانے کے لیے پانی کی دھار کو مزید تیز کر دیا۔ پانی نل سے نکل کر سنک کے اطراف زور سے ٹکرایا۔ لیکن جعلی پاپ اسٹار کی باریک تیز آواز پانی کے بہاؤ کے ساتھ تیرتی اور چھینٹوں کے ساتھ اڑتی پورے باتھ روم میں پھیل گئی۔ اس نے گرم پانی کا نل بھی کھول دیا۔ بھاپ باہر نکلی، اور گرم پانی سنک کے اطراف میں بکھر گیا۔ لیکن اس آواز کی ہر چیز پر بھاری تھی۔

اس نے ہاتھ منہ دھوتے دھوتے بتا دیا۔
”بابا میری ٹیچر آپ سے ملنا چاہتی ہے۔“
”کیا؟ اس سکول میں بھی کوئی بات ہو گئی ہے؟“

وہ کچن میں کام کرتے کرتے رک گیا۔ لکڑی کے پتلے دروازے کے اس پار سے آنے والی آواز میں فکرمندی اور مایوسی کی جھلک صاف دکھائی دے رہی تھی۔ رافعہ مزید کچھ نہ کہہ سکی لیکن وہ جانتی تھی کہ جب تک جواب نہیں دے گی اس کی پریشانی بڑھتی جائے گی اور وہ کام پر توجہ نہیں دے پائے گا۔ اس نے تمام نل بند کر دیے۔ ایک دیوانے مجنوں باپ کی بیٹی ہونا مشکل کام ہے۔

٭٭٭

آدھی رات ڈھل چکی تھی۔ دروازہ کھلنے کی ہلکی سی آواز آئی جیسے کوئی چور ڈرتا ڈرتا گھر میں گھس رہا ہو۔ رات کی خاموشی میں ہلکی سی آواز بھی گونج اٹھتی ہے۔ پرانے دروازوں کی چولیں بھیگی رات کی خاموشی میں چیخ چیخ کر سب کچھ بتا دیتی ہیں۔ یہ شور اسے ہمیشہ بتا دیتا تھا کہ اس کے والد کب گئے تھے اور کب واپس آئے؟ اس نے آنکھیں کھول کر گھڑی کی طرف دیکھا۔ دو بجے تھے۔ کیا اسے اٹھنا چاہیے؟ وہ ہچکچائی۔ لیکن اس کا جسم پہلے ہی بستر سے آدھا باہر تھا۔ اسے ان سے بات کرنی تھی۔ دروازہ کھولا۔ خون کے لوتھڑے کی طرح کے گول مول چہرے سے سرخ رنگ ٹپک رہا تھا۔ اس کے لیے یہ نئی بات نہیں تھی۔ ذرا بھی جھجکے بغیر بولی

”میں ماں کے ساتھ رہنا چاہتی ہوں۔“

سرخ گولا سیدھا ہوا؛ دونوں ہاتھ اوپر اٹھے اور سر سے لٹکتے لمبے ڈھیلے بالوں کو کھینچ لیا۔ وگ فرش پر گر گئی۔

”تم بھی۔ مجھے چھوڑ جانا چاہتی ہو؟“
”آپ نے مجھے پہلے چھوڑ دیا، پاپا۔ جس طرح آپ نے ماں کو چھوڑا تھا۔“

گھپ اندھیرے میں بھی، اس غیر معمولی مختصر اسکرٹ کا سرخ رنگ ایسا لگتا تھا جیسے بلغمی خون کا جما ہوا لوتھڑا۔ اس نے دروازہ بند کر دیا اور آہستہ آہستہ چلتی واپس بیڈ پر آ گئی۔ بند آنکھوں سے نیند کوسوں دور تھی کیونکہ کھرنڈ کی طرح ایک سرخ سوکھے ماس کی پیڑی جم کر انہیں بوجھل کر گئی تھی۔

پہلی بار جب اس نے پاپا کو اسکرٹ پہنے دیکھا تو مذاق سمجھی تھی۔ پاپا اس سے کھیل رہے تھے۔ وہ یہ تو نہیں جانتی تھی کہ ماں نے انہیں کیوں چھوڑا لیکن جب بھی ماں کو یاد کر کے روتی تو اس کے پاپا ماں کی الماری سے سرخ سکرٹ نکال کر پہن لیتے اور اسے خوش کرنے کی کوشش کرتے۔ وہ ان کے ساتھ کھیلتے کھیلتے سو جاتی۔ ماں تو اس نے دیکھی بھی نہیں تھی لیکن اس کی جگہ پر باپ ہمیشہ اس کے لباس اور حلیے میں موجود ملتا۔

سکول کی ابتدائی کلاسوں میں ہی وہ یہ جان گئی تھی کہ دوسرے بچوں کے والد تو انہیں خوش کرنے کے لیے ایسا نہیں کرتے تھے۔ پھر وہ سوچتی کہ چونکہ اس کی ماں نہیں تو یہ کمی پوری کرنے کے کے لیے وہ ایسا کرتے ہیں۔ یہ سوچ کر وہ بہت خوش ہوتی۔

پھر اسے پتہ چلا کہ وہ کبھی کبھی اس کے سونے کے بعد سرخ لپ اسٹک اور سرخ اسکرٹ پہنے گھر سے باہر بھی چلے جاتے ہیں۔ مزید یہ بھی پتہ چلا کہ ماں ان حرکتوں کی وجہ سے ہی چھوڑ کر گئی تھی۔ بڑی کلاس میں پہنچی تو دوسرے بچوں نے انہیں اس کج روی پر ہیجڑہ کہہ کر رافعہ پر طنز شروع کر دیا۔ اب وہ اس کے سامنے یہ حلیہ بناتے تو وہ ہنسنے کی بجائے خاموش ہو جاتی۔

جیسے جیسے اس کی چھاتیاں ابھرنے لگیں، رافعہ کو اس حقیقت سے نفرت ہونے لگی کہ وہ دوسرے لوگوں سے مختلف تھا۔ وہ خوفزدہ تھی کہ اس کے دوست کسی دن سڑک پر اس حلیے میں دیکھ کر اسے بدکار کہنا شروع کر دیں گے۔ وہ اپنے والد کو ایسی حرکات سے منع کرنا چاہتی تھی، لیکن اگر وہ باز نہ آئے تو کیا ہو گا؟ اسے خوف تھا کہ وہ سرخ اسکرٹ کی وجہ سے انہیں کھو سکتی ہے۔ لیکن اب رافعہ اور اس کے والد کے بیچ دوری بڑھ گئی تھی، ایک ایسے زخم کی طرح جو مندمل ہونے کی بجائے پھیلتا چلا جاتا ہے۔

٭٭٭

صبح ناشتہ کی میز پر دونوں خاموش بیٹھے تھے۔ رافعہ کا اسکول جانے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ سکول میں فون پر بات کرنے کے بعد اس کے باپ نے کچھ نامعلوم نمبروں پر بھی کال کی۔ دوپہر کو وہ کمرے میں لیٹی تھی کہ وہ دستک دے کر اندر داخل ہوا۔ اس کے ہاتھ میں دو بیگ تھے

”کپڑے پہن لو“ اس نے کہا۔ ”میں تمہیں تمہاری ماں کے پاس لے جا رہا ہوں۔“

ماں کیسی ہوگی؟ ایک البم میں تصاویر موجود تھیں۔ رافعہ نے طویل عرصے سے ان کو نہیں دیکھا تھا۔ یقیناً اسے اپنی ماں کی کمی محسوس ہوتی تھی۔ اسے دکھ تھا کہ وہ انہیں کیوں چھوڑ کر گئی؟ وہ ان کے پاس رہتی تو شاید والد کی حالت ایسی نہ ہوتی۔ اگر وہ ایسی عادات کا حامل تھا تو بھی انہیں ٹھیک کر سکتی تھی۔ وہ معمولی سے بات پر اس شخص سے ناراض ہو کر چلی گئی جو اس سے محبت کرتا تھا اور اس کا سکرٹ پہن کر دل خوش کر لیتا تھا۔ وہ اس وجہ سے اپنی بیٹی کو بھی چھوڑ کر والدین کے پاس چلی گئی۔ اسے ماں کی چاہت نہیں تھی۔ وہ باپ کو چھوڑ کر نہیں جانا چاہتی تھی لیکن یہ حرکات بھی ناقابل قبول تھیں۔

” صبح سے تم نے کچھ نہیں کھایا۔ انڈا کھا لو۔“

پاپا نے ٹرین کی کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئے کہا۔ ایک پھیری والا انڈے بیچ رہا تھا۔ ابلے ہوئے انڈوں کو سرخ رنگ کے کپڑے میں لپیٹ کر رکھا گیا تھا۔

”کیا انہیں بھی بھوک لگی ہوئی تھی؟ یا ان کے دل میں وہ سرخ کپڑا دیکھ کر ابال آ رہے تھے؟“
”نہیں۔“ رافعہ کی آواز گٹار کے ٹوٹے ہوئے تار کی طرح چیخ رہی تھی۔

پاپا نے شرمندہ ہو کر منہ جھکا لیا بالکل اسی طرح جب رافعہ نے بتایا تھا کہ وہ انہیں چھوڑ کر ماں کے پاس جانا چاہتی ہے۔ پاپا نے ایک کوک اور دودھ کا ایک ڈبہ خریدا، لیکن اس نے دونوں میں سے کچھ پیا اور نہ ہی اسے پیش کیا۔ بس انہیں پکڑ کر بیٹھا رہا۔

***

پاپا عورتوں کے کپڑے کیوں پہنتے تھے؟ اسکرٹ، میک اپ اور نوکدار جوتے پہن کر سڑک پر چلنا انتہائی برا محسوس ہوتا تھا۔ وہ راتوں کو ایسے کپڑے پہن کر باہر کیوں جاتے تھے؟ کبھی کبھی اسے لگتا کہ وہ ایک حقیقی عورت سے زیادہ خوبصورت ہیں، لیکن ساتھ ہی مردانہ جسم کے خد و خال کپڑوں سے ظاہر ہوتے تو اسے یہ سب بہت عجیب لگتا۔ کیا وہ عورت بننا چاہتے تھے؟ کیا انہیں مردانہ پن اچھا نہیں لگتا تھا۔ رافعہ یہ سب دیکھ کر قدرت کی بے رحمی پر لعنتیں بھیجتی تھی، جس نے اتنے خوبصورت انسان پر اپنی پسند کی لیپا پوتی کر دی۔

مرد بنا کر اس میں روح عورت کی ڈال دی۔ آخر اس میں کیا مصلحت تھی؟ قدرت نے کیا سوچ کر یہ کج روی تیار کی تھی؟ کیا قدرت نے مردانہ جسم بناتے وقت اس کی مرضی جان لی تھی؟ کیا اس نے انسان بناتے وقت اس کی پسند نا پسند پر دھیان دیا تھا؟ ممکن نہیں کہ اس نے یہ تردد کیا ہو کیونکہ قدرت معاملہ فہم اور صاحب شعور نہیں ہوتی۔

(جاری ہے )
Korean writer Kim Bi کی کہانی سے ماخوذ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments