تصوف۔ تزکیہ باطن یا ارتکاز طاقت


تصوف جس کو اسلامی دانشور طریقت کے نام سے بھی یاد کرتے ہیں، ایک ایسا طریقہ یا طرز عمل ہے، جس میں انسان دنیوی تعلقات، اور حوائج سے کنارہ کش ہو کر اپنے باطن کی اصلاح کر کے اپنی روح کو ہر قسم کی آلائشوں سے پاک کرتا ہے۔ تصوف کا نظریہ اسلام کے علاوہ دوسرے مذاہب میں بھی رائج ہے، جہاں مختلف ریاضتوں اور افعال کے ذریعے یہی کام کیا جاتا ہے۔ اسلام کے ابتدائی دور کے اندر مروجہ تصوف کا کوئی نشان نہیں ملتا، تاہم بعد میں مامون الرشید کے زمانے میں جب حکمائے یونان کی کتب کا ترجمہ عربی زبان میں ہوا تو مسلم مفکرین اس چیز سے آشنا ہوئے۔

بنو عباس اور ان سے قبل بنو امیہ کے دور میں، چونکہ فتوحات کی بدولت مال کی فراوانی ہو گئی تھی اور عوام الناس کی اکثریت دین سے دور ہو رہی تھی، اس پہ مستزاد ملوکیت طرز کی حکومت میں لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم تھا، جس کے نتیجے میں ایک ایسا طبقہ وجود میں آیا جو اس ماحول سے تنگ اور دل برداشتہ تھا۔ چنانچہ اس طبقے نے اس دور کے اندر مروجہ طرز زندگی کے بر خلاف، ایک نئی جہت کی داغ بیل ڈالی جس میں نفس کے تقاضوں کو کچل کر، ہمہ وقت یاد الہی میں اپنے آپ کو منہمک رکھ کر آخرت کی فکر اور خدا کی ملاقات کا شوق شامل تھا۔

وقت گزرنے کے ساتھ اس میں باقاعدہ سلاسل بنے، جن میں قادری، چشتی، نقشبندی اور سہروردی زیادہ مقبول ہوئے۔ تصوف کے اندر جو شخصیات مشہور ہوئیں ان میں جنید بغدادی، بایزید بسطامی، عبدالقادر جیلانی، علی بن عثمان ہجویری، مسعود الدین فرید گنج شکر کے اسمائے گرامی زیادہ نمایاں ہیں۔ تصوف یا طریقت کی بنیاد یا بنیادی نظریہ علاق دنیا سے قطع تعلقی تھی، لیکن جیسے جیسے اس راستے میں وہ افراد وارد ہوئے جن کے پیش نظر مال و دولت کی ہوس اور ارتکاز طاقت تھی، ان لوگوں کے لئے اس راستے میں ترقی کے بے پناہ امکانات تھے اور یوں تصوف نفس کشی کی بجائے مال و دولت جمع کرنے اور اپنی طاقت کو بڑھانے کا سب سے آسان ذریعہ بن گیا۔

اس کے لئے محنت کو ترک کر کے ظاہری تقوی کا لبادہ اوڑھ کر عوام کے قلوب میں مافوق الفطرت مظاہر کا خوف بٹھا کر ایک نیا ملغوبہ تیار کیا گیا اور تصوف کے نام پر جعلی کہانیاں، جھوٹے قصے، فرضی تبرکات اور خود ساختہ عبادات کی ایک پوری عمارت تعمیر کی گئی جس کا مقصد اپنی گدیوں کی ہیبت دکھلا کر، عوام کو گمراہ کر کے مال جمع کرنا اور پھر اس پر عیاشی کرنا تھا۔ آج ہم ہندوستان یا پاکستان کی کسی بھی معروف یا غیر معروف خانقاہ پر چلے جائیں، ہر جگہ اسلاف فروشی کی مجالس جاری ہیں جن میں کذب بیانی اور دروغ گوئی کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں ہوتا۔

مثلاً شیخ عبدالقادر نے مردہ کو زندہ کر دیا، ڈوبی ہوئی بارات جب نکالی تو سب سلامت تھے، ایک بزرگ نے نماز میں دائیں جانب سلام کیا تو سب نمازی حافظ قرآن اور بائیں طرف سلام کیا تو سب ناظرہ قرآن بن گئے وغیرہ۔ الغرض ایک طولانی فہرست ہے جس کے سہارے مریدین کو گمراہ کر کے، ان سے مال اینٹھا جاتا ہے اور سیم و زر کی ہوس کی تسکین کی جاتی ہے۔ اپنے آبا و اجداد کی فرضی اور لایعنی ریاضت اور ان کی بزرگی کو بیچنے کے لئے یہ چالاک افراد اپنے یہاں مجالس منعقد کرتے ہیں، جہاں صبح شام اسی کا ورد کیا جاتا ہے کہ ہمارے حضرت نے یوں کر دیا، اور ہمارے حضرت نے یوں کر دیا۔

ہمارے حضرت غوث الاعظم تھے اور زمانہ ان کا مطیع تھا۔ نہیں نہیں غوث الاعظم تو بس ہمارے حضرت تھے۔ ہمارے مرشد کے اتنے مرید تھے تو دوسرا اپنے حضرت کے مریدین کے لیے اس سے بھی زیادہ مبالغہ آرائی کر کے مخاطب کو مرغوب بنانے کی کوشش کرے گا۔ گویا ایک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا۔ اگر ہم صرف برصغیر پاک و ہند کے ان آستانوں کی تاریخ کو دیکھیں، جو بظاہر مخلوق خدا کی ہدایت کے نام پر بنائے گئے تھے، مگر درپردہ ان کا مقصد ہر غاصب کے ہاتھ مضبوط کرنے اور ظالم کی اعانت کر کے اپنے اثر و رسوخ میں بے پناہ اضافہ کرنے کے ساتھ ساتھ حصول دولت کے لئے ہر جائز و ناجائز امر کا ارتکاب کرنا شامل رہا ہے۔

ان میں سے اکثر کی تاریخ انگریزوں کے لئے مخبری کرنے سے عبارت ہے، جس کے بدلے میں ان وطن فروشوں کو سرکار کی طرف سے ان کی گدیوں کی وراثت ان کی نسلوں کو دینے کی ضمانت فراہم کی گئی۔ یہ اپنے ہی ملک کی آزادی سے کس قدر شاکی تھے، اس کی ایک گواہی وہ خط ہے جو پنجاب کے پیروں اور گدی نشینوں نے سانحہ جلیاں والا کے بعد انگریز حاکم کو لکھا اور اپنے ہم وطنوں کی حصول آزادی کی تحریک کی پرزور مذمت کرتے ہوئے انگریز سرکار کو اپنی وفاداری کا یقین دلایا۔

دنیا میں محبت بانٹنے کے یہ دعویدار، اور انسانوں میں اونچ نیچ، چھوت چھات کے مخالف خود اپنے آپ کو کس قدر افضل سمجھتے ہیں کہ ایک پیر صاحب کے زمانے میں ایک سید عورت کا نکاح غیر سید عورت سے ہونے پر، جناب نے تنسیخ نکاح کا فتوی جڑ ڈالا، کیونکہ ان کے زعم کے مطابق سید کے حقوق غیر سید ادا نہیں کر سکتا اور نہ ہی وہ سید کا کفو ہو سکتا ہے۔ یہ خانقاہیں طاقت کے اتنے بڑے مراکز ہیں کہ اقتدار کا متمنی ہر شخص ان کی التفات سے مستغنی نہیں رہ سکتا۔

حتی کہ مسٹر جناح کو بھی قیام پاکستان کے لئے پیر آف مانکی اور پیر آف شرقپور سے مدد مانگنی پڑی تھی، اور مولوی اشرف علی تھانوی و شبیر احمد عثمانی کے ساتھ جو علانیہ و غیر علانیہ خط کتابت کی گئی ہے وہ اس کے ماسواء ہیں۔ ان آستانوں نے اللہ اور رسول کی تعلیمات سکھانے کی آڑ میں درپردہ کتنی دولت بنائی ہے، اس کے بارے میں نہ تو محکمہ ٹیکس والے استفسار کرتے ہیں اور نہ ہی کبھی نیب کو جرات ہو سکتی ہے کہ وہ کبھی ان کا احتساب کرسکے۔ یہ جبہ و دستار پہنے مال اور طاقت کے پجاریوں نے ہماری کئی نسلوں کو پہلے بھی جاہل رکھ کر لوٹا اور ابھی بھی یہ اس سلسلے کو نہ روکا گیا تو آنے والی نسلیں بھی اسی انجام سے دوچار ہوں گی ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments