جسے ہم مسیحا سمجھتے ہیں


کچھ دن پہلے ایک خبر سننے کو ملی، روح کانپ کر رہ گئی۔ خبر تھی تھر پارکر کے علاقے چھاچھرو میں مقامی مرکز صحت کے عملے کی غفلت، آپریشن کے دوران حاملہ خاتون کے بچے کا سر دھڑ سے جدا ہو گیا۔

میڈیا رپورٹ کے مطابق محکمہ صحت کے عملے نے نوزائیدہ کا سر کاٹ کرماں کے پیٹ سے نکالا اور دھڑ پیٹ میں چھوڑ دیا، پھر خاتون کو چھاچھرو سے سول ہسپتال مٹھی بھیجا گیا جہاں کوئی بہتر طبی سہولت نہیں تھی جس کے باعث مٹھی سے حاملہ خاتون کو سول ہسپتال حیدر آباد لایا گیا جہاں خاتون کے پیٹ سے بچے کا دھڑ نکالا گیا اور خاتون کی جان بچائی گئی۔

آس پاس خبر پر تبصرہ کرنے والوں نے اس غلطی کو پسماندہ علاقے سے تعلق سے جوڑ کر بھلا دیا۔

ڈاکٹر جسے ہم مسیحا سمجھتے ہیں اگر وہ ایسی فاش غلطی کریں تو ان کا سدباب ہونا چاہیے کیونکہ ایسا کبھی ہوا نہیں اس لئے ڈاکٹر ایسی بھیانک غلطیاں کرنے کے بعد بھی اپنے پیشے سے جڑے رہتے ہیں۔ ایسے واقعات کہیں بھی رونما ہو سکتے ہیں اس کے لئے علاقے کا پسماندہ ہونا ضروری نہیں۔ تھرپارکر کے واقعے سے مجھے اپنے اوپر بیتے واقعے نے ایک بار پھر تڑپا دیا۔

میکے سے دور اور سسرال میں کوئی قریبی ہمدرد نہ ہونے کی وجہ سے بچوں کی پیدائش اور اس کے بعد کا وقت بہت مشکل سے کٹتا تھا۔ ایسے میں شرف آباد کراچی میں میری ڈاکٹر صاحبہ کا رویہ مجھے بہت ڈھارس دیتا تھا پانچویں بچے کی پیدائش میں کئی مشکلات اٹھائیں اور ڈاکٹر کے رویے نے ایسے میں مجھے کافی ہمت دلائی۔ ظاہر ہے جس کے پاس کوئی نہ ہو اسے ذرا سی ہمدردی بھی بہت لگتی ہے۔

میں بھی ڈاکٹر میں اپنی ماں کا چہرہ محسوس کرتی تھی۔ کچھ سالوں بعد اچانک ہی طبیعت خراب رہنے لگی اور اللہ پاک نے مجھے پھر ایک مرتبہ اولاد کی نعمت سے نوازنے کا شرف بخشا۔ میں اتنے عرصے بعد دوبارہ اس مرحلے سے گزرنے کے لئے ذہنی طور پر تیار نہیں تھی۔ انہوں نے مجھے حوصلہ دیا اور یوں اس حمل کی شروعات ہوئی۔ ابھی تیسرا مہینہ تھا کہ میرے پیروں میں شدید درد رہنے لگا اتنا درد کہ چلنا پھرنا دشوار ہو گیا۔ میں معائنہ کروانے ڈاکٹر کے پاس گئی۔

ایک تفصیلاً معائنہ کے بعد انہوں نے مجھے بتایا کہ چونکہ میں پہلے پانچ بچے پیدا کر چکی ہوں اس لیے مجھے اب اپنی بچہ دانی پر ٹانکے لگوانا پڑیں گے کیونکہ اس کی وجہ سے میری ٹانگوں میں درد ہے۔ میں ان کی ہدایات کے مطابق اس عمل سے گزری اس دوران جو خون کے ٹیسٹ ہوتے ہیں وہ سب کروائے انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ پہلے کبھی کسی بچے میں شوگر تھی یا امی ابو کو شوگر تھی؟ میں نے بتایا کہ نہیں تھی تو وہ بھی مطمئن ہو گئی۔

غرض دن گزرتے رہے اور آٹھویں مہینے کے بعد بچی کا وزن تیزی سے بڑھنے لگا اور میرا وزن تیزی سے گرنے لگا۔ آٹھویں مہینے میں میں نے تیراکی بھی چھوڑ دی تھی میں نے سمجھا شاید اس لئے یہ تبدیلی آ رہی ہے۔

ڈاکٹر کے مطابق سب صحیح تھا لیکن کیونکہ چھٹا بچہ تھا اس لئے آپریشن ہو گا اور یہ بات وہ مجھے نواں مہینے کے شروع میں بول چکی تھیں۔

آپریشن کی تاریخ دے دی گئی۔ میں نے بچی کی سب تیاری کرلی اس کا بیگ تیار کر لیا گھر پر بھی باقی بچو کے کھانے پینے کا انتظام کر لیا اتنے میں میری حالت خراب ہونے لگی۔ گلا خشک ہونے لگا دل کی دھڑکن بہت تیز ہو گئی رنگت پیلی پڑ گئی۔ گھر پر بچو کے علاوہ کوئی نہی تھا میرے ساتھ بہت دیر یہ حالت رہی میں نے ڈاکٹر کو کال کی انہوں نے ایک انجیکشن لکھ کر دیا میرے شوہر گھر پہنچے اور ہم وہ انجیکشن لگوانے قریبی ہسپتال گئے نرس نے انجیکشن لگانے سے پہلے میری بچی کی ہارٹ بیٹ سنی تو چپ ہو گئی اور پوچھا کہ بچی حرکت کر رہی ہے۔

حرکت تھی اور بہت درد بھی بالکل لیبر کے درد کی طرح، میں نے نرس کو بتایا۔
دو دن بعد آپریشن کی تاریخ تھی۔ دو دن تک مجھے لیبر کے درد اٹھتے رہے میں تڑپتی رہی اور وقت کاٹتی رہی۔

بالآخر انتظار کی گھڑی ختم ہوئی اور آپریشن کی تاریخ آئی، نرس نے آپریشن کی تیاری کی بچی کی دل کی دھڑکن سنی اس کے چہرے پر پریشانی کی ایک لہر آئی لیکن وہ چپ رہی۔

میں پہلی مرتبہ آپریشن سے گزر رہی تھی میری کمر پر انجیکشن لگا کر آدھا دھڑ سن کر دیا گیا۔ دماغ ہوش میں تھا سب سن رہی تھی پیٹ کاٹنے کے بعد بچی کو جب پیٹ سے باہر نکالا جانے لگا تو وزن کے بے تحاشا بڑھنے کی وجہ سے وہ باہر نکل نہی پا رہی تھی، بے ہوش کرنے والا ڈاکٹر میرا پیٹ اوپر سے دبا رہا تھا میری ڈاکٹر کھینچا تانی کر رہیں تھیں اس دوران مجھے اپنا پیٹ چرتا محسوس ہوا اور بچی باہر نکل آئی ڈاکٹر کی ہلکی سی چیخ نکلی، بچی کے رونے کی آواز بھی نہیں تھیں آناً فانا اًنہوں نے مجھے پورا بے ہوش کر دیا۔

رات میں مجھے ہلکا ہلکا ہوش آنے لگا، کمرے کے سناٹے نے مجھے سمجھا دیا کہ میں نے ایک مردہ بچی کو پیدا کیا ہے۔

کاش بات یہی تک ختم ہوجاتی لیکن قسمت میں مزید تکلیف لکھی تھی وہ مجھے تین دن تک گلوکوز کی ڈرپ لگاتی رہی۔ تین دن بعد میری چھٹی ہو گئی۔ ان تین دنوں میں میں پھول کر کپا ہو گئی پیشاب میں پس آنے لگی۔

گھر آ کر پیشاب کی پس اور بخار جب حد سے بڑھا تو دوبارہ ان کے پاس گئی۔ تب انہوں نے مجھے شوگر کا ٹیسٹ لکھ کر دیا۔ اس کی رپورٹ آنے پر ان سمیت ہم سب پر یہ مدعا کھلا کہ آخر بچی پیٹ میں ہی کیوں مر گئی تھی۔ ناقابل تلافی نقصان ہونے کے بعد ہم نے اپنا معاملہ اللہ پر چھوڑ دیا۔

اس واقعے نے مجھے ہلا کر رکھ دیا۔ میں جس ڈاکٹر کو اپنی ماں کی طرح سمجھتی تھی ان کی ایک چھوٹی سی غلطی اور دولت کی لالچ نے مجھے توڑ کر رکھ دیا۔

میں شاید کبھی انہیں معاف نہ کر سکوں اس کے ساتھ ساتھ میری التجا ہے ان شوہروں سے ماں باپ سے کہ خدارا بیٹی اور بیوی کو اکیلا مت چھوڑیں اس وقت جب وہ ایک نئی تخلیق کے لئے مقرر کی گئی ہو۔ میری تو شاید زندگی تھی اس لیے موت کے منہ سے کھینچ لائی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments