بحیرۂ کیسپیئن پر روس کا ایک طلسماتی شہر


جب 12 اگست 2010 میں سفارت خانے کی ٹیم جو تقریباً پورے سفارت خانے پر مشتمل تھی، ماسکو سے سوچی کے لیے روانہ ہوئی تو شاید کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ کس طرح کے شہر جا رہے ہیں؟ اس کے خدوخال، موسم اور لوگ کس طرح کے ہیں؟ لیکن جب جہاز نے رن وے کو چھوا تو مجھے ایک جھٹکا سا لگا۔ میں نے بار بار آنکھیں ملیں کہ کہیں خواب تو نہیں دیکھ رہا۔ ایک جانب وہی مارگلہ کی پہاڑیاں نظر آ رہی تھیں، مشرق کی جانب مری کی برف پوش پہاڑیاں اپنی جھلک دکھا رہی تھیں۔

شہر درختوں کے پتوں کی گہری سبز دبیز چادر میں لپٹا ہوا تھا۔ ائرپورٹ سے نکلے تو دونوں جانب اسلام آباد سے مری جانے والی سڑک کی طرح سانپ کی طرح بل کھاتی سڑک درختوں میں ڈوبی ہوئی تھی۔ ہاں یہ اس طرح اونچائی کی جانب نہیں بلکہ تقریباً ایک ہی سطح پر تھی۔ مگر کچھ آگے جا کر سڑک کے ایک جانب حد نظر تک پھیلا ہوا کالا سمندر اور دوسری جانب گھنا، گہرا سبز جنگل تھا۔ شاید اسلام آباد میں اس کمی کو پورا کرنے کے لیے راول جھیل بنائی گئی ہے۔

یا خدایا ہم کسی شہر میں آئے ہیں یا کسی جنگل یا سمندر میں آ نکلے ہیں۔ سمندر اتنا لق و دق اور پر سکون تھا کہ صحرا لگتا تھا۔ ہو سکتا ہے جب اس کی موجیں مضطرب ہوں تو یہ بھی طوفان زدہ صحرا کی طرح لگتا ہو؟ پھر شہر آ گیا۔ واہ کیا شہر ہے؟ لگتا ہے کسی مصور نے صفحۂ قرطاس پر ایک خوبصورت تصویر بنا دی ہے اور اس کی بو قلمونی سے رنگوں، روشنیوں اور سایوں کا ایک خاموش اور ساکت نقش کندہ ہو گیا ہے۔ مگر ٹھہریے، اتنی بھی کیا جلدی، ابھی تو ہم مضافات شہر میں ہیں۔

جوں جوں ہم سمندر سے دور اور مرکز شہر سے قریب ہوتے گئے، شہر کی رونق ایک ہنگامے پہ موقوف ہوتی گئی۔ سکوت ایک نہ ختم ہونے والی حرکت اور خاموشی ٹریفک کے مسلسل شور میں تبدیل ہوتی گئی اور اب تو لگتا تھا ہم ماسکو کے عین مرکز میں پہنچ گئے ہیں۔ وہی ٹریفک کا سمندر، چیونٹیوں کی طرح رینگتی ہوئی گاڑیاں اور وسط شہر کی جانب وہی ٹریفک جام۔ ہمیں آنے والے دنوں کی دیومالائی مشکلات صاف نظر آنے لگیں۔

ہم یہاں صدر پاکستان کے دورے کے حوالے سے آئے تھے۔ صدر پاکستان آصف علی زرداری کی سرکردگی میں پاکستانی وفد چہار فریقی کانفرنس میں شرکت کے لیے آیا تھا۔ اس کانفرنس میں پاکستان کے علاوہ روس، افغانستان اور تاجکستان کے سربراہان بھی شرکت کر رہے تھے۔ اس کانفرنس میں ان ممالک کے درمیان مختلف شعبوں میں تعاون میں اضافے پر بات ہونا تھی۔ خصوصی موضوع بحث تاپی (TAPI) اور کا سا۔ 1000 (CASA۔ 1000 ) کی مجوزہ گیس پائپ لائنوں کی تعمیر تھی۔

ان پائپ لائنوں کی تعمیر کے سلسلے میں روس ہر طرح کے تعاون کے لیے آمادہ اور اس سلسلے میں ان علاقے کے ممالک میں اشتراک کار کے لیے مفاہمت پیدا کرنے کے لیے کوشاں تھا۔ آج کی دنیا معاشی سیاست کاری کی دنیا ہے اور سیاست تیل و گیس کی پائپ لائنوں کے گرد گھوم رہی ہے۔ انسانی آزادیوں، جمہوریت اور انسانی اقدار کے تمام تر بلند و بانگ دعووں کے باوجود، عراق، افغانستان، شام وغیرہ میں جنگ اور بیرونی مداخلت کی اصل وجہ یہی پائپ لائنیں ہی نظر آتی ہیں۔

اس کانفرنس میں صدر پاکستان کی اس وقت کے روسی صدر مدیادیو، افغان صدر حامد کرزئی، اور تاجکستان کے صدر امام علی رحمان سے دو طرفہ ملاقاتیں بھی ہوئیں۔ پوری کانفرنس کے دوران باہمی مفاہمت اور اشتراک کا ر کے لیے کثیر الجہتی تعاون کے جذبات کا خوشگوار تاثر قائم ہوا۔ ان منصوبوں پر عمل درآمد کی بات آج بھی بڑی شد و مد مگر حسرت آمیز لہجے میں کی جاتی ہے۔ ان منصوبہ جات پر تیزی سے عمل نہ ہونے کی ایک وجہ تو سامنے نظر آتی ہے اور وہ افغانستان کی اندرونی صورت حال اور وہاں امریکی افواج کی موجودگی ہے۔

کاسا 1000 اور تاپی (تاجکستان، افغانستان، پاکستان، انڈیا پائپ لائن) کا خواب دیکھنے والے ممالک نے شاخوں کو تو مضبوطی سے پکڑے رکھا مگر جڑ پر توجہ نہیں دی۔ ان پائپ لائنوں کو حقیقت کا روپ دھارنے کے لیے پرامن افغانستان ایک جڑ کی حیثیت رکھتا ہے۔ حالات نے ثابت کیا ہے کہ امریکہ، ایساف اور نیٹو افواج کی موجودگی وہاں امن کی نہیں البتہ جنگ کی مکمل ضمانت ضرور فراہم کرتی ہے۔ 2014 میں ان افواج کا مجوزہ انخلا وہاں کس چیز کی ضمانت فراہم کرے گا، یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔

اس وقت تک یہ پائپ لائنیں، پائپ ڈریم (خواب) ہی رہیں گی۔ لیکن اس کانفرنس اور بعد میں صدر پاکستان کا 2011 میں دورہ ماسکو اور سینٹ پیٹرزبرگ اور وزیر اعظم پاکستان کا دورہ سینٹ پیٹرزبرگ جس میں انہوں نے اس وقت کے وزیر اعظم ولادی میر پیوٹن سے ملاقات کی، نے پاکستان اور روس کے درمیان دیرپا تعلقات کی مضبوط بنیاد رکھ دی۔

بات روس کے بحر اسود (Black Sea) پر بسے اس شہر دلپذیر کی ہو رہی تھی جسے قدرت نے اپنی تمام تر فیاضیوں سے نواز رکھا ہے۔ شہر کا موسم گرم مرطوب ہے۔ شہر انگور کے باغات میں گھرا ہوا ہے، ہر سو ہریالی ہی ہریالی ہے۔ روس بھر سے سیاح غول در غول یہاں آتے ہیں اور یہاں کے نظاروں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔

یہ شہر شمالی کاکسس کے حساس علاقے کے جنوبی سرے پر ساحل سمندر پر واقع ہے۔ بحر اسود کے گرم پانیوں پر واقع صاف و شفاف ساحل اور ریتلی (Beaches) کی وجہ سے روس کی طویل سردیوں کے ستائے ہوئے باسیوں کے لیے یہ شہر کسی نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں جہاں یہ لوگ موسم گرما میں دنیا و ما فیہا سے بے نیاز خواب خرگوش کے مزے لیتے ہیں۔ شہر کی سیاسی اور جغرافیائی اہمیت کی ایک وجہ اس کا محل وقوع ہے۔ اس نیند میں چلتے ہوئے شہر کے ایک طرف چیچنیا اور داغستان کے اہم روسی علاقے اور دوسری جانب بحر اسود واقع ہے۔ چیچنیا اور داغستان کے خوبصورت اور سر سبز و شاداب پہاڑی سلسلوں اور وادیوں کے آخری سرے پر یہ شہر فسوں یوں یک بیک نمودار ہوتا ہے جیسے سمندر سے اچانک جل پری نکل آئے۔ شہر، باغات، پارکوں اور قدرتی ماحول کی بہتات کی ایک عمدہ مثال ہے۔

اس شہر کے قریب ہی خاص قسم کی شہد کی مکھیوں کا ایک بہت بڑا نجی فارم ہے۔ یہ خاص قسم کی شہد کی مکھیاں بے حد قیمتی اور دنیا بھر میں مشہور ہیں۔ ملکہ کی قیمت تو دس ہزار ڈالر فی ملکہ ہے، اس فارم میں انتہائی اعلیٰ معیار کا شہد حاصل کیا جاتا ہے اور مہنگے داموں برآمد کیا جاتا ہے، میں جن دنوں کی بات کر رہا ہوں تب شہر ابھی سوچی اولمپکس کے بخار میں پوری طرح مبتلا نہیں ہوا تھا اگرچہ یہ فیصلہ ہو چکا تھا کہ 2014 کے سرمائی اولمپکس اسی شہر دلپذیر میں ہوں گے اور روسی فیڈریشن کو ان کی میزبانی کے اعزاز سے نوازا جا چکا تھا۔

شہر کے نقشے میں جن بڑی بڑی تبدیلیوں کے بارے میں بتایا جا رہا تھا وہ سب خواب کی باتیں لگتی تھیں۔ ابھی اولمپک ایسوسی ایشن کو یقین نہیں تھا کہ بین الاقوامی معیار کے بڑے بڑے کھیل کے میدان، اسکیٹنگ کے لیے قریبی جنگلات میں راستے ( Paths) ، کھلاڑیوں اور افسران کی رہائش کے لیے ہوٹل وغیرہ اتنی مدت میں تعمیر کیے جا سکیں گے۔ مگر روس نے ان اولمپکس کو اپنے لیے ایک چیلنج کے طور پر لیا اور روسیوں نے اپنی شبانہ روز محنت، لگن اور مہارت سے دیکھتے دیکھتے سوچی کو ایک عظیم اولمپکس شہر میں تبدیل کر دیا۔ کامیابی کے اس سفر میں ان کے راستے میں بے شمار مشکلات حائل تھیں جن میں سر فہرست اولمپکس کے قریب کے دنوں میں مغرب کا بڑھتا ہوا معاندانہ رویہ تھا۔ پہلی بار احساس ہو رہا تھا کہ پورا مغربی میڈیا اولمپکس کی ناکامی کے لیے خلوص دل سے دعا گو اور سرگرم عمل ہے۔

جوں جوں اولمپکس قریب آتے گئے مغربی میڈیا میں ان کی ناکامی کی پیش گوئیاں زور پکڑتی گئیں۔ کبھی تو یہاں دہشت گردوں کے ممکنہ حملوں کی خبریں مزے لے لے کر نشر کی گئیں اور کبھی مختلف کھیلوں کے لیے تعمیر کردہ انفراسٹرکچر میں مبینہ خامیوں کا تواتر سے ذکر کیا گیا۔ فطرت کو بھی شاید روسیوں کا امتحان لینا مقصود تھا۔ چنانچہ اولمپکس کے قریب شہر کا موسم غیر متوقع طور پر گرم ہو گیا اور برفباری بھی کئی گزشتہ عشروں کے مقابلے میں بہت کم ہوئی۔

چنانچہ یہ خطرہ پیدا ہو گیا کہ برف سے متعلقہ کھیل جیسے برفانی ہاکی اور اسکیٹنگ کے مقابلے ضرور متاثر ہوں گے۔ لگتا تھا مغربی ممالک اور امریکہ بہادر کے دل کی مراد بر آنے والی ہے۔ پھر یوں ہوا کہ سوچی سے سینکڑوں میل دور روس کے شہر و لگاگراڈ میں اکتوبر، نومبر اور دسمبر 2013 میں دہشتگردی کے تین واقعات ہوئے جن میں کئی قیمتی جانیں ضائع ہو گئیں۔ پھر کیا تھا، مغربی میڈیا کو اپنا دل پسند موضوع مل گیا۔ ان دھماکوں کو سوچی میں مستقبل میں ہونے والے تصوراتی دھماکوں کا پیش خیمہ قرار دیا گیا۔

روسی سیکورٹی کے اداروں کی نا اہلیت کا رونا رویا گیا اور سوچی اولمپکس کی ناکامی کی پیش گوئیوں پر مبنی پروگراموں کی بھر مار ہو گئی۔ یہاں تک کہ روسی صدر پیوٹن کو سوچی میں کسی بھی دہشت گرد کارروائی کے نہ ہونے اور تمام کھلاڑیوں اور شہریوں اور سیاحوں کے مکمل تحفظ کی ذاتی ضمانت دینا پڑی۔

برفانی کھیلوں کے انعقاد کو یقینی بنانے کے لیے روسیوں نے ناقابل یقین کام کر دکھایا۔ سوچی کے شمال میں کاکسس کے پہاڑی سلسلے سے لاکھوں ٹن برف کو کھرچ کر دباؤ اور ٹھنڈک کے ذریعے تودوں میں تبدیل کیا گیا اور ان تودوں کو مقابلوں کے وقت اسکیٹنگ اور برفانی ہاکی کے لیے فراہم کیا گیا۔ چنانچہ مقابلے بھی بین الاقوامی معیار کے عین مطابق منعقد ہوئے اور دنیا کے مہنگے ترین سرمائی اولمپکس بھی بخیر و خوبی مکمل ہو گئے۔

شہر میں امن و امان، تحفظ اور سہولیات کی فراہمی مثالی رہی۔ روس سونے، چاندی اور تانبے کے تمغے حاصل کرنے والے ممالک میں سر فہرست رہا۔ ان اولمپکس پر روس نے روپیہ پیسہ پانی کی طرح بہایا مگر ان سے نہ صرف بعد ازاں روس میں ایک شاندار سیاحتی شہر کا گراں قدر اضافہ ہوا جس سے معاشی سرگرمی میں اضافے سے لاکھوں لوگوں کو فائدہ ہوا بلکہ صنعت و حرفت اور کاروبار کے بے شمار مواقع بھی دستیاب ہوئے۔ ان اولمپکس سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ روس خواہ زاروں کا ہو، سوویت روس ہو یا سرمایہ دارانہ، مغرب کا اس کے ساتھ رویہ معاندانہ ہی رہا ہے اگرچہ کبھی تو یہ مخاصمت دبی دبی اور در پردہ رہتی ہے اور کبھی کھل کر سامنے آ جاتی ہے جس کا ذکر آگے یوکرین بحران کے حوالے سے آئے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments