لوہ پور سے شہرِ ادب تک


دنیا کے چند شہر جو اپنی تاسیس کے بعد مکمل آباد رہنے اور دن دگنی رات چگنی ترقی سے ہم کنار ہو رہے ہیں ان میں پاکستان کے دل پنجاب کی دھرتی کے ماتھے کا جھومر لاہور شہر سر فہرست ہے۔ شہر لاہور کے قدیم نام کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ دو الفاظ کا مرکب ہے جن میں ایک لفظ لوہ یا لاہ ہے جس کا مطلب لو جبکہ دوسرا لفظ آور ہے جس کا مطلب قلعہ لیا جاتا ہے۔ شروع میں یہ قلعہ نما شہر لاہور کے نام سے جانا جاتا تھا جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زبان کی تبدیلی کے زیر اثر آتا گیا اور لوہ پور سے لاہور ہو گیا۔

قدیم روایات کے مطابق لاہور شہر کی بنیاد راجہ رام کے بیٹے راجہ لوہ نے رکھی تھی۔ جب اس نے اقتدار سنبھالا تو ایک قلعہ تعمیر کرایا اور یوں اسے لوہ پور کا نام دیا۔ قلعے کی تعمیر کے بعد یہ شہر دسویں صدی عیسوی تک ہندو راجاؤں کے ماتحت رہا جب تک کہ گیارہویں صدی میں یہ علاقہ اسلام کی روشنی سے منور نہ ہو گیا۔ مغلیہ دور حکومت میں لاہور شہر کو کم و بیش بیس برس تک مغلیہ دارالحکومت ہونے کا اعزاز حاصل رہا ہے۔ مغل فرمانروا جہانگیر کی ملکہ نور جہاں نے شہر لاہور کی عظمت کا اعتراف کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”لاہور رابجان برابر خریدہ ایمجاں دار ایم و جنت دیگر خریدہ ایم۔“

یہ شہر کئی صدیوں تک عظمت کا استعارہ بنا رہا اور یہاں مسلمانوں کی حکومت رہی جو آج تک جاری و ساری ہے۔ راجہ رام پال، جس نے عظیم مسلمان سپہ سالار و بادشاہ سلطان محمود غزنوی کا مقابلہ کیا تھا اور بدترین شکست اس کا مقدر ٹھہری تھی اس کا تعلق بھی اسی عظیم شہر سے تھا۔ اسی تاریخی جنگ میں لاہور پر مسلمانوں کی حکومت کا جھنڈا لہرایا گیا اور سلطان محمود غزنوی کا دست راست ایاز اس شہر کا گورنر بنایا گیا۔ سترہویں صدی میں لاہور کی شہرت و مقبولیت کے قصے سات سمندر پار یورپ میں گنگنائے جانے لگے اور اس کی مقبولیت میں دن رات اضافہ ہونے لگا۔

حسن کی بزم میں اگر ذکر لاہور کا نہ آئے
توہین حسن ہو جائے توہین بزم ہو جائے

لاہور صرف ایک شہر نہیں بلکہ احساسات و جذبات کا استعارہ ہے۔ لاہور شہر اپنے دروازے سے داخل ہونے والے ہر شخص پر ایسا سحر طاری کر دیتا ہے جس کا اثر دم مرگ تازہ رہتا ہے۔ اس شہر کی مثال کیف سی کی ہے جو ایک بار طاری ہو جائے تو ہو جائے۔ مغربہ طرف سے دریائے راوی سے گھرا یہ شہر باغات اور قدرتی حسن سے مالا مال ہے جس کی وجہ سے اسے عروس البلاد بھی کہا جاتا ہے۔ شہر کے بیچوں بیچ ایک نہر بہتی ہے جس نے الپوری کی خوبصورتی کو چار چاند لگا دیے ہیں۔

جغرافیے کے اعتبار سے یہ شہر ہر طرح کے خطرات سے مقابلہ کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔ لاہور کو پاکستان کا دوسرا بڑا شہر ہونے کے اعزاز کے ساتھ ساتھ دنیا کے پندرہویں بڑے شہر ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ یہ شہر دنیا کے قدیم ترین شہروں میں سے ایک ہے جو کہ بارہ دروازے سے گھرا ہوا ہے۔ تاریخی عمارات کا ایک خزانہ اس دھرتی کی خاص پہچان ہے جس میں سر فہرست آزادی چوک کے ساتھ موجود دی گریٹر اقبال پارک ہے جہاں آزاد پاکستان کا استعارہ مینار پاکستان فلک کی اونچائیوں کو چھو رہا ہے۔

لاکھوں ہیں شہر لیکن کب اور تیرے جیسا
ڈھونڈے نہ ملا ہم کو لاہور تیرے جیسا

ادب لفظ کی ساری وسعتیں، گہرائیاں، رموز و اسرار اور افکار اس شہر میں موجود ہیں۔ جہاں یہ شہر تاریخ کا مرکز ہے وہیں سیاست اور ادب بھی لاہور کی باندی بنے نظر آتے ہیں۔ یہ شہر رومان ہے جو ہر آنے والے کو اپنی دلکشی کے جال میں جکڑ لیتا ہے اس لیے اسے عاشقوں کا شہر بھی کہا جاتا ہے۔ عشق چاہے حقیقی ہو یا مجازی، ایسی نامراد شے ہے کہ نفرت سے اس کا دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا ہے۔ کہا گیا ہے کہ محبت اور جنگ میں سب جائز ہے مگر عشق میں ایسا کچھ نہیں کیونکہ دونوں جذبات میں نہ اول الذکر اور نہ ہی مؤخر الذکر ایک دوسرے سے تعلق رکھتے ہیں۔

شہر لاہور کی تاثیر بھی عشق کی بنیاد سے گھری ہے۔ ”شہر ادب“ ہونے کے ساتھ ساتھ اس شہر کو ”شہر دل“ بھی کہا جاتا ہے۔ جیسے دلوں میں خدا بستا ہے ویسے ہی اس شہر کے باسی ہر نووارد کے دل میں گھر کر لیتے ہیں۔ یہ شہر رحم کی ترجمانی ہے۔ جدید نثر اور نظم کا سہرا اسی شہر کے سر باندھا جاتا ہے۔ جب لکھنؤ، آگرہ اور دلی میں سیاسی زلزلوں نے اردو ادب کی بنیادوں کو ہلا ڈالا تو بچے کھچے ادیبوں اور شاعروں نے اسی شہر میں پناہ لی اور اسی گود میں بڑھ کر پھل پھول گئے۔ اس شہر نے صرف چند ادیبوں کو پناہ نہیں دی بلکہ میانی صاحب کا قبرستان اس بات کا گواہ ہے کہ کتنے شجر اپنی بہاریں دکھا کر زمین بوس ہو گئے ہیں۔ بقول شخصے ؛

”چپہ چپہ بوٹا بوٹا حال دل بتائے گا، جب قدم قدم پہ کوئی عاشق، کوئی ادیب نظر آئے گا۔“

اس شہر کی ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ بھلے آپ کسی بھی شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھتے ہیں، اس شہر کی آب و ہوا آپ کو ادبی شخص بنا کر ہی دم لیتی ہے۔ ایشین آکسفورڈ کے نام سے جانی جانے والی یہ زمین گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کو ادب کا تاج پہنانے ہر مصر نظر آتی ہے جہاں ادب ہی نہیں بلکہ سائنس، ثقافت اور روایات کی امین یہ زمین دنیا میں جانی جاتی ہے۔ جس طرح اردو ادب کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے ویسے ہی اس سر زمین پر پھلنے پھولنے والے ادبا اور شعراء بھی کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں کہ اس سرزمین کی خوشبو جہاں بھی پھیلی ہے سب کا تعارف کراتی گئی ہے۔

سعادت حسن منٹو جیسے افسانے کے امام سے لے کر ناصر کاظمی اور فیض احمد فیض جیسے اوج ثریا کی بلندیوں پر پرواز کرنے والے شعراء اسی سرزمین کی پہچان ہیں۔ مشتاق احمد یوسفی، احمد شاہ بخاری پطرس، علامہ۔ اقبال، اشفاق احمد، بانو قدسیہ، احمد ندیم قاسمی، انتظار حسین اور ڈاکٹر اشفاق احمد ورک جیسے جانے کتنے معمار اردو ادب اسی دھرتی کی شان بن چکے ہیں۔

باغات کا شہر، کالجوں کا شہر، ثقافتوں اور تہذیبوں کا شہر، زندہ دلان لاہور کا شہر اور اس جیسے کئی الفاظ و تراکیب سن کر ہر پاکستانی جوان ہوتا ہے اور ہوش سنبھالتے ہی اس حسن و ادب کی جادو گری کا اسیر ہونے کے لیے ہر تولنے لگتا ہے۔ جہاں اس شہر کا حسن اندرون لاہور کے فیصلہ علاقے میں پھیلا ہوا ہے وہیں مدفن لاہور نے بھی اس کی شہرت کو چار چاند لگا دیے ہیں۔ باغ جناح، لاپور میوزیم، لاہور چڑیا گھر، بوٹانیکل گارڈن اور گلشن اقبال پارک جیسی عظیم الشان جگہیں اس کی فسوں خیزی میں اضافہ کرتے ہوئے ملتی ہیں۔

آج کے لاہور کو ثقافتی، جغرافیائی اور سیاسی اصلاحات کی بنیاد پر تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ پہلے حصے میں پرانا اور قدیمی، تاریخی لاہور آتا ہے جہاں شاہی قلعہ اپنی بنیادیں گاڑھے ہوئے ہے۔ یہ علاقہ بارہ دروازے سے گھرا ہوا جن کی شان و شوکت وقت گزرنے کے ساتھ مٹتی جا رہی ہے۔ یہاں کی تاریخی عمارات میں سے کچھ پر سرکاری نظر کرم ہوا اور ان کو رنگ و روغن کر کے محفوظ بنایا گیا اور بقیہ امتداد زمانہ کے زیر اثر کھنڈر بن چکی ہیں یا پھر کنکریٹ کی دیواروں نے ان کو ختم کر دیا ہے۔

جو جگہیں بچی ہیں وہاں آس پاس کے علاقوں کو بھی خرید کر اس میں شامل کر لیا گیا ہے۔ یہاں اب راتوں کو محفل موسیقی اور ادب سے وابستہ محافل کا انعقاد ہوتا ہے۔ کئی جگہوں کو فوڈ اسٹریٹ میں بدل دیا گیا ہے جس میں شاہی محلہ بھی شامل ہے۔ انارکلی فوڈ اسٹریٹ اور گوالمنڈی فوڈ اسٹریٹ جیسی جگہیں بنا کر اس پرانے لاہور کو سیاحتی مقام میں بدل دیا گیا ہے۔ دوسرے حصے کو بلاشبہ تجارتی لاہور کہا جا سکتا ہے جو مزنگ سے ماڈل ٹاؤن تک پھیلا ہوا ہے۔

کئی کلو میٹرز پر محیط یہ علاقہ تجارتی اعتبار سے بہت اہم ہے۔ اس میں مسلم ٹاؤن، ماڈل ٹاؤن، گارڈن ٹاؤن، گلبرگ اور اچھرہ وغیرہ شامل ہیں۔ فنون لطیفہ سے تعلق رکھنے والی کئی اہم شخصیات انہی علاقوں میں رہی ہیں۔ یہاں موجود شاکر علی میوزیم، چغتائی آرٹ گیلری، نئیر علی دادا آرٹ گیلری اور مختلف کیفے اس تجارتی اور ادبی سرائے کی سالمیت کی علامت ہیں۔

تیسرے حصہ موجودہ ڈی ایچ اے کہلاتا ہے۔ عصر حاضر کے بہت سے ادیب اور شاعر آہستہ آہستہ اس علاقے میں ہجرت کر کے اپنی ایک الگ دنیا بسا رہے ہیں۔ مال روڈ اور انارکلی کے درمیان موجود پاک ٹی ہاؤس ہمیشہ سے ادیبوں اور شاعروں کی پسندیدہ جگہ رہی ہے۔ اسی طرح نئیر علی دادا آرٹ گیلری میں بھی کثیر تعداد میں ادیب نظر آتے ہیں۔ ادبی رسائل اس شہر ادب کا خاصہ رہے ہیں جو آج بھی اسی زور و شور سے جاری ہوتے ہیں جیسے تقسیم کے بعد شروع ہوئے تھے۔ لاہقر کی ایک اہم خوبی اسے تمام ادبی شہروں سے ممتاز کرتی ہے کہ یہ ادبی شہر بعد میں بنا اور ادب کا حصہ پہلے تھا۔ ان گنت افسانوں، غزلوں، نظموں، ناولوں اور رومان پرور شہر ہونے کی حیثیت سے بہت پہلے سے جانا جاتا رہا ہے۔

لاہور شہر اردو زبان کی ترقی و سالمیت کے علاوہ دیگر زبانوں کا بھی گہوارہ رہا ہے۔ مقامی زبانوں میں شاہ حسین سے چراغوں کا ایک سلسلہ فیض احمد فیض اور شاعر مشرق تک چلتا ہوا ملتا ہے۔ بلھے شاہ قصور اور وارث شاہ، دونوں پنجابی زبان کے اعلیٰ پائے کے شاعر اور صوفی گزرے ہیں جن کا مدفن قصور اور شیخوپورہ میں بالترتیب ہے مگر دونوں کا پیر خانہ لاہور میں ہی تھا۔ ان کے مرشد عنایت قادری اسی شہر کے زمین میں آرام فرما رہے ہیں جو ان دونوں کا ادبی منبع رہے تھے۔

جہاں سعادت حسن منٹو اور احمد ندیم قاسمی سے کے کر انتظار حسین، اشفاق احمد، منو بھائی اور منیر نیازی شعر و سخن سے لاہور کی فضا کو مہکاتے اور چکاتے رہے ہیں وہیں استاد دامن اور حبیب جالب جیسے عوام دوست شاعر عوام کو انقلاب اور صفحہ قرطاس کو وقار بخشتے رہے ہیں۔ ساغر صدیقی نے لاہور شہر کی فضاؤں میں درد اور رومانیت کی جو کے چھیڑی وہ آج بھی سنائی دیتی ہے۔ داتا کی نگری کہلائے جانے والے اس شہر کے ادبی منظر نامے کا ایک تاریخی حصہ ادبی محافل پر بھی مشتمل ہے جو کہ ایک صدی سے عموماً چائے خانوں اور کافی کی دکانوں پر منعقد ہوا کرتی تھیں۔

شعرا اپنی شاعری اور ادیب اپنی نثر کے تازہ تخلیقی مجموعے ان چائے اور کافی خانوں میں برپا ہونے والی تنقیدی نشستوں میں پیش کرتے تھے۔ کہتے ہیں صاحب کلام اکثر اپنا کلام پیش کرنے کے بعد پچھتایا کرتے تھے کیونکہ لاہور شہر کے مواد بقول شخصے، خاصے ظالم اور سنگ دل واقع ہوئے تھے۔ اس یادگار رفتہ کی ایک نشانی جو آج بھی سلامت ہے وہ پاک ٹی ہاؤس ہے جو انارکلی بازار کے سامنے اپنی رونق بحال رکھے ہوئے ہے۔

اسلامی جمہوریہ پاکستان کا پہلا شہر لاہور ہے جسے یونیسکو جیسے عالمی ادارے کی جانب سے ”شہر ادب“ کا ۔ خطاب دیا گیا ہے۔ جہاں یہ شہر ادب ہے وہیں اسے ”شہر دل“ اور ”شہر سخن“ بھی کہا جاتا ہے۔ صدیوں سے علم و ادب کا گہوارہ رہنے والا یہ شہر دنیا بھر میں امن کی شناخت، محبت کی پہچان اور پاکستان کی جان ہے۔ اس شہر کی رونقیں ہر دیکھنے والے کو حسرت زدہ کرتی ہیں کہ وہ یہاں کیوں نہ پیدا ہوا۔ مادر وطن، مادر علمی اور مادر پیدائش کی طرح یہ شہر ”مادر ادب“ کہلائے جانے کے لائق ہے۔

یہاں کے باشندے زندہ دلان، تعصبات سے پاک اذہان کے مالک، درد مشترک، قدر مشترک، ثقافتی، تہذیبی، معاشرتی اور اخلاقی اقدار کے دلدادہ و عملی مثال ہیں۔ لوہ پور سے جنم لینے والا یہ شہر بقا کی زندہ مثال ہے جو اپنے ماضی کے حال کا ایک سلسلہ ہے۔ شہر ادب کا مستقبل ابھی اپنی شکل اختیار کر رہا ہے اور یہ پکار رہا ہے کہ لاہور ہمیشہ لاہور رہے گا کیونکہ اسے کچھ اور بننے کی خواہش نہیں ہے۔ بقول شخصے

”لاہور لاہور ہے، موت موت ہے“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments