نظام عدل اور دہرا معیار


۔

یہ اگست 1954 کا مہینہ تھا جب پاکستان کی ایک معتبر بندہ برقع پہن کر سندھ ہائیکورٹ پہنچا اور اس نے مرکزی حکومت کے خلاف کیس کر دیا۔ یہ بندہ مولوی تمیز الدین تھا جو قائد اعظم کے بعد پاکستان کی قانون ساز اسمبلی کے سپیکر منتخب ہوئے تھے۔ ہوا کچھ یوں تھا کہ سات برس گزر جانے کے بعد بھی اسمبلی دستور بنانے سے قاصر رہی تھی۔ آخر کار 24 اکتوبر 1954 کو درد دل رکھنے والے عظیم محب وطن گورنر جنرل غلام محمد کا پیمانہ صبر اس وقت لبریز ہو گیا جب ان کو اطلاع ملی کہ نئے آئین میں ان کا عہدہ نمائشی ہو گا اور اسے صرف شو پیس کے طور پہ رکھا جائے گا اور اس کے پاس کوئی اختیارات نہیں ہوں گے۔ محب وطن گورنر نے ملک کی محبت میں سرشار ہو کر حکم نامہ جاری کیا اور قومی اسمبلی کو تحلیل کر دیا جائے اور حکم نامے میں انہوں نے بتایا کہ ’ملک میں سیاسی بحران پیدا ہو چکا ہے۔ آئینی مشنری ٹوٹ چکی ہے۔ آئین ساز اسمبلی عوام کا اعتماد کھو چکی ہے۔ اس لئے گورنر جنرل نے ملک میں ایمرجنسی کا نفاذ کر دیا ہے۔ جلد از جلد الیکشن ہوں گے۔ جب تک گورنر جنرل کی منتخب کردہ کابینہ ملک کی باگ ڈور سنبھالے گی‘ ۔

اس وقت غدار (بقول گورنر جنرل کے) مولوی تمیز الدین چیف کورٹ چلے گئے۔ حالانکہ حکومتی اہلکاروں نے انہیں پکڑ کر سمجھانے بجھانے کی بہت کوشش کی مگر وہ انہیں جل دے کر اور برقع پہن کر سندھ چیف کورٹ (اس زمانے کا ہائی کورٹ سمجھ لیں ) چلے گئے۔ دعوی دائر کر دیا کہ گورنر جنرل کے پاس اسمبلی تحلیل کرنے کا قانونی اختیار ہی نہیں ہے کیونکہ 15 اگست 1947 کے عبوری آئینی حکم کے تحت گورنر جنرل سے یہ اختیار واپس لے لیا گیا تھا اور صرف اسمبلی کے پاس ہی خود کو تحلیل کرنے کا اختیار ہے۔

نیز یہ کہ آئین تو تیار ہے اور 25 دسمبر کو اسمبلی میں پیش کرنے کی تیاری مکمل ہے۔ آئینی مشنری کی ٹوٹ پھوٹ کا الزام بھی بے بنیاد ہے۔ گورنر جنرل کے وکلا نے بتایا کہ ان کے پاس وہی سارے اختیارات ہیں جو غلاموں کے اوپر برطانیہ کے بادشاہ کے پاس ہوتے ہیں مگر سندھ چیف کورٹ کے چیف جسٹس اس وقت جارج کانسٹنٹائن نامی جج تھے جن کو رتی برابر بھی احساس نہیں تھا کہ وطن عزیز ایک نازک دور سے گزر رہا ہے۔ ان کی سربراہی میں ججوں نے فیصلہ دے دیا کہ گورنر جنرل کا حکم نامہ غیر قانونی ہے اور گورنر جنرل کو جمہوریت ہائی جیک کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ اسمبلی بحال کر دی گئی۔

اب یہاں سے اصل بحران شروع ہو گیا جس نے کئی صدیوں تک پاکستان کے نظام عدل اور سیاست کی بیخ کنی کی۔ سندھ ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو چیلنج کرتے ہوئے گورنر جنرل غلام محمد فیڈرل کورٹ (سپریم کورٹ) چلے گئے۔ جہاں پانچ رکنی بینچ نے کیس سنا۔ اس وقت پاکستان کے دوسرے چیف جسٹس، جسٹس منیر کی سربراہی میں پانچ ججوں میں سے چار نے کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ اس وقت ملک ایک نازک دور سے گزر رہا ہے اور ان سیاست دانوں پر بھروسا نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے گورنر جنرل غلام محمد ملک بچانے کے لیے جو چاہیں، کر سکتے ہیں۔ اس میں شامل انگریز جج جسٹس اے آر کارنیلیئس نے فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ قانون سب سے بالاتر ہے اور اس کی پیروی کرنی چاہیے۔ یوں پاکستان میں ”نظریہ ضرورت“ کا جنم ہوا جس نے پاکستان کو کئی سال تک دفنائے رکھا۔

جسٹس منیر کے فیصلے سے پاکستان میں کچھ مقتدر حلقوں کو اختیار مل گیا کہ وہ چاہیں، تو سیاہ کو سفید کریں یا دن کو رات۔ مگر ملک کے مفاد کی خاطر ہر قانون اور ہر اصول کو نظرانداز کر سکتے ہیں۔ جس کو بعد میں ضرورت پڑنے پر جنرل اسکندر مرزا، ایوب خان، یحییٰ خان، ضیا الحق اور پرویز مشرف سمیت ہر ڈکٹیٹر نے اپنے غیر قانونی اقدامات کو قانونی تحفظ فراہم کرنے کے لیے استعمال کیا۔

یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ پاکستان کی عدلیہ کی مثال اس شخص کی طرح رہی ہے جو ہر طاقتور کے سامنے جھک جاتا ہے۔ جسٹس منیر سے شروع ہونے والا سلسلہ جاری ہے، سوائے دو کے جن کا نام پاکستان کی تاریخ میں سنہرے حروف میں لکھا جائے گا جسٹس کارنیلیئس اور جسٹس رانا بھگوان داس۔ شاید نظام عدل جو اسلامی شریعت کی بنیاد ہے اور جس کے بارے میں حضرت علی رضہ اللہ تعالیٰ عنہ کہتے تھے کہ کفر کا نظام چل سکتا ہے ظلم کا نہیں کو ہم مسلمان نہ سمجھ سکے بلکہ اسے غیر مسلموں نے سمجھ لیا اور وہ ہم کو سمجھانے کی کوشش کر گئے پر آج تک ہم پھر بھی نہ سمجھے۔

مولوی تمیز الدین کا کیس ہو، ذوالفقار علی بھٹو ہو یا پھر نواز شریف ملک کے مقتدر حلقوں نے انھیں لوگوں کو عدلیہ کے ذریعے دبائے رکھا جن میں زیادہ تر کو وہ ہی سیاست میں لائے تھے اور جب ان کی بات نہ مانی گئی اور ان کو مائی باپ ماننے سے انکار کیا گیا تو اسی عدلیہ کے ذریعے سے انھیں سبق سکھایا گیا۔ مختصر یہ کہ پاکستان اس وقت تک دنیا میں ترقی اور خوشحالی حاصل نہیں کر سکتا جب تک یہاں نظام عدل انصاف کرنے سے پہلے یہ نہ دیکھے کہ سامنے کون کھڑا ہے۔ یہاں چہرے دیکھ کہ انصاف نہ کیا جائے۔ بلا امتیاز رنگ و نسل اور عہدہ انصاف کیا جائے اگر ایسا نہ کیا گیا اور بار بار انصاف کا قتل ہوا تو اللہ نہ کرے کہ یہ معاشرتی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو اور ہماری داستاں تک نہ ہوگی داستانوں میں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments