ائر مارشل اصغر خان کا باغیانہ خط اور شہباز گل کا بیان


پاکستان قومی اتحاد نامی حزب اختلاف کا گٹھ جوڑ عام انتخابات 1977 میں دھاندلی، نظام مصطفی ﷺ کے نفاذ اور نئے الیکشن کا مطالبہ لئے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف سراپا احتجاج تھا۔ سربراہ حکومت نے آئین کی شق 245 کے تحت سول انتظامیہ کی مدد کے لئے فوج کو طلب کر رکھا تھا۔ مختلف شہروں میں سپاہ اور عوام کا تصادم جاری تھا۔ دینی جذبہ سے سرشار کارکنان مسلسل کرفیو کی خلاف ورزیوں کے مرتکب ہو رہے تھے۔ چند مقامات پے گولی چلائی جا چکی تھی اور بعض جگہوں پر فوج کی جانب سے عوام پر گولی چلانے سے انکار کی خبریں گرم تھیں۔

عوامی غضب بڑھتا جا رہا تھا۔ مظاہرین نیکروں پر کراس کا نشان لگا کر سپاہیوں کی طرف اچھالتے۔ (ہندوستان نے نکروں پر ایسے نشانات لگا کر فوجیوں کو پاکستان بھیجا تھا) ۔ یہ عمل سن اکہتر کا زخم تازہ کر کے فوج کے مورال کو مزید کم کر رہا تھا۔ اس صورتحال میں تحریک استقلال کے سربراہ اور ”پی این اے“ کے اہم راہنما ائر مارشل اصغر خان جن کو افواج پاکستان میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ انہوں نے ایک خط لکھا جس کی تین ہزار سے زائد کاپیاں فوجی افسروں میں تقسیم کروا دی گئیں۔ اس چٹھی میں۔ فوجی قیادت کو مخاطب کر کے مشورہ دیا گیا تھا :

1۔ افسران ان دنوں جن سرگرمیوں میں مصروف ہیں، وہ سوچیں کہ کیا وہ قانونی ہے؟ اگر جواب نہ میں ہو تو پھر آپ اخلاقی طور پر دیوالیہ اور اپنی ملک و قوم کے خلاف سنگین جرائم کے مرتکب ہوں گے۔

2۔ مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن ایک سازش تھی جس میں موجودہ وزیر اعظم نے شاطرانہ کردار ادا کیا، اس کے بعد پاکستان کے مختلف حصوں میں بھی ایسے ہی آپریشن کرائے جن میں بلوچستان اور دیر کے علاقے شامل ہیں۔ اب انھوں نے انتخابی دھاندلی کروا دی ہے۔ کئی لوگوں کو کاغذات نامزدگی ہی داخل نہیں کرانے دیے گئے جن لوگوں نے کوشش کی، ان میں سے کچھ اب تک لاپتہ ہیں۔

3۔ ان انتخابی دھاندلیوں کے بعد بچے اور عورتیں تک سڑکوں پر بطور احتجاج نکل آئے ہیں۔ ان پر تشدد کیا گیا اور ہزاروں لوگ قتل کیے جا چکے ہیں جس پر آپ کے سر شرم سے جھک چکے ہوں گے۔ ان لوگوں نے قربانی اس لیے دی ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے ساتھ دھوکا کیا گیا ہے۔

4۔ یہ انتخابات آزادانہ اور منصفانہ نہیں تھے، بھٹو آئین کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوا ہے، آپ پر یہ فرض نہیں ہے کہ اس غیر آئینی حکومت کا دفاع کریں اور وہ آپ کو عوام کو قتل کرنے پر مجبور کر سکتا ہے۔ آپ اس بچے کو گولی مار کر ہلاک کرنے کی وضاحت کس طرح کر سکتے ہیں جس نے فوج کو اپنے ہاتھ سے وکٹری کا نشان بنا کر دکھایا تھا؟

5۔ ’کیا آپ نہیں سمجھے کہ اپنی تاریخ کے تیس بدترین سالوں کے دوران پاکستان بھر کے عوام نے اپنی افواج کے لیے محبت اور خلوص کا جذبہ ظاہر کیا ہے، جب آپ نے مشرقی پاکستان میں ہتھیار ڈالے تو عوام خون کے آنسو روئے، انھوں نے ہمیشہ آپ کی عزت کی، دعائیں مانگیں۔ انھوں نے خود کو بھوکا رکھا اور اپنے بچوں کو بھوکا مارا کہ آپ کو پیٹ بھر کر کھانے کو ملے اور آپ کے جنرل اور اعلیٰ افسر ایسی زندگی گزار سکیں جو برطانیہ اور امریکی جرنیلوں کو نصیب نہیں۔ مجھے یہ کہتے ہوئے دکھ ہو رہا ہے کہ محبت دم توڑ چکی ہے، خدارا، اسے نفرت میں مت بدلنے دیجئے‘ ۔

6۔ موجودہ حالات میں فرائض کی بجا آوری کا مطلب غیر قانونی احکامات پر عمل درآمد نہیں۔ آپ کے لیے یہ وقت آ گیا ہے کہ اس اپیل کا ایمان داری سے جواب دیں اور پاکستان کو بچائیں۔

(مندرجات بشکریہ بی بی سی)

ائر مارشل اصغر خان کے اس خط نے بھٹو حکومت کو ہلا کر رکھ دیا۔ خط کو فوج میں بغاوت پھیلانے سے تعبیر کیا گیا۔ حکومت نے ائر مارشل اصغر خان کے خلاف سخت قانونی کاروائی کرنے کا فیصلہ کیا۔ ماضی کی چند معتبر مبصرین اس سندیسہ کو بھٹو حکومت کے خلاف فوجی بغاوت کا سبب قرار دیتے ہیں۔ پاکستان کی تاریخ شاہد ہے کہ فوجی بغاوتیں ایک خط پڑھنے یا کسی جرنیل کے موڈ سے نہیں ہوا کرتیں کہ صاحب بہادر کا شب ایوان اقتدار پر قبضہ جمانے کا من چاہا اور اس حکم پر صاحب کو تخت نشیں بنا دیا گیا۔

مارشل لاء امن و امان کی دگرگوں ہوتی صورتحال کو بہانہ بنا کر نافذ تو کیا جاتا رہا ہے البتہ اس کے پیچھے گہری منصوبہ بندی اور پوشیدہ ہاتھ کار بند ہوتے ہیں۔ اپنے سے بڑی طاقت کی شہ کے بغیر عوامی حکمران کے خلاف بغاوت کا سوچا بھی نہیں جاسکتا۔ اگر صرف نقص امن کی وجہ سے مارشل لاء لگتے تو سن 1953 کی خونی ”تحریک ختم نبوت“ کے دوران میجر جنرل اعظم خان وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کی اجازت سے فقط لاہور شہر میں امن بحال کرنے کے لئے مارشل لاء نافذ نہ کرتے بلکہ وزیر اعظم کو ہی چلتا کر دیا جاتا۔ ایوب خان کو 1958 کے اکتوبر کی 26 تاریخ یعنی پانچ سال تک صدر پاکستان کہلوائے جانے کے لئے انتظار تو نہ کرنا پڑتا!

عمران خان کے چیف آف سٹاف شہباز گل اور اصغر خان مرحوم کی شخصیت اور کردار میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ کہاں راجا بھوج اور کہاں گنگو تیلی! البتہ یہ حقیقت ہے کہ اپنی چرب زبانی کی بدولت شہباز گل نے عسکری ماتحتوں کو اعلیٰ حکام کے احکامات پر عملدرآمد کرنے سے قبل سوچنے کی سنگین ترغیب دے کر ائر مارشل اصغر خان کا تاریخی عمل دہرا دیا ہے۔ دور رواں کے بھٹو کہلائے جانے والے عمران خان حزب اختلاف جبکہ نو ستارہ تحریک سے مشابہ پاکستان جمہوری تحریک (پی ڈی ایم) مسند اقتدار پر براجمان ہے۔

افواج پاکستان بارہا خود کو سیاست سے غیر جانبدار اور آئینی دائرہ میں رہنے کی یقین دہانی کروا چکی ہیں۔ ائر مارشل اصغر خان تو بھٹو مرحوم کے کھلے مخالف تھے البتہ شہباز گل نے سرخ لکیر عبور کر کے عمران خان صاحب کے ساتھ دوستی کی بجائے دشمنی نبھائی دی ہے۔ 10 اگست کی شام کی جانے والی پریس کانفرنس میں خان صاحب کی ”بدن بولی“ ظاہر کرتی ہے کہ وہ شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہیں۔ اور فوج سے ٹکراؤ نہیں چاہتے۔ سابق وزیر اعظم کے مدافعانہ بیانات اس بات کے عکاس ہیں کہ مقتدرہ نے گل کے بیان کو سنجیدگی سے لیا ہے۔ عین ممکن ہے کہ اس جانب سے اسے تحریک انصاف کے 13 اگست کو ہونے والے جلسہ سے قبل طاقت ور شخصیات کی نبض یا صبر کا پیمانہ جانچنے کی ایک چال سمجھا جا رہا ہو۔

تحریک انصاف گل کے متنازعہ بیان سے اظہار لاتعلقی کے باوجود مستقبل میں حکومتی عتاب کا شکار نظر آتی ہے تو سمجھ لینا چاہیے کہ خان کو نا اہلی کی تلوار کے ساتھ گھیر کر اپنے مطالبات میں لچک دکھانے کے لئے مجبور کیا جا رہا ہے۔ عمران خان اگر دباؤ قبول نہیں کرتے تو خاکم بدہن پاکستان شدید سیاسی عدم استحکام کے در پے کھڑا ہو گا۔ جس کا انجام بدترین آمریت کی صورت میں نکل سکتا ہے یہ اور بات ہے کہ پاکستان کے عوام اس دفعہ فوج کی بجائے مقتدرہ کی ممکنہ حمایت کے ساتھ سولین حکمرانوں کو آمریت کا مظاہرہ کرتے دیکھیں گے۔ یہ آمریت کتنی کامیاب ہوتی ہے اس کا فیصلہ تاریخ ہی کرے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments