داڑھی



تحریر: آئزک باشیوس سنگر۔
ترجمہ: جاوید بسام۔ (کراچی)

یہ یقین کرنا مشکل تھا کہ ایک یدش زبان کا ادیب کبھی اپنے بڑھاپے میں امیر ہو سکتا ہے، لیکن بینڈٹ پپکو کے ساتھ ایسا ہی ہوا تھا۔ وہ یک چشم، چیچک زدہ چہرے والا ایک مخنی سا بیمار آدمی تھا۔ جس کی ایک ٹانگ مڑتی نہیں تھی۔ طویل عرصے تک جسمانی بیماریوں سے نبردآزما رہنے کے باعث وہ اپنے ڈرامے مکمل نہیں کر سکا تھا، اس کی نظمیں کوئی نہیں پڑھتا تھا اور نہ کوئی اس کے ناول شائع کرنا چاہتا تھا۔

ایک بار کسی قرابت دار کے مشورے پر اس نے دو ڈالر فی حصے کے حساب سے ہزار ڈالر مالیت کے حصص خریدے۔ جن کی مالیت میں صرف چند مہینوں بعد تقریباً سو گنا اضافہ ہو گیا۔ اس نے ابتدائی سرمایہ کچھ سخی سرپرستوں اور خیراتی اداروں سے حاصل کیا تھا۔ پھر اسی قرابت دار کے مشورے پر اس نے نیویارک میں تھرڈ ایوینو پر ایک پرانی اور خستہ حال عمارت خرید لی۔ جلد ہی کسی تعمیراتی کمپنی کو اس زمین کی ضرورت پڑ گئی اور بینڈٹ پپکو کو دوبارہ ایک خطیر رقم حاصل ہوئی۔

ہم اکثر جس کیفے ٹیریا میں بیٹھتے تھے۔ اس میں آنے والے ادیبوں نے اس پراسرار مشیر کا نام کبھی نہیں سنا تھا، لیکن حقیقت یہ تھی کہ بینڈٹ روز بروز امیر ہوتا جا رہا ہے۔ اس کا خود کا کہنا تھا کہ بس تھوڑا اور پھر مجھے پہلے ملین پر مبارکباد دی جا سکتی ہے۔ اس کے باوجود وہ اسی پرانے گھٹیا سوٹ میں گھومتا رہتا تھا۔ وہ ہمارے ساتھ بیٹھتا، سگریٹ پیتا، کھانستا، چاول کی کھیر کھاتا اور سرگوشی کرتا۔ ”مجھے اس دولت کا کیا کرنا ہے؟ کچھ بھی نہیں۔“

”اسے مجھے دے دو۔“ افسانہ نگار پیلٹا مینیس نے ایک دن مشورہ دیا۔
”آپ کو بھی اس کی کیا ضرورت ہے؟ چلیں میں آپ کے لیے کچھ بسکٹ اور کافی منگواتا ہوں۔“

بینڈٹ پپکو ان ادیبوں میں سے تھا۔ جنھیں ڈل رائٹر کہا جاتا ہے۔ اسے فقرے صحیح طریقے سے بنانا نہیں آتے تھے، نہ اسے املا کے بارے میں کوئی اندازہ تھا، لیکن اس میں کوئی بات ضرور تھی۔ میں اکثر اس کی شائع شدہ نگارشات دیکھتا تھا۔ ساختیاتی لحاظ سے وہ مکمل طور پر کمزور تھیں۔ پھر بھی ہر صفحے پر کچھ ایسی سطریں مل جاتی جو مجھے متاثر کرتی تھیں۔

بینڈٹ اپنی تحریروں میں عجیب و غریب لوگوں، آدھے پاگل کنجوسوں، کچھ گمبھیر مقدموں کو جو اتنے عرصے تک چلتے رہے کہ کسی کو یاد نہیں تھا کہ وہ کب اور کیوں شروع ہوئے تھے اور انسانوں کے درمیان محبت کے بٹے ہوئے ان رشتوں کو بیان کرتا جو پولینڈ کے قصبوں سے نیویارک میں ایسٹ سائڈ کے مکانات میں منتقل ہوئے اور پھر میامی بیچ کے ہوٹلوں میں بوڑھے ہو گئے تھے۔ پپکو کی تحریروں میں پیراگراف کئی صفحات پر مشتمل ہوتے تھے اور وہ اپنے ہی کرداروں کے مکالموں میں تبصروں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ بھی کرتا تھا۔

پپکو نے امریکہ آنے کے بعد سب سے پہلے فرائیڈ کے نظریات کا مطالعہ کیا۔ جس کے بعد وہ اپنی کہانیوں کے ہیروز کے اعمال کی وضاحت کرتے ہوئے ہمیشہ فرائڈ ازم کا سہارا لینے لگا۔ اس کی تحریروں کو ایک مشاق مدیر کی اشد ضرورت تھی، لیکن بینڈٹ کسی کو اپنی تحریروں میں رموز اوقاف اور املا درست کرنے کی اجازت نہیں دیتا تھا۔

ان دنوں جب میں ایک چھوٹا سا ادبی رسالہ نکال رہا تھا۔ وہ میرے لیے ایک کہانی لے کر آیا جس کا آغاز کچھ یوں ہو رہا تھا۔ ”دن ابر آلود تھا، لیکن آسمان وفادار تھا۔“ جب میں نے پوچھا کہ وفادار سے اس کا کیا مطلب ہے، اس نے اپنی بینا آنکھ سے مجھے ناراضی سے دیکھا اور بولا۔ ”ان کتابی نکات سے میرا سر نہ کھاؤ۔ اگر شائع کرتے ہو تو کرو، ورنہ جہنم میں جاؤ۔“

اس نے مسودہ اٹھایا اور لنگڑاتا ہوا چلا گیا۔

ہرچند کہ بینڈٹ چالیس سال سے امریکہ میں مقیم تھا، لیکن وہ انگریزی کے صرف ڈھائی الفاظ جانتا تھا۔ وہ یدش اخبارات کے علاوہ کچھ نہیں پڑھتا تھا اور سائیکالوجی کو ”squeakology“ کہتا تھا۔ ایک مصنف نے مذاق میں پپکو کی غلطیوں کی ایک لغت مرتب کرنے کا مشورہ دیا، لیکن کبھی کبھی وہ ایک عالم کی طرح استدلال بھی کرتا تھا۔ میں جانتا تھا کہ وہ برونس وائل میں کہیں رہتا ہے اور اس کی کوئی اولاد نہیں ہے۔

مجھے کسی نے بتایا تھا کہ بینڈٹ پپکو کی بیوی کی گھنی داڑھی ہے۔ پہلے وہ کالی تھی۔ گزرتے وقت نے اسے سفید کر دیا ہے۔ مگر بینڈٹ اپنی بیوی کے ساتھ کبھی نظر نہیں آیا تھا اور کوئی نہیں جانتا کہ اس کی بیوی شیو کیوں نہیں کرتی۔

میں نے برسہا برس سے کسی کو بھی کچھ سمجھانے کی فضول کوششیں ترک کردی تھیں۔ میں دیکھ رہا تھا کہ یدش تھیٹر سے تعلق رکھنے والا ایک مزاح نگار، جو اپنے تھیکے طنز و مزاح کے لیے جانا جاتا ہے، اچانک خدا کی طرف راغب ہو گیا اور خدا سے اس کی قربت اتنی بڑھی کہ وہ یروشلم کے علاقے میہ شریم جاکر آباد ہو گیا۔ جہاں انتہائی پرجوش یہودی رہتے ہیں۔ اس کے برعکس ایک آرتھوڈوکس ربی نے اپنی بیوی کو طلاق دے کر عبادت گاہ چھوڑی اور کمیونسٹ بن گیا۔

دو عبرانی پڑھانے والی استانیوں نے اپنے شوہروں کو چھوڑ دیا اور ہم جنس پرستوں کی طرح شادی کر کے ایک دوسرے کے ساتھ رہنے لگیں۔ شاید، پپکو کی دولت ہمیں اتنا متاثر نہ کرتی اگر وہ خود ہمیں مسلسل اس کی یاد نہ دلاتا رہتا۔ وہ روزانہ اپنی تازہ ترین مالی کامیابیوں کے بارے میں بات کرتا تھا۔ اب وہ ہمیں مشورے بھی دینے لگا تھا کہ بچت کیسے کی جاتی ہے۔

پپکو نے ایک بار فخر سے بتایا کہ مشہور نقاد گیبریل ویٹز اس کے بارے میں ایک کتاب لکھ رہا ہے۔ ہم حیران رہ گئے، حقیقت یہ تھی کہ ویٹز نے ہر موقع پر پپکو کی تحریروں میں کیڑے نکالے تھے۔ وہ اس کا نام تک لینا پسند نہیں کرتا تھا، بلکہ ایک جاہل، گھریلو فلسفی اور حقائق کا جادوگر کہتا تھا۔

”یہ کیسے ہو سکتا ہے؟“ ہم نے پوچھا۔

بینڈٹ پپکو نے اپنی بے نور آنکھ جھپکائی، چالاکی سے مسکرایا اور بولا۔ ”ہمیں پہیوں پر گریس لگانی چاہیے پھر ٹھیلا چلے گا۔“ پھر اس نے تلمود کا حوالہ دیا۔ ”پیسہ صاف یا ناجائز بنا سکتا ہے۔“

آخر میں پپکو نے ہمیں بغیر لاگ لپیٹ کے سب کچھ بتا دیا۔ وہ بولا۔ ”یہ تمام ادبی نقاد بہت سستے ہوتے ہیں۔ میں نے گیبریل ویٹز کے ساتھ کاروباری انداز اپنایا اور پوچھا دوست! تم کتنا مانگتے ہو؟ آخر نقاد نے قیمت بتا دی۔ پانچ ہزار ڈالر۔“

ہم بھونچکا رہ گئے۔ گیبریل ویٹز ایک سنجیدہ ادیب کے طور پر شہرت رکھتا تھا۔ ہم نے فیصلہ کیا کہ بینڈیٹ پپکو بکواس کر رہا ہے، لیکن جلد ہی ایک رسالے میں گیبریل ویٹز، پپکو پر ایک مضمون کے ساتھ سامنے آیا، جس کا اعلان ایک بڑے کام کے حصے کے طور پر کیا گیا تھا۔ گیبریل ویٹز نے پپکو کو ایک تسلیم شدہ کلاسک اور جینئس کہا تھا۔ اس نے یدش ادب کی ترقی میں پپکو کے نمایاں کردار کے بارے میں بات کرتے ہوئے فصاحت کو بھی نہیں چھوڑا تھا۔ بینڈٹ پپکو نے جھوٹ نہیں بولا تھا۔ اس نے درحقیقت گیبریل ویٹز کو پانچ ہزار ڈالر میں خرید لیا تھا۔

میں نے پپکو سے پوچھا۔ ”ایسی شہرت کا کیا فائدہ جو پیسہ دے کر خریدی جائے؟“

پپکو نے جواب دیا۔ ”پیسے کے بغیر کچھ نہیں ہوتا۔ اگر آپ شادی شدہ ہیں اور اپنی بیوی کی کفالت کرنا چھوڑ دیتے ہیں تو وہ آپ کو طلاق دے دے گی، اگر آپ کی کوئی داشتہ ہے تو آپ کو اسے اچھے کھانے کھلانے کے لیے ریسٹورنٹ میں لے جانا پڑے گا، رہائش کے لیے جگہ دینی ہوگی اور اسے بے شمار تحائف دینے ہوں گے ۔ آپ کے اپنے بچے آپ کو پیٹھ دکھا جائیں گے اگر آپ ان کو آسائشیں فراہم نہیں کرتے۔ جب آپ کو ہر چیز کی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے تو شہرت کیوں مستثنیٰ ہو؟“ پھر اس نے مزید کہا: ”آپ بھی ایک دن میرے بارے میں کچھ لکھے گے۔“

پپکو کے اس بات سے میں ناراض ہو گیا۔ میں نے کہا۔ ”میں آپ کی ادبی سرگرمیوں کا احترام کرتا ہوں، لیکن میں آپ کے بارے میں پیسے کے کر کبھی نہیں لکھوں گا۔“

وہ ہنسا پھر فوراً سنجیدہ ہو گیا۔
”دس ہزار ڈالر بھی نہیں؟“
”دس کروڑ بھی نہیں۔“

میز پر موجود کسی نے کہا۔ ”بینڈٹ! آپ اپنی عزت کھوٹی کر رہے ہیں۔ جلد یا بدیر، وہ ویسے بھی آپ کے بارے میں لکھتا۔“

”شاید، لیکن اب یہ ممکن نہیں ہے۔“ میں نے کہا۔

بینڈٹ پپکو نے نفی میں سر ہلایا اور بولا۔ ”تاہم، اگر آپ کو معلوم ہوتا کہ میری حمایت میں ایک اچھا جائزہ آپ کو کیا کچھ فراہم کر سکتا ہے اور آپ برسہا برس مضامین لکھ کر مشکل سے گزر بسر کرنے کے بجائے کیلیفورنیا میں کہیں بھی آسائش بھری زندگی گزار سکتے ہیں تو غالباً آپ جواب دینے میں جلدی نہ کرتے اور ویسے بھی کیا یہ کہنا گناہ ہے کہ بینڈٹ پپکو میں قابلیت ہے؟“ اس نے استفسار کیا۔

”یہ کوئی گناہ نہیں ہے۔ آپ میں واقعی قابلیت ہے، لیکن آپ نے ایک تنقید نگار کو رشوت دی ہے، اس لیے میں آپ کے بارے میں ایک سطر بھی نہیں لکھوں گا۔“

”اور اگر آپ کی کنپٹی پر بندوق رکھ دی جائے تو کیا آپ راضی ہوں گے؟“
”شاید۔“ میں نے شوخی آمیز لہجے میں جواب دیا۔ ”اس کی وجہ سے جان دے دینا احمقانہ بات ہے۔“

”ٹھیک ہے۔ اپنی کھیر کھائیں۔ ویسے میں اب آپ کو دس ہزار کی پیشکش نہیں کر رہا۔ مجھے لگتا ہے آپ مجھے اتنے مہنگے نہیں پڑیں گے۔“ وہ بولا اور اپنے ٹیڑھے، کالے اور زنگ آلود ناخن جیسے دانت دکھاتے ہوئے ہنس پڑا

تقریباً ایک سال پہلے، ایک دن میں کیفے ٹیریا میں گیا اور اپنی میز پر بیٹھ گیا۔ ہم دوست اپنے ایک ساتھی کی نظم پر گفتگو کرنے لگے۔ جو حال ہی میں ایک رسالے میں شائع ہوئی تھی۔ ہم میں سے ایک نے کہا کہ وہ شاندار تھی، دوسرے نے کہا کہ اس میں جملوں کے سوا کچھ نہیں تھا۔ ہم بحث میں مصروف تھے کہ افسانہ نگار نے اچانک کہا۔

”کیا آپ نے بینڈٹ پپکو کے بارے میں کچھ سنا؟“
”کیا ہوا؟“
”اسے سرطان ہو گیا ہے۔“
”اس کا مطلب ہے اس کی دولت کا خاتمہ۔“ کسی نے کہا۔

ہم چاول کی کھیر کھاتے رہے اور کافی پیتے رہے لیکن یہ سوال کہ وہ نظم شاہکار تھی یا بے وقعت، اپنی برتری کھو بیٹھا تھا۔ کسی نے کہا۔ ”ایک دن ہم چلے جائیں گے، لیکن نوجوان ادیب نظر نہیں آتے۔ بیس سال بعد ہمیں کوئی یاد نہیں کرے گا۔“

”اور اگر کوئی یاد کرتا بھی ہے تو اس سے ہمیں کیا فائدہ ہو گا؟“ کوئی بولا۔
کچھ دیر بیٹھنے کے بعد میں اپنے گھر چلا آیا۔

میری میز مضامین، کہانیوں اور نامکمل ناولوں کے مسودوں سے بھری ہوئی تھی۔ ان پر دھول جمی تھی۔ ہفتے میں ایک بار ایک سیاہ فام نوکرانی میرے فلیٹ میں صفائی کرنے آتی، لیکن میں نے اسے اپنے کاغذات کو ہاتھ لگانے سے سختی سے منع کیا ہوا تھا۔ دوسری چیزوں کے علاوہ وہ بوڑھی اور نیم مفلوج تھی۔ میں نے کئی بار اسے بغیر کام کروائے پیسے دیے اور گھر بھیج دیا کیونکہ میں دیکھ رہا تھا کہ وہ با مشکل سانس لے پا رہی ہے۔ مجھے خوف تھا کہ کہیں وہ میرے اپارٹمنٹ میں بے ہوش نہ ہو جائے۔

میں صوفے پر لیٹا ایک خط پڑھ رہا تھا جو تاریخ کے حساب سے دو سال پہلے آیا تھا۔ وہ مجھے اپنی جیکٹ کی اندرونی جیب سے ملا تھا۔ مکتوب نگار کے پتے کو پڑھنا اب ممکن نہیں رہا تھا، اچانک میں نے دروازے پر دستک سنی۔ میں نے اٹھ کر دروازہ کھولا اور ساکت رہ گیا۔ دہلیز پر سیاہ لباس، مردانہ جوتوں اور ٹوپی میں ایک داڑھی والی عورت بیساکھی کے سہارے کھڑی تھی۔ میں نے فوراً اندازہ لگا لیا کہ وہ کون ہے۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ میرے متجسس پڑوسی اسے وہاں دیکھیں۔ اس لیے فوراً کہا۔ ”مسز پپکو! اندر آجائیں۔“

اس نے مجھے حیرت سے دیکھا اور بیساکھی ٹیکتی میرے اپارٹمنٹ میں چلی آئی۔
”آپ کی لفٹ کام نہیں کرتی؟“ اس نے ہلکی مردانہ آواز میں کہا۔ مجھے پانچویں منزل تک پیدل آنا پڑا۔ ”
”معذرت چاہتا ہوں، یہ ایک پرانی عمارت ہے۔ براہ مہربانی بیٹھ جائیں۔“ میں نے کہا۔
”کیا میں سگریٹ پی سکتی ہوں؟“
”بالکل۔“
اس نے سگار جلایا۔ میں نے سوچا۔ یہ شاید مرد ہے یا پھر مخنث، لیکن اس کا سینہ عورتوں جیسا تھا۔
”میرے شوہر بہت بیمار ہیں۔“ اس نے کہا۔
”ہاں، میں نے یہ خوفناک خبر سنی ہے۔“
”آپ اس کی بیماری کے ذمہ دار ہیں۔“ اس نے تیزی سے کہا۔
میں حیرت سے اچھل پڑا۔
”آپ یہ کیسے کہہ سکتی ہیں؟“

”ایک بار آپ نے اس سے کہا تھا کہ آپ اس کے بارے میں کسی قیمت پر نہیں لکھیں گے۔ آپ کے لیے یہ صرف الفاظ تھے، دکھاوے کا ایک بہانہ، لیکن ایک محاورہ ہے۔“ مکے کو بھلایا جاسکتا ہے، لیکن الفاظ کو نہیں۔ ”آپ کی اس بات سے اس نے جتنی توہین محسوس کی۔ وہ آپ تصور بھی نہیں کر سکتے۔ کیا وہ اس کا مستحق تھا؟“

میں گومگو کی کیفیت میں اسے دیکھ رہا تھا۔

وہ دوبارہ گویا ہوئی۔ ”میرے شوہر میں زبردست قابلیت ہے۔ گیبریل ویٹز نے لکھا کہ وہ ایک جینیئس ہیں۔ وہ آپ کی بہت عزت کرتا ہے۔ جب آپ نے کہا کہ آپ اس کے بارے میں کبھی نہیں لکھیں گے تو اسے بہت دکھ پہنچا۔ آپ نے اسے گویا گہرا زخم دیا تھا۔ اس دن جب وہ گھر واپس آیا تو چادر کی طرح پیلا ہو رہا تھا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ کیا ہوا۔ پہلے تو اس نے کچھ بتانے سے گریز کیا، لیکن میں نے اسے بولنے پر مجبور کر دیا۔ آپ شاید مجھ پر یقین نہ کریں، لیکن اس دن کے بعد وہ دوبارہ کبھی پہلے جیسا نہیں رہا۔ اپنی تمام تکلیفوں کے باوجود وہ ہمیشہ خوش مزاج انسان تھا۔ اس نے اگلے کئی سالوں کی منصوبہ بندی کی ہوئی تھی، لیکن اس واقعے کے بعد اس نے ایک سطر بھی نہیں لکھی۔ اسے پیٹ میں درد رہنے لگا تھا۔“

”مسز پپکو!“ میں نے اسے روکا۔ ”یہ سچ نہیں ہے۔“
”خدا جانتا ہے، یہ سچ ہے۔“
” لیکن میں نقاد نہیں ہوں۔ گیبریل ویٹز نے اس کے بارے میں ایک پوری کتاب لکھی تھی۔“

” وہ گیبریل ویٹز کے کام کی تعریف نہیں کرتا۔ ہم سب جانتے ہیں کہ وہ کون ہے۔ وہ فقط کتابوں کا ایک خانہ ہے۔ وہ اپنے دماغ سے سوچ کر لکھتا ہے۔ اس کے پاس احساسات کا ایک قطرہ بھی نہیں ہے۔ وہ ادب کو ایسے ہی سمجھتا ہے جیسے ایک سور سنتروں کو۔ آپ کو یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ آپ بینڈٹ کو بے وقوف بنا سکتے ہیں۔ وہ کبھی کبھی اپنے آپ کو بھی دھوکہ دیتا ہے۔ لیکن گہرائی میں وہ حقیقت کو جانتا ہے۔ آپ بالکل مختلف معاملہ ہیں۔

وہ آپ کی لکھی ہوئی ہر چیز کو پڑھتا ہے۔ کبھی کبھی ہم آپ کو اکٹھے پڑھتے ہیں۔ ہم دونوں بے خوابی کا شکار ہیں، اکثر جاگتے رہتے ہیں اور جب بھی گفتگو کا رخ آپ کی طرف ہوتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ آپ حقیقی ادیب ہیں۔ آپ نے اس کی اتنی توہین کیوں کی؟ وہ آپ کے خیال سے کہیں زیادہ کمزور ہے۔ ادب اس کی اصل زندگی ہے۔ میں چالیس سالوں سے بینڈٹ کے ساتھ رہ رہی ہوں۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ چالیس سال ساتھ رہنے کا کیا مطلب ہے؟

وہ مجھے ہر نئی سطر پڑھاتا ہے اور ہر چیز کے بارے میں مشورہ کرتا ہے۔ ہماری کوئی اولاد نہیں ہے۔ ہمارے بچے اس کی کتابیں ہیں۔ آپ کبھی کسی کے ساتھ نہیں رہے، اس لیے آپ کو یہ باتیں سمجھ نہیں آئیں گی۔ اگرچہ آپ محبت کے بارے میں لکھتے ہیں، مگر آپ نہیں جانتے کہ وہ کیا ہے؟ معذرت، لیکن آپ جذبہ بیان کرتے ہیں، محبت نہیں۔ محبت ہمیشہ قربانی دیتی ہے اور سالوں میں طاقت حاصل کرتی ہے۔ یہاں بینڈٹ آپ سے دس سر بڑا ہے۔ کیا آپ کے پاس ایش ٹرے ہے؟“

میں نے اسے ایش ٹرے لاکر دی۔ اس نے اپنے سگار سے راکھ اس میں جھاڑی۔ جب اس نے اپنی گھنی پلک اٹھائی تو مجھے کالی ٹھوس پتلی نظر آئی۔ میں نے سوچا یہ کچھ ویسی ہی ہے جیسے جادوگرنیاں، ہفتے کے دن اپنی جھاڑووں پر سیاہ آسمان کی طرف اڑتی ہیں۔

”آپ مجھے اس طرح کیوں دیکھ رہے ہیں؟ میں ایک عورت ہوں، مرد نہیں۔“
”میں پوچھ سکتا ہوں کہ آپ کیوں؟“

”میں جانتی ہوں کہ آپ کیا پوچھنا چاہتے ہیں۔ میں نے داڑھی اس وقت بڑھانا شروع کی جب میں چھوٹی لڑکی تھی۔ آپ یقین نہیں کریں گے، لیکن ان دنوں میں بہت خوبصورت تھی۔ میں نے اسے صاف کرنے کے لیے کیا کیا جتن نہیں کیے۔ شیو، یہاں تک کہ بالوں کی جڑوں کو جلانے کی کوشش بھی کی، لیکن میں نے جتنی زیادہ کوشش کی، یہ اتنی ہی تیزی سے بڑھتی گئی۔ یہ مت سوچیں کہ میں دوسروں سے الگ ہوں۔ بہت سی خواتین داڑھی رکھتی ہیں۔ داڑھی خالص مردانہ استحقاق نہیں ہے۔

مجھے یاد ہے، بینڈٹ نے پہلی بار مجھے گال پر بوسہ دیتے ہوئے کہا تھا۔ ”زیلڈا، تمھاری داڑھی بڑھ رہی ہے!“ وہ ناقابل بیان خوشی محسوس کر رہا تھا۔ اسے میری داڑھی سے پیار ہو گیا تھا، یقین نہیں آتا؟ مجھے خود یقین نہیں آ رہا تھا کہ یہ ممکن ہے۔ اس نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ وہ مجھ سے اس شرط پر شادی کرے گا کہ میں اپنی داڑھی کو ہاتھ نہ لگاؤں۔ جیسا کہ آپ تصور کر سکتے ہیں، ایسا وعدہ کرنا آسان نہیں تھا۔ پہلے تو میں نے سوچا کہ وہ پاگل ہو گیا ہے۔ ”

”وہ ہم جنس پرستی کے رجحانات تو رکھتا ہے۔“ میں نے تبصرہ کیا۔

”ٹھیک ہے، آپ بھی لوگوں کی زبان بول رہے ہیں۔ ہر کوئی ایسا سمجھتا ہے۔ مگر مجھے آپ سے کچھ اور کی توقع تھی۔ وہ ہم جنس پرست نہیں ہے۔ بعض طرز عمل کی وضاحت کسی نظریے سے نہیں کی جا سکتی۔ بہرحال میرے لیے فیصلہ کرنا کٹھن تھا۔ ناں کا مطلب خود کو تنہائی میں جھونک دینا تھا۔ میری ماں، جب شادی کے بعد اوڈیسا میں مجھ سے ملنے آئی تو میری داڑھی نے شرمندگی سے مجھے مار ڈالا تھا۔ میں نے گھر سے نکلنا چھوڑ دیا۔ لیکن بینڈٹ کی خواہش میرے لیے سب سے زیادہ اہم تھی۔ شاید آپ کے لیے ایسی محبت کی تعریف کرنا مشکل ہے۔ یہاں امریکہ میں میری تنہائی اور بھی مکمل ہو گئی ہے۔ میں آپ کو بہت کچھ بتا سکتی ہوں، لیکن میں یہاں اپنی داڑھی پر بات کرنے نہیں آئی تھی، بلکہ آپ کو یہ بتانے کے لیے آئی ہوں کہ آپ بینڈٹ کو مار رہے ہیں۔“

”پلیز ایسا مت کہو! بینڈٹ میرا دوست ہے۔“
”پھر کیا آپ اپنے دوست کو مار ڈالیں گے؟“ اس نے پوچھا۔

ہم نے کچھ دیر اور بات کی اور میں نے مسز پپکو سے وعدہ کیا کہ میں اس کے شوہر کے بارے میں ایک مضمون لکھوں گا۔

اس نے کہا۔ ”اب شاید دیر ہو چکی ہے، اسے بچانے کا کوئی طریقہ نہیں ہے، لیکن آپ کی رائے یقیناً بینڈیٹ کو خوش کرے گی۔“

”کیا میں جان سکتا ہوں کہ آپ سگار کیوں پیتی ہیں؟“
”اوکے، آپ کو سب کچھ جاننے کی ضرورت نہیں ہے۔“

وہ جانے کے لیے اٹھی۔ میں دعا کر رہا تھا کہ راہداری میں کسی پڑوسی سے ملاقات نہ ہو، لیکن جب میں نے دروازہ کھولا تو بدقسمتی سے پڑوسی کی بوڑھی نوکرانی کو کھڑے دیکھا۔ لفٹ اب بھی کام نہیں کر رہی تھی۔ مسز پپکو میری طرف متوجہ ہوتے ہوئے بولی۔ ”بھلے مانس! سیڑھیاں اترنے میں میری مدد کرو۔“

اس نے میرے بازو کا سہارا لے لیا۔ میں نے اپنی کہنی کو اس کے ابھار سے چھوتا ہوا محسوس کیا۔ کسی پراسرار وجہ سے سب منزلوں کے تمام اپارٹمنٹس کے دروازے کھلے تھے۔ میں نے بچوں کے چیخنے کی آواز سنی۔ ”ماں، ماں، دیکھو! داڑھی والی آنٹی!“

ایک اپارٹمنٹ سے ایک کتا اچھل کر باہر آیا اور مسز پپکو کا دامن منہ میں پکڑ لیا۔ میں نے بڑی مشکل سے اسے پیچھے دھکیلا۔

اس شام میں پپکو کی تخلیقات کو دوبارہ پڑھنے بیٹھ گیا۔ اور چند ہفتوں بعد میں نے اس کے بارے میں ایک مضمون لکھ لیا۔ مگر بدقسمتی سے جس رسالے کے پاس میں اسے لے کر گیا تھا، اس کے مدیر نے اشاعت میں اتنی تاخیر کی کہ پپکو اسے دیکھنے کے لیے زندہ نہ رہا۔ اس کے پاس صرف سرخیاں پڑھنے کا وقت تھا اور آخری صفحے کے حاشیے میں اس نے کانپتے ہاتھوں سے لکھا۔ ”میں نے تم سے کیا کہا تھا؟“

ایک دن جب میں سکستھ ایونیو پر پبلک لائبریری کے قریب ایک کیفے میں بیٹھا ہوا تھا، دروازہ کھلا اور میں نے دیکھا مسز پپکو، بیساکھی کا سہارا لیے اندر داخل ہو رہی ہیں۔ اگرچہ بینڈٹ کے انتقال کو دو سال ہو گئے تھے، لیکن وہ اب بھی داڑھی، مردانہ ٹوپی اور مردانہ جوتے پہنتی تھی۔ مجھے دیکھ کر وہ فوراً میری میز پر چلی آئی اور آرام سے بیٹھ گئی۔

کیفے کے پرانے گاہکوں نے ہماری طرف دیکھا، آنکھ ماری اور ہنسے۔ میں مسز پپکو سے پوچھنا چاہتا تھا کہ اپنے شوہر کی موت کے بعد بھی وہ اپنی داڑھی صاف کیوں نہیں کرتیں، لیکن مجھے اس کے الفاظ یاد آ گئے۔ ”اوکے، آپ کو سب کچھ جاننے کی ضرورت نہیں ہے۔“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments