’عشق وسیلہ‘ سے ’عشق ریاضت‘ تلک: یسین عاطر


یہ داستان ہے ایسے فرد کی جو اپنا سفر حیات ”عشق وسیلہ“ سے کرتا ہے۔ اس کا دوسرا پڑاؤ ”عشق ریاضت“ ہے۔ گمان ہے کہ اس کی اگلی منزل ”عشق کہانی“ ہو۔ وہ اپنی زندگی میں عشق کی اہمیت کے اس حد تک قائل ہیں کہ اس کے بغیر انجمن ہستی کو روکھا پھیکا اور بے رونق و بے کار سمجھتے ہیں۔ ڈاکٹر یسین عاطر نے مصور اعلی کو راہنما کیا، درد و احساس کی انگلی پکڑی اور بنا سود و زیاں کود پڑے اس عشق کی دلدل میں۔ یوں راہ طلب کی حیرتوں کے کواڑ کھلتے چلے گئے اور مسافر کو یہ سفر اچھا لگنے لگا۔ ڈاکٹر یسین عاطر کا کہنا ہے :

منصب عشق پہ فائز ہوں تمہارے جب سے
تختہ خاک پہ مسند کا مزہ آتا ہے

عشق ایسی کہانی ہے کہ جو اس کہانی کا حصہ بن جائے تو پھر تلاش کے اگلے زینے چڑھنے کی للک اور چاہت اسے واپسی کے سب راستے بھلا دیتی ہے۔ اصل میں یہ لگن ہی اس کی روح کو تسکین کی مٹھاس سے آشنا کرتی ہے۔ اسے آگے بڑھتے ہوئے اندازہ نہیں ہوتا کہ کتنا سفر عبور ہوا اور کتنا باقی ہے۔ بلکہ وہ چاہتا ہے کہ اس کی راہ میں کبھی منزل نہ آئے، راستے کی تھکاوٹ بھی اسے حاصل عشق جتنا ہی لطف عطا کرتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنے تخیل میں اس مضمون کو یوں باندھا ہے :

میں بہت شکر ادا کرتا ہوں
جب ترا عشق تھکا دیتا ہے

عشق کی منزلوں میں آسائشیں اور آسانیاں ناپید ہیں ان کی جگہ آزمائشیں ہوتی ہیں۔ عشق میں تن آسان لوگوں کو ڈاکٹر صاحب ایک طرح سے تنبیہ کرتے ہوئے کہتے ہیں :

تم نے اس عشق کے دریا کو کیا پل سے عبور
کسی مٹکے، کسی کشتی کا سہارا لیتے

لکھاری کسی معاشرے کی اصلاح کے لے اسباب ڈھونڈتا ہے۔ اسے بھی عام لوگوں کی طرح قدم قدم پر سنگ راہ روکتے اور ٹوکتے ہیں مگر اس کی سوچ کی اڑان کے دوسرے رستے اختیار کرتی ہے۔ ڈاکٹر یسین عاطر کا یہ عمدہ شعر ان کے ذہن کا عکس ہے

جب یہ خبر ملی کہ پرندے چلے گئے
میں نے شجر کی شاخ پہ جھولا لگا دیا

انسان کو صبر برداشت حوصلہ اور ہمت کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے خیر اور فلاح کا رستہ کبھی ختم نہیں کرنا چاہیے۔ اللہ تعالی نے اپنی مخلوقات کے ان کے رزق کے خود وسائل پیدا کر رکھے ہیں۔ مندرجہ بالا شعر انسانی فلاح سے مالا مال ہے کہ اگر کسی درخت سے بے زبان مخلوق رزق یا بہاروں کی تلاش میں کہیں دوسری جگہ ہجرت کر جائے تو شجر سے انسانی بچوں کے کھیل کود کے طریقے نکالے جائیں۔ ویسے حقیقت میں دیکھا جائے تو خیرو فلاح کے لیے بعض اوقات اتنی آسانی ہے کہ اگر ہاتھ دنیاوی مال یا دولت سے خالی بھی ہوں تب بھی دلوں کی کدورتیں ختم کر کے انسان دوستی کو فروغ دے کر اللہ پاک کی مخلوق کے دلوں پر مرہم رکھا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ کہتے ہیں :

دلوں کے بغض کومل کر ہی دور کرنا ہے
ہمیں کہاں کوئی صحرا عبور کرنا ہے
ہے سیکھنا ہمیں سچائی کو بیاں کرنا
کہ گفتگو میں یہ پیدا شعور کرتا ہے
ہمیں دیے کو جلانا ہے گھپ اندھیرے میں
حصار شدت ظلمت میں نور کرنا ہے

فکر کی چکی میں سے گزرنے والے جانتے ہیں کہ جادہ ٔعشق کوئی آسان استعارہ نہیں ہے۔ جو یقین کی اس روش کو پا لیتا ہے اس کے سامنے صداقتوں کے در وا ہوتے چلے جاتے ہیں۔ یہاں کے مسافر کو مشکلات سر کرنے میں لطف آنے لگتا ہے اور اگر اس سفری کا کاسہ تخلیقی جمالیات سے بھی مالا مال ہو تو اسے ڈاکٹر یسین عاطر کہتے ہیں۔ وہ عشق کے ہر رنگ اور ذایقے سے بنا کے رکھتے ہیں :

سنا ہے عشق کے ماروں کو بھوک لگتی ہے
کہ جیسے اڑتے پرندوں کو بھوک لگتی ہے

اس شعر میں قاری اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب دو مصرعوں میں پورا کرہ ارض لپیٹ سکتے ہیں۔ اب زمیں زادے تو عشق کے درد آشنا ہیں ہی یہاں پر دیگر فضائی مخلوقات کا ذکر کر کے ڈاکٹر صاحب نے سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ کہیں راہ عشق میں کوئی دوسری مخلوق جس کا تعلق انسانی صنف سے نہیں وہ آگے تو نہیں نکل چکی۔ اگر عشق کے مارے درد اور احساس کی غذا پر چلتے ہیں۔ (اس میں دوسری رائے نہیں کہ وہ واقعتاً درد کی غذا پر چلتے ہیں چاہے مجاز کی راہ ہو یا حقیقت کا پہلو ہو) تو کیا جس سے انسان کو ملایا گیا ہے اور جس سے مثال دی گئی ہے ( یعنی پرندے سے تو) ہو سکتا ہے اس نے عشق میں پہل کر رکھی ہو اور ہم انسانوں کی صدیوں کی بلکہ جب سے جسد خالی زمین پر آیا ہے تب سے اب تک کی ریاضت میں پہل کا تصور ہی نہ ہو۔ اس میدان میں اس کا نام دوسرے نمبر پر آتا ہو اور پرندہ ہم سے بازی لے گیا ہو۔ آنے والے زمانے کے کھوج کار یقیناً اس بات پر غور و فکر کر کے کوئی نتیجہ ضرور اخذ کریں گے۔ ویسے میرا اس شعر کو پڑھ کر دھیان فرید الدین عطار کی ”منطق الطیر“ کی طرف چلا گیا جس میں پرندے اپنی پہچان اور خدا کی تلاش میں نکلتے ہیں اور آخر میں جا کر ”من و تو“ کے فلسفے کی گرہ کھل جاتی ہے سب ایک اکائی پر رکتے ہیں اور اس اکائی پر ہی ساری کہانی ختم ہوتی ہے۔ اگر تو ڈاکٹر صاحب یہ کہتے کہ اڑتے پرندوں کو بھوک لگتی ہے جس طرح انسان کو بھوک لگتی ہے تو سیدھی سی بات ہے انسان ہی سب پر معتبر ہے مگر یہاں اگر یہ کہا جاتا ہے کہ جیسے فلاں بھی ایسے کرتا ہے ”فلاں“ کی طرح تو یقیناً آخر الذکر والا ”فلاں“ پہلے کسی تجربے اور عمل کا متحمل ہوا ہے۔ ہمیں تو خدا کی حکمت، اس کی دنیاؤں یا کائناتوں کا آئیڈیا نہیں ہے اگر آئیڈیا کر کے یقین کی منزل تک پہنچنا بھی چاہیں تو یہاں تک ہی پہنچ پاتے ہیں کہ :

چاہے ہیں سو آپ کرے ہیں ہم کو عبث بدنام کیا

ڈاکٹر یسین عاطر کی اسی غزل کے مطلع کے بعد کا شعر دیکھیے جو اپنی تخلیق میں اتنا ہی قد آور ہے جتنا کہ مطلع وہ کہتے ہیں :

یہ سوچ کر ہی نوالے کو رکھ دیا میں نے
شکم بھرا ہو تو ہاتھوں کو بھوک لگتی ہے

اسی غزل کا اگلا شعر محض شعر ہی نہیں بلکہ ہوس زدہ اور لالچ میں ڈوبے ہوئے معاشرے کے لیے ایک بڑا سبق ہے :

رقم ہو جتنی کبھی جیب بھر نہیں پاتی
تجوریوں میں اثاثوں کو بھوک لگتی ہے

یہ بات ورطہ حیرت میں ڈال دیتی ہے کہ ڈاکٹر صاحب اس وقت امریکہ میں مقیم ہیں ان کے گرد و پیش اس سطح کی غربت بھی نہیں کہ لقمے لقمے کو کوئی ترسے یا پھر ناجائز کھلے عام ارتکاز دولت ہے۔ اصل میں ڈاکٹر صاحب نے ان بے نامی اکاؤنٹوں والوں کے منہ پر طمانچہ رسید کیا ہے کہ دولت کی ہوس اور لت پڑ جائے تو قبر کی دیواروں تک ختم نہیں ہو سکتی لہذا اے دولت کے پجاریو! اس کی اصل اور حقیقت سے آگاہی حاصل کرو کہ اس سے کچھ اچھا حاصل ہونے والا نہیں سراسر اس کا بیوپاری گھاٹے میں رہتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کا خوبصورت تخلیقی اظہار ماپنے کے لیے ان کی ”تجوریوں میں اثاثوں کو بھوک لگنے والی ترکیب ہی کافی ہے۔ بہر حال بات ہو رہی تھی عشق کی، تو ڈاکٹر یسین عاطر عشق کے موضوع پر کسی طرح کی لے دے کے قائل نہیں نہ وہ کسی سے کسی بھی نوعیت کی سودے بازی کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں عشق یا تو ہے یا نہیں ہے۔ یہاں درمیانی راہ کوئی نہیں نکلتی۔ اور جو کوئی اس آبلہ پائی کا ہم رقاب ہو جائے اس کی پیاس کبھی نہیں بجھنی چاہیے جیسا کہ ان کی غزل کا یہ آخری شعر اعلان کرتا ہے :

تمہارے عشق میں ایذا پسند ہوں اتنا
نمک لگاؤں تو زخموں کو بھوک لگتی ہے

عشق کے زخم ہی اب عاشق کی قوت کے شہتیر ہیں۔ ان زخموں پر زخم لگیں گے تو عشق کی شاخیں ہری ہوں گی۔ یہ تازگی، سیرابی اور شادابی ہی عاشق کی زندگی ہے۔ ڈاکٹر صاحب کو اپنے عشقیہ عمل اور سفر پر ناز بھی ہے اور یہ ادراک بھی کہ اگر وہ اپنی جہد کسی اور طرف صرف کرتے تو گویا پینڈا کھوٹا کرنے کے مترادف تھا:

گر نہ مجھ کو یہ ترا عشق میسر ہوتا
میرا دیوان بھی ردی کے برابر ہوتا

عشق کے ادراک کے فوراً بعد سلوک کی منزلیں شروع ہو جاتی ہیں۔ ان منزلوں کی پہچان ہر کس و ناکس کے بس میں نہیں۔ ہماری عام سی نظر کو صرف اشارے ہی مل سکتے ہیں عاشق کی کیفیت تک پہنچنے کے لیے خود اسی جیسی ریاضت درکار ہوتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب اپنے سفر کے دھنی ہیں اور اس سفر پر نکلے ہوئے ہیں جو بہت کڑا ہے اور اس میں وہ کسی ایک درد کے محتاج نہیں۔ جب زخم رستا ہے تو اس پر مرہم لگانے کی بجائے درد کو نمکدان میں رکھے بیٹھے ہیں۔ تھوڑے تھوڑے وقفے سے دل پر لگنے والی چوٹیں عشق کو چمکاتی ضرور ہیں مگر مکمل سہارا نہیں دیتیں جو شے ڈاکٹرصاحب کے عشق کو اجالتی ہے وہ صرف انہیں ہی پتہ ہے :

جو سچ کہوں تو مرے اور بھی وسیلے ہیں
اکیلا تو ہی مرے عشق کا کفیل نہیں

کسی عاشق کے عشق میں غنا کے زینے سے پہلے کا مرحلہ جسمانی ریاضت کا طلبگار ہوتا ہے۔ سو شاعر نے نہایت سعادت مندی سے یہ سب قبول کیا ہے۔ جیسا کہ وہ کہہ رہے ہیں :

ہو گئے اب کے غم عشق میں کپڑے ڈھیلے
یہ تو اچھا ہے مرے جسم سے چربی نکلی

جب جسمانی ریاضت سے عشق کی تشنگی بڑھتی ہے تو اس کے اگلے سفر کا شوق جنم لیتا ہے۔ اور اگلا سفر یہی ہو سکتا ہے جو مندرجہ ذیل اشعار میں دکھائی دیتا ہے :

دل ترے عشق سے جوڑا ہے تو کچھ بات بنی
خون پوروں سے نچوڑا ہے تو کچھ بات بنی
عشق فرہاد کا عاطر نہ مکمل ہوتا
سر کو تیشے سے جو پھوڑا ہے تو کچھ بات بنی

تو صاحبو! معلوم پڑا کہ کسی کو چاہ لینا، محبت کر لینا یا اظہار محبت کو عشق نہیں کہا جا سکتا۔ یہاں عشق کا اشارہ یہ ملتا ہے کہ صرف کھال کھچوانے سے ہی سرخروئی کی سعادت نصیب نہیں بنتی بلکہ کھال اپنی جگہ بھی رہے تو انا الحق ہو سکتا ہے۔ کھال کھچنے کی روایت تو عشق میں زندہ مثال ہے۔ یہاں ڈاکٹرصاحب نے اپنے قاری کو ایک بار پھر سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ عشق کی پٹی جو ہمیں پڑھائی گئی تھی اس کے علاوہ بھی اس کی کئی آزمائشیں ہو سکتی ہیں کھال کا اترنا خون نچڑنے سے نسبتاً آسانی فراہم کرتا ہے مگر خون کے نچوڑے جانے سے عاشق کو جس تکلیف اور کرب سے گزرنا پڑتا ہے وہ کھال کھچوائی سے بہت زیادہ تکلیف دہ ہے۔ اس غزل کے مقطع میں ڈاکٹر صاحب عشق میں سر کٹوا دینے کو عشق کی تکمیل نہیں سمجھتے بلکہ وہ کہتے ہیں کہ ذرا سا لطف آیا ہے۔ گویا یہ عشق میں اٹھایا گیا پہلا قدم ہو۔ اگر راہ عشق میں اٹھایا جانے والا یہ پہلا قدم ہے تو دوسرا قدم ہماری سوچوں سے ماورا پڑتا ہے۔

لفظ ”انسان“ کی تعریف، متبادل، تشبیہ، تشریح اور توضیح صرف ”انسان“ ہی ہو سکتی ہے۔ انسان کا معنی انسان ہی ہے اور اس کا درجہ و مقام یہی ہے کہ یہ اشرف المخلوقات ہے۔ انسان کو انسان بنانے میں اس کی لگن، جہد، محنت، محبت، جذبہ، رائیگانی، کسر نفسی، جرات، شجاعت بے نیازی اور دردمندی معاونت کر سکتے ہیں۔ بہر حال آدم سے انسان کی جانب بڑھنے کی پہلی کڑی ہی شدید کڑی ہے کہ خالق انسان سے ایسی التماس دعا ہو کہ جس میں اخلاص اور تیقن کا نکتہ حرف آغاز ہو۔ جیسا کہ ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں :

ہر اک لحاظ سے کم ہوں ضرورتیں میری
شدید بھوک میں چھوٹا میرا شکم کر دے
بلا جواز ہی گریہ بپا کیا اب تک
کلام پاک کی نسبت سے آنکھ نم کر دے
کبھی نہ کوئی بھی مکروہ سوچ غالب ہو
تو میری روح میں اچھائیوں کو ضم کر دے
دعا تو مانگ رہا ہوں، مگر مرے حق میں
جو فیصلہ ہو مناسب وہی رقم کر دے

یسین عاطر نے دنیا کی اس سب سے خوبصورت تخلیق ”انسان“ کو اپنے سخن کا موضوع بنایا۔ ان کے ہنر میں عمل، حرکت اور تحرک کا سبب بھی یہی حضرت انسان ہے۔ یسین عاطر کا رزق سخن یہی ہے کہ انہوں نے اپنے حرف کی برکت سے انسانی زندگی کے تلخ و شیریں تجربات و تفکرات، اس کے نشیب و فراز، احساسات و جذبات اور عمیق مشاہدات کو محسوس کر کے تخلیقی سطح پر پیش کیا ہے۔ انہوں نے جگاڑ لگانے والے اور جگالیوں نقالیوں کی طرح متقدمین، متوسطین، متاخرین، موجود تازہ کار، جدت پسند دعویداران اور نومولود ان سے موازنے مقابلے کی بجائے انسانی حیات کے ساتھ جڑے ہوئے بڑے موضوعات پر دسترس رکھی یوں وہ انسانیت کے محبت کے دامن کو وسعت دے کر شعری آہنگ میں انفرادیت کے حامل ہوئے۔ نہ صرف ان کا مزاج سخن اپنے معاصرین سے جدا ہے بلکہ انسانی فلاح، تلاش اور جستجو سے بھی معمور ہے۔ ڈاکٹر یسین عاطر اپنی مشرقی اخلاقیات اور انسانی رشتوں کی اقدار سے بخوبی شناسا ہیں۔ ماں کے تقدس اور قرض کو شاید ہی اردو شاعری میں کسی نے اس طرح اظہار کا موضوع بنایا ہو جس طرح انہوں نے اس خوبصورت شعر میں کہا ہے :

خدا کا شکر کہ ماں کی دعائیں لیتا ہوں
میں ابتدا ہی سے طیب غذائیں لیتا ہوں
واہ واہ ماں کی دعا کے حوالے سے ’طیب غذاؤں‘ سے کیا ہی میٹھے میٹھے ذایقے کا احساس ہوتا ہے۔

ایک صوفی کی مانند سب سے پہلے دل کا زنگ اتارنے کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ من میں پنپنے والی لاتعداد خواہشات کو لگام دی جائے۔ یہ شعر دیکھیے :

دل کے پنجرے سے پرندوں کو اڑا دو عاطر
آرزوؤں کو مسلسل نہیں پالا کرتے

ڈاکٹر یسین عاطر نے کتاب ”ریاضت عشق“ میں پہلی کتاب کی نسبت کیے نئے موضوعات کو چھوا ہے۔ وہ پوری زندگی کی قدرو قیمت کی بات بعد میں کریں گے پہلے وہ اس کی بجائے ایک ایک دھڑکن کی اہمیت سے واقفیت چاہتے ہیں۔ ہیں وہ کہتے ہیں :

قدر کیجیے عاطر ایک دھڑکن کی
دل اگر ٹھہر جائے پھر نہیں چلا کرتا

ڈاکٹر صاحب نے اپنی شاعری میں بہت سی روایات سے ہٹ کے روایات بنائی ہیں۔ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ محبت اندھی ہوتی ہے اگر یہ اندھی ہوتی ہے تو پھر سچائیوں کو زنگ لگنے کا امکان ہو سکتا ہے سو حقیقتوں کو ان کی سچی اور سچی حالت میں رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ:

جو سوچنا ہے تو شفاف ذہن سے سوچو
محبتیں تو حقیقت بگاڑ دیتی ہیں

ان کے کے شعری امکانات خود بخود ممکنات اور مابعد ممکنات تک پھیلتے جاتے ہیں۔ اپنے شعری آہنگ کی عمارت پر انہوں زندگی کے جو اصول وضع کیے ہیں وہی انسانی فلاح کی تعمیر و تکمیل میں معاون و مدد گار ہوں گے۔ ان کے شعری پیکر کی آبیاری میں فکری حسن و جمال اور نقش و نگاری میں سماجی اصلاح کا عمیق ادراک موجود ہے۔ ان کا نمود سخن ہی ان کے محاسن فکر کا نقیب ہے۔ یہ زندہ افکار انہیں تصنع یا بناوٹ کی ملاوٹ کرنے والے تخلیق نگاروں سے الگ کرتے ہیں۔ یسین عاطر نہ قافیہ پیمائی کے پیچھے بھاگتے ہیں نہ ہی وہ کسی قسم کی لفاظی چربہ سازی کے رسیا ہیں۔ انہیں دقیق و ثقیل اسلوب یا علمیت کا جعلی رعب دار چغہ پہن کر چربہ سازی سے بھی غرض نہیں۔ ان کی شاعری بے حد مقصدی ہے۔ انہوں نے عصری مسائل اور موجود سماج کو گورکھ دھندوں اور مشکلات سے نکالنے کے لیے جدت آمیز انداز اصلاح اور خیالات کی جادوگری سے معنی و مفاہیم کے گوہر نایاب عطا کیے ہیں۔ ان کا یہ اسلوب سخن جدا جدا سہی مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ دانستہ یا نا دانستہ ان کی مقصدیت کا ڈانڈا علامہ اقبال سے جا ملتا ہے جو اس قوم کے مسیحا ہیں۔ یسین عاطر اپنے تخیل پر تو نہ قنوطیت طاری کرتے ہیں اور نہ ہی نامساعد حالات سے گھبراتے ہیں۔ جس موضوع پر قلم کشائی کرنا چاہتے اس سے پورا پورا انصاف برتتے ہیں۔

یسین عاطر کی غزلیں زندگی کے مسائل و مشکلات، اس کی حقیقتوں اور وارداتوں سے گندھی ہوئی ہیں۔ ان کا ہر شعر موضوع اور خیال کے اعتبار سے مکمل ہم آہنگ و مربوط ہوتا ہے۔ ان کی غزلوں کے موضوعات میں نسل نو کے المیے، گمراہی، مردہ و بردہ فروشوں کی داستان، حالات کی ستم ظریفی، اقدار کی شکست و ریخت، غم روز گار اور اس کی آبلہ پائی، وسائل زندگی سے محرومیاں، عہد فراموش کی چیخ اور فریب ذات کے کرب جیسی اذیتیں موجود ہیں۔ وہ الفاظ اور خیال کے سچے صورت گر ہیں۔ ابھی میں نے مضمون کی طوالت سے بچنے کے لیے ان کی شاعری کے کم نمونے پیش کیے ہیں ورنہ ان کی دونوں کتابیں زریں اسباق سے بھری پڑی ہیں۔ ان کے آئینہ خانۂ شاعری میں سماج کی کچھ بڑی کچھ چھوٹی مورتیں موجود ہیں۔ کچھ قد آدم مورتیں اور کچھ نشاندہی کے لیے ذرا پست صورت میں ہیں۔ ہر دیکھنے والے کو اس شفاف تالاب میں اپنا درست عکس دکھائی دیتا ہے۔ بصارت و بصیرت کے حامل فرد کے ظاہر کو اپنے باطن سے منعکس کرنا مشکل نہیں رہ جاتا۔ یسین عاطر نے زندگی کے تجربے اور مشاہدے کی چکی میں پس کر اپنی شاعری کے چراغ اجالے ہیں لہذا ان کی شاعری میں زندگی کے تمام عکس، روشن حیات کے خدو خال، تاریک گوشے اور ان کو سنوارنے کے گر بھی شامل ہیں۔ انہوں نے اپنی شاعری میں زندگی کے دونوں رخ دکھانے کی کوشش کی ہے۔ یہاں وہ الفاظ کے سچے مصور دکھائی دیتے ہیں جو ہر تصویر میں ڈھنگ کے رنگ بھرتا ہے اور پھر سامنے کھڑا ہو کے دیکھتا ہے کہ کہیں کوئی کوتاہی تو نہیں ہوئی تصویر کا کوئی انگ ادھورا تو نہیں رہ گیا۔ اگر کہیں کوئی کجی نظر پڑے تو تصویر کو کھول پرکھ کر دوبارہ سجانے میں لگ جاتے ہیں یوں یہ رنگوں اور لفظوں کا کاریگر اپنی زندگی شعبہ طب کی ہمراہی میں شعبہ رنگ و حرف میں گزارتا چلا جاتا ہے اسے نہ تو اپنے کھو جانے کا ملال ہے اور نہ ہی دوراہے پر زندگی گزارنے پر کسی رائیگانی کا احساس بلکہ وہ تو اسے عبادت سمجھتا ہے۔ وہ ایک حقیقت پرست لکھاری ہیں۔ وہ اپنی تخلیق میں تخیل کی جدت اور خیال کی ندرت سے طاقت و توانائی بھرنے کا ہنر جانتے ہیں۔ یسین عاطر کو صاف اور واشگاف الفاظ میں کسی کے محاسن، تعریف اور برائی کی ممانعت کرتے حجاب نہیں ہے۔ ان کا ہر شعر اپنے اندر کسی نہ کسی سچائی کی تصویر بناتا ہے۔ وہ اپنی رائے میں مبہم اور غیر واضح انداز کے قائل نہیں ہیں۔ ان کی غزل میں معانی و مضمون بہت حد تک صاف اور واضح ہوتا ہے جو پڑھنے والے کو معنوی دقتوں میں پڑنے کی بجائے سوچ کے چرخے کو حرارت دیتا ہے۔ وہ غزل میں جمالیاتی ساحری کے لیے زور نہیں مارتے مگر فطری طور پر ان کے لفظ اپنی جانب قاری کو کھینچتے چلے جاتے ہیں۔ ان کا یہی وصف مہذب قاری کے دل میں اترتا جاتا ہے۔ ڈاکٹر یسین عاطر ہمیشہ تجربات و مشاہدات سے واردات مشق کو گزارنے پر یقین رکھتے ہیں سنی سنائی پر کان نہیں دھرتے۔ وہ تمام معائب حیات کی آنچ کو آشوب چشم میں سے گزار کر اپنی غزل کا ایندھن بناتے ہیں۔ ہم بڑے وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ ڈاکٹر یسین عاطر عہد موجود کے وہ نمائندہ شاعر ہیں جن کی شاعری کی چکاچوند سے پاکستان ہی نہیں بلکہ امریکہ اور گرد و پیش کی ریاستوں کے باسی بھی تا دیر منور رہیں گے۔ ان کی شاعری میں آنے والے زمانوں کے لیے عہد حاضر کے مسائل، ان کا حل اور اکیسویں صدی کی پوری تاریخ پیش کی جا رہی ہے۔

ڈاکٹر یسین عاطر کے شعری مضامین میں بہت متنوع پایا جاتا ہے جو دل چسپ بھی ہیں اور انوکھے بھی۔ انہوں نے ندرت خیال، فنی مہارت اور جدت فکر سے آبروئے غزل کا خیال رکھا ہے۔ انہوں نے نہ تو اپنے تخلیقی مواد کا کسی دوسرے تخلیق کار سے موازنہ کرنے کی کوشش کی ہے اور نہ ہی کسی حریف سے مقابلے کی فضا قائم کی ہے بلکہ انہوں نے اپنے نادر افکار سے ادب کا دامن بھر دیا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ اہالیان اردو ادب خود کو اب ان کے زیر بار محسوس کریں گے۔ قصہ کو تاہ یہ کہ انہوں نے عشق وسیلہ میں جن گتھیوں کو سلجھانے کی کوشش کی تھی عشق ریاضت میں کافی حد تک کامیاب دکھائی دیتے ہیں۔ اس کتاب میں انسان کے بنیادی مسائل و معاملات پر غور و فکر کرتے ہیں۔ ان کے موضوعات میں جو وسعت و گہرائی ہے اس کا واضح عکس ان کے ابلاغ و اظہار میں نظر آیا ہے۔ انہوں نے اپنی شاعری میں قول محال کی بجائے قول فصیح سے کام لیا ہے۔ وہ رمز و ایمائیت کی بجائے واضح بات کرنے کے عادی ہیں۔ ڈاکٹر صاحب لطافت خیال اور نکتہ چینی میں ابہام کے قائل نہیں۔ ان کی نکتہ آفرینی معنویت، گہرائی اور سلاست سے لبریز ہے۔ انہوں نے خیالی تصورات و نظریات کی بجائے زندگی کا حقیقت پسندانہ رخ اپنے خیال کے سانچے میں ڈھالا ہے۔ انہوں نے مشکل الفاظ و تراکیب سے اجتناب برتا۔ اپنے خیالات رواں دواں اور مناسب الفاظ کا استعمال کیا۔ ان کی یہ سادگی ان کے شعری تجربے سے ہم آہنگ ہے۔ ان کا صوتی آہنگ بھی قاری کی توجہ اپنی جانب کھینچتا ہے۔ جہاں ضرورت پڑی تشبہ اور استعارے کا دل کش انداز میں استعمال کیا جس میں ہمیشہ جدت کا احساس ہوتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے نئے دور کے نئے مسائل و معاملات کو اپنی جدت طبع سے تخلیقیت کا موضوع بنایا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments