کیا درستی ممکن ہے؟


ھم تو کمیونسٹ پارٹی کی مرکزی کمیٹی کے سب سے اہم نوجوان رکن ”کامریڈ نذیر عباسی“ کی تشدد سے کی گئی ہلاکت کے ذمہ دار برگیڈیئر امتیاز بلے کو بھی غدار وطن نہیں کہتے بلکہ اسے جنرل ضیا اور فوجی اشرافیہ کی جابرانہ تشدد پسند پالیسی کا ہرکارہ سمجھتے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا ریاستی ظلم و تشدد اور بربریت عام سیاسی رکن پر درست عمل ہے کہ نہیں؟ آج اسی سوال کے تاریخی پس منظر کی گفتگو میرا مسئلہ ہے۔

ہم مجموعی طور خام و خیال میں رہنے والی وہ ”عسکری سوچ“ کی غلامانہ ذہن قوم بنا دیے گئے ہیں جو اپنی کھوکھلی آزادی کا جشن بھی رائل اکیڈمی کے انداز سے منا کر بار بار انگریز سامراج کی غلامی کا بگل بجائے میں مصروف ہیں اور اس بات پر نہاں بھی ہو رہے ہیں کہ ستر دہائیوں کے بعد بھی ہم۔ اب تک لندن کی رائل اکیڈمی کو اپنا مائی باپ سمجھتے ہیں۔ ہمارے پانیوں سے لے کر زمینی معاملات میں اب تک رائل اکیڈمی سوچ اس قدر حاوی ہے کہ ہمارے طاقتور اداروں کو عوام کی بھوک، افلاس اور معاشی تنگ دستی نظر ہی نہیں آتی، بلکہ ہم رائل اکیڈمی کے طاقت ور طریقہ حکمرانی پر خود کو جدید انداز اور توسیع پسندانہ انداز میں خوش رہ کر ایسٹ انڈیا کمپنی کے طور پر مارکیٹ پر قبضے کے تمام معاملات اپنے ہاتھوں میں رکھ کر اک پرچم کے سائے تلے 65 کمپنیوں کے ذریعے منافع کما کما کر ملک کی اقتصادی اور سیاسی ماحول کو گدلا کر رہے ہیں اور فرنگیوں مانند بنائے جانے والے ”الیٹ گروپ“ کے گرد ملک کی باگ ڈور دوڑا رہے ہیں، جس کے حتمی نتیجے میں تمام ادارے اور ملکی سیاست طاقت کی غلام ہو کر عوام کی تمام سہولیات چھین رہی ہے اور ہم ہیں کہ ملکی سلامتی کی لوریوں کے خواب ہی دیکھے جا رہے ہیں۔

ہم کہتے تو ہیں کہ ہم نے آزادی حاصل کر لی ہے، مگر یہ قومی سلامتی میں لپٹا ہوا وہ دھوکہ اور جھوٹ ہے جس کی جملہ خرابیوں کی نشانیاں ہر ناجائز ذرائع سے پیسہ کمانا اور طاقت کے بل بوتے پر قانون توڑنا فیشن بنا دیا گیا ہے، بلکہ آمرانہ اقتدار کے 35 برس کی غیر قانونی حکمرانی نے مجموعی طور سے قوم کو قبضہ اور طاقت کے استعمال کا ایسا عادی بنا دیا ہے کہ ہم کسی آئین اور قانون کے دائرے میں خود کو قیدی سمجھتے ہیں جبکہ اس کے برعکس ہم ہر قانون اور ضابطے کی خلاف ورزی کو اپنی فتح گردانتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ہم ایسا کیوں کرتے یا سوچتے ہیں، اور ہم میں وہ صلاحیت کیوں نہیں پروان چڑھ رہی جو ہماری قوم کو مجموعی طور سے باشعور اور سیاسی طور سے بالغ کر سکے، اس کی وجوہات کے حقائق کی تلاش آج ہمارا اہم موضوع و فکر ہونا ضروری ہے، جس کے لئے سیاق و سباق سے آگہی بھی ہمارا مسئلہ ہونا چاہیے۔

یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہم گورے انگریز کی موجودگی سے ضرور آزاد ہو چکے ہیں مگر ذہنی طور سے کالا انگریز اب تک برٹش فوج کا وہی فرمانبردار سپاہی بنا ہوا ہے جس نے تقسیم سے پہلے گورے انگریز کے ہر حکم کی تعمیل کی اور اس کے نتیجے میں مراعات اور زمینیں حاصل کر کے پورے ملک کو اپنا ڈیرہ بنا دیا، قائد اعظم کی تصویر کا استعمال صرف اپنی مراعات اور اقتدار کو تحفظ دینے تک محدود کر دیا گیا ہے، باقی تاریخی حقائق کی روشنی میں قائد کے قاتل توپ و تفنگ کے سہارے آج تک گورے انگریز کی ہدایات پر چل رہے ہیں اور ملکی وسائل پر ایسٹ انڈیا کمپنی مانند نہ صرف قابض ہیں بلکہ طاقت کے بل بوتے پر آئین و قانون کو اپنے بوٹ تلے رکھتے ہیں، یہ وہ سوچ و فکر ہے جس کے تحت قائد کے لیے ایمبولینس بھی نہ پہنچائی گئی اور قائد اعظم کی پہلی نشری تقریر کو طاقت کی بنیاد پر نشر بھی نہ ہونے دیا گیا، گویا رائے پر سنسر شپ آزادی کے ساتھ ہی ہم پر تھوپ کر توپ و تفنگ کے سوداگروں نے پیغام دیا کہ وہی بات کہی جائے جو کہ ہمارے بنائے گئے خود ساختہ قومی مفاد میں ہو۔

سوال قومی سلامتی سے زیادہ یہ اہم ہے کہ ملک کے عوام کو بنیادی سہولیات یعنی روزگار، مفت طبی سہولیات، تعلیم عام اور مفت کرنے کا آئینی حق، اداروں اور فیکٹریوں میں حق انجمن سازی، طلبہ کی انجمن سازی کی آزادی، اقلیت سمجھنے کے فرق کو ختم کر کے مساوی حقوق کی فراہمی، خواتین کی اعلی تعلیم کے ذرائع کا یقینی بنانے اور ان کو مساوی شہری کا حق دینے میں ستر برس سے زیادہ گزر جانے کے باوجود کیا بہتری یا حقوق کی فراہمی ممکن ہوئی ہے۔

یہ محکوم اور آئینی حقوق سے محروم عوام کا وہ چنگھاڑتا سوال ہے جو برداشت کی قوت کو ختم کر رہا ہے، یہ بات تو سب جانتے ہی ہیں کہ بندوق کی طاقت اور ریاستی ظلم و جبر عوام کی جانب سے اٹھنے والے جوالے کے سامنے خس و خاشاک ہو جاتے ہیں، پھر نہ قانون کی دہائی چلتی ہے اور نہ ہی ریاستی ٹھیکیداروں کی طاقت، کہ عوام اور وہ بھی بھوکی پیاسی عوام کا غدر ہی طاقتوروں کے سر تن سے جدا کرتا ہوا ملتا ہے، یہ نہ چتاونی ہے حکمرانوں کو اور نہ ہی اصلاحی بنانے کی کوشش، بلکہ یہ وہ مستقبل کی پیش گوئی ہے جو محروم طبقات آخر میں تنگ آمد اور بجنگ آمد کے بعد کیا کرتے ہیں۔

تاریخ کے طالبعلم کے طور پر میں ملکی تاریخ کی دو مجرمانہ غلطیوں کو عوامی حقوق کی جنگ میں سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتا ہوں، اس بحث میں جائے بغیر کہ آمر جنرلوں نے ملک کی اقتصادی، سیاسی یا سماجی قدروں کو کتنا روندا اور آئین و قانون کو کاغذ کا ٹکڑا سمجھ کر لا قانونیت پھیلائی اور طاقت کا نظام وضع کیا جو آج اسی جنرلی اسٹبلشمنٹ کو کھانے کے در پہ ہے، میرا اس ضمن میں استدلال ہے کہ قائد اعظم اور ذوالفقار علی بھٹو سے دو جرم ہوئے، جن کے اثرات آج تک اس ملک کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں، قائد اعظم سے میری دانست اور تاریخ کی روشنی میں سب سے فاش غلطی برطانیہ کے ان کمیشنڈ فوجی افسران کو لینا تھا جنہوں نے پہلے روز سے ہی فرنگی تربیت کے تحت ملک کو آئینی نہ بننے دیا، میرا دوسرا استدلال یہ ہے کہ سقوط ڈھاکہ کے بعد بھٹو اور سیاسی قیادت نے برٹش ایمپائر کے انہی افسران کو دوبارہ آئینی تحفظ دیا جو ملک کو تقسیم کرنے کے ذمہ دار تھے، بلکہ بھٹو نے تو اکثریتی جماعت کے باوجود ”ریاست“ کے عالمی اصول کی دھجیاں ادھیڑیں اور دنیا میں اسرائیل کے بعد دوسری مذہبی آئینی ریاست بنائی، جس کا تسلسل آج ہم سب دہشت گرد طالبان کی صورت میں بھگت رہے ہیں، جبکہ طالبان اسی آئین کی شق دو کا حوالہ دے کر طالبان مائنڈ سیٹ نظام لانا چاہتے ہیں، جن کو آئینی طور پر اسٹبلشمنٹ اور عمران طالبان درست سمجھتے ہیں کہ یہی جنرل حمید گل کا دہشت گرد بیانیہ تھا، جس نے آج تک ملک کے امن۔ پسندوں کا جینا حرام کر رکھا ہے، تاریخ میں کی گئی غلطیوں کو ماننا اور ان۔ کا ازالہ کرنا ہی اس ملک کی جمہوری آزادی کو مستحکم کرے گا وگرنہ ترانے کی دھنیں محکوم عوام میں جا کر ایک وقت میں طاقتور حکمرانوں اور ”مارخوروں“ کو دھننے پر ہی صرف ہوں گی ۔

وارث رضا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وارث رضا

وارث رضا سینیئر صحافی، تجزیہ کار اور کالم نگار ہیں۔ گزشتہ چار عشروں سے قومی اور بین الاقوامی اخبارات اور جرائد میں لکھ رہے ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا کے کہنہ مشق استاد سمجھے جاتے ہیں۔۔۔

waris-raza has 35 posts and counting.See all posts by waris-raza

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments