وہ فصل گل جسے اندیشۂ زوال نہ ہو


خدا کرے کہ میری ارض پاک پر اترے۔
وہ فصل گل جسے اندیشۂ زوال نہ ہو۔
یہاں جو پھول کھلے وہ کھلا رہے برسوں۔
یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو۔
یہاں جو سبزہ اگے وہ ہمیشہ سبز رہے۔
اور ایسا سبز کہ جس کی کوئی مثال نہ ہو۔
گھنی گھٹائیں یہاں ایسی بارشیں برسائیں۔
کہ پتھروں کو بھی روئیدگی محال نہ ہو۔
خدا کرے نہ کبھی خم سر وقار وطن۔
اور اس کے حسن کو تشویش ماہ و سال نہ ہو۔
ہر ایک خود ہو تہذیب و فن کا اوج کمال۔
کوئی ملول نہ ہو کوئی خستہ حال نہ ہو۔
خدا کرے کہ میرے اک بھی ہم وطن کے لیے۔
حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو۔
خدا کے کہ میری ارض پاک پر اترے
وہ فصل گل جسے اندیشۂ زوال نہ ہو۔

احمد ندیم قاسمی کی یہ دعائیہ نظم ہمارے قومی ادب کے ماتھے کا جھومر ہے جو قومی ترانے کے بعد یہ سب سے زیادہ پڑھی جاتی ہے اس نظم میں جو دعائیں کی گئی ہیں ان کا انداز ایسا پر کشش ہے کہ ایک ایک مصرعہ دلوں کو چھوتا ہے۔ اس وقت پاکستان جن ناگفتہ بہ حالات سے گزر رہا ہے وہ سب کے سامنے ہیں۔ اگرچہ ہمارا وطن اپنی عمر کے 75، ویں سال میں داخل ہو چکا ہے، مگر اس بار یوم آزادی اس عالم میں منایا جا رہا ہے کہ ہمارے حکمرانوں کی نا اہلیت کے سبب ملک معاشی گرداب میں گھرا ہوا ہے۔

اس کے دیوالیہ ہونے کی باتیں زبانوں پر ہیں اور سیاست دان ایسے نازک ترین دور میں بھی ایک دوسرے کا چہرہ دیکھنے کے روادار نہیں۔ ”سونامی“ کے نام پر تبدیلی لانے کے دعوے دار اقتدار کی غلام گردشوں سے کیا نکلے کہ انہوں نے ہر فرد اور ادارے کو نشانہ بنایا۔ عجب طرفہ تماشا ہے کہ جس لیڈر کی ساری زندگی مغربی کلچر اور مغربی آقاؤں کے ہاں گزری وہ غلامی سے آزادی دلانے کے علمبردار بن کے پھنکار رہے ہیں۔ غدار غدار اور چور چور کی گردان بھی جاری ہے۔

ساتھ یہ عالم بھی ہے کہ ان کے پیروکار جب ”امریکہ مردہ باد“ ”امریکہ کا جو یار ہے غدار غدار ہے“ کی نعرہ زنی کرتے ہیں تو حضور کی بے تابی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ وہ خود اور ان کے ساتھی منہ پر انگلیاں رکھ کر امریکا مخالف نعروں سے روکتے نظر آتے ہیں۔ اسی پر بس نہیں امریکا مخالف بیانیے میں جو رطب و یابس کہا جاتا رہا در پردہ اس کی معافی تلافی کے لیے امریکی سفیر سے رابطے کیے جاتے ہیں اور اب تو باقاعدہ ایک لابنگ فرم کی خدمات بھی لاکھوں ڈالر کے عوض حاصل کرلی گئی ہیں جو امریکہ میں ان کی امیج کو بہتر بنانے کے لئے کام کرے گی۔

حال ہی میں امریکی سفیر کے پی کے دورے پر گئے اور وہاں کی حکومت کے محکمہ صحت کو 35 یا 36 گاڑیوں کا تحفہ دیا جنہیں نہایت ممنونیت سے وصول کیا گیا اور سفیر کا ریڈ کارپٹڈ استقبال بھی کیا۔ اس موقع پر تحریک انصاف کی حکومت کے کار پرداز اپنے قائد کے بیانیے کو بھول گئے کہ وہ امریکی غلامی سے قوم کو نجات دلا کر رہیں گے۔ امریکی سفیر جن کا نام ڈونلڈ بوم ہے ایک ایسے ہی امریکی سفارت کار کے حوالے سے ”ایبسولوٹلی ناٹ“ کے نعرے بھی لگائے جاتے رہے اور اسی کے ہم نام سے عطیات بھی وصول کیے جا رہے ہیں۔ غالب نے سچ ہی کہا تھا

ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ۔
دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھلا۔

قول و عمل کا یہ تضاد غلامی سے آزادی کے اس نعرے کی حقیقت کھول رہا ہے۔ اگر واقعی حقیقی آزادی کا حصول خواہش ہوتی تو غیرت مندی کا تقاضا تھا کہ یہ تحفہ واپس اور امریکی سفیر کو الٹے پاؤں واپس کر دیا جاتا۔ اس وقت نعرے بازی کے ذریعے وطن عزیز کو سیاسی طور پر اس طرح تقسیم کر دیا گیا ہے کہ اس کی کوکھ سے نفرت، حقارت، جھوٹ، بہتان تراشیاں اور عدم برداشت کا لاوا اس طرح ابل رہا ہے کہ رشتوں میں دراڑیں پڑ گئی ہیں۔ سوشل میڈیا ہو یاڈرائینگ روم، شادی بیاہ ہو یا دوستوں کی محفل، چوک چوراہا ہو یا بازار، پارک ہو یا کھیل کا میدان، کالج یونیورسٹی کا کلاس روم ہو یا کیفے ٹیریا جہاں بھی سیاسی مباحثہ ہوتا ہے عدم برداشت کی فضا اس طرح غالب رہتی ہے کہ بات توتکار سے گالیوں اور پھر لڑائی جھگڑے تک پہنچ جاتی ہے۔

بد تمیزی اور بدتہذیبی کے ایسے مظاہرے کیے جاتے ہیں کہ الامان و الحفیظ۔ سوشل میڈیا پر ایسے ایسے ٹرینڈ چلائے جاتے ہیں اور جھوٹ کو اس طرح پھیلایا جاتا ہے کہ اس پر سچ کا گمان گزرے۔ تنقید کی جگہ تضحیک کا چلن عام ہو چکا۔ کوئی فرد، ادارہ، قانون، ضابطہ، حتی کہ آئین محفوظ نہیں۔ زندہ تو زندہ اپنے فرائض ادا کرنے والے شہداء بھی ٹرولنگ کا نشانہ بننے سے نہیں بچ سکے۔ فوج میں بغاوت پھیلانے تک بات پہنچ گئی۔ بے حسی کی انتہا ہے کہ اپنے مفادات کے لیے دشمن کا کام آسان کر رہے ہیں۔

سونامی نام میں تخریب کا جو پہلو ہے اہل دانش نے اسی وقت متنبہ کیا تھا مگر کسی نے دھیان دینے کی کوشش ہی نہیں کی اب اس کے اثرات قومی ہیجان کی صورت میں ہم بھگت رہے ہیں کہ وہ اقدار اور روایات سب کو بہا لے گیا ہے۔ میر جعفر و میر صادق کے القابات ہیں۔ اگر یہ تنہا ایک فرد کا بیانیہ ہوتا تو پھر بھی کسی حد تک اس کا سد باب ممکن تھا مگر ہمارے قلم کاروں، اینکرز اور اداروں کے افراد نے اپنا اپنا حصہ ڈالا لگتا ہے کہ مہلت عمل تمام ہوا چاہتی ہے۔ ایسے میں احمد ندیم قاسمی کی دعا یاد ہی آتی ہے کہ پاکستان سلامت رہے اور ارض پاک آج جس تقسیم اور ہیجان کا شکار ہے اس سے نجات حاصل ہو اور ملک کے باسیوں کے لیے کی جانے والی یہ دعائیہ نظم حقیقت کا روپ دھار لے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments